احتساب کا عمل اور خلافتِ راشدہ

   
تاریخ : 
۱۸ نومبر ۱۹۹۹ء

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے قومی دولت لوٹنے والوں کے بے لاگ احتساب کا اعلان کیا ہے۔ قومی دولت کی قومی خزانے میں واپسی اور لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کا احتساب ایک دیرینہ عوامی مطالبہ ہے جس پر پہلے بھی کئی حکومتوں نے توجہ دینے کا اعلان کیا مگر انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ اسی لیے جنرل پرویز مشرف کے اس اعلان پر بھی ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے اور بہت سے لوگ دبے لفظوں میں اس خدشہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے بھی اگر اپنے تمام تر خلوص اور عزم کے باوجود احتساب اور قومی دولت کی واپسی کے لیے روایتی طریق کار اختیار کیا اور موجودہ مشینری کے ذریعہ ہی احتساب کرنا چاہا تو وہ اپنا ہدف حاصل نہیں کر پائیں گے۔ کیونکہ ماضی کا تجربہ گواہ ہے کہ احتساب کرنے والوں سے وہ خفیہ ہاتھ اکثر زیادہ طاقتور ثابت ہوتے ہیں جو احتساب کے شکنجے میں جکڑنے والوں کو بچانے کے لیے عین وقت پر حرکت میں آ جاتے ہیں۔ اور احتساب کے قواعد و ضوابط کی بجائے وہ رشتہ داریاں زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں جن کا جال بیوروکریسی، فوج، سیاست دانوں اور جاگیرداروں میں مشترک طور پر پھیلا ہوا ہے اور جو ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانتے دیتیں۔

اس لیے باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے، قومی دولت کی واپسی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے شکنجے سے نجات حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلی ضرورت موجودہ سسٹم کی تبدیلی کی ہے۔ کیونکہ یہ سسٹم استحصالی ہے اور اس کی بنیاد دولت کو غریب عوام کی رگوں سے کھینچ کر مخصوص طبقات تک اور پھر ان کی وساطت سے عالمی مالیاتی اداروں تک پہنچانے کے فلسفہ پر ہے۔ اور جب تک یہ نظام موجود ہے اس وقت تک اس نظام کے تحت مختلف کردار اپنا اپنا کام کرتے رہیں گے اور نظام کی اصلاح کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوگی۔ البتہ اگر ہم اپنے شاندار ماضی کی طرف رجوع کرتے ہوئے خلفاء راشدینؓ کے طرز عمل کو راہنما بنانے کا حوصلہ کر لیں تو اس مخمصہ سے نجات کی راہ تلاش کی جا سکتی ہے۔

اس سلسلہ میں گزشتہ روز دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب سے دو واقعات سنے جو انہوں نے جامعہ علوم شرعیہ بیکری چوک ویسٹرج راولپنڈی میں ختم بخاری شریف کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بیان کیے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے انہیں پیش کیا جا رہا ہے۔

پہلا واقعہ حضرت ابوہریرہؓ کا ہے جنہیں امیر المومنین حضرت عمر بن الخطابؓ نے بحرین کا گورنر بنا کر بھیجا۔ حضرت عمرؓ کا معمول تھا کہ کسی کو والی یا عامل مقرر کرتے تو اس وقت اس کی ملکیت میں جو کچھ ہوتا وہ معلوم کر لیتے، جب وہ اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر آتا تو اس وقت کے اثاثوں سے اس کا موازنہ کرتے۔ اگر کوئی چیز اس کے پاس معمول کی اشیا سے زائد ہوتی تو اسے ضبط کر کے بیت المال میں جمع کروا دیتے۔ حضرت ابوہریرہؓ جب بحرین سے دو سال بعد واپس آئے اور حضرت عمرؓ سے ملے تو ان کے کندھے پر ایک بھاری گٹھڑی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو بتایا کہ یہ دس ہزار درہم انہوں نے کاروبار کے ذریعے کمائے ہیں اور ان کے ذاتی ہیں۔ لیکن حضرت ابوہریرہؓ کی یہ وضاحت حضرت عمرؓ نے قبول نہ کی اور یہ کہہ کر وہ دس ہزار درہم ضبط کر کے بیت المال میں جمع کرا دیے کہ آپ کو بحرین میں کاروبار کرنے اور ہدیے وصول کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا تھا۔

دوسرا واقعہ حضرت سعید بن عامرؓ کا ہے جنہیں حضرت عمرؓ نے حمص کا گورنر بنا کر بھیجا تھا۔ ایک موقع پر حضرت عمرؓ حمص گئے تو وہاں کے عوام سے ایک اجتماع میں گورنر کے بارے میں ان کی رائے پوچھی۔ سب لوگوں نے گورنر کی تعریف کی مگر ایک صاحب نے اجتماع میں کھڑے ہو کر کہا کہ ہمیں اپنے گورنر سے چار شکایتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ سابقہ گورنر صبح نماز فجر کے بعد لوگوں کی داد رسی کے کام میں مشغول ہو جایا کرتے تھے مگر یہ صاحب نماز فجر کے بعد گھر جاتے ہیں اور تقریباً ایک گھنٹہ کے بعد باہر آتے ہیں جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ دوسری شکایت یہ ہے کہ عشاء کے بعد گھر کا دروازہ بند کر لیتے ہیں اور صبح تک کسی سے نہیں ملتے۔ تیسری شکایت یہ ہے کہ ہفتہ عشرہ کے بعد ایک دن مکمل گھر میں دروازہ بند کر کے گزارتے ہیں اور کسی سے ملاقات نہیں کرتے۔ اور چوتھی شکایت یہ ہے کہ یہ کبھی کبھار لوگوں میں بیٹھے ہوئے بے ہوش ہو جاتے ہیں اور کافی دیر تک ہوش میں نہیں آتے جس سے دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کا حرج ہوتا ہے۔

امیر المومنین حضرت عمرؓ نے حمص کے گورنر کو ان شکایات کا جواب دینے کا حکم دیا۔ انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ یہ ساری باتیں درست ہیں مگر اس کی کچھ وجوہات ہیں۔

  • پہلی شکایت کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بیوی بیمار ہے جو گھر کا کام کاج نہیں کر سکتی جبکہ ان کے پاس اپنا خادم رکھنے کی گنجائش نہیں ہے، اور وہ بیت المال کے خرچہ سے خادم رکھنا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے صبح نماز فجر کے بعد وہ گھر جاتے ہیں اور آٹا گوندھ کر اپنے لیے اور اپنی بیوی کے لیے روٹی پکاتے ہیں اور گھر کے دوسرے ضروری کام سرانجام دیتے ہیں جس میں کچھ وقت لگ جاتا ہے۔
  • دوسری شکایت کے متعلق بتایا کہ رات کا وقت ان کا عبادت کے لیے مخصوص ہے اس لیے وہ عشاء کے بعد کسی سے نہیں ملتے۔
  • تیسری شکایت کی وجہ یہ ہے کہ ہفتہ عشرہ کے بعد جب ان کے جسم کا لباس زیادہ گندا ہو جاتا ہے تو اسے دھوتے ہیں اور چونکہ ان کے پاس ایک ہی جوڑا ہے جس کے سوکھنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے اس لیے وہ ہفتہ دس دن کے بعد ایک روز اپنے لباس اور جسم وغیرہ کی صفائی کے لیے فارغ کر لیتے ہیں اور اس روز گھر سے نہیں نکلتے۔
  • چوتھی شکایت کی وجہ یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت خبیبؓ کو جب مکہ والوں نے سولی پر چڑھایا تھا تو وہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اس لیے جب کبھی وہ واقعہ یاد آتا ہے اور اس کا منظر آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے تو وہ اس خیال و احساس کے ساتھ بے ہوش ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر قیامت کے دن ان سے پوچھ لیا کہ تم وہاں موجود تھے تم نے میرے بندے کی مدد کیوں نہ کی تو میرے پاس اس سوال کا کیا جواب ہوگا؟ حضرت عمر یہ جوابات سن کر بے حد خوش ہوئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کے عُمّال میں اس معیار کے لوگ موجود ہیں۔

اس لیے جنرل پرویز مشرف صاحب سے گزارش ہے کہ قومی دولت کی واپسی اور احتساب بہت زیادہ ضروری ہے اور یہ قومی تقاضوں میں پہلی ترجیح کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ سسٹم کو تبدیل کیا جائے اور دینی و اخلاقی تربیت سے بہرہ ور افراد کار پر مشتمل مشینری فراہم کرنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے کیونکہ کسی بھی قومی مہم کے لیے مناسب مشینری اور مشنری جذبہ و تربیت سے بہرہ ور افراد کار کی فراہمی سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter