پاک امریکہ تعلقات ۔ جبر و مکر کی داستان

   
۳۱ دسمبر ۲۰۱۶ء

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ دنوں بوسنیا کے دورہ کے موقع پر سرائیوو میں ایک گفتگو کے دوران کہا ہے کہ پاکستان چند سالوں سے مسلسل عالمی دباؤ کی زد میں ہے۔ یہ جملہ انہوں نے کس پس منظر میں فرمایا ہے اور اس عالمی دباؤ کا کون سا دائرہ ان کے سامنے ہے، اس کی تفصیلات تک ہم رسائی حاصل نہیں کر سکے۔ البتہ ان کے اس ارشاد سے ہمیں اتفاق ہے کہ پاکستان مسلسل عالمی دباؤ کا شکار ہے، مگر صرف چند سالوں سے نہیں بلکہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی یہ ریاست اپنے قیام کے فورًا بعد ہی عالمی دباؤ کے دائرے میں شامل ہوگئی تھی اور تب سے نہ صرف اس دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس کے دائرے یکے بعد دیگرے بڑھتے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ دائرے رفتہ رفتہ ’’ریڈ لائنز‘‘ کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔

۱۹۴۷ء میں جب پاکستان قائم ہوا تو امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی جس میں اس نوزائیدہ ریاست کو اس تیزی کے ساتھ امریکی کیمپ کا حصہ بنایا گیا کہ اس کا بعض حلقوں میں یہ مطلب لیا جانے لگا کہ شاید پاکستان کے قیام کا مقصد ہی یہی تھا۔ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ چودھری ظفر اللہ خان اس خارجہ پالیسی کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ جبکہ وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان مرحوم کو اس مہارت کے ساتھ اس ’’دام ہمرنگ زمین‘‘ میں پھنسایا گیا کہ ان کے تمام تر خلوص و دیانت کے باوجود ایک تلخ سوال ان کی سیاسی بصیرت و فراست کے اس باب کا ہمیشہ کے لیے عنوان بن گیا ہے۔ وہ یہ کہ جب انہیں امریکہ اور روس دونوں کی طرف سے دورے کی دعوت ملی تھی تو انہوں نے یہ دونوں دعوتیں قبول کر کے توازن قائم رکھنے کی بجائے صرف امریکہ کی دعوت قبول کر کے اپنے ملک کو امریکی کیمپ کے ساتھ وابستہ کیوں کر لیا تھا؟

ہم اس وقت سے امریکی کیمپ کا حصہ چلے آرہے ہیں حتیٰ کہ روس کے خلاف امریکی معاہدوں سیٹو (Seato) اور سنٹو (Sento)کا حصہ رہے ہیں۔ اور ایک مرحلہ میں تو اس حد تک ہم فرنٹ لائن پر آگئے تھے کہ بڈبیر پشاور کے ایئربیس سے پرواز کرنے والے جاسوس امریکی طیارے کی نشاندہی ہونے پر روسی وزیر اعظم خردشیف نے اعلانیہ طور پر کہہ دیا تھا کہ ہم نے بڈبیر کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے اور اب وہ ہمارے نشانے پر ہوگا۔ ہم امریکہ اور روس کی اس سرد جنگ میں فریق نہ بننے والے ممالک کی غیر جانبدار تحریک کا رسمی حصہ تو بنے تھے لیکن ہمارا عملی کردار ہمیشہ سے امریکی اتحادی کا رہا ہے اور آج بھی ہم اسی کا حصہ ہیں۔ جبکہ اس دوران:

  • پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو ایک لاینحل مسئلہ بنانے میں امریکہ نے جو کردار ادا کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
  • ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ نے باہمی معاہدات کی پاسداری سے کھلا انحراف کیا۔
  • مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل ہوتے دیکھ کر امریکہ بہادر ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنا رہا اور اپنے اتحادی ملک کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے امریکہ نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
  • جہاد افغانستان میں روسی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد امریکی کیمپ نے اپنے تمام مقاصد حاصل کر لیے مگر افغان مجاہدین اور پاکستان کو ان کی جدوجہد کے منطقی نتائج و فوائد سے محروم کرنے کے لیے ’’جنیوا معاہدہ‘‘ کے نام سے مکر و فریب کا جو جال بنا وہ بلاشبہ امریکی منافقت کا شاہکار ہے۔
  • پاکستان کی وہ جہادی قوتیں جن کی قربانیوں سے امریکہ نے افغانستان میں پورا فائدہ اٹھایا، مگر بعد میں انہیں بتدریج دہشت گروپوں میں تبدیل کرنے اور انہیں بدنام کرنے کے لیے جو ساز باز کی گئی وہ بھی وقت کے ساتھ واضح ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان سے ہر طرح کی قربانیاں اور مفاد حاصل کرنے اور بدلے میں اسے تذلیل کے سوا کچھ نہ دینے کے بعد بھی ہم امریکہ کے ’’فرنٹ لائن اتحادی‘‘ ہیں اور اس کی ہر سزا بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسیوں اور طرزِ عمل کو سمجھنے کے لیے سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ (آقا نہیں دوست) کو ایک نظر دیکھ لینا ضروری ہے۔ جبکہ اس حوالہ سے حقائق، انکشافات اور دستاویزات کی ایک وسیع دنیا محققین اور تجزیہ نگاہوں کی راہ دیکھ رہی ہے۔ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ امریکہ بہادر اور اس کے اتحادیوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش چلی آرہی ہے جو اب شدت اور عروج کی آخری بلندی کو چھوتی دکھائی دینے لگی ہے کہ:

  • پاکستان اپنے نظریاتی اور اسلامی تشخص سے دستبردار ہو جائے اور دستور و قانون کے ان تمام حصوں پر نسخ کی لکیر کھینچ دے جو اسلامی احکام و قوانین سے کسی درجہ کا تعلق رکھتے ہیں۔
  • پاکستانی قوم اپنے خاندانی نظام اور تہذیبی روایات سے دست کش ہو جائے اور نکاح، طلاق، وراثت، خاندانی ماحول اور باہمی رشتوں کے حوالہ سے مغربی تہذیب و ثقافت کی بالادستی کو قبول کر کے اس کا حصہ بن جائے۔
  • اسلامی عقائد کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ سے لاتعلق ہو جائے اور تحفظ ناموس رسالتؐ، عقیدۂ ختم نبوت اور مذہبی شعائر کی حرمت و تقدس سمیت تمام مذہبی معاملات کو دستور و قانون کے ماحول سے خارج کر دے۔
  • ایٹمی قوت کے مقام سے پیچھے ہٹے، اپنی عسکری اور دفاعی صلاحیت و قوت کو آقاؤں کی مقرر کردہ دائروں میں محدود کر دے اور خاص طور پر مسلم ممالک کی عسکری قوت و صلاحیت کے لیے مقرر کی گئی ریڈ لائن کو کراس نہ کرے۔
  • اقتصادی و معاشرتی ترقی اور خود کفالت کا خواب دیکھنا چھوڑ دے اور ’’سی پیک‘‘ سمیت تمام ایسے ترقیاتی پروگراموں پر نظر ثانی کرے جن سے چودھریوں کی چودھراہٹ متاثر ہوتی ہو۔
  • پاکستان خود کو عالم اسلام کے وسیع تر دائرے کا شعوری و نظریاتی کردار سمجھنا چھوڑ دے، اپنی تمام تر پالیسیوں کو داخلی و علاقائی دائروں میں محصور رکھے اور ملت اسلامیہ کے اجتماعی تصور سے دستبردار ہو جائے۔ یہ وہی کردار ہے جس کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے افغان طالبان کی اسلامی حکومت کو ختم کیا گیا ورنہ ان سے زیادہ شدت پسند حکومتیں دنیا میں قائم رہی ہیں اور اب بھی ہیں جن کے ساتھ یہ رویہ نہیں اختیار کیا گیا۔

یہ وہ چند پہلو ہیں جو پاکستان پر بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے مختلف دائرے ہیں، اس کی ایک جھلک ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں پاکستان کے دستور و قانون کی مختلف شقوں کو قابل اعتراض قرار دے کر ان پر نظر ثانی کے لیے زور دیا گیا ہے۔ جبکہ پاکستان کو اپنے تجارتی دائرے میں شامل کرنے کے لیے یورپی یونین کی عائد کردہ شرائط بھی اس صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں اور بین الاقوامی معاہدات کا دباؤ ان سب پر مستزاد ہے۔ ستم کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے کسی مسئلہ پر ان میں سے کسی ملک سے بات کی جائے تو ان کا دوٹوک جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے قومی مفاد کے دائرے میں ہی بات کر سکتے ہیں، ہماری پالیسیاں عوام کے منتخب نمائندے طے کیا کرتے ہیں، ہم اپنے ملک کے دستور و قانون سے باہر نہیں جا سکتے، ہماری تہذیبی اقدار اور قومی روایات ہی ہمارے اصل راہنما ہیں۔ مگر جب پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی بات ہوتی ہے تو قومی مفاد، منتخب نمائندوں کے فیصلے، دستور و قانون کی بالادستی اور قومی و تہذیبی روایات کی ساری دلیلیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور ایک ہی بات حرفِ آخر قرار پاتی ہے کہ وہ کرو جو ہم کہہ رہے ہیں ورنہ ہمارے غیظ و غضب اور کاروائیوں کا نشانہ بنتے رہو جس کا عملی مشاہدہ افغانستان اور عراق میں لاکھوں انسانوں کے قتل عام کی صورت میں کیا جا چکا ہے۔

دوسری طرف ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اس دباؤ بلکہ جبر اور دھاندلی کا احساس تو پایا جاتا ہے لیکن ہم اس کا سامنا طبقات کی صورت میں الگ الگ کر رہے ہیں:

  • عسکری قوتیں اپنے دائرہ کے دباؤ میں اپنی صلاحیت کے تحفظ کی فکر میں ہیں۔
  • معاشی اور اقتصادی حلقے اس دباؤ میں سے اپنے لیے راستے تلاش کر رہے ہیں، حتیٰ کہ شرعی و دستوری تقاضے کے باوجود سودی نظام سے خاتمہ کی کوئی راہ بھی دکھائی نہیں دے رہی۔
  • مذہبی اور نظریاتی حلقے اس دباؤ کے مقابلہ میں صرف اپنی حد تک مورچہ زن ہیں۔ جبکہ مغربی ثقافت کی ترویج و اشاعت میں حصہ لینے والوں کے لیے حوصلہ افزائی اور مراعات لیکن دینی اقدار کے لیے کام کرنے والے گروہوں کے لیے خوف و ہراس اور کردار کشی کا ایجنڈا کارفرما ہے۔
  • سیاسی حلقوں کو سرے سے اس کی کوئی فکر ہی نہیں ہے، انہیں صرف کرسی چاہیے اور لوٹ کھسوٹ کے مواقع میسر ہونے چاہئیں وہ جس راستے سے ملیں اور جس ذریعہ سے آئیں انہیں اس کے علاوہ اور کسی بات کی پرواہ نہیں ہے۔

میرے خیال اور مشاہدہ میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور جنرل ضیاء الحق مرحوم کے بعد سے ہمارے کسی حکمران کا کوئی سیاسی وژن اور ایجنڈا نہیں ہے۔ بھٹو مرحوم اور ضیاء الحق مرحوم کے سیاسی وژن کے بعض پہلوؤں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ان کا وژن بظاہر ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتا ہے، اگرچہ میری رائے میں ایسا نہیں ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ ہمارے یہ دونوں مرحوم لیڈر پاکستان اور عالم اسلام کے لیے ایک واضح ایجنڈا رکھتے تھے جس کے لیے وہ پوری طرح مصروف عمل تھے۔ ان کے بعد اقتدار، کرسی اور لوٹ کھسوٹ کے مواقع کے سوا پاکستان کے سیاسی ماحول میں کسی کا کوئی وژن اور ایجنڈا دکھائی نہیں دے رہا۔

برطانوی نو آبادیاتی دور میں برصغیر کی سینکڑوں ریاستوں نے محدود سی داخلی خودمختاری پر قناعت کر کے باہر اور اوپر کے سارے معاملات برطانوی حکومت کے سپرد کر رکھے تھے۔ مجھے آج کی صورتحال اور ان ریاستوں کی حالت میں اس کے سوا عملی طور پر کوئی فرق دکھائی نہیں دے رہا کہ اس دور میں مسلم ریاستوں کو اپنے داخلی ماحول میں شرعی عدالتوں کے قیام اور شرعی قوانین کے نفاذ کی اجازت حاصل تھی جو کہ اب ہمارے لیے قابل عمل نہیں رہی، اس لیے کہ ہم قانون و تعلیم کے شعبوں میں بھی بیرونی ایجنڈے کے پابند ہو کر رہ گئے ہیں۔

اس پس منظر میں میاں محمد نواز شریف کے اس ارشاد سے اتفاق کرتے ہوئے ہم یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف عالمی دباؤ کا وسیع تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس کا سامنا طبقاتی ماحول نہیں بلکہ قومی ماحول میں کرنا ضروری ہے۔ اگر اس عالمی دباؤ کے متنوع دائروں کے پیچھے ماسٹر مائنڈ اور کنٹرول روم ایک ہے تو اس کا سامنا کرنے کے لیے طبقاتی دائروں سے نکل کر مشترکہ ماسٹر مائنڈ اور کنٹرول روم کا اہتمام بھی وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter