یہ بات ایک اور تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں جو آج کی فکری اور سماجی دنیا کا بہت بڑا مسئلہ اور بہت بڑا مغالطہ ہے۔ مغرب کے پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے مارٹن لوتھر کی تحریک کے نتیجے میں پاپائیت کو مسترد کر دیا تھا۔ جبکہ رومن کیتھولک آج بھی پاپائے روم کے تابع ہیں۔ لیکن ایک زمانہ گزرا ہے جب رومن کیتھولک پاپائے روم حکمرانوں کے سرپرست ہوتے تھے، ان کا فیصلہ آخری ہوتا تھا، ان کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا، چرچ کو اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا، اس سے اختلاف ممکن نہیں تھا، کیونکہ پاپائے روم اللہ کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے۔ عیسائیت میں چرچ اللہ کا نمائندہ ہے، جبکہ ہمارے ہاں مسجد اور خلافت رسول اللہ کے نمائندے ہیں۔ یہ بنیادی فرق ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں مسجد اور خلیفہ کو اپنی بات کے جواز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلیل لانی ہو گی، جبکہ پوپ کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، وہ ’’مامور من اللہ‘‘ تصور ہوتا تھا، اس سے کوئی اختلاف اور اس کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوتی تھی ۔
جب چرچ نے سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں مداخلت شروع کر دی اور فیصلے صادر کرنا شروع کر دیے، تو یہ جو بغیر اپیل اور بغیر اختلاف کے اتھارٹی تھی، اس کے خلاف بغاوت ہوئی اور پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا جس کی بنیاد مارٹن لوتھر نے رکھی۔ مارٹن لوتھر دو ہیں۔ ایک مارٹن لوتھر پروٹسٹنٹ فرقے کا بانی ہے، اور دوسرا مارٹن لوتھر کنگ وہ ہے جو امریکہ میں سیاہ فاموں کی تحریک کا لیڈر تھا۔ دونوں پادری تھے۔ میں مارٹن لوتھر اول کی بات کر رہا ہوں جس نے پاپائے روم کی اس اتھارٹی کو چیلنج کیا اور بغاوت کی کہ ہم پاپائے روم اور چرچ کی اتھارٹی نہیں مانتے کہ وہ بائبل کی تشریح میں جو کہہ دے وہ حرفِ آخر ہے اور ان کی کسی بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس بنیاد پر بغاوت ہوئی تھی اور چرچ کی بالادستی مسترد کر دی گئی تھی۔ اس کو تھیاکریسی کا نام دیا گیا۔ آج بھی جب آپ خلافت کی بات کریں گے تو بہت سے جدت پسند لوگ آپ کو طعنہ دیں گے کہ آپ تھیاکریسی ، مذہبی اجارہ داری، اور پاپائیت کی بات کر رہے ہیں، اور آپ وہی اختیارات واپس لانا چاہ رہے ہیں۔
میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کی مغربی دنیا مذہب سے متنفر کیوں ہے؟ اس کا سبب جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مغرب میں جب اجتماعیات، ریاست، حکومت اور قانون کے معاملات میں مذہب کی بات آتی ہے تو مغربی دنیا اتنی سخت مخالفت کیوں کرتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب ، چرچ اور پاپائے روم نے پاپائیت کی اتھارٹی کے ساتھ صدیوں مغرب پر مظالم ڈھائے ہیں۔ آکسفورڈ ان کا مذہبی اور ثقافتی مرکز تھا، اور یہ سب اس کے مذہبی مدرسے تھے جو بغاوت کے بعد کالج اور یونیورسٹی میں تبدیل ہو گئے۔ آکسفورڈ ان کا جامعہ ازہر سمجھ لیں۔ میں نے آکسفورڈ میں وہ مقامات خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جہاں پادری صاحب بیٹھتے تھے، کسی بھی آدمی کو پیش کیا جاتا کہ اس نے فلاں بات کی ہے، سرسری سی سماعت کے بعد پادری صاحب حکم دیتے کہ یہ مرتد ہو گیا ہے، اس کو اسی وقت پھانسی پر چڑھا دیا جاتا تھا۔ میں نے وہ مقامات دیکھے ہیں جہاں مذہبی عدالت لگتی تھی، پادری کا اختیار چلتا تھا، سرسری سماعت کے بعد ملزم کو درخت کے ساتھ لٹکا دیا جاتا تھا۔ صدیوں تک مسیحی مذہب، پاپائیت، چرچ اور تھیاکریسی نے مغربی دنیا پر مظالم ڈھائے، بے شمار لوگ قتل کیے۔ اس لیے آج جب مغرب کے کسی آدمی سے آپ مذہبی حکومت کی بات کریں گے تو اس کے ذہن میں وہ تصور آ جاتا ہے، اس لیے مغربی دنیا مذہب کے نام سے متنفر ہے۔
مگر ہمارا نظام پاپائیت نہیں ہے بلکہ شورائیت ہے۔ فقہاء نے خلیفہ کی جو شرائط لکھی ہیں ان میں خلیفہ کا مجتہد ہونا بھی ہے۔ یعنی باقی شرائط کے ساتھ جو مجتہد درجے کا عالم ہو گا وہ خلیفہ بنے گا۔ اور مجتہد کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ حرفِ آخر نہیں ہے، اس کی بات سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے میں مغرب والوں سے کہا کرتا ہوں کہ تم ہمیں غلط طور پر پاپائیت کی طرف منسوب کرتے ہو۔ پاپائیت اگر کسی طور پر ہے تو امام معصوم میں تو اس کا مفہوم پایا جاتا ہے لیکن خلیفہ مجتہد میں پاپائیت کا تصور نہیں پایا جاتا۔ یہ فرق ہمیں سمجھنا چاہیے۔ وہ فائنل اتھارٹی جس کے خلاف اپیل نہیں ہو سکتی اس کو تو آپ پاپائیت کہہ سکتے ہیں ، لیکن جس کی بات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، جس کا فیصلہ دلیل کی بنیاد پر تبدیل کیا جا سکتا ہے ،جس کا احتساب کیا جا سکتا ہے، اس کو پاپائیت کہنا نا واقفیت کی دلیل ہے، یا ضد کی علامت ہے۔
آج کے جمہوری تناظر کے حوالے سے یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کہا جاتا ہے کہ ہم نے دلیل و قانون کی حکومت قائم کی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بادشاہت اور جمہوریت دونوں میں حکومت دلیل و قانون کی نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی اکثریت جو فیصلہ کر دے، اس پر کوئی دلیل ہے یا نہیں، تاہم وہ قانون ہے۔ اور جس دستور کی پارلیمنٹ پابند ہے، اسی دستور میں ترمیم کا مجاز خود وہی پارلیمنٹ ،ہے تو یہ کیسی دلیل کی حکومت ہے؟ مثلاً میں جس قانون کی پابندی قبول کرتا ہوں، اگر اسی قانون میں تبدیلی کا اختیار بھی مجھے ہی ہے، تو میں کون سی پابندی قبول کر رہا ہوں؟ اس لیے یہ بہت بڑا مغالطہ ہے کہ جمہوریت اور بادشاہت دلیل کی حکومت ہوتی ہے۔ صرف ایک خلیفہ ہے جو قانون کا پابند ہے، اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ آپ کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں؟ لیکن خلیفہ کو قرآن و سنت کے قوانین میں تبدیلی اور ترمیم کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ دلیل کی حکومت اسے کہتے ہیں۔
چنانچہ پاپائیت والوں سے یہ مکالمہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں پاپائیت نہیں بلکہ شورائیت اور دلیل و قانون ہے۔ جبکہ جمہوریت والوں سے ہمارا مکالمہ یہ ہے کہ تم قانون کی حکومت کی بات کرتے ہو لیکن قانون میں رد و بدل کا اختیار بھی اپنے پاس رکھتے ہو، جس اتھارٹی نے پابندی کرنی ہے، ردوبدل بھی اسی نے کرنا ہے تو یہ کوئی پابندی نہیں ہے۔ لہٰذا پوری دنیا کی تاریخ میں اگر دلیل کی حکومت کہیں ہے تو وہ خلافت میں ہے کہ خلیفہ دلیل کا پابند ہے، اور دلیل میں رد و بدل کا اختیار اسے حاصل نہیں ہے۔ خلیفہ کو نہ قرآن مجید میں رد و بدل کا اختیار ہے اور نہ سنت میں رد و بدل کا اختیار ہے، اسے دلیل کی حکومت کہتے ہیں۔
مغرب نے ایک نیا نظریہ متعارف کروایا ہے، وہ اینڈ آف دی ہسٹری (End of the history) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تاریخ مکمل ہو چکی ہے، اب اس میں اور کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔ تاریخ تہذیب و تمدن میں اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے اب اس کے بعد کوئی تبدیلی نہیں ہو گی بلکہ اس کے بعد خاتمہ ہی ہے۔ مغربی دانشور آج کل اس معنی میں لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ ہم دنیا کا دورِ عروج ہیں اور ہم آخری زمانہ ہیں، ہمارے بعد کسی اور کا دور نہیں آئے گا۔
میں اس پر کہا کرتا ہوں کہ یہ غلط بات ہے، ابھی ایک اننگز باقی ہے جو ہم نے کھیلنی ہے اور ان شاء اللہ ٹھیک ٹھاک کھیلیں گے۔ ہماری باری آنے والی ہے، لیکن اتنی جلدی بھی نہیں جتنی کچھ حضرات نے سمجھ لی ہے، اور اتنی دور بھی نہیں جتنی لوگ سمجھتے ہیں۔ میں مغرب سے ان کی زبان بولا کرتا ہوں کہ فاؤل نہیں کھیلو۔ فاؤل کا مطلب یہ ہے کہ جس ٹیم کو ہار کا خدشہ ہوتا ہے وہ اپنی باری میں کھیل ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ میں مغرب سے کہتا ہوں کہ فاؤل نہیں کھیلو اور حوصلے سے کھیلو۔ ہماری ایک اننگز باقی ہے جو ہم نے کھیلنی ہے، اس کے لیے ہم حضرت عیسٰیؑ اور حضرت مہدیؒ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ شاءاللہ دنیا کو ایک بار پھر وہ منظر دکھائیں گے کہ خلافت کسے کہتے ہیں، عدل و انصاف کیا ہوتا ہے اور حقوق کسے کہتے ہیں؟
میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ ہم نے ایک پیریڈ گزارا ہے اور ٹھیک ٹھاک گزارا ہے۔ خلافتِ راشدہ سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے عروج تک تقریباً ایک ہزار سال ہم نے آپس کی تمام تر لڑائیوں، جھگڑوں اور تمام تر خرابیوں کے باوجود دنیا پر حکومت اور عالمی قیادت کی ہے۔ اس وقت دنیا کے لیے ہم ہی حکمران تھے۔ ہمارے بعد عالمی قیادت کی طرف برطانیہ بڑھا ہے جو بمشکل (چار) سو سال گزار سکا ہے، پھر رشیا آیا تو وہ بھی پچھتر سال میں ختم ہو گیا۔ اب امریکہ آیا ہے تو پچاس سال میں اس کا بھی سانس پھول گیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ گھبراؤ نہیں، ہماری باری پھر آنے والی ہے، اب جو کیفیت تمہاری ہے ہم نے ایک ہزار سال دنیا پر اسی کیفیت میں حکومت کی ہے۔ ہماری ایک اور باری رہتی ہے لیکن ہمیں ابھی خوش فہم نہیں ہونا چاہیے، ابھی کسی اور کی باری ہے، وہ بھی پچاس، ساٹھ یا ستر سال گزارے گا، اس کے بعد ہماری باری ہو گی ان شاء اللہ، پھر ہم وہی گیم کھیلیں گے جو ہم نے ایک ہزار سال کھیلی ہے۔
اس پر میں ایک روایت بھی پیش کیا کرتا ہوں کہ اینڈ آف دی ہسٹری کون ہے؟ ایک حدیث میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیاں جوڑ کر ارشاد فرمایا کہ میں اور قیامت آپس میں یوں ہیں۔ یعنی ہمارے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے، اس لیے میں کہتا ہوں کہ اینڈ آف دی ہسٹری ہم ہیں، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ہم نے ایک باری بھگتی ہے اور ایک باری ہم نے بھگتنی ہے اس کے بعد قیامت آئے گی۔