بنگلہ دیش میں شریعت کونسل کی سرگرمیاں

   
۱۸ جنوری ۲۰۰۴ء

مولانا محی الدین خان ڈھاکہ کے بزرگ علماء کرام میں سے ہیں۔ متحدہ پاکستان کے دور میں جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہنما تھے، مشرقی پاکستان میں جمعیۃ علماء اسلام کو منظم کرنے میں انہوں نے بھرپور کام کیا۔ یہ صدر محمد ایوب خان کے دور کی بات ہے۔ وہ جمعیۃ کے اجلاسوں کے لیے لاہور بھی تشریف لاتے رہے، ڈھاکہ سے ’’المدینہ‘‘ کے نام سے بنگلہ زبان میں ایک جریدہ شائع کرتے ہیں جو اس زمانہ میں بھی تھا اور بنگلہ دیش کے علمی حلقوں میں اسے توجہ سے پڑھا جاتا ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی تفسیر معارف القرآن کا انہوں نے بنگلہ زبان میں ترجمہ کیا اور اس کے علاوہ بھی بنگلہ میں دینی علوم کی ترویج کے لیے مسلسل سرگرم رہتے ہیں۔ آج کل جمعیۃ علماء اسلام بنگلہ دیش کے نائب امیر ہیں، لیکن سرگرمیوں اور تگ و دو کا دائرہ زیادہ تر علمی و فکری ہے۔

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کافی عرصہ تک ان سے رابطہ نہیں ہوا تھا، مگر چند سال قبل لندن میں ان سے ملاقات ہو گئی۔ سلہٹ سے تعلق رکھنے والے نوجوان عالم دین مولانا محمد شعیب نے لندن میں ایک دینی مرکز قائم کر رکھا ہے اور بنگلہ دیش کے علماء کرام پر مشتمل ایک الگ جمعیۃ علماء اسلام بنائی ہوئی ہے۔ مولانا محی الدین خان ان کے پاس تشریف لائے ہوئے تھے اور میں بھی ان دنوں لندن میں تھا۔ مجھ سے مولانا عیسیٰ منصوری نے ان کے بارے میں پوچھا کہ کیا آپ انہیں جانتے ہیں؟ میں نے جواب اثبات میں دیا اور کہا کہ وہ تو ہمارے جمعیۃ کے اہم بزرگوں میں سے ہیں، چنانچہ ان سے ملاقات کا پروگرام طے ہو گیا۔ ہم حاضر ہوئے تو بہت خوش ہوئے۔ دیر تک پرانی یادیں تازہ کرتے رہے، پھر میری سرگرمیوں کے بارے میں دریافت کیا تو عرض کیا کہ عملی سیاسی سرگرمیاں بوجوہ اب میرے بس میں نہیں رہیں اور ویسے بھی طبیعت ان سے اکتا گئی ہے، اس لیے میں نے خود کو تعلیمی اور فکری دائرہ میں محدود کر لیا ہے۔ تدریسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ نفاذ اسلام کی جدوجہد کی فکری و علمی ضروریات کے حوالے سے کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں اور کسی مسئلہ پر کوئی رائے قائم ہوتی ہے تو کسی کالم میں اسے پیش کر دیتا ہوں۔ مولانا محی الدین خان نے کہا کہ ان کا حال بھی یہی ہے اور وہ بھی زیادہ تر اسی نوعیت کی سرگرمیوں میں محو رہتے ہیں۔

چنانچہ ہمارے حالیہ سفر بنگلہ دیش کے دوران ہمارے وفد کے اعزاز میں ڈھاکہ کے گرینڈ آزاد ہوٹل میں انہوں نے ایک پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا، تو اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بھی ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کی طرز پر ’’شریعت کونسل بنگلہ دیش‘‘ کی تشکیل کی ہے اور یہ عشائیہ شریعت کونسل بنگلہ دیش کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور بنگلہ دیش کے سابق وزیر مذہبی امور جناب ناظم الدین آزاد نے بھی خطاب کیا۔ مولانا محی الدین خان کا کہنا یہ تھا کہ علمی و فکری معاملات اور مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار کا سامنا کرنے کے لیے بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت کے علماء کرام اور دینی مراکز کو باہمی مشاورت اور رابطہ کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی طے کرنی چاہیے اور باہمی تبادلہ خیالات کا کوئی نہ کوئی نظم ضرور قائم کرنا چاہیے۔

راقم الحروف نے گزارش کی کہ ہمارے بہت سارے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ایک تحریک لے کر آگے بڑھتے ہیں اور کوئی ہدف طے کر کے اس کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تو اس کے لیے ہمارے پاس ہوم ورک، پیپر ورک یا فائل ورک طرز کا کوئی مواد موجود نہیں ہوتا۔ سطحی ہاتوں اور جذباتی نعروں کے زور پر آگے بڑھتے ہیں اور ایک حد تک جا کر ہمیں رک جانا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ کسی علمی اساس اور فکری تیاری کے بغیر آج کے دور میں کسی تحریک کا کامیاب ہونا اور کسی جدوجہد کا منطقی نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں اکثر اوقات اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اسلام کا راستہ روکنے والی قوتیں اور لابیاں کس انداز سے کام کر رہی ہیں، ان کا طریق کار کیا ہے، ان کے ہتھیار کیسے ہیں اور ان کے کام کے اثرات و نتائج کیا ہیں؟ جبکہ اسلام دشمن عناصر وقت کے ساتھ ساتھ اپنا طریق کار اور وسائل و ذرائع تبدیل کرتے رہے ہیں، مگر ہمارے ہاں انہیں چیک کرنے اور واچ کرتے رہنے کا کوئی نظم موجود نہیں ہے۔

مجھے عملی سیاست سے کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اہم مورچہ ہے جسے خالی نہیں رہنا چاہیے اور جو لوگ اس کام کے لیے موزوں ہیں انہیں وہی کام کرنا چاہیے اور باقی لوگوں کو انہیں سپورٹ کرنا چاہیے۔ البتہ مجھے اس بات سے اختلاف ہے کہ سب لوگ ایک ہی محاذ اور طریق کار پر قناعت کر کے بیٹھ جائیں اور یہ سمجھنے لگیں کہ دینی جدوجہد کے سارے تقاضے اسی ایک محاذ سے پورے ہو جائیں گے۔ یہ قلعی طور پر غلط بات ہے، تقسیم کار کے فطری اصول کے خلاف ہے اور ہماری بہت سی ناکامیوں کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔

راقم الحروف نے گزارش کی کہ ہم نے پاکستان شریعت کونسل صرف اس اصول پر تشکیل دی ہے کہ کچھ علماء اور اہل دانش کو عملی سیاست سے لاتعلق ہو کر صرف علمی اور فکری بنیاد پر اسلامائزیشن کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہ ایک مستقل محاذ ہے جس کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ کام کرنے والوں کو اس بات سے غرض نہ ہو کہ اقتدار پر کون ہے اور اپوزیشن کا مورچہ کس کے پاس ہے؟ وہ ملک کی صورتحال پر نظر رکھتے ہوئے نفاذ اسلام کے علمی و فکری تقاضوں کی نشاندہی کرتے رہیں اور اس حوالہ سے جو کام وہ کر سکتے ہیں اس کے لیے خود کو وقف رکھیں۔

مجھے خوشی ہے کہ بنگلہ دیش میں بھی اسی سوچ پر ’’شریعت کونسل‘‘ کا قیام عمل میں آ گیا ہے اور اس کی قیادت حضرت مولانا محی الدین خان جیسے مدبر دانش ور اور بزرگ عالم دین کے ہاتھ میں ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارا آپس میں رابطہ رہے گا اور ہم مل جل کر اس محاذ پر کچھ نہ کچھ اپنی استطاعت اور توفیق کے مطابق ضرور کرتے رہیں گے۔

مولانا عیسیٰ منصوری نے بھی اپنے خطاب میں اس بات پر مسرت کا اظہار کیا اور علماء کرام پر زور دیا کہ وہ وقت کی ضروریات کو سمجھیں، دورِ جدید کے تقاضوں پر نظر رکھیں اور مغربی فلسفہ و ثقافت نے مسلمانوں کے لیے جو چیلنج کھڑے کر دیے ہیں ان کا ادراک حاصل کریں۔ کیونکہ اسی صورت میں وہ آج کے دور میں اپنی دینی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ برآ ہو سکیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter