بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ تبارک و تعالی و نصلی ونسلم علی رسولہ الکریم و علی آلہ و اصحابہ و اتباعہ اجمعین۔
قیام پاکستان کے بعد جب اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست کو دستوری طور پر قرارداد مقاصد کے ذریعے سے ایک نظریاتی اسلامی مملکت قرار دے دیا گیا تو اس کا ناگزیر تقاضا تھا کہ ملک کے عدالتی، انتظامی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچوں کا ازسرنو جائزہ لے کر ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل اور نشوونما کے لیے سماجی محنت کے ساتھ ساتھ ضروری قانون سازی بھی کی جاتی۔ اسی بنیاد پر ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلام کو ملک کا ریاستی دین قرار دیا گیا اور قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کی دستوری ممانعت کے ساتھ ساتھ ملک کے مروجہ قانونی نظام پر نظر ثانی اور تمام قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی ضمانت دی گئی، لیکن دوسری طرف قیام پاکستان کے بعد سے بلکہ ۱۹۷۳ء کے دستور کے نفاذ کے بعد بھی اس سلسلے میں ملک کے مقتدر حلقوں کا رویہ ہمیشہ غیر سنجیدہ رہا۔ دینی حلقوں کے مطالبات پر عوامی دباؤ کے تحت اگر کسی معاملے میں کوئی پیشرفت ناگزیر ہوئی تو دفع الوقتی کے طور پر مجبوری کے درجے میں قدم اٹھا لیا گیا، لیکن نفاذ اسلام اور مروجہ قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کا عمل ہمارے ہاں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے ارباب اختیار کے اپنے ایجنڈے اور ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقصد کے لیے اب تک جو قانون سازی کسی نہ کسی درجے میں ہو گئی ہے، وہ ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کی طرح ہمارے ملک کی داخلی اسٹیبلشمنٹ کے حلق سے بھی نیچے نہیں اتر رہی اور اس میں کسی مزید پیشرفت کے بجائے سرے سے اس سے جان چھڑانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کا موقف اور طرز عمل تو سمجھ میں آتا ہے کہ اسلام کے نام پر کسی آزاد ریاست کا وجود ہی اس کے طے کردہ عالمی نظام اور انسانی حقوق کے مغربی فکر و فلسفہ کے منافی ہے اور آزادی اور انسانی حقوق کے نام پر مغرب کی زیر قیادت ورلڈ اسٹیبلشمنٹ نے گلوبل تہذیب و ثقافت اور فلسفہ و نظام کا جو ڈھانچہ دنیا پر میڈیا، دولت اور طاقت کے زور سے بہرحال مسلط کر دینے کا جو تہیہ کر رکھا ہے، اسلام بطور نظام و قانون اس کے کسی خانے میں فٹ نہیں بیٹھتا، بلکہ اس کی راہ میں ایک مضبوط رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن ہماری لوکل اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے دو رخی اور منافقت کا شکار ہے۔ وہ ایک طرف اس بات کا حوصلہ نہیں رکھتی کہ پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص سے انکار کر سکے اور اسلام کے سیاسی، عدالتی، معاشی اور معاشرتی کردار کی نفی کر سکے کہ وہ اس حوصلے اور اخلاقی جرات سے محروم ہے، لیکن دوسری طرف اس سلسلے میں اس کی تمام تر ہمدردی، وفاداری اور کمٹمنٹ ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے اور وہ اسے عملی طور پر بروئے کار لانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ مقتدر حلقوں کی اسی دو رخی اور تضاد نے ملک کو مسلسل قانونی بحران سے دوچار کر رکھا ہے اور ہمارا قانونی نظام تضادات کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنی اس منافقت پر پردہ ڈالنے کے لیے دو باتوں کا بطور خاص اہتمام کر رکھا ہے۔
ایک یہ کہ وہ جو کام بھی کرتے ہیں، خواہ وہ قرآن و سنت کی صریح نصوص کے صراحتاً منافی ہو، اسے قرآن و سنت کے نام سے ہی پیش کیا جاتا ہے، اور سرکاری ذرائع ابلاغ اور حلقے اس امر کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ جو کچھ کیا گیا ہے وہ قرآن و سنت کی منشا تھی، اور ایسا کر کے قرآن و سنت ہی کے تقاضوں کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ صرف ایک چھوٹی سی مثال سامنے رکھ لیجیے۔ ابھی حال میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے تحفظ حقوق نسواں ایکٹ میں دیگر بہت سی دفعات کے ساتھ ساتھ قذف کی سزا کے سلسلے میں بھی قرآن کریم کی مقرر کردہ سزا ۸۰ کوڑوں کو پانچ سال قید کی سزا میں بدل دیا گیا ہے، لیکن وزیر اعظم اور سرکاری مسلم لیگ کے سربراہ سمیت تمام مقتدر شخصیات پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ اعلان کیے جا رہی ہیں کہ ایسا کر کے ہم نے قرآن پاک پر ہی عمل کیا ہے۔
اس کے ساتھ دوسرا اہتمام اس امر کا کیا گیا ہے کہ قرآن و سنت کے احکام کے بارے میں میڈیا اور لابنگ کے ذرائع کو مسلسل استعمال کر کے شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں، اور اسلام پر مغرب کے اعتراضات کو اپنی زبان میں بار بار دہرا کر لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی احکام کے بارے میں تردد، تذبذب اور شک و شبہ کی فضا قائم کی جائے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ قابل رحم حالت ہمارے ان دانشوروں کی ہے جو قرآن و سنت کی خدمت اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کے عزم کے ساتھ مختلف فکری حلقے قائم کیے ہوئے ہیں، لیکن ان کی فکری اور عملی کاوشوں کے نتائج اسلامی تعلیمات کے ساتھ مغربی فکر و فلسفہ کی کشمکش کے تناظر میں اسلامی احکام کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ کا ذریعہ بن رہے ہیں، اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نئی نسل کو علماء کے دائرۂ اثر سے نکال کر اور اسے دین کی تعبیر و تشریح کے روایتی ڈھانچے سے بغاوت کا درس دے کر اسلام کی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں۔
جہاں تک جدید دور کے تقاضوں کو سمجھنے، آج کے عالمی عرف و حالات کا ادراک حاصل کرنے، اور اجتہاد کے مسلمہ اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلامی احکام و قوانین اور جدید تقاضوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کا تعلق ہے، ہمیں اس کی ضرورت سے انکار نہیں ہے، بلکہ ہم خود اس کے داعی ہیں اور اس کا احساس بیدار کرنے کے لیے حتی الوسع کوشش بھی کر رہے ہیں، لیکن مغرب کے فکر و فلسفہ کی بالادستی اور اس کی ثقافت و اقدار کے غلبہ کو ذہنی طور پر قبول کرتے ہوئے اسلامی احکام و قوانین کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کا دائرہ اس سے قطعی طور پر مختلف ہے، مگر ہمارے بعض دانشوروں نے شعوری یا لاشعوری طور پر ان دونوں دائروں کو اس قدر گڈمڈ کر دیا ہے کہ شرعی اجتہاد کے ضروری تقاضوں اور مغرب کے فکری و ثقافتی مطالبات میں کوئی حدِ فاصل قائم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
حدود آرڈیننس میں ترامیم اور تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کے حوالے سے ہم نے مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہونے والے اپنے مضامین میں ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کے اسلام کے خلاف ایجنڈے، لوکل اسٹیبلشمنٹ کے تضاد اور دو رخی، اور بعض دانشوروں کے پیدا کردہ اسی کنفیوژن کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے، جسے ہمارے بہت سے احباب نے پسند کیا ہے اور انہیں کتابی صورت میں یکجا شائع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، ان دوستوں کی خواہش پر یہ مضامین کتابی صورت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
یہ مضامین چونکہ مختلف مواقع پر ایک ہی عنوان کے تحت لکھے گئے ہیں، اس لیے ان میں بعض جگہ تکرار بھی پایا جائے گا، لیکن ایسی صورت میں اس قسم کا تکرار ایک حد تک ناگزیر ہو جاتا ہے، ہمیں امید ہے کہ قارئین اسے زیادہ محسوس نہیں کریں گے اور اس حقیر سی کاوش کو قبول کرتے ہوئے ہمیں اپنی مخلصانہ دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں گے۔