پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کا پس منظر

   
۲۴ نومبر ۲۰۰۴ء

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما مولانا اللہ وسایا نے آج صبح فون پر یہ افسوسناک اطلاع دی کہ حکومت پاکستان نے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلہ میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ۲۵ نومبر جمعرات کو لاہور میں مختلف دینی جماعتوں کے رہنماؤں کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جا رہا ہے۔ میں نے گزارش کی کہ میں پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق بدھ اور جمعرات کو اسلام آباد میں ہوں گا اس لیے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکوں گا مگر مشترکہ اجلاس میں باہمی مشورہ سے جو پروگرام بھی طے ہوگا اس میں بہرحال حسب سابق شریک ہوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مولانا اللہ وسایا نے بتایا کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم کی طرف سے جو کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے سربراہ بھی ہیں ایک اپیل جاری کی جا رہی ہے کہ ۲۶ نومبر کو پورے ملک میں علماء کرام جمعۃ المبارک کے خطاب میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں اور پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ ختم کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے اس کی دوبارہ بحالی کا مطالبہ کریں۔ انہوں نے بطور مشورہ دریافت کیا کہ ہمیں اس سلسلہ میں کیا کرنا چاہیے؟ میری گزارش ہے کہ ہمارے پاس ہمیشہ ایک ہی کارگر ہتھیار رہا ہے کہ ہم عوام کو اعتماد میں لیتے ہیں اور رائے عامہ کو بیدار کر کے اس کے ذریعے حکمرانوں کو آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مطالبات پر توجہ دیں۔ اب بھی ہمیں یہی کچھ کرنا ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ ہم اگر اپنے اس جائز اور اصولی مطالبہ کے لیے تمام مکاتب فکر کی جماعتوں اور رہنماؤں کو حسب سابق اعتماد میں لیتے ہوئے رائے عامہ کو بیدار اور منظم کرنے کے لیے سنجیدہ محنت کریں تو حکومت کے لیے اس مطالبہ کو نظرانداز کرنا مشکل ہو جائے گا۔

پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کی موجودگی یا اسے ختم کرنے کے مسئلہ کا تعلق موجودہ اور معروضی حالات میں دو امور سے ہے۔ اور یہ صرف اتنا مسئلہ نہیں ہے کہ ایک سرکاری دستاویز میں مذہب کا خانہ موجود تھا جسے اب مبینہ طور پر ختم کر دیا گیا ہے بلکہ اس کا ایک طویل پس منظر ہے جسے ذہن میں رکھے بغیر اس کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔

ایک بات کا تعلق ملک کی اسلامی نظریاتی شناخت سے ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے اس بات کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت کو ختم کر دیا جائے ایسی ہر علامت کو مٹا دیا جائے جس کا تعلق اسلام سے ہے اور جسے دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ملک ان مسلمانوں کا ہے جو اپنے مذہب کی بنیادوں پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اپنے ملک، قوم اور سوسائٹی کی تشکیل میں ان مذہبی بنیادوں کو کارفرما دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات آج کے عالمی حلقوں اور ان کے فکر و فلسفہ کے سامنے سپرانداز ہوجانے والے عناصر کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور ان کی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ جس طرح مغرب نے قومی زندگی میں مذہب کا لبادہ اتار دیا ہے ہم بھی ان کی طرح مذہب کا لباس اتار کر اس حمام میں ننگے ہو جائیں اور مذہب کو فرد کا اختیاری معاملہ قرار دے کر قومی اور معاشرتی زندگی میں اسلام اور کفر یا مسلمان اور کافر کے فرق کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں، چنانچہ:

  • پاکستان کے دستور میں موجود اسلامی دفعات اسی لیے قابل اعتراض ٹھہرتی ہیں،
  • حدود کے شرعی قوانین اسی وجہ سے مورد الزام بنتے رہتے ہیں،
  • توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون اسی وجہ سے انسانی حقوق کے منافی دکھائی دینے لگتا ہے،
  • قرآن و سنت کے بہت سے خاندانی احکام و قوانین اسی بنیاد پر مساوات کے خلاف اور امتیازی قوانین قرار پاتے ہیں،
  • جبکہ دینی مدارس کا سب سے بڑا قصور یہ قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ مسلم معاشرہ میں اسلام اور کفر کے فرق کا ذہن باقی رکھے ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے مسلمان اور کافر کا امتیاز ابھی تک موجود ہے۔

ہمارے بارے میں عالمی استعمار کا ایجنڈا یہ ہے کہ یہ سارے فرق اور امتیاز ختم کر کے مسلمانوں اور کافروں کی ایسی مخلوط سوسائٹی قائم کر دی جائے جس میں نہ کوئی کسی کو مسلمان نظر آئے اور نہ کوئی کسی کو کافر دکھائی دے۔ لیکن اس سلسلہ میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کی بنیاد ہی مسلمان اور کافر کے فرق پر ہے اور جس دو قومی نظریہ کو پاکستان کی اساس قرار دیا جاتا ہے اس کی اس کے سوا کوئی توجیہہ ممکن نہیں ہے کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں، دونوں کی تہذیب اور تمدن ایک دوسرے سے الگ ہے اور دونوں ایک ساتھ ایک تہذیبی ماحول میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اس لیے مسلمانوں کا ایک الگ وطن قائم ہونا ضروری ہے جس میں وہ اپنے مذہب کے اصولوں پر عمل کر سکیں اور اپنے کلچر اور تہذیب کو آزادانہ طور پر اپنا سکیں۔ پاکستان کے قیام کا سب سے بڑا جواز یہی تھا اور اسی جواز کے سہارے پاکستان اب تک ایک الگ ملک کے طور پر کھڑا ہے۔ ورنہ اگر خدانخواستہ اس فلسفہ اور اصول کی نفی کر دی جائے تو پاکستان کے وجود کا اخلاقی اور سیاسی طور پر کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ اور غالباً پاکستان کی اسلامی شناخت کی علامتوں کو ایک ایک کر کے ختم کرتے چلے جانے والے حضرات چاہتے بھی یہی ہیں تاکہ جنوبی ایشیا کے بارے میں عالمی استعمار کے اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار کی جائے جس کا مقصد جنوبی ایشیا کو پھر سے ایک سیاسی وحدت کے دائرے میں سمیٹ کر اس خطہ کے مسلمانوں کو اس صلاحیت اور اس کے اظہار کے مواقع سے محروم کر دینا ہے کہ وہ جداگانہ تشخص کے ساتھ اسلام اور عالم اسلام کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی کردار ادا کر سکیں۔

اس سے قبل شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ شامل کرنے کا فیصلہ کر کے اسے واپس لینے کا پس منظر یہی تھا، شناختی کارڈ اور ووٹر فارم میں مذہب کا خانہ اور عقیدۂ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے کی وجہ یہی تھی، اور اب پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ ختم کرنے کا پس منظر بھی اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ پاکستان میں مسلمان اور کافر کا فرق دستوری طور پر مٹا دیا جائے تاکہ نہ کوئی امتیاز موجود رہے اور نہ ہی اس امتیاز اور فرق کو قانونی اور معاشرتی طور پر ملحوظ رکھنے کے مطالبات کا کوئی جواز باقی رہے۔

اس مسئلہ کا دوسرا پہلو قادیانیت کے حوالہ سے ہے کہ جب قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اور انہیں اسلام کا نام اور مسلمانوں کی مخصوص علامات و شعائر کے استعمال سے روک دیا گیا تو آل پارٹیز ختم نبوت ایکشن کمیٹی نے یہ مطالبہ کیا کہ:

  • چونکہ قادیانیوں کے نام مسلمانوں جیسے ہیں،
  • قادیانی گروہ اپنے غیر مسلم ہونے کے دستوری فیصلہ کو تسلیم نہیں کر رہا،
  • اور قادیانی گروہ کے افراد بیرون ملک جا کر مسلمانوں والے ناموں اور اسلام کے دعویٰ کے ساتھ اسلام اور پاکستان کے خلاف کام کرتے ہیں

اس لیے پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کی موجودگی ضروری ہے تاکہ کوئی قادیانی دستور پاکستان سے انحراف کرتے ہوئے بیرون ملک خود کو مسلمان ظاہر کر کے ایسی سرگرمیوں کا ارتکاب نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ شناختی کارڈ، ووٹر فارم یا پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کی موجودگی پر سب سے زیادہ قادیانی جزبز ہوتے ہیں اور ان کی مسلسل کوشش چلی آرہی ہے کہ انہیں غیر مسلم قرار دینے والے دستوری اور قانونی فیصلے ختم ہو جائیں یا کم از کم وہ عملی امتیازات یا علامتیں قانونی طور پر باقی نہ رہیں جن کی وجہ سے ان کی شناخت مسلمانوں سے الگ ہو جاتی ہے۔ اور اگر پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ ختم کرنے کا فی الواقع فیصلہ ہوگیا ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ قادیانیوں کو ہوگا اور اس کی سب سے زیادہ خوشی بھی انہی کو ہوگی۔

قادیانیوں کو اگر جائز طور پر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ ہم تو انہیں مسلسل یہ دعوت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں ملک کی منتخب پارلیمنٹ کا جمہوری اور اصولی فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے وہ تمام حقوق حاصل کریں جو معروف اور مسلمہ طور پر انہیں حاصل ہونے چاہئیں۔ لیکن قوم اور اس کی پارلیمنٹ کے جمہوری فیصلہ کو مسترد کر کے وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ نہ ان کا حق بنتا ہے اور نہ ہی وہ اس طرح ہٹ دھرمی کے ساتھ قوم سے وہ کچھ لے سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ ختم کرنے سے قادیانیوں کو جو فائدہ مل رہا ہے اس کا تعلق ان کے مسلمہ اور جائز حقوق سے نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور دستور کے فیصلے سے ان کے کھلم کھلا انحراف سے ہے۔ اور پاکستان کی کوئی بھی حکومت جب بھی مسلمانوں اور قادیانیوں میں فرق قائم رکھنے والی کسی علامت کو ختم کرتی ہے تو گویا وہ قادیانیوں کی اس ہٹ دھرمی کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے جو وہ پوری قوم اور دستور کے خلاف اختیار کیے ہوئے ہیں۔

اس لیے صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم جناب شوکت عزیز سے ہماری مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ اس مسئلہ کو صرف چند این جی اوز کی قراردادوں یا کچھ بین الاقوامی لابیوں کی خواہشات کے حوالہ سے نہ دیکھیں بلکہ اس کے وسیع تر پس منظر اور عمومی تناظر میں اس کا جائزہ لیں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان یہ قانونی اور معاشرتی فرق قائم کرنے کا مطالبہ سب سے پہلے مفکر پاکستان علامہ سر محمد اقبالؒ نے کیا تھا، یہ ان کا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کی شناخت کو الگ الگ رکھا جائے۔ اس لیے اگر مولوی کی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آتی تو مفکر پاکستان سے ہی پوچھ لیں کہ وہ قادیانیوں کے بارے میں کیا موقف رکھتے تھے اور ان کی شناخت کو مسلمانوں سے الگ کرنے کے کیوں درپے تھے؟

   
2016ء سے
Flag Counter