گزشتہ ایک مضمون میں اس بات کا مختصر تذکرہ کیا تھا کہ مغربی اداروں، اقوام متحدہ کے مختلف شعبوں اور عالمی لابیوں کی طرف سے معاشرتی جرائم کی اسلامی سزاؤں مثلاً ہاتھ کاٹنے، سنگسار کرنے، کوڑنے مارنے اور سرعام سزا دینے کو جب ’’وحشیانہ سزائیں‘‘ قرار دے کر ان کی مخالفت کی جاتی ہے، اور ان مسلم ممالک سے ان قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے جنہوں نے کسی نہ کسی درجہ میں یہ قوانین نافذ کر رکھے ہیں، تو یہ محض پراپیگنڈے یا عناد کی بات نہیں ہوتی بلکہ اس کی بنیاد اقوام متحدہ کے ’’انسانی حقوق کے چارٹر‘‘ کی ایک مستقل دفعہ پر ہے، جس کی رو سے معاشرتی جرائم کی یہ شرعی سزائیں فی الواقع وحشیانہ قرار پاتی ہیں۔ اور چونکہ تمام مسلم ممالک نے انسانی حقوق کے اس چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں، اس لیے ان پر عالمی اداروں اور حلقوں کی طرف سے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے منشور سے مطابقت نہ رکھنے والے ان قوانین کو تبدیل کریں، اور کسی جرم میں کسی ایسی سزا کو اپنے ملک میں باقی نہ رہنے دیں جس میں ذہنی اذیت اور جسمانی تشدد کا کوئی عنصر پایا جاتا ہو۔
آج کی محفل میں انسانی حقوق کے مذکورہ چارٹر کی ایک اور دفعہ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، جس کا تعلق خاندانی نظام اور عائلی قوانین سے ہے اور اگر اس دفعہ کو من و عن تسلیم کر لیا جائے تو خاندانی قوانین یعنی نکاح، طلاق اور وراثت کے وہ بہت سے شرعی قوانین انسانی حقوق کے منافی قرار پاتے ہیں جو قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی دفعہ ۱۶ میں کہا گیا ہے کہ:
’’پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دوران شادی اور اس کی تنسیخ کرنے کے سلسلہ میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔‘‘
اس سلسلہ میں کسی لمبی بحث میں پڑے بغیر سردست ہم ان چند نکات کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں جو اس دفعہ کی روشنی میں قرآن و سنت کے احکام و ضوابط سے ٹکراتے ہیں۔
- ’’پوری عمر کے مردوں اور عورتوں‘‘ سے یہاں مراد ہے کہ شادی کے لیے بلوغ کی ایک عمر مقرر کی جائے گی اور اس سے کم عمر میں شادی کو ممنوع قرار دے دیا جائے گا۔ جبکہ اسلام میں شادی کے لیے کوئی عمر مقرر نہیں ہے اور احادیث نبویؐ اور فقہ اسلامی میں مستقل ابواب اور ارشادات بلوغ سے کم عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح سے متعلقہ احکام و ضوابط کے حوالہ سے موجود ہیں۔
- نسل اور قومیت کے ساتھ ’’مذہب کی تحدید‘‘ کو بھی ختم کر دینے کا مقصد اس دفعہ میں یہ ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح غیرمسلم مرد اور غیرمسلم عورت کا نکاح مسلمان مرد سے جائز قرار پائے۔ جو قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۲۱ کے منافی ہے۔ جس میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ’’مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں اور مشرک مردوں کو اپنی عورتیں نکاح کر کے نہ دو، جب تک کہ وہ مرد مسلمان نہ ہو جائیں۔‘‘
شادی کے انعقاد میں مرد اور عورت کا یہ مساوی حق تو اسلام تسلیم کرتا ہے کہ کوئی بھی نکاح مرد اور عورت دونوں کی باہمی رضا یا ان کے سرپرستوں کی رضامندی کے بغیر منعقد نہیں ہوتا، لیکن دورانِ شادی اسلام نے دونوں کو مساوی درجہ نہیں دیا، یعنی خاندانی نظام میں مرد کو سربراہ کی حیثیت حاصل ہے اور اگرچہ اسے بیوی سے مشورہ کرنے، اسے اعتماد میں لینے اور اس کی رائے کا احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن خاندانی امور نمٹانے میں فائنل اتھارٹی گھر کے سربراہ کی ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے منشور کی اس دفعہ کی رو سے خاندانی نظام کے معاملات چلانے میں مرد اور عورت دونوں یکساں حیثیت اور اختیارات رکھتے ہیں، جیسا کہ ترکی کی پارلیمنٹ نے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے حال ہی میں ایک قانون منظور کیا ہے، جس کی رو سے مرد کی خاندان کے سربراہ کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ خاندانی نظام کو چلانے میں دونوں کو یکساں اختیارات حاصل ہیں، حتیٰ کہ شادی کے دوران دونوں کی کمائی ہوئی دولت کو بھی اس قانون میں دونوں کی برابر اور مشترکہ ملکیت قرار دے دیا گیا ہے۔
سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۲۸ اور سورۃ النساء کی آیت ۳۴ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح فرما دی ہے کہ گھر کے نظام میں مرد کو حاکم کی حیثیت حاصل ہے اور اسے عورتوں پر بالاتری دی گئی ہے اور یہی بات قانون فطرت سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس لیے کسی بھی چھوٹے یا بڑے سسٹم میں دو افراد میں سربراہی کے اختیارات کی یکساں تقسیم سے خلفشار پیدا ہوتا ہے اور نظام بگڑ کر رہ جاتا ہے، جیسا کہ خود مغرب نے خاندانی نظام کے حوالے سے اس کا تجربہ بھی کر لیا ہے۔ اس لیے کسی بھی نظام میں سربراہ کی حیثیت سے فائنل اتھارٹی کے اختیارات بہرحال ایک ہی شخصیت کو دینا پڑتے ہیں اور اس کے بغیر کوئی نظام نہیں چل سکتا۔ اس لیے اسلام نے عورت کے تمام تر حقوق و مفادات کا ہر ممکن تحفظ کرتے ہوئے گھر کے نظام میں سربراہ کی حیثیت مرد کو دی ہے۔ لیکن اسلام کا یہ ضابطہ انسانی حقوق کے مذکورہ چارٹر کی اس دفعہ کی رو سے ’’دوران شادی دونوں کے مساوی حقوق‘‘ کے منافی ہے۔
- ’’شادی کی تنسیخ میں دونوں کے مساوی حقوق‘‘ کا نکتہ بھی اسلامی قوانین سے متصادم ہے۔ اس لیے کہ اسلامی قوانین میں نکاح کا تعلق ختم کرنے کا براہ راست اختیار صرف مرد کو دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہے طلاق دے کر اس تعلق کو ختم کر سکتا ہے، جبکہ عورت کو یہ اختیار براہ راست حاصل نہیں ہے، بلکہ اسے یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ سمجھے کہ خاوند اس کے حقوق ادا نہیں کر رہا یا اس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا مرتکب ہے تو وہ مالی حقوق سے دست برداری اختیار کر کے خلع کے نام پر خاوند سے آزادی حاصل کر سکتی ہے، لیکن خلع کی صورت میں بھی فیصلے کی فائنل اتھارٹی خاوند ہی کو حاصل ہے۔ اسی طرح عورت اپنا معاملہ قاضی کی عدالت یا خاندان کی پنچایت کے سامنے پیش کر سکتی ہے، اور ان دونوں کو شرعاً یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ عورت کی شکایات کو درست پائیں تو نکاح کا تعلق ختم کر سکتی ہیں۔ اس لیے انسانی حقوق کے مذکورہ چارٹر میں شادی کو ختم کرنے میں مرد اور عورت دونوں کے مساوی حق کا یہ نکتہ بھی اسلامی قانون کے منافی ہے اور اس سلسلہ میں خود قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۳۷ میں کہا گیا ہے کہ ’’نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
- اقوام متحدہ کے مذکورہ منشور میں تمام معاملات میں مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے اور ’’جنس کی بنیاد پر کسی امتیاز‘‘ کی نفی کی گئی ہے۔ جبکہ بہت سے معاملات میں اسلام نے مرد اور عورت میں فرق روا رکھا ہے، جیسا کہ خود قرآن کریم نے سورۃ النساء کی آیت ۱۱ اور ۱۲ میں وراثت کی تقسیم میں مردوں اور عورتوں کے جو حصے متعین کیے ہیں وہ برابر نہیں ہیں اور ان میں خاصا تفاوت ہے۔ اسی طرح سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۸۲ میں بعض معاملات کے حوالے سے عدالتی گواہی میں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ دونوں ضابطے ’’جنس کی بنیاد پر امتیاز‘‘ کے ضمن میں آتے ہیں اور مرد اور عورت کی مساوات کے اس اصول کے منافی ہیں، جن کی بنیاد پر اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر تشکیل پایا ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح اسلام کا ’’حدود و تعزیرات‘‘ کا پورا نظام اور اس کا عدالتی سسٹم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر سے متصادم ہے، اسی طرح اسلام کے خاندانی نظام اور نکاح و طلاق اور وراثت سے متعلقہ بیشتر احکام و ضوابط بھی انسانی حقوق کے مذکورہ منشور سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اور اب جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کی معاشی جکڑبندی اور امریکہ کی فوجی ۔۔۔۔ کی قہرسامانی کے ذریعے اقوام متحدہ نے کمزور ملکوں کے معاملات خود طے کرنے کی پوزیشن عملاً حاصل کر لی ہے تو مسلم حکومتوں کو قرآن و سنت کے بیان کردہ احکام و قوانین یا اقوام متحدہ کے منشور میں سے کسی ایک کا بہرحال انتخاب کرنا ہو گا اور اس سلسلے میں حتمی فیصلے تک پہنچنے میں اب زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔