اس سال مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی جامع مسجد نور میں ماہ رمضان کی انتیسویں شب کو بعد از تراویح جو معروضات پیش کیں، ان کا خلاصہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی معجزات پر بھی ہمارا ایمان ہے، البتہ ہم نے ان کا مشاہدہ نہیں کیا اور دیکھے بغیر خبرِ صحیح کی بنیاد پر ان پر ایمان رکھتے ہیں، مگر قرآن کریم وہ معجزہ ہے جس پر ہمارا ایمان بھی ہے اور اس کے اعجاز کا ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔ مفسرین کرام نے قرآن کریم کے اعجاز کی بیسیوں وجوہ بیان فرمائی ہیں، جن کا وقتاً فوقتاً اظہار ہوتا رہتا ہے۔ میں ان میں سے دو تین کا تذکرہ کرنا چاہوں گا، جن کا ہم آج کے دور میں بھی کھلی آنکھوں مشاہدہ کر رہے ہیں:
- ایک تو یہی تراویح میں قرآن کریم کا پڑھنا اور سننا ہے۔ قرآن کریم دنیا کی واحد کتاب ہے جو اس اہتمام کے ساتھ پڑھی اور سنی جاتی ہے اور اتنی تعداد میں ہر سال پڑھی جاتی ہے کہ اس کو شمار کرنا شاید کسی کے بس میں نہ ہو۔ میں نے اس سال رمضان المبارک کی پہلی رات کی تراویح امریکا کے شہر بالٹی مور کی مسجد الرحمۃ میں پڑھی ہیں۔ قاری محمد زاہد صاحب نے، جو غالباً حضرت قاری اہل اللہ پانی پتی کے بھانجے ہیں، پانی پتی لہجے میں ڈیڑھ پارہ پڑھا اور بہت لطف آیا۔ سینکڑوں حضرات اور خواتین ان کے پیچھے تراویح ادا کر رہے تھے اور وہ بڑے مزے سے پڑھ رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میرے ذہن میں بات آئی کہ امریکا میں جو عیسائیوں کی غالب اکثریت کا ملک ہے اور مسلمانوں کی تعداد شاید ایک یا دو فیصد سے زیادہ نہ ہو، مگر امریکا کے مختلف علاقوں میں رمضان المبارک کے دوران تراویح میں قرآن کریم سنانے والے حفاظ و قراء کا شمار کیا جائے تو وہ یقیناً سینکڑوں میں نہیں، بلکہ ہزاروں میں ہوں گے۔ لیکن پچانوے فی صد سے زیادہ اکثریت رکھنے والے اس عیسائی ملک میں اگر انجیل سنانے والا کوئی حافظ تلاش کیا جائے تو ایک بھی نہیں ملے گا۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے اور اسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے“۔
- اسی طرح قرآن کریم کے اعجاز کے ایک اور پہلو پر بھی نظر ڈال لیں جو ہماری نگاہوں کے سامنے زندہ حقیقت کے طور پر موجود ہے اور پوری دنیا اس کا مشاہدہ کر رہی ہے، وہ یہ کہ دنیا میں قرآن کریم کی تعلیم کی جوں جوں مخالفت بڑھ رہی ہے، قرآن کریم کے حافظوں اور قاریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم اور اس کے مکاتب و مدارس کی مخالفت کی سطح دیکھ لیجئے، اس کی وسعت پر ایک نظر ڈال لیجئے اور پھر یہ منظر بھی دیکھئے کہ مخالفت، کردار کشی اور رکاوٹوں کے اس عالمگیر ماحول میں حافظوں، قاریوں اور عالموں کی تعداد میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بھی قرآن کریم کے اعجاز کا ایک پہلو ہے، جس کا ہم جیسے پندرہویں صدی کے گنہگار اور بے کار مسلمان بھی نہ صرف مشاہدہ کر رہے ہیں، بلکہ اس پر پورے فخر کے ساتھ دنیا کی باقی اقوام کے سامنے سر اٹھائے کھڑے ہیں۔
- قرآن کریم کے ایک اور اعجاز کا بھی ہم نے آج کے دور میں کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے اور وہ دنیا کے ریکارڈ پر ہے۔ ہمارے پڑوس افغانستان میں اس وقت دو مسئلوں نے دنیا بھر کو پریشان کر رکھا ہے اور انہیں ان کا کوئی حل سجھائی نہیں دے رہا:
- ایک ”وار لارڈز“ کا مسئلہ ہے کہ قبائلی سرداروں کی باہمی چپقلش اور جنگوں پر قابو پانا مشکل نظر آ رہا ہے۔ ابھی افغانستان میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کے حوالے سے بھی دنیا اسی تشویش کا اظہار کر رہی ہے کہ اس میں جنگی سرداروں کی بڑی تعداد پارلیمنٹ میں آ گئی ہے۔
- دوسرا مسئلہ پوست کی کاشت کا ہے، جو اب افغانستان میں ریکارڈ مقدار میں کاشت ہو رہی ہے۔ اس پر قابو پانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا ہے اور امریکا اور اس کے اتحادی تمام تر کوششوں کے باوجود اسے ختم کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
مگر یہ دونوں مسئلے طالبان کے دور میں ان کے اختیار و حکومت کے دائرے میں مکمل طور پر قابو میں تھے۔ یو این او سمیت عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق اس دور میں طالبان حکومت کے دائرہ اختیار میں ”وار لارڈز“ کا کوئی وجود نہیں تھا اور پوست کی کاشت بھی مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی۔ ظاہر بات ہے کہ یہ صرف قرآن کریم کے قانون کی برکت تھی، ورنہ طالبان کے پاس نہ امریکا سے زیادہ قوت تھی اور نہ ہی وہ امریکا سے زیادہ سرمایہ اور وسائل رکھتے تھے۔ یہ صرف قرآن و سنت کے قوانین کے نفاذ کا ثمرہ تھا کہ وہ مسائل جنہوں نے دنیا بھر کو پریشانی سے دو چار کر رکھا ہے، ایک سادہ اور غریب سی حکومت کے قابو میں تھے اور یہ قرآن کریم کے اعجاز کی ایک عملی صورت ہے، جس کا مشاہدہ آج کی دنیا نے بھی کیا ہے اور کسی قوم کے پاس اس اعجاز کا کوئی جواب موجود نہیں ہے۔
اس پس منظر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بے شک زندگی کے باقی سب شعبوں میں ہم مغرب کے مقابلہ میں پسپا ہوئے ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی میں ہم اس سے بہت پیچھے ہیں، صنعت و تجارت میں اس کے ہم پلہ نہیں ہیں، فوجی قوت میں اس کے پاسنگ بھی نہیں ہیں اور سیاست و حکومت میں بھی وہی ہم پر حاوی ہے، لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جس میں آج بھی مغرب کو شکست کا سامنا ہے اور وہ اپنی مسلسل ناکامی پر دانت پیستا نظر آ رہا ہے۔ وہ یہی قرآن و سنت کی تعلیمات کا میدان ہے، جس کی رونق اور بہاریں نہ صرف قائم ہیں، بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مغرب کو ان کا راستہ روکنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
اس کے ساتھ یہ معروضی حقیقت بھی ہماری نگاہوں کے سامنے رہنی چاہیے کہ قرآن کریم کو آج بھی اسی صورت حال اور چیلنج کا سامنا ہے جس کا اسے آج سے چودہ سو برس پہلے اپنے نزول کے وقت سامنا تھا۔ کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی ہے، اس لیے تاریخ کا پہیہ گھوم کر آج پھر اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں سے قرآن کریم نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ انسانی سوسائٹی اسی طرح وحی الٰہی سے بے نیاز ہو کر خواہش پرستی کا شکار ہو چکی ہے۔ زنا، سود، جوا، بدکاری، فحاشی، عریانی، نسل پرستی اور دیگر معاشرتی برائیاں صرف لیبل اور میک اپ کی تبدیلی کے ساتھ جدید کلچر کے عنوان سے آج کی انسانی سوسائٹی کی مروجہ اقدار بن چکی ہیں۔ بلکہ میں تو کہا کرتا ہوں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں جو تاریخی اعلان فرمایا تھا کہ ’’کل أمر الجاہليۃ تحت قدمی‘‘ جاہلیت کی تمام قدریں میرے قدموں تلے ہیں۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اقدار و روایات کو جاہلی اقدار قرار دے کر پاؤں تلے روند ڈالا تھا، وہ سب کی سب ایک ایک کر کے جدید تمدن اور ترقی یافتہ ثقافت کے عنوان سے نئے میک اپ کے ساتھ پھر سامنے آ گئی ہیں اور اس طرح قرآن کریم کو آج پھر انسانی سوسائٹی میں انہی مسائل کا سامنا ہے، جن سے نمٹ کر اس نے انسانی معاشرہ کو روشنی اور ترقی کی منزل کی طرف بڑھایا تھا۔
آج کی تہذیب و ثقافت جسے ترقی یافتہ اور جدید ثقافت سے تعبیر کیا جاتا ہے، قرآن کریم کی زبان میں وہی جاہلی ثقافت ہے جو قرآن کریم کے نزول اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا میں موجود تھی۔ جدید دنیا نے اس میں کسی ایک قدر کا اضافہ بھی نہیں کیا، بلکہ میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ جاہلیت آج کی جاہلیت سے بعض حوالوں سے بہتر تھی۔ اس کا ایک پہلو مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ جنسی آوارگی اس دور میں بھی بہت تھی اور زنا کو کوئی جرم تصور نہیں کیا جاتا تھا، مگر اس دور کی جاہلیت زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے اور اس کی ماں کو سوسائٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کی بجائے اس کے ذمہ دار کا تعین کرتی تھی، جس کا تذکرہ بخاری شریف میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک تفصیلی روایت میں موجود ہے کہ بدکاری کی صورت میں بچہ پیدا ہونے پر اس کے نسب اور اس کی پرورش کی ذمہ داری کے تعین کا ایک باقاعدہ نظام موجود تھا۔ جبکہ آج کی جاہلیت نے بدکاری کا دروازہ چوپٹ کھول کر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں اور ان کی ماؤں کو سوسائٹی کے دھکے کھانے کے لیے کھلا چھوڑ دیا اور اس پر پردہ ڈالنے کے لیے نسب میں باپ کے ذکر تک کو غیر ضروری قرار دے دیا۔
یہ گزارشات میں اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ آج کی تہذیبی دنیا میں قرآن کریم کو جس چیلنج اور صورت حال کا سامنا ہے وہ ہمارے سامنے ہو اور ہم اس میں اپنا کردار صحیح طور پر ادا کرنے کی تیاری کریں۔ میرا ایمان ہے کہ قرآن کریم آج بھی اس جاہلی تہذیب کو اسی طرح کراس کرتا ہوا آگے بڑھے گا جس طرح اس نے اب سے ڈیڑھ ہزار برس قبل کی اسی نوعیت کی جاہلی ثقافت کو کراس کر کے دنیا کو آسمانی تعلیمات کے سائے میں امن و سلامتی کا پیغام دیا تھا، مگر ہمارے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اس سلسلہ میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ آج ہمارے لیے قرآن کریم کا یہی پیغام ہے کہ ہم آج کے عالمی ماحول میں نسلِ انسانی تک قرآن کریم کا پیغام صحیح طور پر پہنچانے کے لیے اپنے کردار کا صحیح طور پر جائزہ لیں اور اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں سے پیچھا چھڑاتے ہوئے عملی پیش رفت کا اہتمام کریں۔