شریعت بل ۔ سرحد حکومت نے کونسا جرم کیا ہے؟

   
۷ جون ۲۰۰۳ء

سرحد حکومت کی طرف سے صوبائی اسمبلی میں شریعت بل لانے کی خبر میں نے چند روز قبل بیرون ملک سفر کے دوران پڑھی تو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ ملک میں ایک نئی کشمکش کا آغاز ہونے والا ہے۔ کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک صوبے میں صوبائی اختیارات کے دائرہ میں آنے والے قوانین کو اسلامی شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی باتیں نہ صرف یہ کہ ملک کے اندرونی مقتدر طبقات کو ہضم نہیں ہوں گی بلکہ بیرونی آقاؤں کے لیے بھی یہ قطعی طور پر ناقابل برداشت ہوں گی۔ چنانچہ سرحد اسمبلی نے تو متفقہ طور پر شریعت بل پاس کر دیا اور اپوزیشن کے ارکان نے بھی اس میں حکومت کا ساتھ دیا لیکن اس سے وفاق میں جو کھلبلی مچی ہے اس کا اندازہ پے در پے ہونے والے ان واقعات سے کیا جا سکتا ہے:

  • سرحد کے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے کیونکہ موجودہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ وہ صوبائی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں، اور یہ سمجھا جا رہا ہے کہ صوبائی حکومت کو ناکام بنانے کی حکمت عملی میں شاید انہیں پوری طرح استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔
  • صدر جنرل پرویز مشرف نے اس موقع پر وفاقی حکومت کو یہ ہدایت جاری کرنا ضروری خیال کیا ہے کہ روشن خیال اسلامی مملکت کے تصور کو مجروح کرنے والی کوششوں کو ناکام بنایا جائے۔ اور اس کے ساتھ ہی وفاقی شرعی عدالت کے نئے چار ججوں کے تقرر کا اعلان کر دیا گیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خاصے ’’روشن خیال‘‘ ہیں۔ اس سے وفاقی شرعی عدالت کے دستوری فورم کو ’’روشن خیال اسلام‘‘ کے فروغ کا ذریعہ بنانے کی نئی حکمت عملی کا اندازہ ہوتا ہے۔
  • صوبہ سرحد کے تقریباً تمام اضلاع کے ناضمین نے استعفیٰ دے دیا ہے اور صوبائی حکومت کے خلاف ایک نیا محاذ جنگ کھول دیا ہے جس میں وفاق کی دلچسپی اور حمایت فطری طور پر ناظمین کے کیمپ کے ساتھ ہوگی۔
  • وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد نے جن الفاظ میں سرحد حکومت کو خبردار کیا ہے وہ سرحد حکومت کے ان اقدامات کے بارے میں وفاق کے عزائم کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرحد حکومت کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں کہ وہ کس طرف جا رہی ہے، اس لیے انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ وہ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ کریں کہ خطہ میں موجودہ حالات کے باعث ان کے اقدامات کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
  • صوبہ سرحد میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ایک صوبائی رہنما نے پشاور میں پریس کانفرنس کر کے اعلان کیا ہے کہ وہ صوبائی حکومت کے خلاف صوبہ بھر میں مظاہروں کا اہتمام کر رہے ہیں اور شریعت بل کو عدالت میں چیلنج کرنے کا پروگرام بھی بنایا جا رہا ہے جس کے لیے انہیں پاکستان مسلم (ق) کی ہائی کمان کی حمایت حاصل ہے۔
  • وزیر اعظم اس صورت حال پر اس قدر سیخ پا ہیں کہ انہوں نے جہلم میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں سے اس انداز میں مخاطب ہونے سے بھی گریز نہیں کیا کہ ’’مسجدوں کا پیسہ کھانے والے ملک کا کیا حشر کریں گے؟‘‘
  • دوسری طرف متحدہ مجلس عمل کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے ضلعی حکومتوں کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے صوبہ سر حد کے ضلعی نظماء کے استعفوں پر خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ناظموں کو اپنے استعفوں پر قائم رہنا چاہئے تاکہ صوبائی حکومت اطمینان کے ساتھ کام کر سکے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر صوبہ سرحد کی حکومت کے خلاف کوئی قدم اٹھایا گیا تو اس کے خلاف عوامی احتجاج منظم کیا جائے گا۔
  • صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی نے صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریعت بل پر عمل کیا جائے گا اور جو افسر صوبائی حکومت کی ترجیحات کے مطابق کام نہیں کرے گا اس کے لیے صوبہ میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ کے چیف ایگزیکٹیو کی مرضی کے خلاف چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو استعمال کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔
  • اسی حوالہ سے ایک اور خبر کے مطابق صوبہ سرحد کے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔

اس معرکہ آرائی کے ساتھ وفاق میں ایل ایف او (Legal Framework Order ۲۰۰۲) کے حوالہ سے جاری کشمکش پر ایک نظر ڈال لیں تو صورتحال کا نقشہ قدرے مختلف دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں متحدہ مجلس عمل کی سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمن نے کوئٹہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت ملک میں

  1. قرآن و سنت کو سپریم لاء قرار دینے کا اعلان کر دے،
  2. اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کی طرف پیش رفت کرے،
  3. جمعہ کی چھٹی بحال کر دے،
  4. بلا سود بینکاری کے لیے عملی اقدامات کرے اور
  5. تعلیمی اداروں کی نجکاری روک دے

تو ایل ایف او کے بارے میں متحدہ مجلس عمل اپنے موقف میں لچک پیدا کر سکتی ہے۔ اس پر پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کا یہ تبصرہ سامنے آیا ہے کہ وہ متحدہ مجلس عمل کی شرائط ماننے کے لیے تیار ہیں اور چودھری صاحب کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانون سازی کی بنیاد بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

اس صورت حال میں سرحد کی صوبائی حکومت کے خلاف محاذ آرائی کا بازار گرم کیا جا رہا ہے اور بعض حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ صوبائی حکومت کو برطرف کر کے صوبہ میں گورنر راج نافذ کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ سرحد حکومت نے کون سا جرم کیا ہے کہ اس کے خلاف یہ سارے عناصر صف آراہ ہو گئے ہیں۔ صوبائی اسمبلی نے شریعت بل کے نام سے جو مسودہ قانون منظور کیا ہے وہ ملک کے دستور اور صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار کے اندر رہتے ہوئے کیا ہے۔ اس میں کسی غیر متعلقہ بات کو نہیں چھیڑا گیا اور صرف یہ کہا گیا ہے کہ جو معاملات صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں ان سے متعلقہ قوانین کو قرآن سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا اور ان کی تعبیر و تشریح کے لیے صوبہ کی تمام عدالتیں قرآن و سنت کی پابند ہوں گی۔ یہ بات نہ صرف دستور پاکستان کے مطابق ہے بلکہ خود دستور کے تقاضے کی تکمیل ہے کیونکہ دستور میں قوم کے ساتھ یہ واضح اور دوٹوک وعدہ کیا گیا ہے کہ ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالا جائے گا۔

یہ وعدہ دستوری طور پر قوم سے ۱۹۷۳ء میں کیا گیا تھا اور اس کے لیے ۷ سال کی مدت بھی متعین کی گئی تھی لیکن تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وفاق یا ملک کے کسی صوبے نے اپنے اختیارات کے دائرہ میں قوم کے ساتھ کیے گئے اس وعدہ کو پورا کرنے کی طرف توجہ نہیں دی۔ اور اب اگر ایک صوبے نے اس دستوری وعدہ کو پورا کرنے کی طرف پیش رفت کر دی ہے تو وفاق اور اس کے حواری خود شرمندہ ہونے کی بجائے صوبہ سرحد کی حکومت کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں۔ بالکل اس عوامی کہاوت کی طرح کہ ناک کٹوں کی ایک بستی میں کوئی ناک والا آگیا تو سب ناک کٹے اس کے پیچھے پڑ گئے اور اسے ’’نکو نکو‘‘ کہہ کر بستی سے بھگا دیا۔

اسلامی نظریاتی کونسل بھی ایک دستوری ادارہ ہے جسے دستور پاکستان نے قائم کیا ہے اور اس نے دستور کے تفویض کردہ اختیارات کے تحت ملک کے تمام قوانین کا جائزہ لے کر انہیں اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے جامع سفارشات پیش کر رکھی ہیں۔ انہیں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کر کے ان کے مطابق قانون سازی کرنا تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی آئینی ذمہ داری ہے۔ سرحد حکومت نے اسی دستوری ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ اور پھر سرحد حکومت نے نفاذ شریعت کے لیے کوئی غیر جمہوری اور غیر روایتی طریقہ نہیں اختیار کیا بلکہ عوام کے منتخب نمائندوں نے صوبائی اسمبلی کے فورم پر دستوری اختیارات استعمال کرتے ہوئے روایتی جمہوری طریق کار کے مطابق ایک قانونی بل منظور کیا ہے۔ اس پر جمہوریت اور دستورکا نام لینے والے کسی شخص کو اعتراض کرنے کا آخر کیا حق ہے؟

محترم شیخ رشید احمد نے حالات کی سنگینی اور خطہ کی صورت حال کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ حالات کی یہ سنگینی اور خطہ کی مخدوش صورت حال ہمارے حکمران طبقوں کے اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ وہ گزشتہ نصف صدی سے اسی قسم کے ہتھکنڈوں کے ذریعہ اسلام کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔ اور جب بھی ملک میں نفاذ اسلام کی کوئی سنجیدہ کوشش سامنے آئی ہے مقتدر طبقات اسی طرح اس کے خلاف حرکت میں آجاتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر جمہوری طریق کار سے اور انتخابی راستے سے اسلام کو آگے آنے کا راستہ نہیں دیں گے اور عوام کے ووٹ اور جذبات کا احترام نہیں کریں گے تو متبادل راستوں کو کون بند کر سکتا ہے؟ افغانستان میں طالبان اسی وجہ سے متبادل راستوں سے آگے آئے تھے اور اگر پاکستان میں بھی عوام کو اسلام کے نفاذ کے لیے متبادل راستہ اختیار کرنا پڑا تو اس کی ذمہ داری ان طبقات پر ہوگی جو صرف امریکہ کو خوش کرنے کے لیے جمہوری راستہ سے آنے والے اسلام کی راہ روک رہے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter