لال مسجد کا معاملہ اور مولانا عبد العزیز کا عمومی خط

   
تاریخ : 
۱۴ اپریل ۲۰۰۷ء

لال مسجد اسلام آباد کے حوالے سے درپیش مسئلہ زیادہ سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف حکومتی حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اگر مفاہمت کا کوئی راستہ نہ نکلا تو آپریشن ناگزیر ہو جائے گا اور دوسری طرف لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز نے ملک بھر میں اپنے ہم خیال حضرات سے رابطے شروع کر دیے ہیں اور ان کی طرف سے مدارس کے طلبہ کو دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ اسلام آباد پہنچیں اور وہاں کی مختلف مساجد میں اعتکاف بیٹھیں، جس سے ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اسلام آباد میں جمع کر کے حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ وہ ایکشن سے گریز کرے۔ آج اس سلسلہ میں ایک وفد نے مولانا عبد العزیز کی طرف سے مجھ سے بھی ملاقات کی اور ایک عمومی خط کی کاپی دی جو ملک بھر کے علمائے کرام کے نام ہے۔ خط کا متن درج ذیل ہے:

’’بخدمت جناب مولانا ________________________ صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بعد صد آداب و تسلیمات گزارش ہے کہ ہمارا ملک اسلام کے لیے لاکھوں انسانوں کی قربانیوں سے بنا تھا۔ ان ساٹھ سالوں میں علمائے کرام اور بزرگان دین اپنی بساط کے مطابق ملک میں اسلامی نظام لانے کی کوشش کرتے رہے، لیکن جہاد کا راستہ اختیار نہ کرنے کی وجہ سے آج تک کماحقہ نتائج نہ مل سکے۔ اور آج ملک ڈاکہ، قتل و غارت گری، فحاشی و عریانی اور بداَمنی کی لپیٹ میں ہے۔ ملک میں ۵ لاکھ سے زائد بدکاری کے اڈے ہیں جن میں ایک کروڑ سے زائد بہنوں کی یومیہ عصمت دری ہوتی ہے۔ شراب اور جوئے کے اڈے اس کے علاوہ ہیں۔ تو خدارا سوچیے ہمارے اس ملک کا کیا بنے گا؟ اگر ہم نے اب بھی مؤثر کردار ادا نہیں کیا اور جہاد کا راستہ اختیار نہ کیا تو کہیں اللہ کا عذاب نہ آجائے۔

جامعہ فریدیہ کے طلبہ اور جامعہ سیدہ حفصہ کی طالبات نے اسلام آباد میں عرصہ ۱۳ سال سے قائم بدکاری کا اڈہ جس کو پولیس والے، سارے علاقہ والے جانتے ہیں اور سارے کرائم رپورٹرز کو معلوم ہے، ۱۹۹۸ء میں تھانہ آب پارہ میں اس پر مقدمہ بھی دائر ہوا اور بار بار محلہ والے درخواستیں دیتے رہے لیکن اس پر عمل نہ ہوا۔ اس اڈے میں یومیہ ۱۵۰ سے زائد مرد آتے تھے اور بہنوں کی عصمت دری کرتے تھے۔ طالبات ان عورتوں کو سمجھانے کے لیے اندر گئیں اور طلبہ باہر رہے۔ اس عورت نے طالبات کے سمجھانے پر دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ طالبات اس کو سمجھا کر واپس آگئیں لیکن پھر بھی وہ عورت اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی۔ اس پر طالبات نے دوبارہ کارروائی کی اور ان عورتوں کو یہاں لایا گیا اور سمجھا کر توبہ کرنے پر چھوڑ دیا گیا۔ اس بات پر حکومت کو بہت غصہ ہے۔ حکومت، بدکاری کے اڈے چلانے والے اور ان کی سرپرستی کرنے والے سارے متحد ہو گئے ہیں کہ جامعہ حفصہ کے خلاف آپریشن ۴ اپریل کو ضرور کریں گے۔ باطل ایک بدکار عورت کے لیے اتنا حساس ہے تو ہم دینداروں کو بھی متحد ہو جانا چاہیے، اور ہم دین والے حق پر ہوتے ہوئے بھی نہ اٹھے تو قیامت کے دن اللہ اور اس کے رسول کو کیا جواب دیں گے؟

اس لیے طلبہ و دیگر حضرات بغیر اسلحہ کے اپنا بستر و خرچہ اور جماعت بڑی ہونے کی صورت میں ایک ایک لاٹھی بھی ساتھ لے کر پندرہ اور چالیس دنوں کے لیے جلد از جلد یہاں پہنچنے کی کوشش کریں اور اسلام آباد کی مساجد میں اعتکاف کریں، تاکہ نفاذ شریعت کا کام تیز کر سکیں اور بدکاری کے اڈوں کے خلاف مؤثر کارروائی کر سکیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی التماس ہے کہ اگر راستہ میں روکا جاتا ہے یا لاٹھی چارج ہوتا ہے تو اس صورت میں کسی کی ذاتی املاک [کو نقصان پہنچانے] اور گھیراؤ جلاؤ کی اجازت نہیں۔ پولیس والوں سے تھوڑی بہت مزاحمت کر سکتے ہیں لیکن اتنی مزاحمت نہیں کہ جس سے جان کو خطرہ ہو، اس کی نسبت ہم جیل جانا اختیار کریں اور وہاں جہاد کی فضا بنائیں۔

جو علماء کہتے ہیں کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں، ان کے پاس بھی ان بدکاری کے اڈوں کو بند کرانے کے لیے کوئی مؤثر طریقہ نہیں۔ اسی طرح جو کہتے ہیں کہ جمہوری راستہ سے کام کرنا چاہیے، ان کے پاس بھی کوئی مؤثر طریقہ اور راستہ نہیں جس کو اختیار کرتے ہوئے ان بدکاری اور جوئے کے اڈوں کو بند کرایا جائے۔ ہم نے نفاذ اسلام اور جہاد کے لیے جامعہ فریدیہ میں ۱۵ یوم کی چھٹیاں کی ہیں۔ آپ حضرات سے بھی گزارش ہے کہ اپنے مدارس میں کم سے کم ۵ دنوں کی چھٹیاں کریں تاکہ طلبہ اپنے اپنے علاقے میں محنت کر کے زیادہ سے زیادہ جماعتیں لے کر نفاذ اسلام کانفرنس اور سہ روزہ اعتکاف میں شریک ہو سکیں۔

اس لیے تمام علمائے کرام سے گزارش ہے کہ آپ خود بھی فوری طور پر تشریف لائیں اور طلبہ کو بھی روانہ فرمائیں، لیکن وہ جو اپنا خرچہ اپنا بستر لا سکتے ہوں۔

(مولانا محمد عبد العزیز)‘‘

میں نے ان سے گزارش کی کہ مجھے اس دعوت اور موقف سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے میں اس سلسلہ میں کوئی تعاون نہیں کر سکتا۔ ان کے اصرار پر میں نے عرض کیا کہ اپنا موقف تفصیل کے ساتھ اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک اسلام آباد کی مساجد کے تحفظ، منہدم مساجد کی دوبارہ تعمیر، ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ، معاشرہ میں فواحش و منکرات کے سدِباب اور مغرب کی عریاں ثقافت کے فروغ کی روک تھام کا تعلق ہے، ان مقاصد سے کسی ذی شعور مسلمان اور پاکستانی کو اختلاف نہیں ہوسکتا اور اس سلسلہ میں کوئی بھی معقول کوشش ہو تو اس کی حمایت و تعاون ہمارے فرائض میں شامل ہے، بلکہ اس حوالہ سے معروف طریقوں سے احتجاج کے اظہار اور رائے عامہ کو منظم کرنے کی جدوجہد کی اہمیت و افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ ملک کے شہریوں کا دستوری اور جمہوری حق ہے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کریں اور احتجاج و اضطراب کا ہر وہ طریقہ اختیار کریں جو ہمارے ہاں معمول اور روایت کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن اس سے آگے بڑھ کر قانون کو ہاتھ میں لینے، حکومت وقت کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرنے اور کوئی متوازی سسٹم قائم کرنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ شرعاً خروج کہلاتا ہے جس کے لیے فقہائے کرام نے کڑی شرائط عائد کی ہیں۔ اس لیے لال مسجد کی طرف سے جدوجہد کا جو طریق کار طے کیا گیا ہے اور جو دائرہ اس خط میں بتایا گیا ہے، وہ قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً درست نہیں ہے اور میری لال مسجد کے احباب سے گزارش ہے کہ وہ اس پر اصرار کرنے کے بجائے اپنے طریق کار پر نظرثانی کریں، کیونکہ جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے، وہ اپنے مضمرات اور نتائج دونوں حوالوں سے اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

اس خط میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک میں اسلامی نظام اس لیے نافذ نہیں ہو سکا کہ اس کے لیے جہاد کا راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لال مسجد کے حضرات کے نزدیک ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جہاد کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی خطرناک غلطی ہے جس کے نتائج کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں قیام پاکستان کے بعد تمام مکاتب فکر کے اکابر علمائے کرام نے علامہ سید سلیمان ندویؒ کی زیر صدارت مشترکہ اجلاس میں اسلامی دستور کے ۲۲ نکات مرتب کر کے یہ فیصلہ بالکل آغاز ہی میں کر لیا تھا کہ پاکستان میں نفاذ اسلام دستور کے ذریعے سے ہوگا اور اس کے لیے جمہوری عمل کو ذریعہ بنایا جائے گا۔ یہ چند علماء کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ اس اصول پر پاکستان کے جمہور علمائے کرام کے اتفاق رائے اور اجماع کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بعد اسی فیصلے کی بنیاد پر نفاذ اسلام کی جدوجہد دستوری اور جمہوری عمل کے ذریعے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کی کامیابی یا ناکامی کے تناسب اور اس کے اسباب و عوامل کی بحث اپنی جگہ اہم ہے، لیکن کامیابی میں تاخیر یا رکاوٹوں کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ایک اصولی اور متفقہ فیصلے کو نظر انداز بلکہ کراس کر کے کوئی جذباتی راستہ اختیار کر لیا جائے۔

میں لال مسجد کی موجودہ مہم کی قیادت کرنے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ جذبات کی فضا سے باہر نکل کر زمینی حقائق اور معروضی صورتحال کے ادراک کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لیں کیونکہ ملک میں نفاذ اسلام کے لیے حکومت وقت کے خلاف جہاد کا اعلان شرعی اصطلاح میں ’’خروج‘‘ کہلاتا ہے جو نہ صرف ۳۱ علمائے کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات سے انحراف ہے بلکہ ملک کی دینی جدوجہد کے گزشتہ ساٹھ سال کے اجتماعی تعامل کی نفی کے مترادف ہے جس کی کسی بھی شخص یا ادارے کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے لال مسجد کے دوستوں کا ملک بھر کی علمی و دینی قیادت کے موقف اور مشورہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اس جذباتی موقف پر اصرار ’’اعجاب کل ذی رای برایہ‘‘ کا مصداق ہے جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ قرار دیا ہے اور اس فتنہ سے بہرحال علمائے کرام کو بچنا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter