اٹھارہویں عالمی ختم نبوت کانفرنس

   
۲۸ اگست ۲۰۰۳ء

برمنگھم (برطانیہ) کی مرکزی جامع مسجد میں منعقد ہونے والی اٹھارہویں سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس کی رپورٹ مجھے گزشتہ روز کی ڈاک میں موصول ہوئی۔ یہ کانفرنس تین اگست اتوار کو صبح دس بجے تا شام چھ بجے منعقد ہوئی، جس کی صدارت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف نے کی، جبکہ مہمان خصوصی جمعیت علماء ہند کے سربراہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی مدظلہ تھے۔

اس کانفرنس کا آغاز ۱۹۸۵ء میں اس وقت ہوا تھا جب پاکستان میں ۱۹۸۴ء کے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے نفاذ کے بعد قادیانی جماعت نے اپنا ہیڈ کوارٹر لندن منتقل کر لیا تھا۔ قادیانیوں کی سالانہ کانفرنس جو پہلے قادیان میں اور پھر ربوہ میں منعقد ہوتی آ رہی تھی، قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے یہ سالانہ اجتماع ۱۹۸۵ء میں لندن میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تو مولانا عبد الحفیظ مکی کی سربراہی میں تشکیل پانے والے انٹرنیشنل ختم نبوت مشن نے قادیانیوں کے سالانہ اجتماع کے جواب میں لندن میں ہی ’’عالمی ختم نبوت کانفرنس‘‘ منعقد کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ انٹرنیشنل ختم نبوت مشن میں مولانا مکی کے علاوہ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ، مولانا منظور احمد چنیوٹی، علامہ ڈاکٹر خالد محمود اور راقم الحروف بھی شامل تھے۔ مشن نے جمعیت علماء برطانیہ کے تعاون سے اگست ۱۹۸۵ء میں لندن کے مشہور کانفرنس سینٹر ویمبلے ہال میں عالمی ختم نبوت کانفرنس منعقد کی، جس میں مختلف دینی جماعتوں اور مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ برطانیہ کے مختلف شہروں سے پانچ ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں نے شرکت کی۔

اس کانفرنس کے لیے مشن کے رہنماؤں نے کانفرنس سے قبل برطانیہ کے طول و عرض کا دورہ کیا اور قادیانیوں کی سرگرمیوں سے مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے انہیں اس فتنہ کے مقابلہ کے لیے تیار کیا اور کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ عالمی سطح پر اس حوالے سے منعقد ہونے والا یہ پہلا اجتماع تھا۔ اس کے بعد انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کو مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان میں ضم کر کے اسے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی حیثیت دے دی گئی اور سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس کا انتظام عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے سنبھال لیا۔ چند سال یہ کانفرنس ویمبلے ہال میں منعقد ہوتی رہی، اس کے بعد اسے برمنگھم کی مرکزی جامع مسجد میں منتقل کر دیا گیا، جہاں سالہا سال سے اس کا اہتمام کے ساتھ انعقاد ہو رہا ہے۔ بعد میں انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے رہنماؤں کا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی قیادت کے ساتھ نباہ نہ ہو سکا اور انہوں نے انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے نام سے نئی جماعت بنا لی، جو اپنے دائرہ میں کام کر رہی ہے۔ مگر اس موقع پر راقم الحروف نے اس کشمکش سے لاتعلق ہونے کا فیصلہ کیا اور تنازعات سے الگ رہتے ہوئے بحمد اللہ دونوں جماعتوں کے ساتھ ختم نبوت کے مشن کے حوالہ سے مسلسل اور ہر ممکن تعاون جاری رکھے ہوئے ہوں۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے لندن کے علاقہ اسٹاک ویل میں ایک چرچ خرید کر ختم نبوت سنٹر قائم کیا جسے منظم کرنے کے لیے الحاج عبدالرحمٰن باوا اور مولانا منظور احمد الحسینی نے سالہا سال تک محنت کی۔ اس سینٹر کے ذریعے نہ صرف برطانیہ اور یورپ بھر میں قادیانیوں کی سرگرمیوں کا تعاقب جاری ہے، بلکہ عقیدہ ختم نبوت اور دیگر متعلقہ موضوعات پر انگریزی اور دیگر زبانوں میں لٹریچر کی اشاعت و تقسیم کا کام بھی ہو رہا ہے۔ الحاج عبدالرحمٰن باوا نے اب چند سالوں سے ایسٹ لندن کے علاقہ ایسٹ ہیم میں الگ مرکز قائم کر کے کام شروع کیا ہے، جبکہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر انتظام اسٹاک ویل کا ختم نبوت سینٹر مولانا منظور احمد الحسینی کی رہنمائی میں بدستور مصروف کار ہے۔

راقم الحروف تقریباً پندرہ سال تک مسلسل عالمی ختم نبوت کانفرنس میں شریک ہوتا رہا ہے، مگر جب سے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی تدریسی مصروفیات کی وجہ سے رجب اور شعبان کے علاوہ بیرون ملک جانے کا معمول نہیں رہا، تب سے برمنگھم کی عالمی ختم نبوت کانفرنس کی حاضری کی سعادت سے محروم ہوں۔ کانفرنس میں برطانیہ کے مختلف شہروں سے فرزندانِ توحید ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوتے ہیں، لوگ بسوں کے قافلوں کی صورت میں آتے ہیں اور پورے جوش و خروش کے ساتھ کانفرنس کی کارروائی میں حصہ لیتے ہیں۔ برطانیہ میں اگست کے دوران دن خاصا لمبا ہوتا ہے۔ صبح چار بجے کے لگ بھگ سورج طلوع ہوتا ہے اور شام آٹھ بجے کے بعد غروب ہوتا ہے، اس لیے صبح دس بجے کانفرنس کی کارروائی شروع کر کے ایک بجے نماز ظہر کا وقفہ ہوتا ہے اور اس کے بعد چھے بجے تک کانفرنس بآسانی جاری رکھی جا سکتی ہے اور عصر کی نماز اس کے بعد ادا کی جاتی ہے۔ اس طرح ایک ہی دن میں کانفرنس کی دو نشستوں کے لیے سات آٹھ گھنٹے کا دورانیہ آسانی کے ساتھ فراہم ہو جاتا ہے۔

حضرت مولانا خواجہ خان محمد مدظلہ ہر سال کانفرنس کی صدارت کرتے ہیں اور پوری دلجمعی کے ساتھ اول سے آخر تک بیٹھتے ہیں جو اس عمر اور بڑھاپے میں انہی کی ہمت ہے۔ میں نے کئی بار کانفرنس کے منتظمین سے گزارش کی ہے کہ حضرت الامیر مدظلہ کا اتنا لمبا امتحان نہ لیا کریں، کانفرنس کے آغاز میں اور پھر اختتام پر دعا کے لیے ان کو لے آیا کریں۔ مگر مجھے بتایا گیا کہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم اپنی خوشی سے اتنا لمبا عرصہ کانفرنس میں بیٹھتے ہیں اور مقررین کے خطابات کو دلچسپی کے ساتھ سماعت فرماتے ہیں۔

اس سال تین اگست کو منعقد ہونے والی عالمی سالانہ ختم نبوت کانفرنس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس میں برطانیہ کے مختلف شہروں سے دس ہزار کے قریب مسلمانوں نے پورے جوش و خروش کے ساتھ شرکت کی۔ جبکہ حضرت مولانا اسعد مدنی مدظلہ کے علاوہ بھارت سے مولانا ابوبکر غازی پوری، پاکستان سے مولانا صاحبزادہ عزیز احمد، مولانا سعید احمد جلال پوری، سعودی عرب سے مولانا سعید احمد عنایت اللہ، برطانیہ سے مولانا عبد الرشید ربانی، مولانا منظور احمد الحسینی، مولانا مفتی محمد اسلم اور متعدد دیگر رہنماؤں نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ رپورٹ کے مطابق حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم کی دعا پر شام چھ بجے کانفرنس اختتام پذیر ہوئی اور اس میں متفقہ طور پر درج ذیل قراردادیں منظور کی گئیں:

  • ختم نبوت کانفرنس کا یہ اجتماع حکومت برطانیہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ قادیانیوں کی جانب سے قادیانیت کو اسلام قرار دینے کی روش پر پابندی عائد کرے اور انہیں اپنے دین کے لیے الگ نام اور الگ شعائر اختیار کرنے کا پابند کرے۔ اسی طرح حکومت برطانیہ قادیانیوں کی جانب سے شعائر اسلام کے استعمال کا بھی انسداد کرے۔
  • یہ اجتماع یورپی ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ قادیانیوں کی جانب سے اپنے اوپر مظالم کی جھوٹی شکایات اور غلط رپورٹوں کی بنیاد پر مسلم ممالک اور مسلم تنظیموں کے خلاف کسی قسم کا ایکشن لینے کے بجائے قادیانی پروپیگنڈے سے متاثر ہونا ترک کر دیں اور قادیانیوں کو مسلم ممالک میں حاصل شدہ حقوق کی بنیاد پر انہیں اپنے ممالک میں خصوصی حقوق اور سیاسی پناہ دینا بند کر دیں۔
  • یہ اجتماع یورپی ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ قادیانیوں کی جانب سے ظلم و ستم کے ذریعہ مسلمانوں کو زبردستی مذہب تبدیل کر کے قادیانی بننے پر مجبور کرنے کی کوششوں پر پابندی عائد کی جائے اور قادیانیوں کو اس قسم کی حرکتوں سے روکا جائے۔
  • یہ اجتماع عیسائی دنیا سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ قادیانیوں کی حمایت سے دست کش ہو جائے۔
  • یہ اجتماع مسلم ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے قادیانیوں کی خلافِ اسلام سرگرمیوں پر پابندی عائد کریں۔
  • یہ اجتماع مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فلاحی ادارے قائم کریں، تاکہ مشنری سرگرمیوں کی آڑ میں قادیانیت اور عیسائیت کی تبلیغی سرگرمیوں پر قدغن لگائی جا سکے۔
  • یہ اجتماع اسلامی ممالک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ قادیانی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے میڈیا کو بھرپور انداز میں استعمال کریں۔
  • یہ اجتماع اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ قادیانی مذہبی کتابوں کو ضبط کریں۔
  • یہ اجتماع امریکی اور یورپی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ قادیانی جماعت کی ماورائے قانون سرگرمیوں کو خلاف قانون قرار دے کر اس پر پابندی عائد کریں اور اس کے تمام اثاثہ جات اور بینک اکاؤنٹ منجمد کریں۔
  • یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ مسلم امہ یورپ کے مختلف ممالک میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کے لیے اسلامک سینٹر قائم کرے۔
  • یہ اجتماع قادیانیوں کی جانب سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے بیس کروڑ ڈالر کے بجٹ کی منظوری کو ایک بے فائدہ کوشش قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ قادیانی بیس ملین ڈالر خرچ کر کے بھی کسی مسلمان کو قادیانی نہیں بنا سکتے۔ مسلمانوں کا ایمان ڈالروں سے نہیں خریدا جا سکتا۔
  • یہ اجتماع دنیا بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کو اسلام دشمن قوتوں کی کارستانی قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ قادیانی گروہ مسلمانوں پر دہشت گردی کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کر کے اپنے مذموم مقاصد و مفادات کی تکمیل چاہتا ہے۔
  • یہ اجتماع دنیا بھر کی مسلم تنظیموں پر زور دیتا ہے کہ وہ فتنہ قادیانیت کی تردید کے لیے آگے آئیں۔
  • یہ اجتماع مسلم امہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ قادیانیوں کی خلافِ اسلام سرگرمیوں اور مسلمانوں کو مرتد بنانے کی کوششوں کے سدباب کے لیے فنڈ مختص کرے۔
  • یہ اجتماع مسلم ممالک کے خلاف ہونے والی بین الاقوامی سازشوں میں قادیانی گروہ کو مرکزی حیثیت کا حامل قرار دیتا ہے۔ اب تک کئی مسلم سربراہان قادیانیوں کی سازشوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
  • یہ اجتماع قادیانیت کو ایک آزمائش قرار دیتے ہوئے نئی نسل پر زور دیتا ہے کہ وہ اس آزمائش کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائے اور اپنے آپ کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت تیار رکھے۔
  • یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کے بجائے مسلم امہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ دینی تعلیم کا نصاب متعارف کرائے، تاکہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبہ اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عبور رکھنے والے اسکالر بن سکیں۔
  • یہ اجتماع اقوام متحدہ پر زور دیتا ہے کہ وہ قادیانیوں کی جانب سے اسلام کے نام پر قادیانیت کے فروغ کی کوششوں کا انسداد کرے اور بین الاقوامی قوانین کے ذریعہ قادیانیوں کی جانب سے اسلام کے نام کو استعمال کرنے پر پابندی عائد کرے۔
  • یہ اجتماع مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات کو یک طرفہ اور قطعاً بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک مختلف مذاہب کے اسکالرز پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دیں، جو دہشت گردی کے اصل اسباب و عوامل کا جائزہ لے کر اس کے انسداد کی تجاویز پیش کریں۔
  • یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ ناموس رسالتؐ اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے مسلم ممالک اقوام متحدہ میں آواز اٹھائیں۔
  • یہ اجتماع اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں مذہبی قوتیں ملوث نہیں، بلکہ یہ ایک منظم دہشت گردی ہے جس کی پشت پناہی تربیت یافتہ دہشت گرد کر رہے ہیں جن کا مذہب سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
  • یہ اجتماع واضح کرتا ہے کہ قادیانی گروہ کے چھ سو ارکان اسرائیل میں کمانڈو ٹریننگ لے چکے ہیں۔
  • یہ اجتماع قادیانیوں کو دعوتِ اسلام دعوت دیتے ہوئے ان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے باطل عقائد کو ترک کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مان لیں، اسلامی عقائد کو بے چون و چرا تسلیم کر لیں اور امتِ مسلمہ کا حصہ بن جائیں۔
   
2016ء سے
Flag Counter