روزنامہ جنگ لاہور ۱۲ اگست ۱۹۹۶ء کی رپورٹ کے مطابق ۱۱ اگست کو لاہور میں مسیحی اقلیت کی دو تنظیموں نے عوامی ریلی کا اہتمام کیا جس کی قیادت کلمنٹ شہباز بھٹی اور پطرس غنی نے کی۔ اس ریلی میں وزیراعظم پاکستان کی معاون خصوصی بیگم شہناز وزیر علی نے بھی شرکت کی اور شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حکومت بلدیاتی انتخابات میں بھی اقلیتوں کے لیے دوہرے ووٹ کا حق رائج کرے گی۔
اقلیتوں کے لیے دوہرے ووٹ کے حق کی تجویز اس سے قبل وفاقی کابینہ کے ایک فیصلے کی صورت میں سامنے آ چکی ہے جس پر دینی اور سیاسی حلقوں کے شدید احتجاج کے باعث سرکاری حلقوں میں کچھ خاموشی سی ہو گئی تھی جس کا مطلب یہ سمجھا گیا کہ حکومت نے اس تجویز پر شدید ردعمل کے باعث اپنا ارادہ مؤخر کر دیا ہے، لیکن بیگم شہناز وزیر علی کے اس اعلان سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ حکومت نے اس تجویز پر دینی و سیاسی حلقوں کے ردعمل کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور وہ اس تجویز پر عملدرآمد بلکہ اس کا دائرہ بلدیاتی انتخابات تک وسیع کرنے کا عزم رکھتی ہے۔
اس ریلی میں مسیحی راہنماؤں نے توہین رسالت کی سزا کا قانون ۲۹۵۔سی ختم کرنے کا مطالبہ دہرایا اور اس کے ساتھ کلمنٹ شہباز بھٹی نے اپنے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بجائے عوامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا جانا چاہیے۔ ہمارے نزدیک شہباز بھٹی کا یہ کہنا پاکستان کی نظریاتی اساس پر براہ راست حملہ ہے اور اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسیحی اقلیت کی بعض تنظیمیں اپنے مطالبات میں کس طرح تمام اصولی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کر رہی ہیں۔
یہ صورتحال ملک کی دینی و سیاسی جماعتوں کی بے حسی اور اقلیتوں کی سرگرمیوں کے بارے میں ان کے مسلسل تغافل کا منطقی نتیجہ ہے، اور اگر اس نوعیت کی اقلیتی تنظیموں کی پیشرفت اسی طرح جاری رہی تو اس کے نتائج کی ذمہ داری سے دینی جماعتیں اور ان کے راہنما خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکیں گے۔