وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف خان کے نام مکتوب

   
۴ اگست ۲۰۱۶ء

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محترمی سردار محمد یوسف خان صاحب، وفاقی وزیر مذہبی امور و حج و اوقاف حکومت پاکستان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟

قومی علماء و مشائخ کونسل کو فعال اور متحرک بنانے کے حوالہ سے چند تجاویز ارسال خدمت ہیں، امید ہے کہ ان کو سنجیدہ توجہ سے نوازا جائے گا:

  1. کونسل کو اس انداز سے پیش اور متحرک کیا جائے کہ یہ مذہبی حوالہ سے ملک کی عمومی صورتحال پر نظر رکھنے، خرابیوں کی نشاندہی کرنے، اور اصلاحات کے لیے تجاویز سامنے لانے کے لیے ایک باضابطہ علمی ادارے (تھنک ٹینک) کے طور پر متعارف ہو اور تمام قومی ادارے اس کی اس حیثیت کو تسلیم کریں۔
  2. اس کے دائرہ کار کو نشاندہی اور تجاویز تک محدود رکھا جائے، کوئی عملی کردار اس کے سپرد نہ کیا جائے کیونکہ اسے بہت سے اور محکمانہ امور میں مداخلت سمجھا جائے گا اور کونسل اپنا بنیادی کام بھی نہیں کر پائے گی۔
  3. اس کے مقاصد اور دائرہ کار کے حوالہ سے یہ بات صراحت کے ساتھ واضح کر دی جائے کہ یہ کونسل قیام پاکستان کے مقاصد اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کے تحفظ، فروغ اور عملداری کے لیے دستور و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور سیاسی و فرقہ وارانہ کشمکش سے الگ تھلگ رہے گی۔
  4. نصاب تعلیم کے حوالہ سے یہ مناسب ہوگا کہ ’’قومی نصاب تعلیم جائزہ کمیٹی‘‘ کا وفاقی وزارت مذہبی امور کی طرف سے باضابطہ اعلان کیا جائے جو کونسل کی نگرانی میں کام کرے۔ اور جس کا بنیادی کام یہ ہو کہ سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر مختلف تعلیمی اداروں کے نصابوں کا مذہبی حوالہ سے جائزہ لے کر اس کمی اور خلاء کی نشاندہی کرے جو اسے کسی بھی نصاب میں محسوس ہو اور قومی و دینی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تجاویز پیش کرے۔ اس کے لیے میری تجویز یہ ہے کہ نصاب جائزہ کمیٹی محترم صاحبزادہ پیر سید امین الحسنات کی سربراہی میں قائم کی جائے جس میں مختلف مکاتب فکر کے اصحاب علم و دانش شامل ہوں۔ اس کے کام کو عملی طور پر منظم کرنے کے لیے اگر راقم الحروف کو کوئی ذمہ داری سونپی جائے تو میں اس کے لیے حاضر ہوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

    اس حوالہ سے یہ بات سامنے رکھی جائے کہ یہ کمیٹی اگر نصابوں میں تبدیلی کا کوئی ماحول خدانخواستہ پیدا نہ کر سکے تو بھی ملک کے عمومی تعلیمی ماحول کے بارے میں دینی حوالہ سے ایک جامع رپورٹ ضرور سامنے آجائے گی جو مستقبل میں بھی راہنمائی کا کام دے سکتی ہے۔

  5. وفاقی وزارت مذہبی امور کی طرف سے چار پانچ ذمہ دار اور متحرک ارکان پر مشتمل ایک ’’رابطہ گروپ‘‘ تشکیل دیا جائے جو کونسل کے معاملات کو چلانے کے لیے عملی کردار ادا کرے۔
  6. ’’قومی علماء و مشائخ کونسل حکومت پاکستان‘‘ کو وفاقی وزارت مذہبی امور میں ایک آفس مہیا کیا جائے جو محکمہ ہی کے کسی ذمہ دار افسر کی سربراہی میں ہو اور اسے ’’رابطہ گروپ‘‘ کی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے۔
  7. تشکیل و تنظیم کے ان مراحل کے طے ہو جانے کے بعد کونسل کا ایک بھرپور اجلاس صدر پاکستان یا وزیر اعظم کی صدارت میں منعقد کیا جائے تاکہ ان کی طرف سے بھی کونسل کی حمایت اور سرپرستی کا تاثر قائم ہو۔
  8. ان مقاصد سے اتفاق رکھنے والے اہل دانش سے رابطہ قائم کیا جائے اور انہیں بریف کر کے آمادہ کیا جائے کہ وہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ ان کی حمایت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
  9. وفاقی وزارت مذہبی امور کی طرف سے اس سلسلہ میں ایک جامع بریفنگ رپورٹ تیار کر کے اس کی قومی اخبارات میں اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔
  10. وفاقی وزیر مذہبی امور اور وزیر مملکت دونوں بزرگ ’’قومی علماء و مشائخ کونسل‘‘ کے بارے میں وقتاً فوقتاً اپنے بیانات میں پیش رفت کا ذکر کرتے رہیں اور تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کو اس طرف توجہ دلائیں۔ تلک عشرۃ کاملۃ۔

امید ہے کہ آنجناب اس سلسلہ میں غور و فکر کے نتائج سے راقم الحروف کو بھی آگاہ فرمائیں گے۔

شکریہ، والسلام
ابوعمار زاہد الراشدی
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
۴ اگست ۲۰۱۶ء
   
2016ء سے
Flag Counter