جامع مسجد امن باغبانپورہ لاہور کے خطیب مولانا قاری جمیل الرحمان اختر اپنے والد گرامی حضرت مولانا محمد اسحاق قادریؒ اور ان کے شیخ و مربی حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے صبح نماز فجر کے بعد روزانہ درس قرآن کریم دیتے ہیں۔ درس قرآن کریم کا ایک دور مکمل ہونے پر انہوں نے ۱۵ اپریل ہفتہ کو بعد نماز مغرب خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جس میں حضرت مولانا قاضی ارشد الحسینی آف اٹک نے قرآن کریم کی آخری سورتوں کا درس دیا۔ راقم الحروف نے بھی اس موقع پر کچھ گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سورۃ المائدہ آیت ۴۴ تا آیت ۵۰ میں اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد اور تسلسل بیان فرمایا ہے کہ ہم نے تورات نازل کی جس کے مطابق حضرات انبیاء کرام علیہم السلام لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرتے تھے، پھر انجیل نازل کی اور اس کے ماننے والوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے معاملات اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اس کتاب کے مطابق کیا کریں، اس دوران زبور نازل ہوئی اور حضرت داؤد علیہ السلام کو بھی اللہ رب العزت نے یہی حکم دیا کہ وہ لوگوں کے معاملات اور تنازعات کا کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کریں، اور ان سب کے بعد قرآن کریم نازل ہوا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور ان کی اصل تعلیمات کا محافظ ہے۔
یہ سب کچھ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ’’وان احکم بینہم بما انزل اللہ‘‘ آپ لوگوں کے مسائل و معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی اس وحی کے مطابق نمٹائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور بات یہ فرمائی کہ ’’ولا تتبع اھواءھم‘‘ لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ یہ بات پہلے انبیاء کرامؑ سے بھی کہی گئی تھی جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے تذکرہ میں قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ البتہ لوگوں یعنی سوسائٹی کی خواہشات پر نہ چلنے کی تلقین کرتے ہوئے قرآن کریم میں ایک جگہ یہ کہا گیا ہے کہ ’’عما جاءک من الحق‘‘ آپ کے پاس جو وحی آئی ہے اس کے مقابلہ میں لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی ہر خواہش کو مسترد کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ سوسائٹی کی جو خواہشات وحی الٰہی یا دوسرے لفظوں میں منصوص احکام سے متصادم ہوں وہ قابل قبول نہیں ہیں۔
یہاں ایک اور بات اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائی ہے جس کے بارے میں آج قدرے تفصیل کے ساتھ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ’’واحذرھم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک‘‘ لوگوں سے اس معاملہ میں بچ کر رہیں کہ وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض احکام کے بارے میں آزمائش میں ڈال دیں۔ یہ ایک خطرہ کی نشاندہی ہے کہ لوگ وحی الٰہی کے بعض احکام کے بارے میں آنحضرتؐ کو آزمائش میں ڈالنے کی کوشش کریں گے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچ کر رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ جبکہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۷۳ تا ۷۵ میں بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبرؐ کو وحی الٰہی کے بارے میں آزمائش میں ڈالنے کی عملاً بھی کوشش کی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ انہیں محفوظ رکھا اور اس فتنے اور سازش کو ناکام بنا دیا۔ یہ آزمائش کیا تھی اور کن لوگوں نے کس قسم کی منصوبہ بندی کی تھی؟ اس کے بارے میں ان آیات کریمہ کے ضمن میں مفسرین کرامؒ نے مختلف واقعات و احوال کا ذکر کیا ہے ان میں سے بعض واقعات مکہ مکرمہ کے ہیں اور بعض مدینہ منورہ کے ہیں، مثلاً:
- قریش کے بعض سرداروں نے جناب نبی کریمؐ سے کہا کہ آپ حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں مگر ہمارے خداؤں کو ہاتھ نہیں لگاتے، یا تو آپ ہمارے بتوں کا بھی استلام کریں یعنی انہیں بوسہ دیں ورنہ ہم آپ کو حجر اسود کا استلام نہیں کرنے دیں گے۔
- ایک موقع پر ان سرداروں نے جناب رسول اللہؐ سے کہا کہ اگر آپ بھی ہمارے بتوں کے پاس حاضری دیا کریں تو ہم آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک ہونے کے لیے تیار ہیں۔
- ابوجہل اور امیہ بن خلف نے ایک موقع پر نبی کریمؐ سے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو ہماری طرف مبعوث کیا گیا ہے تو پھر ان ضعفاء او رکمزور طبقات کے لوگوں کو اپنے پاس کیوں بٹھائے رکھتے ہیں، انہیں مجلس سے اٹھا دیں تاکہ ہم بڑے لوگ آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی بات سن سکیں۔
گویا یہ قریش کے سرداروں کی طرف سے آنحضرتؐ کو مصالحت کی پیشکش تھی جو مختلف مواقع پر ہوئی۔ میں اس حوالہ سے عرض کیا کرتا ہوں کہ جناب رسول اکرمؐ کو اعلان نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں چار مراحل سے گزرنا پڑا:
- جب آپ نے قرآن کریم لوگوں کو سنانا شروع کیا اور توحید کی دعوت دی تو سب سے پہلے طعن و تشنیع، استہزا، تحقیر اور الزام تراشی کا بازار گرم کیا گیا۔
- جب اس سے بات نہ بنی تو اذیتوں اور تکالیف کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کم و بیش ایک عشرہ تک جاری رہا اور نبی کریمؐ اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف کرب و اذیت اور تشدد و جبر کا ہر حربہ آزمایا گیا۔
- اس سے بھی اسلام کا راستہ نہ رکا تو مکہ مکرمہ اور اردگرد کے قبائل نے متحد ہو کر آنحضرتؐ اور ان کے ساتھیوں کا سوشل بائیکاٹ کر دیا جو تین سال تک چلتا رہا۔
- اور جب اس میں بھی ناکامی ہوئی تو چوتھے مرحلہ میں سودے بازی اور بارگیننگ کا راستہ اختیار کیا گیا کہ آپؐ ہمارے خداؤں کی نفی نہ کریں اور ان کے پاس بھی کبھی کبھار آجایا کریں تو ہم بھی دین اسلام کے بارے میں لچک پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں، اس پیشکش اور مصالحتی فارمولا کو قرآن کریم میں سورۃ الکافرون کے ذریعے مسترد کر دیا گیا۔
جبکہ مدینہ منورہ کے حوالہ سے مفسرین کرامؒ طائف کے بنو ثقیف کے وفد کی اس ملاقات کا ذکر کرتے ہیں جس میں انہوں نے قبول اسلام کے لیے چند شرائط پیش کی تھیں مثلاً:
- ہمیں اپنا بت ’’لات‘‘ توڑنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔
- مکہ مکرمہ کی طرح طائف کو بھی حرم قرار دیا جائے گا۔
- ہمیں اپنے بت خانوں کے نذرانے وصول کرنے کے لیے ایک سال کا وقت دیا جائے گا۔
- ہم نماز میں رکوع اور سجدہ نہیں کریں گے اور سر نہیں جھکائیں گے۔
- شراب کا چھوڑنا ہمارے لیے مشکل ہوگا۔
- سود کا کاروبار ترک نہیں کریں گے۔
- زنا بھی ترک نہیں کریں گے، وغیر ذالک۔
یہ شرائط مذکورہ تفسیری روایات کے ساتھ ساتھ سیرت کی کتابوں میں جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ بنو ثقیف کے وفد کی ملاقات کے تذکرہ میں بھی بیان کی گئی ہیں۔
سورہ بنی اسرائیل کی مذکورہ آیات کریمہ میں کہا گیا ہے کہ اگر جناب رسول اللہؐ کفار کی ان شرائط کو قبول کر لیتے تو یہ آپ کے ساتھ دشمنی ترک کر کے آپ کو دوست بنا لیتے۔ اور یہ بھی ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ ’’لقد کدت ترکن الیہم‘‘ نبی کریمؐ تو شاید کسی مصلحت کے پیش نظر نرمی اختیار کر لیتے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثابت قدم رکھا اور کفار کے اس جال میں پھنسنے سے بچا لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جال میں الجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہ ساری روایات سورہ بنی اسرائیل کی مذکورہ آیات کا شان نزول نہ بھی ہوں تو مصداق ضرور ہیں اور ان سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے کہ ان لوگوں کی طرف سے وحی الٰہی کے بعض احکام کے بارے میں آزمائش میں ڈالنے کے جس خطرے کی بات سورہ المائدہ میں کی گئی ہے اور جس کے لیے کفار کی سازش اور بھرپور کوشش کا ذکر سورہ بنی اسرائیل میں موجود ہے اس سے مراد اسلامی عقائد و احکام کے بارے میں کفر و اسلام کے درمیان کوئی مشترکہ راستہ نکالنے کی کوشش ہے جس کے لیے مکہ مکرمہ کے قریش اور طائف کے بنو ثقیف نے پوری محنت کی مگر اللہ تعالیٰ نے اسے کامیاب نہیں ہونے دیا اور اسلام کو اصلی حالت میں باقی رکھنے کا وعدہ پورا فرمایا۔
اس پس منظر میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آسمانی تعلیمات، اسلامی عقائد اور منصوص احکام و قوانین کے حوالہ سے ہمیں آج بھی اسی قسم کے چیلنج کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر یہ چیلنج درپیش ہے کہ اسلام کی بات کو صرف مثبت حوالہ سے پیش کیا جائے اور اس کے عنوان سے دوسروں کی نفی نہ کی جائے۔ یعنی جس کو آپ صحیح سمجھتے ہیں اسے صحیح کہیں لیکن جسے غلط اور باطل سمجھتے ہیں اس کے متعلق خاموشی اختیار کریں، جھانسہ یہ ہے کہ پازیٹو بات کریں نیگیٹو بات نہ کریں، چنانچہ اتحاد بین المذاہب کی عالمی مہم کا ٹارگٹ یہی ہے جس کا سب سے بڑا ہدف اسلام اور مسلمان ہیں۔ جبکہ اندرونی ماحول میں ہمیں اس چیلنج کا سامنا ہے کہ نماز وغیرہ فرائض کی پابندی اور اس سلسلہ میں سختی سے گریز کیا جائے اور شراب، زنا اور سود وغیرہ صریح محرمات کے بارے میں لچک پیدا کی جائے۔ میری طالب علمانہ رائے میں قرآن کریم نے اسی قسم کی صورتحال کو ’’ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور اسے وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کے لیے خطرہ اور چیلنج قرار دیتے ہوئے اس سے بچ کر رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ بلکہ ایسے معاملات میں لچک پیدا کرنے پر ’’اذًا لأذقناک ضعف الحیاۃ وضعف الممات‘‘ کی وعید اور دھمکی بھی ارشاد فرمائی ہے۔
اس لیے قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر بیان کرنے والوں اور قرآن فہمی کے حلقوں کا اہتمام کرنے والوں سے میری اکثر یہ گزارش رہتی ہے کہ لوگوں کو قرآن و سنت کے فہم سے بہرہ ور کرتے ہوئے اس فتنے اور آزمائش کو ہر وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و اسوہ کی طرف نسل انسانی کی صحیح راہنمائی کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔