الحمد للّٰہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علٰی سید المرسلین وعلیٰ آلہ وازواجہ واتباعہ اجمعین اما بعد۔
حضرات طلبہ کرام!
یہ تین دن کا جو پروگرام ہے، اس میں گفتگو کا عنوان آپ حضرات کے علم میں ہو گا: ’’اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات‘‘۔
آج دنیا میں انسانی حقوق کے اس اعلامیہ کے حوالہ سے بہت سے علمی، فکری، دینی مسائل چل رہے ہیں اور ایک غزوِ فکری، نظریاتی جنگ، جس کو ثقافتی جنگ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ سولائزیشن وار ہے۔ اس کو عقیدے کی جنگ بھی کہہ دیتے ہیں۔
اس وقت جو غزوِ فکری مسلمانوں اور مغرب کے درمیان ہے، اس کی بنیاد اقوام متحدہ کے اس چارٹر پر ہے۔ اس کے حوالہ سے اسلام کے بہت سے احکام و قوانین پر اعتراضات ہیں۔ اور ان اعتراضات کے ذریعہ دنیا میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا راستہ روکا جا رہا ہے، مخالفت کی جا رہی ہے۔ مخالفت کرنے والوں میں غیر مسلم طاقتیں تو ہیں ہی، لیکن بہت سے مسلمان حلقے جو مسلمان امت میں ہیں، مسلمان ممالک میں رہتے ہیں، خود بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مسلم ممالک میں اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی مخالفت کی بنیاد بھی اقوام متحدہ کا یہی چارٹر ہے۔
اس لیے میں اپنے اہلِ علم سے یہ گزارش کیا کرتا ہوں کہ اس کا پس منظر، اس کی نوعیت اور اس کی تفصیلات ہمیں معلوم ہونی چاہئیں کہ ہمارا مغرب کے ساتھ فکری معرکہ اور ثقافتی جنگ کیا ہے، اس کی نوعیت کیا ہے، اس کا پس منظر کیا ہے، اس کا تہہ منظر کیا ہے، اس کا پیش منظر کیا ہے؟
تو یہ گفتگو کا ایک مستقل موضوع ہے۔ جب علماء، اساتذہ اور طلبہ سے بات ہوتی ہے تو میں یہ گفتگو اکثر کیا کرتا ہوں۔ میرا زیادہ تر موضوع انسانی حقوق کے نام پر اس جنگ کے حوالے سے ہی ہوتا ہے۔ اسی پس منظر میں حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی دامت برکاتہم نے حکم دیا اور مولانا مفتی حماد اللہ صاحب کی فرمائش اور اصرار تھا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں امتحان کی چھٹیاں تھیں جس میں تین چار دن کی گنجائش نکل آئی تو میں آپ حضرات کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ دو تین دن آپ حضرات سے تفصیلی ملاقات رہے گی۔ دعا فرمائیں اللہ رب العزت کچھ حق کی باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائیں، دین حق کے حوالے سے اور حق کے حوالے سے جو باتیں علم میں آئیں، سمجھ میں آئیں، اللہ تعالیٰ ان پر عمل کی اور اس مقصد کی خدمت کی توفیق بھی نصیب فرمائیں۔
یہ جنگ انسانی حقوق کے نام سے لڑی جا رہی ہے۔ بنیادی موضوع ہیومن رائٹس کا ہے۔ اس گفتگو میں پہلے ہم یہ سمجھیں گے کہ اسلام میں حقوق کا تصور کیا ہے۔ اس کے بعد ہم آج کی دنیا میں انسانی حقوق کے تصور پر بات کریں گے۔ اس کے بعد ہم اقوام متحدہ کے اس چارٹر پر بحث کریں گے کہ کون کون سی جگہ پر اسلامی تعلیمات کے ساتھ اس کا تنازعہ ہے۔
سب سے پہلے میں عرض کروں گا کہ انسانی حقوق کا ہمارا تصور کیا ہے اور مغرب کا تصور کیا ہے۔ انسانی حقوق ہمارے ہاں بھی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی حقوق بیان کیے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑی تفصیل کے ساتھ اس پر بات کی ہے۔ آپ کو بیسیوں احادیث میں حقوق کا تذکرہ ملے گا۔ بلکہ شمار کیا جائے تو سینکڑوں تک جا پہنچیں گی۔
ایک فرق تو اصطلاح کا ہے۔ ہمارے ہاں حقوق کا لفظ دو حوالوں سے بولا جاتا ہے: حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ ’’لکل أن یصطلح‘‘۔ ہر ایک کی اپنی اصطلاح ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اس کی اصطلاح حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ہے۔ آپ کو قرآن و حدیث اور فقہ کی کتابوں میں سینکڑوں نہیں ہزاروں صفحات ملیں گے جن میں حقوق اللہ اور حقوق العباد پر بحث کی گئی ہے۔
مغرب کی اصطلاح ہیومن رائٹس (انسانی حقوق) کی ہے۔ مغرب حقوق اللہ پر کوئی بات نہیں کرتا۔ صرف حقوق العباد پر بات کرتا ہے اور وہ بھی باہمی حقوق پر۔
ہمارا حقوق کا تصور کیا ہے؟ قرآن کریم کی مختلف آیات میں ’’حق‘‘ کا لفظ بولا گیا ہے۔ بنیادی طور پر حق کے دو بنیادی معنی ہیں:
ایک حق ہے باطل کے مقابلے پر ’’ولا تلبسوا الحق بالباطل وتکتموا الحق وانتم تعلمون‘‘۔ یہاں حق کا لفظ باطل کے مقابلے پر ہے۔ ’’قل جاء الحق وزہق الباطل‘‘۔ یہاں بھی حق باطل کے مقابلے کے معنی میں ہے۔ ’’وکذب بہ قومک وہو الحق‘‘۔ اور ایک جگہ ’’ولا تتبع اہواءہم عما جاءک من الحق‘‘۔ اسی طرح اور آیات بھی ہیں جن میں حق اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔
لیکن حق کا ایک اور مطلب باہمی حقوق کے حوالے سے بھی ہے۔ مثلاً ’’وفی اموالہم حق للسائل والمحروم‘‘۔ اور ایک جگہ ’’واٰت ذا القربٰی حقہ والمسکین وابن السبیل ولا تبذر تبذیرا‘‘۔ یعنی ایک فرد کا دوسرے پر حق۔ ’’کتب علیکم ان ترک خیرانِ الواصیۃ للوالدین والاقربین بالمعروف حقاً علی المتقین‘‘۔ ’’علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ متاعاً بالمعروف حقاً علی المحسنین‘‘۔ ’’وللمطلقات متاع بالمعروف، حقاً علی المتقین‘‘۔ ’’کلوا من ثمرہ واٰتوا حقہ یوم حصادہ‘‘۔ ان آیات میں حق کا لفظ باہمی حقوق کے حوالے سے استعمال ہوا ہے۔
تو میں نے یہ فرق واضح کیا ہے کہ قرآن کریم میں حق کا لفظ باطل کے مقابلے میں بھی استعمال ہوا ہے اور باہمی حقوق کے حوالے سے بھی۔
قرآن کریم نے جہاں حقوق العباد کا ذکر کیا ہے وہیں حقوق اللہ کا بھی ساتھ ذکر کیا ہے۔ مثلاً میں دو مقامات کی نشاندہی کروں گا:
اللہ رب العزت نے حقوق العباد اور حقوق اللہ کا اکٹھا ذکر کیا ہے۔ فرمایا: ’’واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئاً وبالوالدین احسانا وبذی القربیٰ والیتٰمٰی والمساکین والجار ذی القربٰی والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم‘‘۔
یہاں پہلا حق کس کا بیان ہوا ہے؟ ’’واعبدوا اللّٰہ ولا تشرکوا بہ شیئاً‘‘۔ اس کے بعد ماں باپ کا، قریبی رشتہ داروں، یتیموں کا، مسافر کا ذکر ہے۔ یعنی اللہ کا حق اور بندوں کا حق۔ یا دوسرے مقام پر ’’وقضٰی ربک الا تعبدوا الّا ایاہ وبالوالدین احسانا‘‘۔ اس آیت میں آگے اور لوگوں کے حقوق بھی بیان ہوئے ہیں۔ پھر ایک مقام پر ہے ’’ان اشکر لی ولوالدیک‘‘۔ یا ایک جگہ ‘‘اذ قال لقمان لابنہ وہو یعظہ یٰبنیّ لا تشرک باللّٰہ ان الشرک لظلم عظیم ووصینا الانسان بوالدیہ احسانا‘‘۔
تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ قرآن کریم نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا اکٹھے ذکر کیا ہے۔
اسلام کا اس حوالے سے مزاج کیا ہے، اس کے لیے میں ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔ بخاری شریف کی روایت ہے۔ بہت دلچسپ واقعہ ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ جب ایک غلام کی حیثیت سے مدینہ منورہ آئے، یہودی خاندان کے غلام تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہی دنوں مدینہ پہنچے تھے۔ قبا میں ان کی ملاقات ہوئی۔ حضرت سلمان فارسیؓ حق کی تلاش میں تھے۔ یہودی خاندان سے مکاتبت کر کے آزاد ہوئے۔ جب آزاد ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو اس وقت ان کی حیثیت مہاجر کی تھی۔ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کرائی تو حضرت سلمان فارسیؓ کو آپ نے حضرت ابوالدرداءؓ کا بھائی بنایا۔ سلمان فارسیؓ مہاجر تھے اور ابوالدرداءؓ انصاری تھے۔
اس وقت مواخات کی قانونی حیثیت تھی جس کے تحت بھائی بھائی بننے والے وراثت میں بھی حقدار ہوتے تھے اور دیگر کئی حقوق میں بھی حصہ دار ہوتے تھے۔ بعد میں جب وراثت کے مستقل احکامات آئے تو مواخات کی قانونی حیثیت ختم ہو گئی۔
تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان دونوں کو بھائی بھائی بنا دیا تو ابو درداءؓ سلمان فارسیؓ کو اپنے ساتھ لے کر گھر گئے۔ سلمان فارسیؓ تو پرانے آدمی تھے۔ حافظ ابن حجرؒ ان کی محتاط عمر اڑھائی سو سال بتلاتے ہیں۔ کچھ روایات ساڑھے چار سو سال اور پانچ سو سال کی بھی ہیں۔ چنانچہ جب یہ مسلمان ہوئے تو محتاط روایت کے مطابق بھی یہ تقریباً دو سو سال کے تھے۔ سرد و گرم چشیدہ، جہاں دیدہ۔ مختلف مذہب بھگتے ہوئے تھے، مختلف خاندان بھگتے ہوئے تھے، مختلف علاقے دیکھے ہوئے تھے۔ تجربہ کار پرانا بابا تھا۔
یہ جب گھر میں آئے تو، ابو درداءؓ روایت کرتے ہیں کہ سلمان فارسیؓ جب گھر پہنچے تو دیکھا کہ گھر میں کوئی گھر والی بات نہیں ہے۔ ام درداءؓ کو دیکھا کہ میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، گھر کی کوئی صفائی نہیں ہے، کوئی ساتھ رہنے والا ماحول نہیں ہے۔ حالانکہ عورت گھر میں ہو تو گھر کی حالت سے پتہ چلتا ہے کہ اس گھر میں عورت رہتی ہے۔ مکان صاف رکھے گی، پردے وردے لٹکائے گی، کوئی زیب و زینت کرے گی۔ یہ عورت کی فطرت ہے۔ یہ عورت کا مزاج ہے کہ وہ خود بھی بنے سنورے گی اور گھر کو بھی بنائے سنوارے گی۔
سلمان فارسیؓ نے جب دیکھا کہ گھر میں تو کوئی گھر کی بات نہیں ہے تو آتے ہی ام الدردائؓ سے پوچھ لیا کہ ، یہ کیا حال بنا رکھا ہے اپنا اور اس گھر کا۔ آتے ہی انٹرویو کر لیا کہ یہ کیا تماشا ہے۔ ام درداءؓ نے جواب دیا کہ بھائی جان، آپ کے بھائی کو کسی بات سے دلچسپی نہیں ہے۔
عورت بنتی سنورتی ہے لیکن کسی کے لیے بنتی سنورتی ہے۔ یہ عورت کا مزاج بھی ہے اور اس کا حق بھی ہے لیکن وہ بنتی سنورتی کسی کے لیے ہے۔
تو ام الدرداء نے جواب دیا کہ جس کے لیے بننا سنورنا ہے اور اس گھر کی دیکھ بھال رکھنی ہے اسی کو دلچسپی نہیں ہے تو میں کیا کروں؟ بس ٹھیک ہے یہ بھی گزارا کر رہا ہے، میں بھی گزارا کر رہی ہوں۔ کہا کہ آپ کے بھائی کو کوئی حاجت نہیں کہ میں زیب و زینت کیے ہوئے ہوں یا اس گھر کی آرائش کر کے رکھوں۔
یہ پہلی بات تھی جو سلمان فارسیؓ نے اس گھر میں نوٹ کی۔
دوپہر کا وقت ہوا تو ابو درداءؓ نے اپنے بھائی سلمان فارسیؓ کے لیے دسترخوان بچھایا اور کھانا رکھا، لیکن خود وہ روزے سے تھے۔ حضرت ابو درداءؓ بلا ناغہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ وہ دن کو روزہ رکھتے تھے اور ساری رات قیام کرتے تھے۔ تو مہمان کے سامنے کھانا رکھا لیکن خود روزے سے تھے۔ سلمان فارسیؓ نے کہا کہ تم بھی کھائو۔ جواب دیا کہ میرا تو روزہ ہے۔
اب حضورؓ نے سلمان فارسیؓ کو ابو درداءؓ کا صرف بھائی ہی نہیں بلکہ بڑا بھائی بنایا تھا۔ بڑے بھائی کا دبکا تو آپ کے علم میں ہے۔ فارسی کا ایک مشہور محاورہ ہے ’’سگ باش، برادر خورد مباش‘‘۔ مطلب یہ کہ چھوٹا بھائی کسی کا نہ بننا۔ چھوٹا بھائی ساری زندگی مصیبت میں رہتا ہے۔ لیکن اب یہ کسی کے اختیار میں بھی نہیں ہے، یہ تو اللہ کی تقسیم ہوتی ہے کہ پہلے کس کو دنیا میں بھیجے، بعد میں کس کو بھیجے۔
تو سلمان فارسیؓ بڑے بھائی تھے، کہا کہ بھائی بیٹھو اور بیٹھ کر میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ جواب دیا کہ جی میرا تو روزہ ہے۔ سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے یہ کھانا اٹھا لو، میں بھی نہیں کھاتا۔ اب ابو درداءؓ مہمان کے سامنے سے کھانا کیسے اٹھائیں؟ چنانچہ ابو درداءؓ کو روزہ توڑنا پڑا اور وہ سلمان فارسیؓ کے ساتھ کھانے پر بیٹھ گئے۔
مسئلہ بھی یہی ہے۔ یاد رکھیں کہ ہماری اسلامی تعلیمات کا یہ اصول ہے کہ فرائض میں حقوق اللہ مقدم ہیں، اور فرائض کے علاوہ نوافل، مستحبات، مباحات میں حقوق العباد مقدم ہیں۔ یعنی فرائض اور واجبات میں حقوق اللہ مقدم ہیں۔ لیکن باقی سب میں حقوق العباد مقدم ہیں۔ فقہاء یہ مسئلہ لکھتے ہیں کہ مہمان کے اکرام کے لیے اگر اس کا اصرار ہو تو آپ نفلی روزہ توڑ دیں گے، مہمان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوں گے اور بعد میں اس روزہ کی قضا کریں گے۔ چنانچہ روزہ توڑ دیا اور ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔
رات ہوئی تو عشاء پڑھی، بستر بچھایا، ابو درداءؓ کہتے ہیں کہ بھائی جان آپ تو آرام فرمائیں۔ پوچھا تمہارا کیا پروگرام ہے؟ کہا ، میں تو رات کو قیام کرتا ہوں۔ سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ بھئی، اپنا بستر لاؤ۔ ابو درداءؓ کہنے لگے، کہ جی میں نے تو اپنے نوافل پڑھنے ہیں۔ سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ نہیں بھئی، اپنا بستر لائو اور سو جائو۔ ابو دردائؓ خود کہتے ہیں کہ میں یہ سوچ کر لیٹ گیا کہ جب سلمان فارسیؓ سو جائیں گے تو میں اٹھ کر اپنا کام کروں گا۔ سلمان فارسیؓ بھی سوئے نہیں تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ابو درداءؓ اٹھے تو سلمان فارسیؓ نے پھر پوچھا، کدھر جا رہے ہو؟ سو جائو آرام سے۔ اب ابو درداءؓ سو گئے۔
رات کا پچھلا پہر جب ہوا، تہجد کے وقت سلمان فارسیؓ خود بھی اٹھے اور ابو درداءؓ کو بھی اٹھایا کہ اٹھو بھئی، اب نماز کا وقت ہے، تم بھی پڑھو اور میں بھی پڑھتا ہوں۔ دونوں تہجد پڑھ کر فارغ ہوئے تو فیصلہ کیا کہ چلو فجر چل کر مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھتے ہیں۔ لیکن جاتے ہوئے سلمان فارسیؓ نے ایک جملہ کہا۔ بس یہ جملہ ہمارے حقوق کے تصور کی بنیاد ہے۔ میں نے آپ کی خدمت میں یہ سارا پس منظر اس لیے بیان کیا ہے کہ آپ کو یہ جملہ سمجھ میں آجائے۔
ہماری اسلامی تعلیمات میں حقوق کے تصور کی بنیاد سلمان فارسیؓ کا یہ جملہ ہے، فرمایا:
’’ان لربک علیک حقاً، ولجسدک علی حقاً، ولزوجک علیک حقاً، ولعینیک علیک حقاً (ایک روایت میں: ولزورک علیک حقاً) فأعط کل ذی حق حقہ‘‘۔
’’تیرے رب کے بھی تجھ پر حق ہیں، تمہارے بدن کا بھی تجھ پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی تجھ پر حق ہے، آنے جانے والے مہمانوں کا بھی تجھ پر حق ہے، پس ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرو۔‘‘
تو اسلام میں حقوق کا تصور کیا ہے؟ ’’فات کل ذی حق حقا‘‘ کہ ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرو۔ اللہ کا حق اللہ کے وقت میں، بیوی کا حق بیوی کے وقت میں، آنکھوں کا حق آنکھوں کے وقت میں، مہمان کا حق مہمان کے وقت میں، اور اسی طرح باقی لوگوں کے حقوق ان کے مطابق۔
سلمان فارسیؓ نے یہ کہا اور پھر دونوں مسجد کی طرف چل نکلے۔ مسجد پہنچ کر نماز پڑھی۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسب معمول، لوگوں سے پوچھنے لگے کہ بھئی تمہارا کیا حال ہے، تمہارا کیا حال ہے؟ ابو درداءؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے آپؐ نے پوچھا کہ ہاں بھئی تم نے اپنے بھائی کو کیسا پایا؟ ابو درداءؓ تو بھرے بیٹھے تھے، ساری کار گزاری سنا دی کہ یارسول اللہؐ! میرا روزہ بھی تڑوا دیا، بیوی سے بھی انٹرویو کرتے رہے، رات کو نفل بھی نہیں پڑھنے دیے، اور اب آتے وقت یہ نصیحت کر کے آگئے ہیں۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملہ فرمایا: ’’صدق سلمان‘‘ سلمان نے جو کہا سچ کہا۔
چنانچہ میں نے عرض کیا کہ حقوق کے اسلامی تصور میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ہیں۔ اسلام ان دونوں کو الگ الگ نہیں کرتا۔ بلکہ ان دونوں میں ترجیح و تقدیم بھی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ فرائض و واجبات میں ترجیح و تقدیم کس کی ہے؟ حقوق اللہ کی۔ اور نوافل، مستحبات، مباحات میں ترجیح کس کی ہے؟ حقوق العباد کی۔
مغرب کے ساتھ ہمارا ایک تنازعہ تو یہ ہے کہ مغرب حقوق اللہ کو بالکل نظر انداز کرتا ہے۔ ان کے ہاں اللہ کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ ان کے ہاں اللہ کا کوئی حق نہیں، دوسرا ان کے خیال میں پتہ نہیں اللہ بھی ہے یا نہیں۔ مغرب کی اکثریت جو ہے وہ خدا پر یقین نہیں رکھتی۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو سر زمین عرب میں دو انتہائیں تھیں: ایک طرف حقوق اللہ اس معنی میں کہ دنیا ہی چھوڑ دی ’’ورہبانیۃ ابتدعوہا ما کتبناہا علیہم إلا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوہا حق رعایتہا‘‘۔ ایک طرف رہبانیت تھی۔ رہبانیت سے مراد دنیا سے قطع تعلقی۔ جنگل اور پہاڑوں میں اکیلے زندگی گزارو اور بس۔ یہ حقوق اللہ کا غلبہ تھا کہ بس اللہ کی بندگی کرو، ذکر اذکار کرو۔ بیوی بچوں وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا: ’’لا رہبانیۃ فی الاسلام‘‘ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ احادیث میں آپ کو اس سلسلے میں بہت سے واقعات ملیں گے، میں اس وقت صرف دو واقعات کی طرف اشارہ کروں گا۔
(۱) حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ راوی ہیں۔ ایک موقعہ پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہؓ جن میں عبد اللہ ابن عمرؓ بھی تھے، آپس میں مشورہ کیا، کہ حضورؐ کے گھر کے باہر کے معمولات تو ہمارے علم میں ہیں، نماز پڑھتے ہیں، وعظ فرماتے ہیں اور جہاد پر جاتے ہیں۔ لیکن چار دیواری کے اندر کے معمولات ہمارے علم میں نہیں ہیں۔ مشورہ کیا کہ ہمیں یہ بھی معلوم کرنے چاہئیں اور پھر ان کی پیروی کرنی چاہیے۔
ان کا تصور شاید یہ تھا کہ بس حضورؐ گھر میں داخل ہو کر مصلے پر کھڑے ہو جاتے ہوں گے اور پھر وہیں سے باہر آجاتے ہوں گے۔ انہوں نے طے کیا کہ ازواج مطہراتؓ سے حضورؐ کے گھر کے اندر کے معمولات کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔
حضورؐ کے ایک گھر کے باہر کھڑے ہو کر امیر المؤمنین سے پوچھا، تو انہوں نے جواب دیا کہ حضورؐ کے گھر کے معمولات وہی ہوتے ہیں جو عام طور پر دوسرے مردوں کے ہوتے ہیں۔ ہمارا حال احوال پوچھتے ہیں، گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی کرتے ہیں، سودا سلف بھی خرید کر لاتے ہیں، آرام بھی کرتے ہیں، میاں بیوی کے حقوق کا اہتمام بھی کرتے ہیں اور رات کے وقت نماز بھی پڑھتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ ہیں کہ ’’کأنہم تقالّوہا‘‘۔
ان حضرات نے ان معمولات کو اپنے تصور سے بہت کم سمجھا، کہ ہم تو کچھ اور سمجھتے تھے، حضورؐ تو گھر کے اندر بالکل عام زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے خود ہی اس کی توجیہ بھی کر لی کہ حضورؐ کو اس کی ضرورت بھی کیا ہے ’’لیغفر لک اللّٰہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر ویتمّ نعمتہ علیک ویہدیک صراط مستقیما‘‘۔ سوچا کہ ہم تو بہرحال امتی ہیں، ہمیں تو ضرورت ہے۔ بس آپس میں بیٹھ کر اپنے معمولات طے کر لیے۔ ایک نے کہا کہ ساری عمر روزے رکھوں گا۔ ایک نے فیصلہ کر لیا کہ اب ساری عمر شادی نہیں کروں گا۔ ایک نے طے کر لیا کہ ساری زندگی رات کے وقت قیام کروں گا، سوؤں گا نہیں۔ تو ان حضرات نے آپس میں یہ باتیں طے کر لیں۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گیا۔ آپؐ نے انہیں بلا لیا۔ ان حضرات کا خیال تھا کہ اب ہمیں شاباش ملے گی کہ اتنا اچھا کام کیا ہم نے۔ لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’انا اخوفکم باللّٰہ واتقاکم بہ‘‘ میں تم سے زیادہ خوفِ خدا رکھتا ہوں اور تم سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہوں۔
اس کا دوسرے لفظوں میں معنٰی کیا جائے تو مطلب یہ بنتا ہے کہ کیا ایسا کرنے سے تم لوگ مجھ سے زیادہ متقی ہو جاؤ گے؟ مجھ سے زیادہ خدا خوفی آجائے گی تم لوگوں میں۔ ’’انا اخوفکم باللّٰہ واتقٰکم بہ‘‘ میں تم سے زیادہ خوفِ خدا رکھتا ہوں اور تم سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہوں۔ بھئی میں نے شادی بھی کی ہے، بلکہ شادیاں کی ہیں۔
حضورؐ کی شادیاں تو دنیا کا ایک مستقل موضوع ہے۔ لوگ اس پر بہت اعتراض کرتے ہیں۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔
فرمایا: کہ میرے بچے بھی ہیں، کھاتا بھی ہوں، سوتا بھی ہوں، بیویوں کے پاس بھی جاتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں، کبھی روزہ رکھتا ہوں کبھی نہیں رکھتا۔ بھئی میں تو سارے کام کرتا ہوں، کوئی بھی ضروری کام ترک نہیں کرتا۔
یہ فرما کر حضورؐ نے ایک جملہ فرمایا، یہ وہ جملہ ہے جو ہم عام طور پر نکاح کے خطبے میں پڑھا کرتے ہیں: ’’النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی‘‘۔ اس جملے کا پس منظر یہ سارا واقعہ ہے کہ نکاح میری سنت ہے، جس نے میری سنت سے اعراض کیا، اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک توازن قائم کیا۔
(۲) دوسرا واقعہ بھی بخاری میں ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرو ابن العاصؓ خود واقعہ سناتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے میری شادی کر دی، اور الگ مکان دے دیا کہ جاؤ وہاں رہو جا کر۔
حضرت عمرو ابن العاصؓ بہت ذہین آدمی تھے۔ ’’دُھاۃ عرب‘‘ میں سے تھے۔ جرنیل بھی تھے اور عرب دنیا کے چوٹی کے تین چار ڈپلومیٹس میں سے تھے۔
والد صاحبؓ دو چار دن کے بعد آئے کہ بیٹے کا حال احوال پوچھوں، بیٹا گھر میں نہیں تھا، بہو تھی۔ پوچھا بیٹی کیا حال ہے، کہا ٹھیک ہے۔ خاوند کیسا ہے؟ کہا بہت نیک ہے۔ پوچھا تم خوش ہو۔ کہا جی خوش ہوں، آپ کا بیٹا بہت اچھا ہے، ساری رات مصلے پر ہوتا ہے، اور سارا دن روزے سے رہتا ہے۔ خاوند کی یہ تعریف اس کی بیوی کر رہی ہے۔ ’’لم یفتش لنا کنفا‘‘ ہمارے لیے کوئی کونہ تلاش نہیں کیا اس نے ابھی تک، بس اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔
عمرو ابن العاصؓ سمجھ گئے کہ یہ تعریف نہیں بلکہ شکایت ہے۔ اپنے بیٹے کا مزاج سمجھتے تھے، چنانچہ خود اس سے بات کرنے کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ معاملہ پیش کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے عبد اللہ کی شادی کی ہے اور وہ ساری رات نفلوں میں ہی لگا رہتا ہے۔
حضورؐ نے بلا لیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور نے بلوا لیا، اور ایک روایت میں ہے کہ خود حضورؐ میرے گھر تشریف لے آئے۔ عبد اللہ ابن عمروؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے پوچھا: ہاں بھئی کتنی عبادت کرتے ہو؟ کہا: ساری رات۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں بھئی، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ فرمایا: ثلث لیل، زیادہ سے زیادہ رات کا تیسرا حصہ۔ بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے، جسم کا بھی حق ہے۔
پھر پوچھا: تمہارے روزوں کی کیا ترتیب ہے؟ کہا: یا رسول اللہ! مسلسل روزے رکھتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: بس مہینے میں تین روزے کافی ہیں۔ عبد اللہؓ کہتے ہیں: یا رسول اللہ! تین تو تھوڑے ہیں۔ فرمایا: سات کر لو۔ پھر کہا: یہ بھی تھوڑے ہیں۔ فرمایا: پھر دس کر لو۔ پھر کہا: یہ بھی تھوڑے ہیں۔ فرمایا: اچھا پندرہ کر لو۔ ’’لا صیام افضل من صوم داؤد‘‘۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے سے افضل کوئی روزہ نہیں ہے۔ داؤد علیہ السلام کا معمول یہ تھا کہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ ابن عمروؓ سے پوچھا: تمہارا قرآن کریم کا معمول کیا ہے؟ کہا: یا رسول اللہ! روزانہ مکمل قرآن کریم پڑھتا ہوں۔ فرمایا: مہینے میں پورا پڑھ لیا کرو۔ کہا: یہ تو بہت کم ہے۔ فرمایا: اچھا پندرہ دن میں پڑھ لیا کرو۔ کہا: یہ بھی تھوڑا ہے۔ فرمایا: اچھا دس دن میں پڑھ لیا کرو۔ کہا: یہ بھی کم ہے۔ فرمایا: اچھا سات دن میں پڑھ لیا کرو۔ اس سے زیادہ نہیں بھئی۔
حضرت عبد اللہ ابن عمروؓ حضورؐ کے وصال کے بعد کافی عرصہ حیات رہے ہیں۔ اپنے بڑھاپے میں کہتے ہیں کہ میں اس وقت جوانی کے جوش میں تھا، وہ ساری بارگینینگ میری تھی کہ پندرہ روزے مہینے میں رکھوں گا، اور قرآن کریم سات دنوں میں پڑھوں گا۔ عبد اللہؓ خود کہتے ہیں کہ اس وقت تو جوانی کے جوش میں، میں نے یہ ساری باتیں کر لیں، اب بوڑھا ہوگیا ہوں تو خیال آتا ہے کہ کاش ’’یا لیتنی قبلت رخصۃ رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم‘۔ کاش میں نے حضورؐ کی دی ہوئی رخصت قبول کر لی ہوتی۔ اب چونکہ یہ بات میں نے حضورؐ کے ساتھ کی تھی، اس لیے اب پوری کرنی پڑ رہی ہے لیکن اب میری ہمت اور طاقت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ حضورؐ کی تجویز کہ مہینے میں ایک قرآن اور مہینے میں تین روزے میں نے قبول کر لیے ہوتے تو اچھا تھا۔
میں ایک بات عرض کیا کرتا ہوں کہ اسے بطور اصول کے ذہن میں رکھیں۔ انسان جب بھی اپنے بارے میں فیصلہ کرتا ہے، وقتی حالات کے تحت کرتا ہے۔ وہ انسان ایک آدمی ہو، پارٹی ہو، پارلیمنٹ ہو یا سوسائٹی ہو۔ انسان اپنا فیصلہ معروضی حالات کے تحت کرتا ہے، پارلیمنٹ بھی کوئی فیصلہ کرے گی تو معروضی حالات کے مطابق کرے گی۔ اور سوسائٹی بھی اگر کوئی فیصلہ کرتی ہے تو معروضی حالات کے مطابق کرتی ہے۔ جبکہ شریعت فیصلہ کرتی ہے انسان کے معروضی اور مستقبل دونوں کو سامنے رکھ کر۔ اللہ کو تو پتہ ہے کہ آگے کیا ہونا ہے۔ ایک آدمی نے بوڑھا بھی ہونا ہے۔ ابھی تو یہ تیس سال کا جوان ہے، سب کچھ کر لے گا، جب یہ اَسی سال کا ہوگا تو پھر کیا کرے گا؟ شریعت جب بھی فیصلہ کرتی ہے تو معروضی اور مستقبل دونوں حالات کو سامنے رکھ کر کرتی ہے۔ اس لیے شریعت کا ضابطہ ہی مقدم ہے۔ سمجھ میں آئے تب بھی مقدم ہے، نہ سمجھ میں آئے تب بھی مقدم ہے۔ بسا اوقات شریعت کا ضابطہ ذرا دیر سے سمجھ میں آتا ہے۔
تو عبد اللہ ابن عمرو ابن العاصؓ کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی تلقین فرمائی کہ نہیں بھئی اتنی سختی ٹھیک نہیں ہے۔ بیوی کا بھی حق ہے، بچوں کا بھی حق ہے، گھر کا بھی حق ہے، جسم کا بھی حق ہے۔
یہ دو واقعات ذکر کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ حضورؐ نے سوسائٹی میں حقوق کے حوالے سے توازن قائم کیا ہے:
ایک طرف حقوق اللہ کی بات تھی اور رہبانیت تھی۔ بس اللہ کی بندگی کرنی ہے اور دنیا و ما فیہا کو چھوڑ دینا ہے۔ حضورؐ نے اس کی نفی کی ہے۔
دوسری طرف کیا تھا؟ ’’کالذین نسوا اللّٰہ فانساھم انفسھم‘‘۔ خدا کو بھول گئے، کہ خدا بھی ہے، اس کا بھی کوئی حق ہمارے ذمے ہے۔ یہ ایک دوسری انتہا تھی۔ اس وقت کے جاہلیت کے زمانے میں بھی تھی اور آج کے جاہلیت کے زمانے میں بھی ہے۔
آج بھی اسی جاہلیت سے ہمارا سامنا ہے کہ اس سے خدا کا تو کچھ نہیں بگڑتا۔ آپس کے حقوق ادا نہیں کریں گے تو ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں گے، لیکن خدا کے حق ادا نہیں کریں گے تو اس سے خدا کو تو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ’’ماکان لشرکائہم فلا یصل الی اللّٰہ وماکان للّٰہ فہو یصل الٰی شرکائہم ساء ما یحکمون‘‘۔ یعنی خدا کا حق دوسروں کی طرف چلا بھی جائے تو کیا ہے، وہ تو غنی ہے۔ لیکن وہ دوسروں کا حق خدا کی طرف نہیں جانے دیتے تھے۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑا کام یہ کیا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا توازن قائم کیا۔ اور یہ بتایا کہ حقوق اللہ کی بنیاد پر حقوق العباد کی نفی نہیں ہوگی اور حقوق العباد کی بنیاد پر حقوق اللہ کی نفی نہیں ہوگی۔ اور میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم نے جہاں حقوق کا تذکرہ کیا، ان دونوں حقوق کا کیا۔ ’’واعبدوا اللّٰہ ولا تشرکوا بہ شیئاً و بالوالدین احساناً وبذی القربیٰ والیتامیٰ والمساکین والجار ذی القربیٰ والجار الجنب والصاحب بالذنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم‘‘۔ حقوق کا توازن قائم کیا اور بتایا کہ اس کا نام اسلام ہے۔ پھر سلمان فارسیؓ کا جملہ میں نقل کیا تھا کہ ’’ان لربک علیک حق ولزوجک علیک حق ولزورک علیک حق ولعینیک علیک حق فأعط کل ذی حق حقہ’’۔ تو مغرب کے حقوق کے فلسفے میں اور ہمارے حقوق کے فلسفے میں ایک بنیادی فرق تو یہ ہے۔
دوسرا فرق مغرب کے فلسفے میں اور اسلام کے فلسفے میں یہ ہے کہ مغرب جو کچھ بھی طے کرتا ہے سوسائٹی کے حوالے سے طے کرتا ہے۔ اور اسلام جو بھی طے کرتا ہے وحی کے حوالے سے طے کرتا ہے۔ ہماری بنیاد وحی پر ہے۔ اور مغرب کی بنیاد سوسائٹی پر ہے۔ یہ دونوں میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ اسلام اور مغرب کے سارے جھگڑے کی بنیاد تقریباً یہی ہے۔ اس پر میں ایک مثال عرض کرنا چاہوں گا۔
یہ بھی ہمارا ایک مستقل جھگڑا ہے کہ معاملات کس بنیاد پر طے کریں گے؟ جو سوسائٹی چاہے گی وہ، یا جو وحی چاہے گی وہ؟
ہماری بنیاد تو اس پر ہے کہ ’’وان احکم بینہم بما انزل اللّٰہ ولا تتبع اہواءہم واحذرہم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللّٰہ الیک‘‘۔ لوگوں کے درمیان معاملات ‘‘بما انزل اللّٰہ‘‘ کی بنیاد پر طے کریں اور سوسائٹی کیا چاہتی ہے، اس کی پیروی نہ کریں۔
ایک فرق میں ذرا واضح کر دوں کہ ’’لا تتبع اہواءہم‘‘ کی بھی حد ہے۔ کیا سوسائٹی کی ہر خواہش کی ہم نفی کر دیں گے؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ’’لا تتبع اہواءہم‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن نے سوسائٹی کی ہر خواہش کی نفی کر دی۔ سوسائٹی کی اکثریت کی ہر خواہش رد ہو جائے، ایسا نہیں ہے۔ بلکہ ’’لا تتبع اہواءہم عما جاءک من الحق‘‘ جو حق کے مقابلے پر ہوگی وہ خواہش رد کر دی جائے گی۔
جسے ہم فقہی اصطلاح میں کہتے ہیں کہ منصوصات کے مقابلے میں سوسائٹی کی خواہشات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہاں اگر منصوصات کے خلاف کوئی خواہش نہیں ہے تو ٹھیک ہے۔ اب ایسا نہیں کہ سوسائٹی کی کوئی بات ماننی ہی نہیں۔ بد قسمتی سے ہم بھی اس معاملے میں دوسری انتہا پر چلے جاتے ہیں۔ تو قرآن کریم نے خود یہ حد بیان کر دی کہ آپ کے پاس جو وحی آگئی، جو نصوصِِ قطعیہ آگئیں، ان معاملات میں سوسائٹی کی خواہشات کی پیروی نہیں ہوگی۔ اگر سوسائٹی قرآن و سنت کے کسی فیصلہ کے مقابلے پر آتی ہے تو اس کی بات رد ہو جائے گی، باقی جو معاملات ہیں ان میں سوسائٹی کا حق ہے جیسے چاہے کرے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ چند سال پہلے ڈنمارک سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر مشتمل خاکے چھپے تھے۔ اس پر دنیا میں ایک لمبی بحث چلی تھی۔ اس مباحثے میں مغربی دانشوروں نے بہت کچھ لکھا۔ میں اس بحث کے حوالے سے اس واقعہ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
اس جریدہ کے ایڈیٹر فلیمنگ روز جس نے یہ کارٹون چھاپے تھے، اس نے اپنی وضاحت میں بہت کچھ لکھا، کہ میں نے ٹھیک کیا ہے اور آئندہ بھی کروں گا، اور پھر دوبارہ بھی اس نے یہ کیا۔ اس نے کہا کہ ہم میں اور مسلمانوں میں دو بنیادی فرق ہیں۔ ایک فرق یہ ہے کہ ہماری سوسائٹی بالغ ہو گئی ہے۔
مغرب والے کہتے ہیں کہ نابالغ بچے کو باپ کی انگلی پکڑنے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بالغ بچے کو نہیں۔ جب سوسائٹی نابالغ تھی تب ہم آسمانی تعلیمات کی پیروی کرتے تھے۔ اب سوسائٹی بالغ اور عقل مند ہو گئی ہے، اب یہ خود فیصلے کرے گی، اسے کسی کی ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں ہے۔ مغرب کہتا ہے کہ ہم نے آزاد ذہن سے فیصلے کرنے شروع کر دیے ہیں، ہم نے خدا، رسول اور بائبل کا حوالہ ذہنوں سے اتار دیا ہے۔ ہم کوئی قانون بناتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ خدا کیا کہتا ہے، کوئی فیصلہ کرتے وقت ہم یہ نہیں دیکھتے کہ Jesus (عیسٰیؑ) نے اس بارے میں کیا کہا، ہم کوئی ضابطہ بناتے وقت بائبل سے نہیں پوچھتے کہ بائبل اس بارے میں کیا کہتی ہے۔ ہم نے یہ حوالے چھوڑ دیے ہیں۔
پھر کہتا ہے کہ مسلمانوں نے ابھی تک خدا، رسول اور قرآن کا حوالہ اپنے ذہنوں سے چمٹایا ہوا ہے۔ ان سے جب بات کرو، کہتے ہیں کہ خدا نے یہ کہا ہے، کسی مسئلے پر بحث کرو، کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ لکھا ہے، کسی عنوان پر بات کرو تو کہتے ہیں کہ محمدؐ نے یہ کہا ہے۔ فلیمنگ روز کہتا ہے کہ بھئی چھوڑو اس قصے کو۔ آزاد ذہن سے فیصلے کرو۔
آپ حضرات یہ بات پوری طرح سے سمجھ لیں، کیونکہ یہی اصل جھگڑے کی بنیاد ہے۔ فلیمنگ روز کی یہ بات ٹھیک ہے اور ہم اس پر الحمد للہ ثم الحمد للہ ثم الحمد للہ کہتے ہیں۔ کیونکہ مسلم سوسائٹی کی تمام تر خرابیوں کے باوجود آج بھی یہ کیفیت ہے کہ ہمارے ذہنوں میں خدا، رسول کا حوالہ قائم ہے۔ ہمارے معاشرے میں اگر کسی کو قرآن کے خلاف بھی بات کرنی ہے تو حوالہ کہاں سے ڈھونڈ کر لائے گا؟ قرآن سے ہی لائے گا۔ سنت کے خلاف کوئی بات کرے گا تو حوالہ کس کا دے گا؟ سنت سے۔ آج بھی مسلم معاشرے میں قرآن و سنت کے حوالے سے ہٹ کر کوئی بات کہنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ مسلم معاشرے میں اگر کسی نے کوئی بات کرنی ہے تو اسے قرآن سے کوئی آیت تلاش کرنی پڑے گی، یا حدیث کا کوئی ٹکڑا ڈھونڈ کر لانا پڑے گا۔ ہمارے ہاں بڑی خرابیاں ہیں، بڑی کوتاہیاں ہیں، بڑی بد عملی ہے، لیکن الحمد للہ آج بھی ہمارے ہاں یہ حوالہ قائم ہے۔ جبکہ مغرب کے لیے یہی حوالہ پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔
میں مغرب والوں سے تحدی کے طور پر دو باتیں کہا کرتا ہوں۔ میں مثال دے کر یہ واضح کروں گا۔
میں مغرب والوں سے کہتا ہوں کہ دنیا میں کہیں بھی، کسی کونے میں، کسی مسلمان کو راستے میں چلتے روک لو اور اس سے ایک سوال کرو، کہ قرآن کریم نے یہ بات کہی ہے جبکہ آج کی سائنس اور فلسفہ، آج کی اقوام متحدہ یا آج کی سوسائٹی یہ بات کہتی ہے، تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ حضرات کے خیال میں اس مسلمان کا جواب کیا ہو گا؟ وہ مسلمان دو ٹوک جواب دے گا کہ قرآن کی بات ٹھیک ہے۔ چاہے اسے مسئلے اور دلائل کا کچھ پتہ نہ ہو۔
اسی طرح دنیا کے کسی مسلمان سے پوچھ لو کہ محمد رسول اللہؐ نے یہ بات (نعوذ باللہ) غلط کہی تھی، آپ کے خیال میں وہ مسلمان اس سے متفق ہو جائے گا؟ ایک عالم تو دلیل کے ساتھ بات کر لے گا، لیکن ایک عام آدمی بھی اس بات سے متفق نہیں ہو گا، چاہے اس کے پاس دلیل ہو یا نہ ہو۔
مغرب اسے کمٹمنٹ کا نام دیتا ہے جبکہ ہم اسے عقیدہ کہتے ہیں۔ ہماری آج کی اس پوزیشن نے مغرب کو پاگل کر رکھا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان قرآن کریم کی یا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی برداشت نہیں کرتا۔
فلیمنگ روز یہ بھی کہتا ہے کہ یہ مسلمان عجیب لوگ ہیں، ہمارے ہاں مغرب میں آکر رہتے ہیں، شراب پیتے ہیں، حرام کاریاں کرتے ہیں، سب کچھ کرتے ہیں لیکن جونہی ان میں سے کسی کے سامنے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام لیں تو وہ بالکل بدل جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم میں اور مسلمانوں میں ایک فرق یہ ہے کہ ہم نے خدا، رسول اور بائبل کا حوالہ ذہنوں سے اتار دیا ہے۔ جبکہ مسلمانوں نے ابھی تک خدا، رسول اور قرآن کا حوالہ اپنے ذہنوں سے چمٹا کر رکھا ہوا ہے۔
دوسری بات اس نے یہ کہی کہ ہمیں ایسی کسی بات پر غصہ نہیں آتا۔ ہمارے سامنے کوئی Jesus (عیسٰی علیہ السلام) کی توہین کرے تو ہم اسے انجوائے کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کو اس بات پر غصہ آجاتا ہے۔ یہ جذباتی قوم ہے۔
میں نے بھی فلیمنگ روز کے جواب میں دو چار باتیں لکھیں جو میں یہاں دہرا دیتا ہوں۔
اس نے کہا کہ مسلمانوں کو ایسی باتوں پر غصہ آتا ہے جبکہ ہم ایسی باتوں کو انجوائے کرتے ہیں کہ کوئی بائبل کی غلطی نکالے، Jesus (عیسٰی علیہ السلام) کی توہین کرے، یہ سوچ کر کے یہ اس بندے کا آزادیٔ رائے کا حق ہے۔
میں نے اسے کہا کہ بھئی اسٹینڈ کنکشن اور ڈیڈ کنکشن میں یہی فرق ہوتا ہے۔ سگنل اگر موجود ہیں تو فون سیٹ کچھ نہ کچھ تو کام کرے گا۔ اور اگر سگنل ہی موجود نہ ہوں، کنکشن ہی ڈیڈ ہو تو وہاں جدید ترین فون سیٹ بھی کیا کام کرے گا؟ وہ سیٹ پھر اپنا آپ ہی انجوائے کرے گا، اور تو وہ کسی کام کا نہیں۔ جبکہ ہم مسلمانوں کی خرابیاں فون سیٹ کی خرابیاں ہیں، کنکشن ہمارا آج بھی اسٹینڈ کرتا ہے۔ قرآن کا بھی کرتا ہے اور رسول کا بھی کرتا ہے۔ اس کنکشن کی لمٹ قیامت تک ہے۔ اس کا بیلنس ختم نہیں ہوتا۔ ہماری خرابیاں فون سیٹس میں ہیں۔ اللہ کرے ہمارے سیٹ ٹھیک ہو جائیں۔ جبکہ تمہارا تو سوئچ ہی آف ہے، تم نے کیا غصہ کرنا ہے۔
دوسری بات اس نے یہ کہی کہ ہم نے خدا، رسول کا حوالہ چھوڑ دیا، جبکہ مسلمان نے ابھی تک خدا، رسول کا حوالہ ذہن پر مسلط کر رکھا ہے۔
میں نے اس کے جواب میں لکھا کہ یار بات سنو! ہم پر کس بات کا رعب جماتے ہو کہ ہم نے حوالہ چھوڑ دیا۔ تمہارے پاس تھا کیا جو تم نے چھوڑا ہے؟ تورات دنیا میں کہیں ہے؟ انجیل کہیں دنیا میں ہے؟ زبور کہیں ہے؟ ہمارے پاس تو قرآن ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت موجود ہے۔ یہ بہت بڑا بنیادی فرق ہے۔
دنیا کا کوئی یہودی، تورات کے کسی نسخے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہے کہ یہ وہ تورات ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ دنیا کا کوئی یہودی یہ حوصلہ نہیں کرے گا۔ میں کوئی جذبات کی بات نہیں کر رہا، حقائق کی بات کر رہا ہوں۔ دنیا کا کوئی عیسائی انجیل کے کسی نسخے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنے کی ہمت نہیں کر سکتا کہ یہ وہ انجیل ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ اور دنیا کا ہر مسلمان دنیا کے کسی حصے میں، قرآن کریم کے کسی بھی نسخے پر ہاتھ رکھ کر بڑے حوصلے سے یہ بات کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ مسلمانوں کے اس دعویٰ پر میں دو حوالے دوں گا۔
آج سے کوئی بارہ چودہ سال پہلے کی بات ہے کہ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں بائبل پر پندرہ دن مسلسل ایک سیمینار ہوا۔ دنیا سے بائبل کے چوٹی کے ایک سو ماہرین جمع ہوئے، اور پندرہ دن یہ طے کرنے کے لیے بیٹھے رہے کہ اناجیلِ اربعہ میں عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات کتنی ہیں؟
بائبل کے دو حصے ہیں:
(۱) عہد نامہ قدیم (Old Testament)
(۲) عہد نامہ جدید (New Testament)
عہد نامہ قدیم میں تورات، زبور اور ان سے متعلقہ رسالے ہیں، جبکہ عہد نامہ جدید میں انجیل اور اس کے متعلقہ لوقا کی انجیل، متی کی انجیل، مرقس کی انجیل وغیرہ ہیں۔ تو یہ ماہرین یہ طے کرنے بیٹھے کہ ان اناجیل میں الحاقی تعلیمات کتنی ہیں اور اصل کتنی ہیں؟ پندرہ دن کے غور و خوض کے بعد جو انہوں نے فیصلہ دیا وہ دنیا کے بڑے میگزینز میں چھپا اور باقاعدہ ریکارڈ پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ اناجیل میں پندرہ فیصد آیات ایسی ہیں جن کے بارے میں ظنِ غالب کے درجے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات ہیں۔ باقی سب الحاقی ہیں۔ یہ فیصلہ میرا نہیں ہے۔ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں دنیا سے اکٹھے ہونے والے بائبل کے ایک سو ماہرین کا یہ فیصلہ ہے۔
دوسرا حوالہ پاکستان کا ہے۔ ہمارے شہر گوجرانوالہ میں کیتھولک عیسائیوں کا بہت بڑا مرکز ہے۔ وہاں سے ان کا ایک اردو ماہنامہ رسالہ نکلتا ہے ’’کلامِ حق‘‘۔ یہ رسالہ تقریباً تیس سال سے میری نظر میں ہے۔ گزشتہ سال ’’کلامِ حق‘‘ نے ایک مضمون چھاپا، جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ لاہور سے چھپنے والی انگلش بائبل میں اکتالیس آیات بدل دی گئی ہیں۔ مضمون نگار نے باقاعدہ حوالے دیے کہ پچھلے ایڈیشن میں یہ آیت یوں تھی، اور اس نئے ایڈیشن میں یہ آیت یوں ہے۔ پچھلے ایڈیشن میں یہ جملہ نہیں تھا، جبکہ اس نئے چھپنے والے ایڈیشن میں یہ نیا جملہ موجود ہے۔ یا پچھلے ایڈیشن میں فلاں جملہ تھا، لیکن نئے ایڈیشن سے غائب ہے۔ اس نے باقاعدہ یہ موازنہ کر کے بتایا۔
تو میں نے اس پر لکھا کہ بھئی ایک ایڈیشن میں اس کتاب کی اکتالیس آیات بدلی گئی ہیں، تو دو ہزار سال میں اس کتاب کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا ہوگا۔ کیونکہ اس کتاب کی عمر تو دو ہزار سال ہے۔
ہمارے پاس تو قرآن اوریجنل ہے۔ یہ صرف ہمارا دعویٰ ہی نہیں بلکہ دنیا مانتی ہے کہ یہ اوریجنل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن صحابہ کرامؓ کو دیا جنہوں نے اسے مرتب کر لیا۔ درمیان میں کوئی تیسرا واسطہ نہیں تھا۔ قرآن کے وہ چھ، سات نسخے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لکھے گئے تھے، ان میں سے دو، یا تین اصلی نسخے اس وقت بھی موجود ہیں۔ مصاحفِِ عثمانی چھ یا سات تھے۔ ایک ترکی کے توپکاپی میوزیم میں ہے، ایک تاشقند کی مرکزی جامع مسجد کے میوزیم میں ہے، اور ایک لندن میں انڈیا آفس لائبریری میں ہے۔ لندن والا نسخہ تو میں نے بھی دیکھا ہوا ہے۔ یہ نسخہ بادشاہوں کے پاس رہا، صفوی بادشاہوں کے پاس، سلطان سلیم آف ترکی کے پاس رہا، جہانگیر بادشاہ اور شاہ جہان کے پاس رہا۔ کوئی چھ یا سات بادشاہوں کی مہریں اس پر لگی ہوئی ہیں۔ اور اس کے آخر میں لکھا ہے ’’کتبہ عثمان ابن عفان‘‘۔ اللہ کی تکوینی حکمت دیکھیں کہ یہ نسخہ کہاں پڑا ہوا ہے؟ لندن میں۔
ایک دلچسپ قصہ آپ کو بتاؤں۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ آپ نے دیکھے ہوں گے۔ ہم نے تو خیر اکٹھے زندگی گزاری ہے، اکٹھے کام کیا ہے۔ ۱۹۸۸ء کے دوران قومی اخبارات میں ایک خبر چھپی کہ یمن میں قرآن کریم کا ایک پرانا نسخہ برآمد ہوا ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت علیؓ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔
میں اس زمانے میں ترجمان اسلام کا ایڈیٹر ہوتا تھا۔ مولانا دفتر میں آئے اور کہا کہ یار یہ خبر پڑھی ہے؟ میں نے کہا جی پڑھی ہے۔ تو اپنے ہی لہجے میں کہتے ہیں کہ ’’کدھائیں کوئی شرارت نا ہووے‘‘۔ کہیں کوئی شرارت نہ ہو کہ قرآن کا نسخہ وہ نہ ہو جو چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے، اور یہ کہہ دیا جائے کہ حضرت علیؓ کا قرآن تو کوئی اور تھا۔ اور یہ جھگڑا تو ویسے بھی چل رہا ہے۔
مولانا کے ذوق کی داد دیجئے، اللہ ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے۔ کہنے لگے کہ ’’مڑ میں ویناں‘‘۔ کہ میں بس جاتا ہوں دیکھنے کے لیے۔ اس کام کے لیے مولانا نے جیب سے خرچہ کیا، یمن گئے، صنعا میں قرآن کریم کا وہ نسخہ دیکھا اور تحقیق کی۔ مولانا تو شیعہ سنی موضوع کے بہت بڑے مناظر تھے۔ شیعہ سنی جھگڑے کے سارے نکات جن پر جھگڑے تھے، ان پر قرآنی آیات خاص طور پر دیکھیں۔ ایک ہفتہ کے بعد وطن واپس تشریف لائے اور بتایا کہ میں نے ساری جگہیں دیکھی ہیں، مصحفِ عثمانیؓ اور مصحفِ علیؓ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اور جرمن ماہرین نے ایک سال اس قرآن کریم کو اپنے پاس رکھ کر اس پر تحقیق کی ہے اور پھر اس پر رپورٹ دی ہے کہ یہ کاغذ بھی حضرت علیؓ کے زمانے کا ہے اور سیاہی بھی اسی دور کی ہے، اور خط بھی حضرت علیؓ کا ہی ہے۔ یہ قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے۔
ایک واقعہ اور بتا دیتا ہوں۔ ۱۹۸۷ء میں سنی علماء کا ایک وفد ایران گیا تاکہ انقلابِ ایران کے اثرات دیکھ سکیں۔ اس وفد میں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ تھے، حافظ حسین احمد بھی تھے، میں خود تھا، اور بہت سے علماء تھے۔ باقی تفصیلات تو چھوڑیے، بس نکتے کی بات بتاتا ہوں۔
اس زمانے میں علامہ احسان الٰہی ظہیر مرحوم کی کتاب ’’الشیعۃ والقرآن‘‘ منظرِ عام پر آئی تھی۔ اس کتاب نے دنیا میں بڑا طوفان بپا کیا تھا۔ شیعوں کا قرآن کریم پر ایمان نہیں ہے، اس موضوع پر عربی زبان میں یہ ایک زبردست کتاب ہے۔ اس زمانے میں ایران، عراق جنگ تھی۔ عراق نے تو لاکھوں کی تعداد میں یہ کتاب تقسیم کرائی۔ اور علامہ احسان الٰہی ظہیر مرحوم شاید اسی کتاب کی وجہ سے شکار بنے۔
تو خیر ایران کے سینٹ ہال میں ہماری ایک نشست ہوئی۔ اس میں آیت اللہ خز علی تھے۔ آیت اللہ صاحب نے وہاں ایک بچے سے قرآن کریم پڑھوایا، اور اس بچے نے اچھا قرآن پڑھا۔ پھر آیت اللہ صاحب نے تقریر کی کہ ہمارے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہم قرآن کریم پر ایمان نہیں رکھتے ’’واللہ ما ایمان داریم‘‘۔ پھر قرآن انہوں نے جیب سے نکالا اور کہا کہ ’’ایں قرآن حق است، یک حرف کم نہ زیاد‘‘ کہ خدا کی قسم ہمارا اس قرآن پر ایمان ہے، اس کا نہ ایک حرف کم ہے نہ زیادہ، اور یہ کہ لوگ خواہ مخواہ ہمارے بارے میں پراپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔
آیت اللہ خز علی ان کی پانچ بڑی ’’آیتوں‘‘ میں سے ہیں۔ مولانا چنیوٹیؒ اور میں اس نشست میں اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ بڑی مجلس لگی ہوئی تھی۔ مولانا مجھ سے کہتے ہیں: مڑ چھیڑاں اینوں میں؟ ’’میں اسے ذرا چھیڑوں؟‘‘ بس پھر مولانا کھڑے ہو گئے۔
مولانا تو مناظر آدمی تھے۔ اور کہا کہ جی آپ نے یہ بات کی کہ قرآن کریم پر آپ کا ایمان ہے، بڑی خوشی ہوئی ہمیں۔ ہم تو پہلی دفعہ آپ سے یہ بات سن رہے ہیں کہ نہ یک حرف کم نہ زیاد۔ لیکن ہمارا ایک اشکال ہے، اگر آپ اسے حل فرما سکیں۔ آیت اللہ صاحب فارسی میں بات کر رہے تھے جبکہ مولانا صاحب عربی میں۔
آیت اللہ صاحب نے کہا کہ جی فرمائیں۔
مولانا صاحب نے کہا کہ آپ کے ہاں جو روایات ہیں صحاح اربعہ میں، کہ یہ قرآن محرف ہے، اصل نہیں ہے، اصل قرآن امام غائب کے پاس ہے، اگر آپ کے کہنے کے مطابق یہ قرآن بالکل اصل ہے، نہ یک حرف کم نہ زیاد، تو پھر ان روایات کا کیا ہو گا؟
وہ بھی عالم آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں، آپ کے ہاں بھی امام سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ پہلے قرآن کی سترہ ہزار آیات تھیں لیکن بعد میں چھ ہزار رہ گئیں۔ آپ قرآن کے بارے میں اپنی اس روایت کو نہیں مانتے، اور ہم اپنی ان روایات کو نہیں مانتے۔
مولانا پھر کھڑے ہوگئے، اور کہا کہ نہیں جی اتنا آسان نہیں ہے۔ سیوطیؒ ہمارے ہاں پانچوں چھٹے درجے کے آدمی ہیں، ہم نہ بھی مانیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن آپ کے ہاں کی روایات تو صحاحِ اربعہ کی روایات ہیں۔
جیسے ہماری صحاحِ ستہ ہے، اسی طرح شیعوں کی صحاحِ اربعہ ہے۔
مولانا نے کہا کہ یہ صحاح اربعہ کی روایات ہیں اور کچھ کم نہیں بلکہ دو ہزار روایات ہیں۔ ہمارے ہاں تو صورتحال یہ ہے کہ ہم سیوطیؒ کو نہ مانیں تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ کی روایات تو امام جعفر صادقؓ سے ہیں۔
آیت اللہ صاحب نے پھر کہا کہ امام جعفر صادقؓ ہی کا قول ہے کہ جو روایت قرآن کے خلاف ہو اسے دیوار پر مارو۔ بس ہم ان روایات کو دیوار پر مارتے ہیں۔
مولانا پھر کھڑے ہو گئے کہ ہمیں بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آپ قرآن کریم کے حوالے سے ایسی بات کر رہے ہیں۔ بس ایک بات اور ہے، اگر اسے آپ واضح کر دیں تو ہمارا ذہن صاف ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں مسلّمات میں ہے کہ جو آدمی قرآن کریم کی تحریف کا قائل ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔ آپ کے ہاں ایسے آدمی کی کیا حیثیت ہے؟ کیا آپ ایسے آدمی کو مسلمان سمجھتے ہیں جو قرآن کریم کی تحریف کا قائل ہو؟
آیت اللہ صاحب مسکرائے اور کہنے لگے کہ جی چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے، آپ چائے پئیں، مجھے کہیں جانا ہے۔
چونکہ ہم قرآن کریم کی بات کر رہے تھے، تو اس حوالے سے مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ دو واقعے ذہن میں آگئے۔ مولانا میری کمزوری ہیں، جہاں مولانا کی بات آئے تو پھر میں ذرا تفصیل سے بات کیا کرتا ہوں۔
خیر بات نکلی تھی فلیمنگ روز کی اس بات سے کہ ہم نے تو خدا، رسول اور بائبل کا حوالہ چھوڑ دیا، جبکہ مسلمان نے ابھی تک خدا، رسول اور قرآن کا حوالہ نہیں چھوڑا۔ اور اس پر میں نے اس سے کہا تھا کہ بھئی! تمہارے پاس تھا کیا جو تم نے چھوڑا ہے؟ جبکہ ہمارے پاس تو موجود ہے۔ قرآن کریم بھی اوریجنل ہے، اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ بھی ہمارے پاس اوریجنل ہے۔
اور دین دو ہی باتوں کا نام ہوتا ہے:
(۱) آسمان سے اترنے والی وحی،
(۲) اور جس نبی پر وحی اتر رہی ہے، اس کی تشریحات۔
ہماری اصطلاح میں اسے قرآن و سنت کہتے ہیں۔ قرآن بھی اصل، اور اس پر پیغمبر کا عمل، تشریح، ارشادات بھی اصلی حالات میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ میں نے فلیمنگ روز سے کہا کہ ہم سے جو توقع کرتا ہے کہ ہم اسے چھوڑ دیں گے، وہ بہت بے وقوف ہے۔
اس پر میں نے ایک لطیفہ لکھا کہ دو دوست آپس میں بیٹھ کر بات کر رہے تھے، ایک دوست نے دوسرے سے پوچھا کہ اللہ تمہیں دو مکان دے دے تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا کہ ایک تمہیں دے دوں گا۔ اس نے کہا کہ اگر اللہ تمہیں دو موٹر سائیکل دے دے تو کیا کرو گے؟ دوسرے نے کہا کہ ایک تمہیں دے دوں گا۔ پہلے نے پھر کہا کہ اگر اللہ تمہیں دو بھینسیں دے تو کیا کرو گے؟ دوسرا کہنے لگا، وہ میرے پاس پہلے سے موجود ہیں، تم ان پر نظر مت رکھو۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس دونوں چیزیں اوریجنل ہیں۔ آپ حضرات نہیں سمجھ سکتے کہ ان دونوں چیزوں کے موجود ہونے سے مغرب کتنا پریشان ہے۔
آج کل مدارس کے بارے میں کئی سطح پر کئی طرح کے اقدامات ہوتے رہتے ہیں۔ پچھلے سال واشنگٹن میں ایک دوست کے ساتھ ایک مکالمے میں، میں نے یہ کہا کہ مغرب کو مدارس کے بارے میں ایک مغالطہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت مدارس کی وجہ سے محفوظ ہیں، اور یہ کہ مدارس نہیں ہوں گے تو قرآن کریم کی تعلیم بھی نہیں ہوگی۔ اس لیے یہ مدارس کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب مدارس نہیں رہیں گے تو قرآن و سنت کی تعلیم نہیں رہے گی، جب تعلیم نہیں رہے گی تو کمٹمنٹ باقی نہیں رہے گی، جب کمٹمنٹ باقی نہیں رہے گی تو ہم جو چاہیں گے کر لیں گے۔
میں نے کہا کہ ان کا یہ مغالطہ ہے۔ میں نے کہا، قرآن و سنت اس لیے موجود نہیں ہیں کہ مدارس موجود ہیں۔ بلکہ مدارس اس لیے موجود ہیں کہ قرآن و سنت موجود ہیں۔ قرآن و سنت کی وجہ سے مدارس موجود ہیں۔ قرآن نے تو قیامت تک رہنا ہے۔ جو اس سے وابستہ ہو گا وہ بھی رہے گا۔ ہمارا قرآن پر کوئی احسان نہیں ہے۔ ہم اس کی حفاظت نہیں کر رہے بلکہ قرآن ہماری حفاظت کر رہا ہے۔ اگر ہمارے اندر بھی کسی کے ذہن میں یہ مغالطہ ہے تو دور کر لے کہ ہم قرآن کی حفاظت نہیں کر رہے بلکہ ہماری قرآن سے وابستگی میں ہماری حفاظت ہے۔ اللہ نے تو یہ حفاظت ہمارے ذمے لگائی ہی نہیں ہے۔ پہلی امتوں کے ذمے ان کی کتابوں کی حفاظت لگائی گئی تھی ’’بما استحفظوا من کتاب اللّٰہ۔ وکانوا علیہ شہداء۔ ہمارے بارے میں تو اللہ نے صاف کہہ دیا کہ ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘۔
ضمناً ایک بات ذہن میں آگئی کہ آج کل اس بات پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ قرآن اگر ختم نہیں ہوتا تو قرآنی تعلیمات ختم کر دو۔ اصل مسئلہ تو کمٹمنٹ کا ہے کہ مسلمان کوئی دوسری بات سنتا ہی نہیں۔ اور اس کے پیچھے وجہ قرآن و سنت کی موجودگی ہے۔ اور قرآن و سنت کی موجودگی کی وجہ مدارس ہیں۔ اور مدارس کی موجودگی کی وجہ ہیں مولوی۔ تو یہ ہے ساری لڑائی۔ پھر کہتے ہیں کہ قرآن کریم اگر تبدیل نہیں ہوتا تو کم از کم اس کی شرح تو تبدیل ہو جائے۔ قرآن و سنت کی تعبیرِ نو ہو جائے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سو سال سے ہمارے دانشور سر کھپا رہے ہیں، کبھی ایک حلقہ کھڑا ہوتا ہے، کبھی دوسرا حلقہ کھڑا ہوتا ہے، کہ بس تعبیرِ نو کرو جی۔
ایک ایسے ہی دانشور سے میری گفتگو ہوئی، میں نے پوچھا یار کس مصیبت میں پڑے ہوئے ہو تم لوگ۔ تمہارے خیال میں قرآن و سنت نئی تعبیر کو لوگ مان لیں گے۔ میں نے پوچھا کہ قرآن و سنت کس زبان میں ہیں، کہا: عربی میں۔ میں نے پوچھا: عربی زبان زندہ زبان ہے یا مردہ زبان؟ بائبل کا مسئلہ تو یہ تھا کہ وہ مردہ زبان، عبرانی میں تھی۔ قرآن عربی زبان میں ہے اور عربی زبان زندہ زبان ہے۔ عربی کی لغت، محاورے، ضرب المثل، تشریحات سب موجود ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم کی تشریح میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت دونوں موجود ہیں۔ یعنی قرآن کریم کی فلاں آیت کی تشریح حضورؐ نے اس طرح کی ہے، کیا یہ ریکارڈ پر ہے یا نہیں؟ یا رسول اللہؐ نے فلاں آیت پر یوں عمل کیا، یہ بھی ریکارڈ پر ہے یا نہیں؟ اگر کوئی عام مسلمان یہ معلوم کرنا چاہے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت کا ترجمہ کے اعتبار سے مفہوم کیا ہے؟ اور نبی کریمؐ نے اس آیت کی تشریح کیسے کی ہے؟ کیا عام مسلمان کی اس بات تک رسائی ممکن ہے یا نہیں؟
پھر یہ کہ دنیا کا کوئی مسلمان قرآن کریم کی آیت سمجھنے کے لیے عربی زبان تک رسائی حاصل کرنا چاہے، اور اس کی تشریح میں حضورؐ کی تعلیمات تک رسائی حاصل کرنا چاہے، کیا یہ ممکن ہے یا نہیں؟
تو میں نے کہا کہ ان دو باتوں کے ہوتے ہوئے کوئی دانشور یہ سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ اس کی اختراع کی ہوئی تشریح قبول کر لی جائے گی۔ ایک آیت کے متعلق ایک مسلمان کو پتہ چل جائے کہ حضورؐ نے اس پر یوں عمل کیا، تو دنیا کی کوئی دلیل، کوئی تشریح کوئی قوت اس مسلمان کو کسی نئی تشریح پر آمادہ نہیں کر سکے گی۔
تو میں نے کہا کہ بھئی کیوں اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہو؟ ایک حلقہ کھڑا کرتے ہو، دس پندرہ سال ایک شور و غل مچتا ہے، یہ ٹی وی چینل، وہ ٹی وی چینل، بعد میں وہ بھی ٹُھس ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ کئی حلقے تو میرے سامنے ٹھس ہوئے ہیں۔
بات چلی تھی کہ فلیمنگ روز سے۔ بات چونکہ بہت زیادہ اہم تھی، اس لیے میں نے بھی اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس نے کہا کہ مسلمانوں نے قرآن و سنت کا حوالہ باقی رکھا ہوا ہے جبکہ ہم نے رسول اور بائبل کا حوالہ چھوڑ دیا ہے۔ میں نے اس کے جواب میں کہا کہ تمہارے پاس تو کچھ تھا ہی نہیں جسے چھوڑنے کا تم احسان جتا رہے ہو۔ ہمارے پاس تو الحمد للہ قرآن بھی اپنی اصل حالت میں ہے، اور اس کی تشریح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حدیث و عمل بھی اصلی حالت میں موجود ہے۔ اس لیے ہم سے کوئی یہ توقع نہ کرے کہ ہم اسے چھوڑ دیں گے۔ اگر کوئی یہ توقع کرتا ہے تو اس سے بڑا کوئی بے وقوف دنیا میں نہیں ہے۔
حقوق کے فلسفے میں مغرب اور ہمارے درمیان ایک فرق تو میں نے یہ عرض کیا تھا کہ مغرب صرف سوسائٹی کی بات کرتا ہے، انسانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ جبکہ ہم بات کرتے ہیں حقوق اللہ کی اور حقوق العباد کی۔ دوسرا فرق میں نے یہ بتایا تھا کہ مغرب جب حقوق کی بات کرتا ہے تو اس کی بنیاد اس بات پر ہوتی ہے کہ سوسائٹی کیا چاہتی ہے اور سوسائٹی کیا سوچتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں حقوق کی بنیاد علومِ وحی پر ہے۔ ہمارا تصور یہ ہے کہ ’’ان احکم بینہم بما انزل اللّٰہ ولا تتبع اہواء ہم عما جاء ک من الحق‘‘۔
اب میں آتا ہوں تیسرے فرق کی طرف۔ مغرب جب حقوق کی بات کرتا ہے تو وہ فرد سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ، تمہارا یہ حق ہے۔ مغرب حقوق مانگنے کا سبق دیتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام حقوق دینے کی بات کرتا ہے۔ اسلام فرد سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ، تمہارے ذمے یہ حق ہے۔ اس بات پر ذرا غور کیجئے۔ مغرب حقوق حاصل کرنے کی بات کرتا ہے۔ جبکہ اسلام حقوق ادا کرنے کی بات کرتا ہے۔
دنیا کا ہر شخص اگر حق مانگنے پر آجائے، تو تصور کیجیے کہ سوسائٹی کا کیا حال ہو گا؟
اس کے برعکس دنیا کا ہر شخص حق ادا کرنے پر آجائے تو سوسائٹی کی کیا صورت ہوگی؟
تو ہم مغرب سے کہتے ہیں کہ تم حق وصول کرنے کی بات کرتے ہو جبکہ ہم حق ادا کرنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ تھا تیسرا لیکن بہت اہم فرق۔
اب میں مغرب کے حقوق کے فلسفے کی وضاحت کرتا ہوں۔ لیکن اس کے لیے اس کی کچھ تاریخ سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر تو اس کا آخری مرحلہ ہے، لیکن اس سے پہلے ایک پوری تاریخ ہے جس سے گزر کر مغرب کے حقوق کا فلسفہ یہاں تک پہنچا ہے۔ مغرب جو یہ کہتا ہے کہ ہم نے انسانیت کو حقوق سے متعارف کرایا، انسانوں میں حقوق کا شعور پیدا کیا، میں اس کی تھوڑی سی تاریخ آپ کے سامنے بیان کرنا چاہوں گا۔
برطانیہ انسانی حقوق کا چیمپئن ہے۔ گیارہویں صدی عیسوی میں برطانیہ کا ایک بادشاہ تھا کانریڈ (دوم)۔ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا تصور اس نے دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں مطلق العنان بادشاہت کی بجائے ایک پارلیمنٹ اپنے اختیارات کے ساتھ گیارہویں صدی عیسوی میں متعارف ہوئی۔
پہلے اس وقت کے حکومتی نظام کا ڈھانچہ سمجھ لیں۔ تین طاقتیں حکمران تھیں: (۱) بادشاہ (۲) جاگیردار اور (۳) پوپ۔
عیسائیوں کے تین بڑے فرقے ہیں: کیتھولک، پروٹسٹنٹ، آرتھوڈکس۔ کیتھولک فرقے کے سربراہ کو پاپائے روم کہتے ہیں۔ اور پروٹسٹنٹ کے سربراہ کو آرچ بشپ آف کینٹربری (Archbishop Of Canterbury) کہتے ہیں اور یہ برطانیہ میں ہوتا ہے۔
ابھی حال ہی میں پروٹسٹنٹ فرقے کے بڑے سربراہ ڈاکٹر روون نے مسلمانوں کے حق میں کچھ بیانات دیے ہیں جن پر برطانیہ میں کچھ تنازع چل رہا ہے۔ انہوں نے ایک لیکچر میں کہا کہ مسلمانوں کو برطانیہ میں مالیات، نکاح و طلاق کے معاملے میں اپنے شرعی قوانین پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے اور حکومت برطانیہ کو چاہیے کہ مسلمانوں کے لیے شرعی عدالتیں قائم کرے اور شرعی قوانین نافذ کرے۔ شرعی عدالتیں پاکستان میں قائم ہوں یا نہ ہوں، لیکن عیسائی فرقے کے سربراہ نے برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے شرعی عدالتیں قائم کی جائیں، شرعی قوانین نفاذ کیے جائیں اور انہیں اپنے قوانین پر عمل کرنے کا حق دیا جائے۔ لیکن صرف دو معاملوں میں۔ ایک، خاندانی قوانین (Personal Law) یعنی نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ کے معاملات میں، دوسرا حلال و حرام کے معاملات میں۔
اس مطالبہ پر ان کے خلاف ایک طوفان کھڑا ہو گیا ہے۔ ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن وہ ڈٹے ہوئے ہیں کہ نہ تو میں بیان واپس لوں گا اور نہ ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دوں گا۔ ڈاکٹر روون ولیمز کے اس مطالبہ کے رد عمل میں برطانوی وزیر اعظم گولڈن براؤن کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا، اور ایسا اس لیے نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کے شرعی قوانین انسانی حقوق کے منافی ہیں۔
اس بات کی وضاحت میں اپنے لیکچر میں ذرا آگے جا کر مناسب وقت میں کروں گا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے اور اس کی یہ بات غلط کیوں ہے۔ بہرحال یہ ایک کشمکش چل رہی ہے عیسائی سربراہ اور برطانیہ کے حکومتی حلقوں میں۔
ایک زمانہ تھا کہ صرف کیتھولک فرقہ ہی ہوتا تھا، پروٹسٹنٹ فرقہ ابھی وجود میں نہیں آیا تھا۔ جبکہ آرتھوڈکس کا مرکز روس اور مشرقی یورپ ہے۔ تو امریکہ والے زیادہ کیتھولک ہیں، مغربی یورپ والے زیادہ پروٹسٹنٹ ہیں، جبکہ مشرقی یورپ اور روس والے زیادہ آرتھوڈکس ہیں۔ آرتھوڈکس بہت زیادہ متشدد ہیں۔
پوپ ایک زمانے میں بہت بڑی قوت تھی۔ پوپ کو بائبل کی تشریح کا حق حاصل تھا، اور آج بھی ہے۔ پوپ بائبل کی جو چاہے تشریح کرے، کسی چیز کو حلال قرار دے دے یا کسی چیز کو حرام قرار دے دے، یہ اس کا اختیار ہے۔ اس کی ایک پاپائے روم کونسل ہے۔ کونسل فیصلے کرتی ہے جبکہ پوپ اسے نافذ کرتا ہے۔ پوپ بذات خود ایک اتھارٹی ہے۔ پوپ کو یہ فائنل اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ بائبل کی تشریح میں کچھ بھی کہہ دے۔ یہی مغالطہ آج ہمارے بعض دوستوں کو بھی پریشان کر رہا ہے۔
آج علماء سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اجتہاد سے کام لیں۔ اور اجتہاد سے کام لے کر یہ مسئلہ بدل دیں، وہ مسئلہ بدل دیں۔ لوگوں کے نزدیک اسلام میں اجتہاد کا اختیار ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائیت میں پوپ کے پاس بائبل کی تشریح کا اختیار ہے۔ تو میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ بھئی تم لوگ مغالطے میں ہو۔ عیسائیت میں پوپ کو یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ بائبل کی کوئی بھی تشریح کر سکتا ہے۔ اسلام میں یہ اتھارٹی کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ یہ بات ذرا سمجھنے کی ہے۔ ہمارے ہاں یہ اتھارٹی کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ قرآن کی تشریح کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ از خود کر سکے۔
اجتہاد کی بات چل نکلی ہے تو اس حوالے سے ایک لطیفہ میرے ذہن میں آیا ہے۔ ایک دفعہ میں برطانیہ میں سفر کر رہا تھا، لندن سے مانچسٹر کی ٹرین میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک نوجوان مجھے دیکھ کر قریب آکر بیٹھ گیا، اور پوچھا: آپ مولانا صاحب ہیں؟ میں نے کہا: لوگ یہی کہتے ہیں۔ کہنے لگا: آپ کو اجتہاد کا اختیار حاصل ہے؟ میں نے پوچھا: آپ کو کیا مسئلہ درپیش ہے جس میں آپ کو اجتہاد کی ضرورت پڑ گئی؟
اس کے نزدیک اجتہاد کا تصور یہ تھا کہ اجتہاد کسی ایسی اتھارٹی کا نام ہے، کہ اگر کسی کے پاس یہ اتھارٹی ہو تو اسے شرعی معاملات میں کوئی بھی فیصلہ دینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ تو اس نے بتایا کہ میں مسلمان ہوں اور اتنے عرصے سے برطانیہ میں رہ رہا ہوں۔ میں باقاعدہ نماز پڑھتا ہوں۔ لیکن ظہر اور عصر میری رہ جاتی ہے، کیونکہ دفتر سے نماز کے لیے الگ چھٹی نہیں ملتی۔ چنانچہ میں ایسا کرتا ہوں کہ ظہر تو فجر کے ساتھ پڑھ لیتا ہوں، جبکہ عصر میں مغرب کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ اگر آپ کو اجتہاد کا اختیار ہے تو آپ مجھے اس کی اجازت دے دیں۔
میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ اجتہاد کا عام مفہوم لوگوں کے ذہن میں کچھ اس طرح سے ہے۔ میں نے اس نوجوان سے کہا کہ میں ففٹی ففٹی کر سکتا ہوں۔ عصر کی نماز جو تم مغرب کے ساتھ پڑھتے ہو، اس کی گنجائش دے سکتا ہوں کہ مجبوری ہے۔ نماز قضا ہو جائے گی لیکن ہو جائے گی۔ لیکن ظہر کی نماز فجر کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر بہت زیادہ مجبوری ہے کہ ظہر کی نماز تم لنچ بریک میں بھی نہیں پڑھ سکتے، تو پھر ظہر بھی تم مغرب کے ساتھ ہی پڑھ لیا کرو۔ میں نے سوچا کہ یہ تو غنیمت ہے کہ ایک نوجوان اتنے عرصے سے برطانیہ میں ہے اور وہ باقاعدہ نماز پڑھتا ہے۔
لیکن عیسائیت میں پوپ کو یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ بائبل کی کوئی بھی تشریح کر دے اور اپنی مرضی سے کوئی بھی فیصلہ سنا دے۔ اس بات پر میں ایک حوالہ دوں گا۔
قرآن کریم کی جب یہ آیت اتری کہ ’’اتخذوا احبارہم و رہبانہم ارباباً من دون اللّٰہ والمسیح ابن مریم‘‘۔ اس پر عدیؓ ابن حاتم نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سوال کیا۔ بخاری کی روایت ہے۔ عدیؓ حاتم طائی کے بیٹے تھے اور عیسائی تھے۔ حاتم طائیؓ نے حضورؐ کا زمانہ نہیں پایا لیکن وہ اہلِ حق میں سے تھے۔ حضورؐ سے پہلے جو لوگ حق کا مذہب قبول کرتے تھے تو عیسائیت کا مذہب قبول کرتے تھے۔ ’’کان تنصر‘‘۔ حاتم طائی عیسائی ہوگئے تھے اور بت پرستی چھوڑ دی تھی۔ سارا خاندان عیسائی ہوگیا تھا۔ عدیؓ ابن حاتم جب مسلمان ہوئے تو عیسائی سے مسلمان ہوئے۔
تو عدیؓ ابن حاتم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قرآن کریم نے جو ہمارے بارے میں کہا ہے کہ ’’اتخذوا احبارہم و رہبانہم ارباباً من دون اللّہ‘‘ کہ انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو رب بنا لیا ہے، لیکن ہم تو اپنے احبار و رہبان کو رب نہیں بناتے تھے۔ قرآن کریم نے یہ بات ہم پر کیسے کہی ہے؟
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ بتاؤ کہ تمہارے احبار و رہبان کو حلال کو حرام قرار دینے اور حرام کو حلال قرار دینے کی اتھارٹی حاصل تھی؟
عدیؓ نے کہا: جی یہ اختیار تو حاصل تھا۔ یعنی کسی حلال کو حلال کی فہرست سے نکال کر حرام کی فہرست میں شامل کر دیں، یا کسی حرام کو حرام کی فہرست سے نکال کر حلال کی فہرست میں شامل کر دیں، یہ اختیار تو ان کو حاصل تھا۔
نبی کریمؐ نے فرمایا: اس آیت کا یہی مطلب ہے۔
حلال و حرام کا اختیار کس کے پاس ہے؟ اللہ کے پاس۔ اگر یہ اتھارٹی اللہ کے سوا کسی کے پاس ہوتی تو پھر کس کے پاس ہوتی؟ انبیاء کے پاس۔ اور انبیاء میں سب سے بڑے پیغمبر کون ہیں؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اللہ تعالیٰ کیسے مخاطب ہوتے ہیں ’’یا ایہا النبی لم تحرم ما احل اللّٰہ لک‘‘ اے اللہ کے نبی! ہم نے تو حلال کیا تھا، آپ نے کیسے حرام کر دیا؟ ’’تبتغی مرضات ازواجک‘‘۔ ہم تو ترجمہ بھی ڈرتے ہوئے کرتے ہیں۔ ’’قد فرض اللّٰہ لکم تحلت ایمانکم، واللّٰہ مولٰکم، وہو العلیم الخبیر‘‘۔ تو اللہ نے اپنے نبی سے کہا کہ یہ آپ کا اختیار نہیں ہے کہ کسی چیز کو حلال سے حرام کر دیں۔
میں یہ بات واضح کر رہا تھا کہ عیسائیت میں آج بھی پوپ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی چیز کو حلال سے حرام کر سکتا ہے اور حرام سے حلال کر سکتا ہے۔ عدیؓ ابن حاتم کے سوال کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا، کہ رب بنانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو حلال و حرام کا اختیار دے دیا جائے۔
مگر یہاں ایک سوال ہے کہ حلال و حرام کے اختیار میں پوپ کو دخیل مانیں تو وہ ’’ارباباً من دون اللّٰہ‘‘ ہے۔ اگر کسی پارلیمنٹ کو حلال و حرام کے اختیار میں دخیل مان لیں، تو کیا وہ ’’ارباباً من دون اللّٰہ‘‘ نہیں ہے؟ اور اگر سوسائٹی کو حلال و حرام کے اختیار میں دخیل مان لیں تو کیا ہے؟ ’’ارباباً من دون اللّٰہ‘‘۔ ہم یہی کہتے ہیں کہ نہ پوپ کو، نہ پارلیمنٹ کو اور نہ سوسائٹی کو، نہ مولوی کو، کسی کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اللہ کے حلال کیے کو حرام قرار دے یا حرام کیے کو حلال قرار دے۔ تو میں اپنے ان دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ بھئی یہ تمہارا مغالطہ ہے کہ پوپ کی طرح کے اختیارات ہمارے پاس بھی ہیں۔ ہمارے پاس ایسے کوئی اختیارات نہیں ہیں بھئی۔
ایک بات میں یہاں ضمناً عرض کر دیتا ہوں۔ اسلام میں یہ اختیار کس کو حاصل ہے کہ اس کی بات حتمی ہو اور اس کو چیلنج نہ کیا جا سکے؟ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ یہاں تک کہ ہم جس امام کی تقلید کرتے ہیں، میں بھی مقلد ہوں اور آپ حضرات بھی مقلد ہیں۔ ہم مقلد ہیں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے۔ ہم ان پر اعتماد کر کے بغیر دلیل کے بھی ان کی بات مان لیتے ہیں۔ اور ہر آدمی ہر مسئلے کی تحقیق کر بھی نہیں سکتا۔ ان کے بارے میں بھی ہم کیا کہتے ہیں؟ ’’مجتہد یخطئ ویصیب‘‘۔ اور ان کا جو فتویٰ ہم بغیر دلیل کے مانتے ہیں وہ بھی یہ کہہ کر مانتے ہیں کہ ’’صواب یحتمل الخطأ‘‘۔
اور یہ صرف امام صاحبؒ کے معاملے میں نہیں بلکہ سیدنا صدیق اکبرؓ کے معاملے میں بھی یہی اصول ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی بہت بڑے مجتہد ہیں۔ اور اگر کسی مجتہد کا کوئی فتویٰ نہیں مانیں گے تو یہ کہہ کر نہیں مانیں گے کہ ’’خطاء یحتمل الصواب‘‘۔ لیکن یہ خطاء اور صواب کا تقابل ہو گا نہ کہ حق و باطل کا۔ یہ ہماری حدود ہیں۔ تو میں نے ان دوستوں سے کہا کہ بھئی ہمارے پاس یہ اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔
حضرت صدیق اکبرؓ نے خلیفۃ المسلمین بننے کے بعد جو سب سے پہلا خطبہ دیا تھا، تو ایک جملہ کہا تھا کہ: تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ کتاب و سنت کے مطابق چلوں گا۔ ’’ان استقمت فاعینونی‘‘ اگر چلوں تو میرا ساتھ دینا ’’فان انا ازغت فاقیمونی‘‘ اگر نہیں چلوں تو مجھے سیدھا کر دو ’’فلا سمع و لا طاعۃ‘‘ اگر کتاب و سنت کے مطابق نہ چلوں تو پھر نہ میری بات سنو نہ میری بات مانو۔
کتاب و سنت کے بعد کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ اس کی بات حتمی ہو۔ ہاں ہمارے ہاں ترجیح چلتی ہے۔ ’’صواب یحتمل الخطاء، خطاء یحتمل الصواب، مجتہد یخطئ ویصیب‘‘۔ یہی ہمارے اصول ہیں اور یہی ہمارے ضابطے ہیں۔ تو میں ان سے کہتا ہوں کہ بھئی آپ کو مغالطہ ہے کہ عیسائیت میں جس طرح پوپ کوئی حتمی فیصلہ کر دیتا ہے، اسی طرح مولوی بھی حتمی فیصلہ کر سکتے ہیں، نہیں بھئی یہ اختیار نہ پارلیمنٹ کے پاس ہے، نہ مجتہد کے پاس، نہ کسی جماعت کے پاس اور نہ سوسائٹی کے پاس، کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔
مغرب کے انسانی حقوق کی تاریخ اور پس منظر بیان کر رہا ہوں۔ مغرب میں آج سے دو سو سال پہلے تک جو صورتحال تھی وہ صورتحال سامنے رکھنا ضروری ہے۔ تین مقتدر قوتیں تھیں: (۱) پاپائے روم (۲) بادشاہ (۳) اور جاگیردار۔ عوام کو کوئی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ عام آدمی تو جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ اتھارٹی صرف ان تینوں کے پاس تھی۔ اور ان میں سے سب سے زیادہ اتھارٹی پوپ کے پاس تھی۔ پوپ خدا کا نمائندہ کہلاتا ہے۔ اور پوپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مذہبی طور پر جو بھی کہہ دے وہ خدا کی طرف سے ہے۔
جبکہ ہمارے ہاں اسلام میں یہ تصور نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمارے ہاں کوئی شخصیت بھی ایسی نہیں ہے کہ جس کی بات چیلنج نہ کی جا سکے۔ دلیل کی بنیاد پر ہر شخص کے ساتھ اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمارے ہاں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ سے بڑے تو کوئی نہیں ہیں۔ ان سے بھی لوگ دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرتے تھے، اور بہت سے مسائل میں اب بھی کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے بہت سے تفردات کو آپ نہیں مانتے۔
ایک بات ضمناً ذہن میں آئی ہے۔ اسلام پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اسلام شخصی حکومت کا قائل ہے۔ یعنی اسلام امیر المؤمنین کے نام سے جو حکومت قائم کرتا ہے وہ شخصی حکومت ہے۔ اور یہ کہ اسلام ایک شخص کو اتھارٹی بنا دیتا ہے۔ یہ ایک مغالطہ ہے۔ اسلام شخصیت کی حکومت قائم نہیں کرتا بلکہ دلیل اور قانون کی حکومت قائم کرتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ بیان جو کہ ایک پالیسی بیان ہے، یعنی آپ کا خلیفہ منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلا خطبہ کہ قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے، اور اگر قرآن و سنت سے ہٹ جاؤں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔ آپ کے خیال میں یہ شخصی حکومت ہے یا قانون کی حکومت ہے؟
حضرت عمرؓ جب کھڑے ہو کر یہ اعلان فرماتے ہیں کہ میں قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میری بات مانو، اگر قرآن و سنت سے ہٹ جاؤں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔ اور پھر ایک شخص حضرت عمرؓ کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہتا ہے ’’لا سمع‘‘ نہیں سنتے، پہلے آپ اس کی وضاحت کریں۔ اور راستے میں جاتے ہوئے ایک عورت نے حضرت عمرؓ کو روکا اور دلیل کے ساتھ کہا کہ آپ کا فلاں فیصلہ قرآن کے خلاف ہے۔ حضرت عمرؓ نے وہ فیصلہ واپس لیا۔
میں اس وقت ان واقعات کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ میں صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ آیا یہ شخصی حکومت ہے یا قانون کی؟ اور یہ ہمارے اہل سنت کے ہاں ہے۔
اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا بنیادی اختلاف یہی ہے۔ ہمارے ہاں خلافت تو منصوص ہے لیکن خلیفہ منصوص نہیں ہے۔ خلیفہ کا انتخاب حضورؐ نے کس پر چھوڑا؟ امت پر۔ حضورؐ نے راہنمائی ضرور کی اور اشارات بھی دیے لیکن عملی طور پر خلیفہ کا انتخاب امت پر چھوڑ دیا۔ اور اہلِ تشیع اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟ امامت اور خلافت میں یہی فرق ہے۔ خلافت کا انتخاب امت پر ہے۔
اہل سنت کی خلافت اور اہل تشیع کی امامت میں تین بنیادی فرق ہیں:
(۱) پہلا فرق: خلافت منصوص نہیں ہے بلکہ امت کے اختیار پر ہے۔ جبکہ امامت منصوص ہے، وصی رسول اللّٰہ۔
(۲) دوسرا فرق: خلافت خاندانی یا نسبی نہیں ہے۔ جبکہ امامت خاندانی ہے۔ یہ خمینی صاحب اور خامنہ ای صاحب وغیرہم تو امام غائب کے نمائندے ہیں۔
(۳) تیسرا فرق: خلیفہ معصوم نہیں ہے۔ خلیفہ کی کسی بھی بات سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ امام معصوم ہے۔ اور امام کی کسی بھی بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ امام جو کہہ دے وہی قرآن کی منشا ہے اور جو کہہ دے وہی سنت کا مفہوم ہے۔ امام کے معصوم ہونے کا معنیٰ ہے ’’معصوم عن الخطاء‘‘ غلطی سے پاک۔ اس کا دوسرا معنٰی ہے کہ امام اتھارٹی ہے۔
اس لیے میں مغرب سے کہا کرتا ہوں کہ تم ہمیں جو طعنہ دیتے ہو کہ تم میں پاپائیت ہے، وہ ہم جمہور مسلمانوں میں تو نہیں ہے۔ ہمارے ہاں خلیفہ نہ منصوص ہے، نہ خاندانی ہے، نہ معصوم ہے اور نہ ہی اختلاف سے مستثنیٰ اتھارٹی ہے۔ اگر پاپائیت کا کوئی تصور ہے تو وہ اہلِ تشیع میں ہے۔ پوپ اور امام تقریباً ایک جیسے ہیں۔
اب بھی ایران کے دستور میں شوریٰ نگہبان جو ہے، ولایت فقیہ کے عنوان سے، اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ یا صدر کے فیصلے کو بغیر دلیل کے منسوخ کر سکتی ہے۔ شوریٰ نگہبان میں چھ آیت اللہ ہیں، پانچ قانون دان ہیں، اور سربراہ خامنہ ای صاحب ہیں۔ اس کونسل کو یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ جو وہ کہہ دے وہی دین ہے۔ جو پاپائے روم کی کونسل کو اختیار حاصل ہے وہی ایران کے دستور میں ولایت فقیہ کو حاصل ہے۔
یہ صوابدیدی اختیارات ہمارے اہلِ سنت میں کسی کو حاصل نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں بات دلیل اور قانون کی بنیاد پر ہوگی۔ قرآن و سنت سے حوالہ دینا پڑے گا، اگر مقابلے میں قوی حوالہ آجائے تو دستبردار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ ہمارے ہاں شخصی نہیں بلکہ قانون کی حکومت ہے۔
خیر یہ بات تو درمیان میں آگئی، میں بات کر رہا تھا کہ پاپائے روم، بادشاہ اور جاگیردار کی آپس میں انڈراسٹینڈنگ ہوتی تھی اور عوام الناس کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا۔ یہ تینوں مل کر حکومت کرتے تھے۔ پھر ہوا یوں کہ ان تینوں کے درمیان جھگڑے پیدا ہونے شروع ہو گئے۔ جاگیرداروں کو بادشاہ سے شکایات ہوئیں۔
آپ انسانی حقوق کے حوالے سے اکثر ایک جملہ سنتے ہیں میگنا کارٹا (Magna Carta)۔ اسے انسانی حقوق کی سب سے پہلی باضابطہ دستاویز کہا جاتا ہے۔ ۱۵ جون ۱۲۱۵ء کو یعنی تیرہویں صدی عیسوی میں، تقریباً سات سو سال پہلے، حقوق کے حوالے سے ایک باضابطہ معاہدہ لکھا گیا کہ فلاں کے یہ حقوق ہیں، فلاں کے یہ حقوق ہیں وغیرہ، اور پھر یہ ضابطہ باقاعدہ نافذ کیا گیا۔ جب آپ مغرب والوں سے انسانی حقوق کے حوالے سے بات کریں گے تو وہ آپ سے کہیں گے کہ ہماری حقوق انسانی کی تاریخ کا آغاز میگنا کارٹا معاہدے سے ہوتا ہے۔
میگنا کارٹا مغرب کے انسانی حقوق کی ابتدا، جبکہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کار چارٹر اس کی انتہا ہے۔
میگنا کارٹا منظور ہوا ۱۲۱۵ء جبکہ یہ چارٹر منظور ہوا ۱۹۴۸ء میں۔ یہ تقریباً سات صدیوں کا عرصہ بنتا ہے۔ اور ان دو واقعات کے درمیان مغرب کی انسانی حقوق کی تاریخ ہے۔ بنیادی طور پر میگنا کارٹا میں عوام کے حقوق نہیں تھے بلکہ اس وقت کے بادشاہ جان اور جاگیرداروں میں جھگڑے کی بنیاد پر یہ معاہدہ طے ہوا جس میں بادشاہ اور جاگیرداروں کے آپس کے حقوق متعین کیے گئے۔ اس میں کوئی ایک آدھ عوام کا حق بھی تھا۔ اصل جھگڑا بادشاہ اور جاگیردار کا تھا۔ تو یہ معاہدہ بادشاہ اور جاگیرداروں کے آپس میں اختیار اور حقوق طے کرنے کے لیے بنایا گیا۔ اسے مغرب والے انسانی حقوق کی سب سے پہلی دستاویز تصور کرتے ہیں۔
چنانچہ بادشاہ اپنے حقوق و اختیارات کا پابند ہوگیا اور جاگیردار اپنے حقوق و اختیارات کے پابند ہوگئے۔ جبکہ پاپائے روم کو ابھی تک اتھارٹی حاصل تھی کہ وہ جو چاہے کرے۔ پوپ کے اختیارات میں رکاوٹ آئی سائنسی ترقی و انکشافات سے۔ یہ ایک لمبی اور المناک تاریخ ہے۔
سائنس نے جب انکشافات کیے کہ چاند یوں گردش کرتا ہے اور سورج اس طرح سے خلا میں سفر کرتا ہے اور زمین اس طرح سے سورج کے گرد چکر لگاتی ہے وغیرہ۔ چرچ والے ان انکشافات کو نہ صرف بائبل کی رُو سے رد کرتے رہے بلکہ اسے ارتداد قرار دے کر سائنس دانوں اور ماہرین کو سزائے موت دیتے رہے۔ اسی طرح چرچ والوں نے ہزاروں ماہرین مار دیے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پہلے چرچ ہوتا تھا۔ وہاں وہ نشانات ابھی تک محفوظ ہیں جہاں پادریوں کی عدالت لگتی تھی، جس میں ایک سائنس دان اپنے دعویٰ کے ساتھ پیش کیا جاتا کہ چاند گردش کرتا ہے۔ بس پادری فیصلہ سنا دیتے کہ یہ مرتد ہوگیا ہے، اسے قتل کر دو۔ کوئی ماہر کہتا کہ ہوا میں فلاں چیز اس طرح سے کام کرتی ہے، بس اسے خدا کے معاملات میں دخیل سمجھ کر قتل کر دیا جاتا۔ تقریباً دو سو سال تک ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہزارہا افراد قتل کیے جاتے رہے۔
چنانچہ دو باتوں میں چرچ رکاوٹ بنا، سائنسی ترقی میں اور آزادئ رائے میں۔ پوپ چونکہ خدا کا نمائندہ تصور ہوتا، اس لیے جو آدمی بھی اس سے اختلاف کرتا اسے مرتد سمجھ کر قتل کر دیا جاتا۔ اور ایسا اب سے تین سو سال پہلے تک ہوتا رہا۔
ہمارے ہاں تو خلفائے راشدینؓ سے بھی اختلاف رائے کا حق تھا۔ اور بہت سے مواقع پر خلفائے راشدینؓ نے لوگوں کے اختلاف پر اپنے فیصلے واپس بھی لیے۔ اس پس منظر میں دیکھیں کہ اس کے برعکس چرچ اور پوپ نے یہ رویہ اختیار کر لیا جو بھی اختلاف کرتا ہے وہ مرتد ہے۔ اختلاف رائے پر ہزاروں لوگ آگ میں جلائے گئے، ہزاروں پھانسی پر چڑھائے گئے، ہزاروں لوگ قتل کیے گئے۔ سائنسی انکشافات پر اور اختلاف رائے پر۔
اس صورتحال نے پوپ کے خلاف بغاوت پیدا کی۔ اب نہ تو سائنسی ترقی رکے گی اور لوگ رائے کا حق بھی نہیں چھوڑیں گے۔ چنانچہ چرچ اور پوپ کے ردعمل میں ایک بغاوت اٹھی، اور اس بغاوت میں ایک نیا فرقہ وجود میں آیا جسے پروٹسٹنٹ کہتے ہیں۔ یہ پروٹسٹنٹ فرقہ پوپ کی مطلق العنانی، خدائی اختیارات کے استعمال، بائبل کی من مانی تشریح اور متشدد رویے کے ردعمل کے طور پر وجود میں آیا۔ پروٹسٹنٹ فرقے کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ ہر آدمی کو بائبل سمجھنے کا حق حاصل ہے اور صرف پوپ بائبل کا ٹھیکیدار نہیں ہے۔ پروٹسٹنٹ کی تحریک میں بہت سے مفکرین نے کام کیا لیکن مارٹن لوتھر ایک بہت بڑا پادری تھا جس نے اس تحریک کی قیادت کی۔
اس پس منظر میں اب بالکل یہی صورتحال ہمارے ہاں مسلمانوں میں بھی پیدا کی جا رہی ہے کہ ہم قرآن و سنت کی تشریح میں مولوی کی اجارہ داری نہیں مانتے۔ ہم کامن سینس (Common Sense) سے قرآن کی تشریح کریں گے۔ لیکن یہ بالکل مغالطے پر مبنی ہے۔ مارٹن لوتھر کی تحریک پوپ کی مطلق العنانی کے خلاف تھی کہ پوپ خدا کا نمائندہ تصور ہوتا تھا اور اسے یہ اتھارٹی حاصل تھی کہ اس کے پاس چاہے دلیل ہے یا نہیں، وہ جو بات کہہ دے گا وہ حتمی ہوگی اور اسے چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
میں ان دانشوروں سے کہتا ہوں کہ مارٹن لوتھر کی بات ضرور پڑھو لیکن پس منظر کو بھی تو ٹھیک طرح سے دیکھو۔ کیا ہمارے ہاں قرآن و سنت کی تشریح میں پوپ والی کیفیت ہے؟ ہمارے ہاں تو ہزاروں مسائل میں علمی اختلافات چلے آرہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو دلیل کی بنیاد پر صحابہ کرامؓ کے زمانے سے جو مباحثے شروع ہوئے ہیں، اب تک چلے آرہے ہیں اور قیامت تک چلتے رہیں گے۔ ہم تو بات ہی اختلاف پر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو کسی کو یہ اختیار حاصل ہی نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میری بات آخری اور حتمی ہے۔ اس لیے ہماری مذہبی قیادت کو اگر پوپ پر قیاس کر کے ری ایکشن ہوتا ہے تو یہ سراسر غلط ہے۔ وہ ری ایکشن پوپ کی اجارہ داری پر تھا۔ ہمارے ہاں اجارہ داری شخص یا طبقے کو نہیں بلکہ دلیل اور قانون کو حاصل ہے۔ آج بھی بڑے سے بڑا عالم کوئی بات کرتا ہے تو اس سے لوگ اختلاف کرتے ہیں کہ نہیں جناب یہ بات یوں نہیں بلکہ یوں ہے۔ آج بھی کوئی عالم یا کوئی طبقہ اپنی بات کو حتمی اور آخری قرار نہیں دے سکتا۔ اس لیے میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ یہ غلطی پر ہیں، ہمارے ہاں بالکل مختلف صورتحال ہے۔
ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ کیا مولوی کی اجارہ داری ہے کہ بس وہی قرآن کی تشریح کرے گا؟
میں نے کہا: ہماری بالکل بھی اجارہ داری نہیں ہے۔ میں نے کہا: بھئی آپ خود قرآن کی تشریح کر لیں۔
پھر میں نے پوچھا: کیا قرآن کریم کی تشریح کے لیے آپ کوئی عربی وغیرہ پڑھیں گے یا نہیں؟
کہنے لگے: بالکل پڑھوں گا۔
میں نے پوچھا: کس درجے کی، اخبار کے درجے کی یا قرآن کے درجے کی؟
کہا: قرآن کے درجے کی۔
میں نے پوچھا: جب قرآن کی کسی آیت کی تشریح کریں گے، تو آپ اس کا بیک گراؤنڈ بھی دیکھیں گے، تاریخ کے حوالے سے بھی یہ پتہ کریں گے کہ یہ آیت کب اور کس موقع پر نازل ہوئی، یا اس کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے؟
کہا: ہاں یہ تو پتہ کریں گے۔
پھر میں نے پوچھا: اس آیت کی تشریح کرنے سے پہلے کیا آپ یہ دیکھیں گے کہ آیا اس آیت کی حضورؐ نے بھی کوئی تشریح کی ہے یا نہیں؟
کہا: ہاں دیکھیں گے۔
میں نے کہا: جب قرآن کریم کی کسی آیت کی تشریح کے لیے یہ علمی ضروریات اگر آپ پوری کر لیں گے تو آپ تو خود مولوی ہو جائیں گے۔ مولوی کسی نسل کا نام تو نہیں ہے۔ ہم پر تو یہ الزام فضول ہے۔
اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں یہ بحث چلتی رہی ہے، خاص طور پر جسٹس صاحبان میں، کہ اجتہاد کا حق علماء کو نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ کو ہے۔ جسٹس جاوید اقبال اس کے سرخیل ہیں۔ میں بھی اخبارات میں اس بحث میں حصہ لیتا رہتا ہوں۔ اس ضمن میں دو مسئلوں کی وضاحت کرتا ہوں۔
کہتے ہیں کہ جی امت کو ان لوگوں نے تقسیم کر رکھا ہے، کہ یہ حنفی ہے، یہ مالکی ہے، یہ شافعی ہے، یہ حنبلی ہے۔ اور یہ لوگ سب کو گنتے ہیں، جعفری اور ظاہری وغیرہ کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ اس لیے ان مولویوں کو چھوڑو۔ پارلیمنٹ چونکہ عوام کا منتخب ادارہ ہے اس لیے اجتہاد کا حق پارلیمنٹ کو دے دو۔
ایک بار مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا: جی بالکل یہ حق آپ پارلیمنٹ کو دے دیں۔ باقی علماء نے تو بہت مخالفت کی۔ جبکہ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے جی یہ اختیار آپ پارلیمنٹ کو دے دیں۔ لیکن میں نے کہا کہ سوچ لیں، اس وقت تو ہم فقہی اعتبار سے چھ سات فرقوں میں ہیں۔ اہلِ سنت کے ساڑھے چار ہیں، یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور آدھا فرقہ ظواہر۔ ظواہر اپنے آپ کو فقہ مانتے نہیں ہیں لیکن ان کی اپنی فقہ ہے، اپنا طریقۂ استدلال ہے، اپنے اصول ہیں، اپنا اجتہاد کرتے ہیں، اپنے فتاوٰی ہیں اور ابن حزم ان کے امام ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اہل سنت کے ساڑھے چار فرقے ہیں۔ اور دو اہل تشیع کے ہیں جعفری اور زیدی۔
بہرحال میں نے کہا کہ ہم مولویوں نے تو امت کو چھ سات فرقوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ لیکن تم جب پارلیمنٹ کو اختیار دے رہے ہو، پارلیمنٹ اجتہاد کرے گی، مجھے یہ بتائیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ لبنان کی پارلیمنٹ کے اجتہاد کی پابند ہو گی؟ یا مصر کی پارلیمنٹ شام کی پارلیمنٹ کے اجتہاد کی پابند ہوگی؟ تم تو ہمیں کوئی پچاس سے اوپر فرقوں میں بانٹ رہے ہو۔
اب آگے چلیے، پاکستان میں قومی اسمبلی کا اپنا دائرہ اختیار ہے۔ اب تو ایسا ہو گا کہ جی یہ قومی فقہ ہے، یہ پنجابی فقہ ہے، یہ بلوچی فقہ ہے، یہ سندھی فقہ ہے۔ میں نے کہا یار وہی چھ سات فرقے ہی رہنے دو، تمہاری مہربانی ہوگی۔ چلیں اس میں آفاقیت تو ہے نا، شافعی انڈونیشیا میں بھی ہیں، مصر میں بھی ہیں۔ تم تو ہر ضلع کی ایک الگ فقہ بنانے پر تلے ہوئے ہو۔
ایک دفعہ ایک قومی اخبار کے زیر اہتمام لاہور میں اس موضوع پر ایک مذاکرہ تھا کہ پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق ملنا چاہیے یا نہیں۔ باقی علماء نے کہا کہ نہیں، پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق نہیں ملنا چاہیے۔ جبکہ میں نے کہا کہ بالکل ملنا چاہیے۔ سب پریشان ہوگئے کہ ایک مولوی یہ بات کہہ رہا ہے کہ پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق ملنا چاہیے۔
میں نے پھر کہا کہ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دے دیا جائے، لیکن ایک چھوٹی سی شرط کے ساتھ۔ جیسا کہ ہر کام کی اہلیت کی کچھ شرائط ہوتی ہیں، اجتہاد کی اہلیت کی بھی کچھ شرائط ہیں۔ اب ہر آدمی تو اجتہاد کا اہل نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ الیکشن رولز میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے اجتہاد کی اہلیت کی شرط لازمی قرار دے دو، یعنی پارلیمنٹ کا رکن وہ بن سکتا ہے جو اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہے، تو ہمیں پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
جن دنوں یہ مذاکرہ ہوا، ان دنوں اسمبلی میں کچھ پندرہ سے بیس علماء ممبر تھے۔ میں نے جب یہ بات کہی تو ایک صاحب نے کہا، مولوی صاحب ہم ان پندرہ بیس مولویوں سے تنگ ہیں، آپ تو پوری اسمبلی مولویوں سے بھرنے کی بات کر رہے ہیں۔
میں نے پھر کہا کہ چلو ہم اجتہاد کی شرائط خود طے نہیں کرتے۔ حالانکہ اجتہاد کی شرائط طے شدہ ہیں کہ فلاں فلاں شرائط جس میں پائی جائیں وہ مجتہد ہے۔ لیکن پھر بھی آپ کی تسلی کے لیے میں ان پر اصرار نہیں کرتا۔ میں نے کہا کہ میں آپ کی تسلی کے لیے ایک طریقہ آپ کو بتا دیتا ہوں۔ وہ یہ کہ آپ سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کریں، اور سپریم کورٹ سے کہیں کہ وہ اجتہاد کی شرطیں طے کر دے۔ جب سپریم کورٹ یہ شرطیں طے کر دے، تو آپ الیکشن رولز میں ترمیم کر کے اسمبلی کی رکنیت کے لیے وہ شرائط لازمی قرار دے دیں۔ میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ میں اس کے حق میں کیمپین چلاؤں گا کہ پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دے دیا جائے۔
تو میں نے کہا کہ ہم تو دلیل کی، کامن سینس کی اور قانون کی بات کرتے ہیں۔ ہمارا قانون (منصوصات کی حد تک) طے شدہ ہے، ان میں کسی کو رد و بدل کی اجازت نہیں ہے۔اجتہادی مسائل میں اس کی اجازت ہے لیکن وہ بھی اس طرح کہ اصل قانون (منصوصات قطعیہ) میں فرق نہ آئے۔
چنانچہ پوپ کی بغاوت میں پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آگیا۔ انہوں نے کہا کہ بائبل کی تشریح میں پوپ کی اتھارٹی اور اجارہ دری ہم نہیں مانتے۔ اس وقت یورپ کی اکثریت پروٹسٹنٹ ہے۔
چنانچہ پہلی لڑائی بادشاہ اور جاگیرداروں کے درمیان ہوئی جس میں Megna Carta نامی دستاویز سامنے آئی جس کی رو سے بادشاہ اور جاگیرداروں کے درمیان حقوق طے پائے اور اس میں کچھ عوام الناس کے حقوق کا بھی ذکر تھا۔
جبکہ دوسری لڑائی پوپ اور چرچ کے خلاف ہوئی کہ انہوں نے سائنس دانوں اور ماہرین کو بائبل اور خدا کے قانون کے خلاف قرار دے کر قتل کرنا شروع کر دیا۔ اس لڑائی کے نتیجہ میں پروٹسٹنٹ فرقہ پیدا ہوا جس نے بائبل کی تشریح میں پوپ کی اجارہ داری ماننے سے انکار کر دیا۔
اب میں آتا تیسری بغاوت کی طرف۔ میں اس وقت گزشتہ پانچ چھ سو سال کی مختصر تاریخ بیان کر رہا ہوں۔ وہ تاریخ جسے ادوارِ مظلمہ کہتے ہیں۔ یعنی یورپ کا تاریک دور۔ مغرب والے پاپائیت، بادشاہت اور جاگیرداروں کے اس دور کو انسانیت کا تاریک دور Dark Ages قرار دیتے ہیں۔ وہ دور جس میں بس یہ تینوں ہی مل کر سب کچھ کرتے تھے۔ عام آدمی مظلوم اور بے بس تھا۔
جاگیردار کے مظالم جب حد سے بڑھ گئے تو پھر لوگوں میں بغاوت پیدا ہو گئی۔ عوام میں جاگیرداروں اور بادشاہ کے خلاف بغاوت اٹھی۔ اس بغاوت میں پوپ نے عوام کا ساتھ دینے کی بجائے بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھ دیا۔ تینوں ایک دوسرے کے مفادات کے محافظ تھے۔ جہاں پوپ کو ضرورت پڑتی تھی بادشاہ ساتھ دیتا تھا، جہاں بادشاہ کو ضرورت پڑتی تھی پوپ ساتھ دیتا تھا، اس طرح بادشاہ، جاگیردار اور پوپ میں سے جس کو ضرورت پڑتی تھی دوسرے اس کا ساتھ دیتے تھے۔ یہ ٹرائیکا تھا۔ ان کا آپس میں گٹھ جوڑ تھا اور یہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے اور عوام کو دباتے تھے۔ عوام تو تین چار سو سال ذبح ہوتے رہے۔ بادشاہ بھی خدا کا نمائندہ ہوتا تھا ’’السلطان ظل اللہ‘‘۔ اور پوپ تو مذہبی طور پر تھا ہی خدا کا نمائندہ۔
یہاں ایک چھوٹی سی بات کرتا ہوں۔ یورپ میں اگر کسی سے آپ مذہب کے نام سے کوئی بات کریں گے تو وہ فوراً طیش میں آجائے گا۔ اس کے طیش میں آنے کی اصل وجہ مغرب کا یہی تاریخی پس منظر ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ یورپ والوں نے مذہب کے نام پر تین چار سو سال انتہائی جبر میں گزارے ہیں۔ بہت ظلم ہوتا تھا، لوگ کاٹ دیے جاتے تھے اور زندہ آگ میں جلا دیے جاتے تھے۔ دو منٹ کی سماعت کے بعد ہی پھانسی کا حکم دے دیا جاتا تھا۔ اس لیے جب مغرب والوں سے مذہب کی بات کریں تو وہ ڈر جاتے ہیں کہ یہ لوگ وہی جبر کا دور واپس لانا چاہتے ہیں۔
مغرب والوں کی مذہب کے بارے میں کچھ ایسی نفسیات بن گئی ہے۔ مذہب سے ان کی نفرت بلا وجہ نہیں ہے۔ لیکن ان کی مذہب سے مطلقاً نفرت تو بہرحال غلط ہے۔ جب پوپ نے بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھ دیا اور یہ تینوں اکٹھے ہوگئے تو جب بغاوت ہوئی تو ان تینوں کے خلاف ہوئی۔ یہاں بھی درمیان میں ایک بات عرض کرتا چلوں۔ میں اپنے دانشوروں سے کہا کرتا ہوں کہ بھئی تم لوگ مغالطے کا شکار ہو۔ پوپ کے خلاف یورپ کے عوام کی نفرت اور بغاوت سمجھ میں آتی ہے۔ دونوں حوالوں سے سمجھ میں آتی ہے۔ بائبل کی تشریح میں اجارہ داری کے حوالے سے، اور عوام پر ہونے والے ظلم میں بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھ دینے کے حوالے سے بھی۔ ہم بھی جب وہ تاریخ پڑھتے ہیں تو سچی بات ہے کہ آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ اتنا ظلم سہا ہے یورپ کے عوام نے۔ بادشاہ کے ہاتھوں، پوپ کے ہاتھوں اور جاگیردار کے ہاتھوں۔ یہ لوگ تو جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔
میں اپنے دانشوروں سے کہتا ہوں کہ اس صورتحال کا اطلاق ہم پر نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں تو مولوی ہمیشہ عوام میں رہا ہے۔ یہ فرق ضرور ذہن میں رکھنا۔ ایک بات یہ ہے کہ ہمارے بادشاہوں کے مظالم کا وہ انداز کبھی بھی نہیں رہا۔ شخصی طور پر ظلم ہوتے رہے ہیں۔ اس میں بھی مذہبی طبقے کے کچھ افراد بادشاہوں کے ساتھ ہوتے تھے، لیکن مذہبی طبقہ بحیثیت طبقہ کبھی بھی بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ نہیں رہا۔ مولوی ہمیشہ عوام کے ساتھ رہا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ مولوی بحیثیت طبقہ ہمیشہ عوام کے ساتھ رہا ہے۔ مولوی نے آزادی کی تحریکیں چلائی ہیں، مولوی پھانسی چڑھا ہے، مولوی نے ظالم بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہو کر ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے، مولوی نے تو ہمیشہ لوگوں کے حقوق کی ترجمانی کی ہے۔ ہمارے مذہبی طبقے کی تو چودہ سو سالہ تحریک ہی یہ ہے۔
مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی کتاب ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ پڑھ کر دیکھیں، جو ہماری چودہ سو سالہ تاریخ بیان کرتی ہے۔ ہمارے ہاں مولوی اور صوفی دونوں عوام کے حقوق کی، آزادی کی اور انصاف کی بات کرتے رہے ہیں۔ اور اس میں وہ کٹے ہیں، پھانسی چڑھے ہیں، زندہ جلے ہیں۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ ہمارے سندھ میں اگر جاگیرداروں کے سامنے کسی نے آنے کی ہمت کی ہے وہ تو مولوی ہے۔ جھنگ میں جاگیرداروں کے سامنے کون آیا ہے؟ مولوی۔ جھنگ کی تاریخ تین مولویوں کو یاد رکھے گی کہ جنہوں نے جھنگ میں جاگیرداروں کا طلسم توڑا۔ مولانا محمد ذاکر صاحب، مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ اور مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ۔ بلوچستان میں بھی بڑے بڑے نوابوں اور جاگیرداروں سے ٹکر لینے کی ہمت بھی مولوی ہی کرتا ہے۔ تو میں اپنے دانشوروں سے کہتا ہوں کہ مغرب کے تاریک دور کا اطلاق ہم پر نہ کرو، اسلام کا مذہبی طبقہ تو ہمیشہ عوام میں رہا ہے اور اس نے ہمیشہ عوام کے حقوق کی ترجمانی کی ہے۔
بہرحال جب مغرب میں بغاوت ہوئی تو چونکہ ان کا مذہبی طبقہ اس بغاوت کے خلاف بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ تھا اس لیے عوام کی بغاوت پھر ان تینوں کے خلاف ہوئی۔ اور یہ بغاوت ایسی تھی کہ جس نے ان تینوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا۔ یہ بغاوت ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصہ تک چلتی رہی۔ جلسے، جلوس، تقریریں، جیلیں، پھانسیاں، مقابلے، لڑائیاں اور جنگیں، یہ سب کچھ ہوا اس بغاوت میں۔ بڑی خوفناک تاریخ ہے اس بغاوت کی۔
یہ تو تھا پہلا مرحلہ جسے یہ میگنا کارٹا کہتے ہیں۔ اس کے بعد جو دوسرا مرحلہ تھا وہ تھا، انقلابِ فرانس۔ یورپ والے کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کا آغاز ہمارے ہاں میگنا کارٹا سے ہوا۔ جبکہ جمہوری دور کا آغاز کہتے ہیں کہ انقلابِ فرانس سے ہوا۔
انقلابِ فرانس ۱۷۸۹ء میں ہوا۔ اس میں بادشاہ کو اور بڑے بڑے جاگیرداروں کو قتل کر دیا گیا، چرچ کو ختم کر دیا گیا، پارلیمنٹ پر قبضہ ہوا، اور لوگوں نے سارا نظام ختم کر کے ایک جمہوری دور کی بنیاد رکھی۔ اس لیے جب جمہوریت کی ابتدا کی بات ہوتی ہے تو اس کا نقطۂ آغاز انقلابِ فرانس ہوتا ہے۔ اس انقلاب کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس کی رو سے بادشاہ ہمیشہ کے لیے ختم، جاگیرداری بھی ختم، اور چرچ کے ساتھ یہ کیا گیا کہ چرچ کا عمل دخل اجتماعیت کے معاملات میں ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا۔ چرچ کو صرف مذہبی معاملات تک محدود کر دیا گیا۔
چنانچہ اسی رو سے ہم سے بھی کہا جاتا ہے کہ مذہب کا کردار محدود کرو۔ انقلابِ فرانس سے پہلے مذہب کی ہر چیز پر اجارہ داری تھی۔ لیکن انقلاب کے بعد یہ طے پایا کہ پادری کا تعلق صرف فرد کے ساتھ ہے اور وہ بھی عقیدہ، عبادات اور اخلاقیات کی حد تک ہے اور بس۔ چرچ صرف ان تین باتوں کا ذمہ دار ہے۔ باقی سیاست، قانون، عدالت، معیشت اور تجارت وغیرہ میں مذہب کا کوئی کردار نہیں۔ یہ تقسیم ہوئی انقلابِ فرانس کے بعد۔ اور یہ تقسیم پوپ، بادشاہ اور جاگیردار کے مظالم کے خلاف رد عمل کے طور پر ہوئی۔
انقلابِ فرانس کے بعد مغرب کا نیا فلسفہ آیا جسے ہیومینٹی اور سیکولرازم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
سیکولرازم کی دو بنیادیں ہیں: ایک بنیاد یہ ہے کہ مذہب کا اجتماعیت کے معاملات میں کوئی کردار نہیں۔ اس فلسفے کی رو سے مذہب کا کردار صرف تین باتوں میں ہے۔ عقائد میں، عبادات میں اور اخلاقیات میں۔ سیکولرازم کی دوسری بنیاد یہ ہے کہ سوسائٹی جو طے کر دے وہی سسٹم کی بنیاد ہوگی۔
جمہوریت تو سوسائٹی کی خواہش معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ جمہوریت کوئی فلسفہ یا نظام نہیں ہے۔ جمہوریت میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں، جدھر اکثریت ہے، بس وہی سوسائٹی کا فیصلہ ہے۔ اب وہ اکثریت جس چیز کو حلال کہہ دے، وہ حلال ہے اور جس کو حرام کہہ دے، وہ حرام ہے۔ پارلیمنٹ کو جو اجتہاد کا حق دینے کی بات کی جاتی ہے، اس کا پس منظر بھی یہی ہے۔ کہتے ہیں کہ اصل اتھارٹی تو پارلیمنٹ کی خود مختاری ہے۔
آپ حضرات کو یاد ہو گا کہ ہمارے ہاں آج سے کوئی بیس سال پہلے شریعت بل کی ایک تحریک چلی تھی۔ ہم نے خود چلائی، اس کے لیے کام کیا۔ ہمارے دو علماء مولانا سمیع الحق اور قاضی عبد اللطیف نے سینیٹ میں یہ بل پیش کیا، اس پر بحث ہوئی۔ اس بل کی بنیادی دفعہ یہ تھی کہ قرآن و سنت کو ملک کے سپریم لاء کی حیثیت حاصل ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ بات طے ہو جائے گی کہ قرآن و سنت ملک کے بالادست قانون کی حیثیت رکھتے ہیں تو پھر باقی تمام قوانین ان کے تابع ہو جائیں گے۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے میں آپ کو ایک چھوٹا سا حوالہ دیتا ہوں۔ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ میں بھی یہی بات ہے۔ قرارداد مقاصد بطور دیباچہ کے ہمارے دستور میں ہمیشہ شامل رہی ہے۔ قرارداد مقاصد کے ذریعہ ہماری سیاست نے کلمہ پڑھا تھا۔ قراردادِ مقاصد لیاقت علی خان مرحوم کے زمانے میں دستور ساز اسمبلی نے پاس کی تھی جس کا دو جملوں میں خلاصہ یہ ہے کہ
(۱) حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کی ہے،
(۲) حکومت عوام کے منتخب نمائندے کریں گے، لیکن وہ اللہ اور رسول کے احکام کے پابند ہوں گے۔
یعنی عوام کے منتخب نمائندے مطلق العنان نہیں ہوں گے بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے دائرے کے اندر رہ کر حکومت کریں گے۔ قرارداد مقاصد کے ذریعے ہم نے یہ اصول طے کر لیا۔ یہ قرارداد مقاصد ۱۹۵۶ء کے دستور میں شامل رہی، پھر ۱۹۶۲ء کے دستور میں بھی شامل رہی، ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی شامل رہی، اور اب بھی شامل ہے۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم نے ایک کام کیا اس سلسلے میں۔ پہلے تو قرارداد مقاصد دستور کا ایک دیباچہ تھا۔ دیباچہ ایسے ہوتا ہے جیسے کوئی چیز تبرکاً ہو۔ یعنی آئین اس سے شروع نہیں ہوتا تھا بلکہ آئین سے پہلے برکت کے لیے دستور میں شامل تھی۔ ضیاء الحق مرحوم نے ایک کام کیا کہ اسے دیباچہ سے نکال کر آئین کے اندر شامل کر دیا۔ یہ کام اس نے بڑے تکنیکی طور پر کیا کہ اس کا نمبر فلاں نہیں بلکہ فلاں شمار ہو گا۔ لیکن نتیجہ کے طور پر قرارداد مقاصد آئین کا حصہ ہوگی۔ اور قرارداد مقاصد کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رو سے ہماری ریاست نے کلمہ پڑھا کہ ہم خدا کو حاکمِ اعلیٰ مانتے ہیں۔
ہم تو بہت خوش ہوئے کہ ہمارے لیے اب جنگ آسان ہو گئی۔ اب ہم قوانین کو عدالت میں چیلنج کرتے جائیں گے کہ یہ قانون دستور کے خلاف ہے، اور یہ قانون دستور کے خلاف ہے۔ اور اس طرح ہم چند سالوں میں ملک کے مروجہ قوانین کو اسلامی قوانین سے بدل دیں گے۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس کا بیڑا ہی غرق کر دیا۔
ہوا یوں کہ شرعی قانون کے مطابق قتل کے قصاص کو معاف کرنے کا حق صرف مقتول کے ورثاء کو ہے۔ لیکن پاکستان کے قانون میں یہ اختیار صدر کو بھی حاصل ہے۔ قانون کے مطابق سزائے موت کا مجرم صدر سے رحم کی اپیل کر سکتا ہے، صدر اگر اس اپیل کو منظور کر لے تو اس مجرم کو سزائے موت نہیں دی جاتی۔
اس پر لاہور ہائیکورٹ میں ایک رٹ دائر ہوئی کہ صدر کا یہ اختیار شرعاً جائز نہیں ہے، اور قرارداد مقاصد کی رو سے ہم پابند ہیں کہ ہم اللہ اور رسول کے حکم کے خلاف نہیں چلیں گے، اس لیے صدر کا یہ اختیار دستور کے خلاف ہے۔ لہٰذا صدر کا یہ اختیار ختم کر دیا جائے۔ اس پر لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دے دیا کہ اب صدر کو کسی کی سزائے موت معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اور اس بنیاد پر یہ فیصلہ دیا کہ قرارداد مقاصد کے ذریعے چونکہ قرآن و سنت کو بالادست حیثیت حاصل ہے، اور صدر کا یہ اختیار قرآن و سنت کے خلاف ہے اس لیے صدر کا یہ اختیار ختم کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے میں یہ ایک پیشرفت ہوئی۔
اس کے بعد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ جس کے سربراہ جسٹس نسیم حسن شاہ تھے، نے ہائیکورٹ کا فیصلہ یہ کہہ کر منسوخ کر دیا کہ قرارداد مقاصد کو آئین میں کوئی بالاتر حیثیت حاصل نہیں ہے۔ یہ بھی عام دفعات کی طرح ایک دفعہ ہے، اب یہ عدالت کی مرضی ہے کہ دستوری دفعات میں تضاد پر وہ کس دفعہ کو ترجیح دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ، جو ہمارے ہاں آخری اتھارٹی ہوتی ہے، نے یہ فیصلہ دیا۔ چنانچہ صدر کا سزائے موت ختم کرنے کا اختیار بحال ہوگیا۔
میں شریعت بل کی بات کر رہا تھا۔ شریعت بل میں یہ دفعہ تھی کہ قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دیا جائے۔ اس پر جو سب سے بڑا اعتراض تھا وہ یہ تھا کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کا تصور یہ ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتی ہے، اور اسے قرآن و سنت کا پابند کرنے کا مطلب اس کے اختیارات کو محدود کرنا ہے۔ اسی لیے آج مغرب اور مغرب کے نمائندے یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری بحال کریں۔ یہ بہت سادہ سا جملہ ہے۔ عام آدمی تو یہ سمجھتا بھی نہیں کہ اس کے پیچھے اصل بات کیا ہے۔ یہ تو ہم لوگ جو مبتلا بہ ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ پارلیمنٹ کی مطلق خود مختاری سے ان کا مطلب کیا ہے۔
میں سیکولر ازم کی دو بنیادوں پر بات کر رہا ہوں۔ ایک بنیاد تو یہ کہ مذہب کا سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ دوسری بنیاد یہ کہ فیصلوں میں اتھارٹی عوام یا ان کے منتخب نمائندے ہوں گے۔ سوسائٹی فیصلہ کرے گی کہ وہ کیا چاہتی ہے۔
آج کل وکلاء کی تحریک چل رہی ہے، اس حوالے سے آج کل ایک بہت خوبصورت سا عنوان سامنے آتا ہے: ’’سول سوسائٹی‘‘۔ اب سول سوسائٹی کس بلا کا نام ہے۔ میں وکلاء سے کہتا ہوں کہ بھئی یہ سول سوسائٹی وہی مغرب کی خرافات ہے جو تم لوگ یہاں مسلط کرنا چاہتے ہو۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ان لوگوں کے عنوانات کو اور ان کی اصلاحات کو بھی سمجھ نہیں پاتے۔ اور ہمیں یہی پتہ نہیں چلتا کہ کون کس بینڈ سے بول رہا ہے اور کیا بول رہا ہے۔
اب سول سوسائٹی کا مطلب یہی ہے کہ جس طرح مغرب میں سوسائٹی اپنی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرنے میں اتھارٹی ہے، اب اسی طرح ہمارے ہاں بھی ہو گا۔ میں نے کہا، نہیں بھئی۔ ہم سوسائٹی کو منصوصات میں اتھارٹی نہیں مانتے۔ ہم سوسائٹی کی خواہشات کا مطلقاً انکار نہیں کرتے۔ لیکن ہم سوسائٹی کی خواہشات کے نام پر، پارلیمنٹ کی خود مختاری کے نام پر قرآن و سنت کی نفی کے متعلق تو ہم سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
تو سیکولرازم کا معنی یہ ہے کہ فیصلہ کرنے میں اتھارٹی سوسائٹی ہوگی، جو چاہے کرے۔ حلال کرے، حرام کرے، جو مرضی کرے، اسے کوئی چیلنج کرنے والا نہیں۔ اور یہ کہ مذہب کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
یہاں ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آگیا۔ امریکہ کا ایک شہر ہے اٹلانٹا۔ وہاں ہمارے ایک دوست رہتے ہیں، افتخار رانا، پہلے پاک فوج میں میجر تھے، اب کافی عرصہ سے امریکہ میں رہتے ہیں۔ میں ان کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یار یہاں کوئی سمجھ دار سا پادری ہو تو اس سے میری ملاقات کرواؤ۔
چنانچہ افتخار رانا صاحب نے وہاں کے بیپٹسٹ فرقے کے سربراہ سے میری ملاقات کروائی۔ افتخار ہمارے درمیان ترجمان تھے۔ افتخار نے انہیں میرے متعلق یہ بتایا کہ پاکستان سے مسلمانوں کے ایک اہم مذہبی راہنما یہاں آئے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک لطیفہ ہے، اب ان کی اصطلاح میں تو میں پادری ہی ہوں۔
میں نے پادری صاحب سے کہا کہ میرے بھائی! یہ جو آپ کی امریکہ کی سوسائٹی ہے، یہ جو آپ لوگوں نے مذہب کو بالکل اپنی زندگیوں سے بے دخل کر دیا۔ لوگ شراب پیتے ہیں، زنا کرتے ہیں، جوا کھیلتے ہیں، کھلم کھلا ہم جنس پرستی کرتے ہیں۔ آپ کے ہاں ان معاملات میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے، آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ آپ ایک مذہب کے نمائندے ہیں۔ بائبل شراب کو حرام کہتی ہے، زنا کو حرام کہتی ہے۔ آج بھی نوے فیصد قوانین و احکام قرآن اور بائبل کے آج بھی ایک جیسے ہی ہیں۔ آپ لوگ اس سلسلے میں کیا کر رہے ہیں؟ تو میں نے پادری صاحب سے کہا کہ زنا، شراب، جوا، سود، ہم جنس پرستی سب آپ کے ہاں بھی حرام ہے۔ آپ لوگ ایک مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں، اپنے معاشرے کی اصلاح کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
پادری صاحب امریکہ کے دستور کے حوالے سے بات کرنے لگے تو میں نے کہا کہ امریکہ کا دستور کا تو مجھے بھی پتہ ہے، ہم اس وقت دستور کی بات نہیں کر رہے۔ میں تو آپ کی بات کر رہا ہوں، بائبل کے نمائندے کی بات کر رہا ہوں۔ کہنے لگے کہ میں اتوار کو ایک درس دیتا ہوں، جس میں جو بھی لوگ آتے ہیں ، میں ان کو بائبل کی تعلیمات سے آگاہ کرتا رہتا ہوں۔
میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ درس میں کوئی ڈیڑھ دو سو لوگ ہوتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کل آپ جب حضرت عیسٰیؑ (Jesus) کے سامنے پیش ہوں گے تو کیا آپ اس بات سے انہیں مطمئن کر لیں گے کہ اٹلانٹا کی دس لاکھ کی آبادی میں آپ چند سو لوگوں اتوار کے دن ایک مختصر سے درس میں بائبل کی تعلیم دیتے رہے۔
اس پر پادری صاحب نے بے چارگی سے کہا کہ میں اس سلسلے میں اور کیا کر سکتا ہوں؟
چنانچہ میں نے پادری صاحب سے کہا کہ میں آپ سے ایک مذہب کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اپنے معاشرے میں اسی کردار کی توقع کر رہا ہوں جو میں اپنے معاشرے میں ادا کر رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ ہم اپنے معاشرے میں خدائی احکامات کی خلاف ورزی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ آپ کے ہاں تو یہ بات نافذ ہو چکی ہے کہ مذہب کا سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بائبل لا تعلق، چرچ لا تعلق، پادری لا تعلق۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ نافذ ہونے جا رہی ہے۔ اور ہم اس بات کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں۔ ہمیں اسمبلی میں موقع ملتا ہے تو اسمبلی میں مزاحمت کرتے ہیں، بازار میں موقع ملتا ہے تو بازار میں کرتے ہیں، منبر پر موقع ملتا ہے منبر پر کرتے ہیں، اخبار میں موقع ملتا ہے ہم اخبار میں کرتے ہیں۔ ہم نے تو ایک شور مچایا ہوا ہے کہ ہم سوسائٹی کو خدائی احکامات و قوانین سے منہ نہیں موڑنے دیں گے۔ ہم لوگ اس ذہن کی مزاحمت کر رہے ہیں کہ مذہب کا تجارت، سیاست، معیشت، عدالت اور دیگر کاروبارِ زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
میں نے پادری صاحب سے کہا کہ آپ لوگ بھی اس کی معاشرتی سطح پر مزاحمت کریں۔ سیکولر ازم یعنی مذہب کی ہمارے اجتماعی معاملات میں بے دخلی تمہارا بھی دشمن ہے اور ہمارا بھی دشمن ہے۔ کیا مولوی اور پادری اس کے خلاف اکٹھے نہیں ہو سکتے؟ یہ جو مذہب سے دستبرداری اور مذہب کی بے دخلی ہے، اس کے خلاف ہم مل کر جنگ کرتے ہیں۔ جب ہم لوگ اس فلسفے کو شکست دے دیں گے تو تم اپنے معاشرے میں بائبل نافذ کر دینا، ہم اپنے معاشرے میں قرآن نافذ کر دیں گے۔
ظاہر ہے عیسائیوں میں تو بائبل ہی نافذ ہوگی، قرآن تو مسلمانوں میں نافذ ہو گا۔ مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہماری بات چیت کے دوران ہی میرے دوست جو ہماری ترجمانی کر رہے تھے مذاق سے کہنے لگے ’’کیوں مرواؤ ایں اینوں؟‘‘ یعنی کیوں اس غریب کو مروانا ہے۔
پادری صاحب کہنے لگے کہ آپ تو عجیب باتیں کر رہے ہیں، ہم نے تو مسلمانوں سے ایسی باتیں پہلے کبھی نہیں سنی۔
میں نے کہا میں بالکل سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ ایک فورم پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ جب ہم یہ جنگ جیت جائیں تو مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ تم امریکہ میں بائبل نافذ کر دینا۔ لیکن پھر میں بھی یہ حق مانگوں گا کہ پاکستان میں قرآن نافذ کروں۔
میں آپ کو سیکولرازم کا فلسفہ سمجھا رہا ہوں کہ سیکولرازم نام ہے سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کی بے دخلی کا۔ ابھی تو میں تمہیدی باتیں کر رہا ہوں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر پر میں آگے چل کر بات کروں گا۔ ابھی تو میں زمین کو بیج کے لیے تیار کر رہا ہوں۔
یہ جو میں نے قصہ سنایا یہ تو امریکہ کے پادری تھے، اب برطانیہ کے ایک پادری صاحب کا قصہ سناتا ہوں۔ اور میں آپ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ جو مغرب کے پڑھے لکھے سمجھدار پادری صاحبان ہیں، ان میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو تلاش میں ہیں، انتظار میں ہیں کہ ان سے اس مسئلے پر بات چیت کی جائے۔ بلکہ وہ تو ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ ہم ان کی رہنمائی کریں۔ وہ ہمیں مذہب کے معاملات میں سینئر سمجھتے ہیں۔ اور یہاں ہم ہیں کہ ہم سے اپنے لوگوں کی رہنمائی نہیں ہو پا رہی۔
نوٹنگھم برطانیہ کا ایک بڑا شہر ہے۔ ہم نے وہاں کے ایک بڑے پادری صاحب سے گپ شپ کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ مولانا عیسیٰ منصوری، مولانا رضاء الحق، مفتی برکت اللہ اور میں خود تھا، ہم لوگوں نے پادری صاحب سے وقت لیا اور ان سے ملنے چلے گئے۔ ان سے بھی میں نے یہی بات کی کہ جس معاشرے میں آپ لوگ مذہب کے نمائندے ہیں۔ یہاں زنا، عریانی، شراب، ناچ گانا، سود، جوا، ہم جنس پرستی جیسے قبیح کام کھلے عام ہو رہے ہیں۔ نفسانی خواہشات کی حکمرانی ہے اور خدائی حدود کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ آپ لوگ مذہب کی ، چرچ کی، بائبل کی، Jesus کی، خدا کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آپ لوگ اس معاشرے کی اصلاح کے لیے کیا سوچ رہے ہیں؟
کہنے لگے کہ ظاہر ہے یہ بالکل غلط ہو رہا ہے۔ یہ خدا اور Jesus سے بغاوت ہے۔
میں نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک اس کا کوئی حل ہے؟ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ پادری صاحب کی بات دہراتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تو اس کا کوئی حل نہیں ہے، ہم تو آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو چمک اور روشنی ان مسائل کے حل کے لیے درکار ہے، وہ ہمیں آپ لوگوں کی آنکھوں میں نظر آرہی ہے۔
حضراتِ محترم! موضوع تو ہمارا ہے ’’اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات‘‘۔ ابھی تک تو میں نے اس کا پس منظر آپ کے سامنے بیان کیا ہے کہ اصل میں یہ جھگڑا کیا ہے۔ اس پس منظر میں ہم ابھی تک انقلابِ فرانس تک پہنچے ہیں جسے انسانی حقوق کی دوسری دستاویز قرار دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی پہلی دستاویز میگناکارٹا ۱۲۱۵ء کو جبکہ دوسری دستاویز انقلابِ فرانس ۱۷۸۹ء کو کہا جاتا ہے۔
انقلابِ فرانس کی دستاویز کا عنوان ہے ’’انسان کے حقوق کا اعلامیہ‘‘ (Declaration of the Rights of Man)۔ یہ ۱۷۸۹ء میں انقلابِ فرانس کے بعد جاری ہوا۔ اسی کی بنیاد پر اب تک انسانی حقوق کے حوالے سے یہ سارا قصہ چلا آرہا ہے۔ اس کی رو سے مذہب کی اور جاگیرداری کی تو چھٹی ہو گئی، بادشاہ اگر ہے بھی تو بے اختیار ہے۔ جبکہ سارے اختیارات سوسائٹی کو منتقل ہوگئے۔ اور سوسائٹی یا اس کے منتخب نمائندے اتھارٹی بن گئے۔ تو جمہوریت کی تاریخ کچھ سوا دو سو سال ہے۔
انقلابِ فرانس کے بعد تیسری بڑی دستاویز اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر ہے۔ اس درمیانی عرصہ میں اور بھی چھوٹے موٹے کنٹریکٹس بنتے رہے لیکن ایک ہمہ گیر دستاویز کے طور پر اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اس سلسلے کی تیسری بڑی دستاویز شمار ہوتا ہے۔ یہ چارٹر اقوام متحدہ نے تیار کیا اور جنرل اسمبلی نے اسے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو منظور کیا۔ یہ چارٹر تیس دفعات پر مشتمل ہے جس پر ہم بعد میں بات کریں گے لیکن اس سے پہلے دو باتیں واضح کرنا چاہوں گا:
(۱) پہلی یہ کہ اقوام متحدہ دراصل کیا ہے؟
(۲) دوسری یہ کہ اس انسانی حقوق کے چارٹر کی اخلاقی و قانونی حیثیت کیا ہے؟
ان دو باتوں کی وضاحت کے بعد ہم انسانی حقوق کے چارٹر کی طرف آئیں گے۔
۱۹۱۴ء کے لگ بھگ پہلی جنگِ عظیم ہوئی، ممالک آپس میں ٹکرائے، ہمارا بھی اس جنگِ عظیم میں رول تھا۔ اس رول کی ہمیں سزا بھی مل رہی ہے۔ اس جنگ میں جرمنی ایک طرف تھا جبکہ باقی یورپ دوسری طرف تھا۔ اس وقت خلافتِ عثمانیہ قائم تھی جس کا مرکز ترکی تھا۔
خلافتِ عثمانیہ نے سپر پاور کے طور پر دنیا میں تقریباً ساڑھے چار سو سے پانچ سو سال گزارے ہیں۔ درمیان میں دو صدیاں تو تقریباً ایسی رہی ہیں کہ جو اس وقت امریکہ کو دنیا میں پوزیشن حاصل ہے، یہی پوزیشن سلطنتِ عثمانیہ کو دنیا میں حاصل رہی ہے۔ اِس وقت جیسے امریکہ کا ’’وائٹ ہاؤس‘‘ ہے، اس طرح سلطنتِ عثمانیہ کا ہیڈکوارٹر ’’بابِ عالی‘‘ کے نام سے ہوا کرتا تھا۔ بابِ عالی کی مرضی کے بغیر دنیا میں کوئی چیز حرکت نہیں کرتی تھی۔ امریکہ تو چند سالوں میں ہی تھک گیا ہے، جبکہ ہم نے صدیوں یہ پوزیشن نبھائی ہے۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارا اگلا راؤنڈ بھی آنے والا ہے۔ یہ درمیان میں مار کھانے کا بھی ایک پیریڈ آگیا ہے۔
سلطنتِ عثمانیہ کے بعد برطانیہ نے دنیا میں سپر طاقت کے طور پر راج کیا ہے۔ برطانیہ ایک صدی میں تھک گیا تھا، روس پون صدی میں، جبکہ امریکہ تو اس سے بھی جلدی تھک رہا ہے۔ امریکہ کے بعد ابھی کسی اور کی باری ہے، جس سے ہم نے ابھی مار کھانی ہے، لیکن اس کے بعد پھر ہماری باری ہے ان شاء اللہ العزیز۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے۔
پہلی جنگِ عظیم میں بہت تباہی ہوئی، جس کے بعد ’’انجمنِ اقوام‘‘ (League of Nations) کے نام سے ایک ادارہ بنا۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک سادہ سا فلسفہ آپ کو بتاتا ہوں کہ جب عام لوگ آپس میں لڑ پڑتے ہیں تو ان میں پولیس، عدلیہ وغیرہ تصفیہ کرواتی ہے۔ ادارے آپس میں لڑ پڑیں تو حکومت ان میں صلح صفائی کراتی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کی صلح کون کروائے؟ تو انجمنِ اقوام بھی ایک ایسا ادارہ بنا کہ ممالک آپس میں لڑ پڑیں تو ایک ادارہ ایسا ہو جو لڑائی کو روکے، جھگڑے نمٹائے اور صلح کروائے۔ انجمنِ اقوام کچھ عرصہ چلی لیکن ناکام ہو گئی۔ اس پر علامہ اقبالؒ نے یوں تبصرہ کیا کہ
؏ بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند
کہ گورکنوں نے قبروں کی تقسیم کے لیے ایک انجمن بنا لی ہے کہ یہ قبریں میں نے کھودنی ہیں، اور یہ قبریں تم نے کھودنی ہیں۔ وہ انجمن ناکام ہو گئی کہ اس کی موجودگی میں بھی دوسری جنگ عظیم ہو گئی۔ بڑی خوفناک جنگ ہوئی۔ یورپ میں، ایشیا میں، افریقہ میں، بہت تباہی پھیلی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس سے زیادہ مضبوط بنیادوں پر ’’اقوامِ متحدہ‘‘ (United Nations) بنائی گئی۔
اقوام متحدہ ۱۹۴۵ء میں بنی جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اقوام اور ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرنا، تصادم کے امکانات کو روکنا، اگر تصادم ہو جائے تو پھر درمیان میں ثالثی، تحکیم ، تلافی کا کردار ادا کرنا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ نے یہ دیکھا کہ یہ جھگڑے ہوتے کیوں ہیں، ان کی وجوہات کیا ہیں؟ کچھ اصول ہونے چاہئیں جو یہ طے کریں کہ یہ بات انصاف کی ہے اور یہ بات نا انصافی کی ہے۔ فلاں بات صحیح ہے اور فلاں غلط ہے۔ اس میں انہوں نے اپنا فلسفۂ زندگی بھی شامل کر لیا۔
چنانچہ اس سلسلے میں یہ چارٹر منظور کیا گیا اور طے پایا کہ اب دنیا میں تمام تنازعات، مقدمات اور معاملات اس منشور کی بنیاد پر طے ہوا کریں گے۔ اسے آپ ایک بین الاقوامی دستور سمجھ لیجئے کہ اقوام و ممالک کے آپس کے تنازعات اب اس دستور کی روشنی میں طے کیے جائیں گے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک آدھ ملک کو چھوڑ کر دنیا کے تمام ممالک اقوام متحدہ کے ممبر ہیں، ہم بھی ممبر ہیں۔
اقوام متحدہ کا ڈھانچہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک جنرل اسمبلی اور ایک سلامتی کونسل ہے۔
جنرل اسمبلی کا ہیڈ کوارٹر امریکہ کے شہر نیویارک کے ایک جزیرہ مین ہیٹن میں ہے۔ اس کے کچھ دفاتر سویٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں بھی ہیں۔ جنرل اسمبلی کا ہر سال اجلاس ہوتا ہے جس میں اس کا ہر ممبر شریک ہوتا ہے۔ وہاں لمبی تقریریں ہوتی ہیں۔ اور یہ دنیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر دنیا کے کسی بھی ملک کا حکمران آ کر جو مرضی کہہ دے۔ یہ سمجھ لیں کہ انٹرنیشنل ہائیڈ پارک کارنر ہے۔
اصل ہائیڈ پارک کارنر تو لندن میں ہے۔ لندن کے وسط میں ایک بہت بڑا باغ ہے۔ اس باغ میں ایک کونہ ایسا ہے کہ اس میں کوئی بھی آدمی کسی بھی وقت جا کر کوئی بھی تقریر کر سکتا ہے۔ یہ ایک بہت مزے کی جگہ ہے۔ وہاں پر کوئی قانون لاگو نہیں ہو گا۔ آپ وہاں جا کر برطانیہ کی بادشاہت کے خلاف بات کریں، عیسائیت کے خلاف کریں، دستور کے خلاف کریں، وزیر اعظم کے خلاف کریں، آپ چاہے وہاں گالیاں دیں، جو مرضی کہہ دیں، آپ کو پوری آزادی ہے وہاں۔ ہم کبھی کبھی وہاں شام کو جاتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ کوئی آدمی وہاں کھڑا تقریر کر رہا ہے، کوئی دوسری جگہ کھڑا اپنی ہانک رہا ہے۔ ایک عجیب تماشا لگا رہتا ہے وہاں۔ اسے ہائیڈپارک کارنر کہتے ہیں۔ یعنی اس کونے میں کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ جس کا جب چاہے وہاں اپنے دل کا غبار نکالے۔ عام منظر یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص تین آدمی لے کر ایک جگہ کھڑا ہے، کوئی چار آدمی لے کر کھڑا ہے ، کسی کے حصے میں ذرا زیادہ لوگ آجاتے ہیں جنہیں وہ اپنی تقریر سنا رہا ہوتا ہے۔ کوئی امریکہ کے خلاف، کوئی اسلام کے خلاف، کوئی عیسائیت کے خلاف، جس کا جس کے خلاف دل چاہتا ہے بول رہا ہوتا ہے۔
تو میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو انٹرنیشنل ہائیڈ پارک کارنر کہا کرتا ہوں۔ ستمبر میں جنرل کونسل کا اجلاس شروع ہوتا ہے، تین مہینے تک رہتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کے نمائندے وہاں بیٹھتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے صدر، وزیر اعظم یا نمائندے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہاں جا کر وہ تقریر کرے اور جو مرضی کہے۔ یعنی ہر ملک وہاں اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کر سکتا ہے۔ یہ تو پہلی حیثیت ہے جنرل اسمبلی کی۔
دوسری حیثیت یہ ہے کہ جنرل اسمبلی کسی مسئلے پر کوئی قرارداد بھی پاس کر سکتی ہے۔ لیکن اس قرارداد کی حیثیت بس سفارش کی ہوتی ہے۔ اس وقت جنرل اسمبلی میں بے شمار قراردادیں پڑی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کے خلاف بے شمار ہیں، انڈیا کے خلاف بے شمار ہیں، اور بھی ملکوں کے خلاف بھی ہیں۔ بس وہیں پڑی ہوئی ہیں۔ لیکن ان قراردادوں کی حیثیت سفارش سے زیادہ کی نہیں ہے۔ تو جنرل اسمبلی کا مقصد دنیا کے ممالک کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا جس پر وہ اپنے دل کا غبار نکال سکیں اور یہ کہ کسی مسئلے پر کوئی سفارش کرنا۔
اقوام متحدہ کا اصل ادارہ سلامتی کونسل ہے۔ اس کے پانچ مستقل اور چھ غیر مستقل ممبر ہوتے ہیں۔ پانچ مستقل ممبر جو ہیں وہ ہمیشہ یہی رہیں گے۔ امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور فرانس۔ اور چھ ممبر غیر مستقل ہوتے ہیں جو دو سال کے عرصے کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ اس کے گروپ تقسیم ہیں کہ اس دفعہ افریقہ سے ممبر آئے گا، اور اس دفعہ ایشیا سے آئے گا۔ دنیا کے ممالک ووٹ دے کر اپنا نمائندہ ملک منتخب کرتے ہیں۔ تو سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبر ہیں جبکہ چھ غیر مستقل جو ہر دو سال کے بعد بدلتے رہتے ہیں۔ پانچ مستقل ممبرز کی ایک حیثیت تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے، ان کو ممالک سے ووٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری حیثیت یہ ہے کہ ان کو ویٹو پاور حاصل ہے۔
جنرل اسمبلی کی حیثیت تو بس قراردادیں منظور کرنے کی ہے جبکہ سلامتی کونسل کی حیثیت یہ ہے کہ وہ جو فیصلہ کر دے وہ دنیا میں نافذ ہوتا ہے۔ یہ جو دنیا کے مختلف ممالک کے خلاف فوجیں بھیجی جاتی ہیں، اقتصادی ناکہ بندیاں ہوتی ہیں اور بمباریاں ہوتی ہیں، یہ سب سلامتی کونسل کے فیصلوں کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔
پانچ مستقل ممبرز کو ویٹو پاور حاصل ہے جسے ’’حقِ استرداد‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی گیارہ ممبر بیٹھ کر کوئی فیصلہ کریں تو ان پانچ مستقل ممبر میں سے کوئی بھی اس فیصلے کو رد کر سکتا ہے۔ بس وہ فیصلہ ختم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا کا نظام چلانے کے لیے کسی بھی مسئلے پر ان پانچ مستقل ممبرز کا اتفاق ضروری ہے۔ باقی سب رسمی کارروائی ہے۔ اصل طاقت ان پانچ ممالک کے پاس ہے۔ اگر کسی مسئلے پر ان پانچ ممالک میں سے کوئی ایک متفق نہ ہو تو پھر چاہے ساری جنرل اسمبلی ایک طرف ہو جائے اور سلامتی کونسل بھی اس کے ساتھ ہو جائے، وہ فیصلہ نافذ نہیں ہوتا۔
اقوام متحدہ کا یہ نظام ۱۹۴۵ء سے چلا آرہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ڈھانچے کے حوالے سے ہمارے دو تحفظات ہیں:
(۱) پہلا یہ کہ یہ جو پانچ مستقل ممبر ہیں جن کے ہاتھ میں اصل پاور ہے، جن کے فیصلے پوری دنیا میں نافذ ہوتے ہیں، جن کو فیصلہ کرنے یا فیصلہ کو مسترد کرنے کا اختیار حاصل ہے، ان میں ایک بھی مسلمان ملک ممبر نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے اٹھاون مسلمان ممبر ملکوں میں سے کوئی بھی اس میں شامل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ سازی میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یعنی ہم دنیا کی آبادی کا اگر چوتھا نہیں تو پانچواں حصہ ضرور ہیں۔ دنیا کی آبادی کا اتنا بڑا گروپ ہونے کے باوجود ہماری اقوام متحدہ کی فیصلہ سازی میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اتنی اہمیت ہونے کے باوجود فیصلہ سازی کے عمل میں ہماری کوئی شرکت نہیں ہے۔ ملائیشیا کے سابق حکمران مہاتیر محمد نے متعدد بار یہ مسئلہ اٹھایا کہ کوئی فارمولا طے کر کے مسلمانوں کو اس پانچ کے گروپ میں شامل کیا جائے۔ لیکن اس کے علاوہ مسلم ممالک میں سے کوئی یہ آواز نہیں اٹھاتا۔
(۲) ہمارے دو تحفظات میں سے دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا جو چارٹر جسے ایک بین الاقوامی معیار بنایا گیا ہے، یہ جس وقت طے ہوا تھا ۱۹۴۸ء میں، اس وقت اقوام متحدہ میں ہماری نمائندگی مکمل نہیں تھی، مسلم ممالک اکثر غلام تھے، آزاد نہیں تھے۔ اس چارٹر میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو ہمارے مذہب و ثقافت سے متصادم ہیں۔ اس پر بھی مہاتیر محمد نے آواز اٹھائی کہ اس چارٹر پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔
اس حوالے سے اسلامی و ملی نقطۂ نظر سے اقوام متحدہ مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ عملاً تو ہم نے کی ہوئی ہے لیکن نظریے اور شرعی اعتبار سے تبھی قابلِ قبول ہو سکتی ہے کہ ہماری یہ دو باتیں مانی جائیں: ایک یہ کہ فیصلہ سازی میں ہماری کوئی حیثیت ہو۔ دوسرا یہ کہ انسانی حقوق کے چارٹر پر نظر ثانی ہو کیونکہ اس میں کچھ باتیں اسلام اور مسلمانوں سے متصادم ہیں۔ جس طرح دنیا کے باقی معتقدات کا لحاظ رکھا گیا ہے اس طرح اس چارٹر میں ہمارے معتقدات کا لحاظ بھی رکھا جائے اور ہمارے ساتھ مشاورت سے اس پر نظرثانی ہو جائے تو اقوام متحدہ ایک بین الاقوامی معاہدے کے درجے میں ہمیں قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ اس وقت دنیا کے تقریباً تمام شعبوں میں حاوی ہے۔ اقوام متحدہ کے شعبوں میں تعلیم، صحت، ہیومن رائٹس، معیشت وغیرہ کے شعبے نمایاں ہیں۔ اقوام متحدہ کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی اخلاقی معاہدہ ہے۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی پر دنیا کے ملکوں کے خلاف اقتصادی ناکہ بندیاں، جنگی کاروائیاں اور فوج کشیاں ہوتی ہیں، حکومتیں تک ختم کر دی جاتی ہیں۔ اس معاہدے کی کسی بات سے خلاف ورزی پر سلامتی کونسل دنیا کے ملکوں کے خلاف فیصلے کرتی ہے اور اس کے فیصلے عملاً نافذ ہوتے ہیں۔ چنانچہ میں نہیں سمجھتا کہ اس کو اخلاقی معاہدہ کہا جائے۔ میں اسے غیر اعلانیہ بین الاقوامی دستور (Undeclared International Constitution) کہتا ہوں۔ اقوام متحدہ غیر اعلانیہ لیکن عملاً ایک حکومت ہے۔ اور اس کا چارٹر عملاً بین الاقوامی دستور ہے۔ قانونی اور اخلاقی معاہدہ میں تو یہی فرق ہوتا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی پر کاروائی کی جاتی ہے جبکہ اخلاقی معاہدہ کی خلاف ورزی پر کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔
اقوام متحدہ کے تعارف میں یہ لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کی رکنیت تمام امن پسند ملکوں کے لیے عام ہے۔ جب کوئی قوم اقوام متحدہ کی رکنیت اختیار کرتی ہے تو وہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد و قوانین کو قبول کرتی ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی ملک اقوام متحدہ کا ممبر بنے گا وہ پہلے اس چارٹر کو قبول کرے گا۔ یہ چارٹر اقوام متحدہ کا دستور العمل ہے جس سے عالمی امن کے لیے رکن ملکوں کی امیدوں کا اظہار ہوتا ہے، اور اس مقصد کے حصول کی خاطر کام کرنے میں راہنما حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت (جس وقت یہ تعارف لکھا گیا) کل ملکوں کی تعداد ۱۸۹، اب اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی تعداد ۱۹۰ سے بڑھ چکی ہے۔ اور کوسوو کے شامل ہونے سے مسلم ممالک کی تعداد ۵۹ ہو جائے گی۔ یہ تقریباً تیسرا حصہ بنتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اس چارٹر کی تمہید میں لکھا ہے کہ
’’چونکہ ہر انسان کی ذاتی عزت اور حرمت اور انسانوں کے مساوی اور ناقابل انتقال حقوق کو تسلیم کرنا اس دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔ کیونکہ انسانی حقوق سے لا پروائی اور ان کی بے حرمتی اکثر ایسے وحشیانہ افعال کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے جس سے انسانیت کے ضمیر کو سخت صدمے پہنچے ہیں۔ عام انسانوں کی بلند ترین آرزو یہ رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو اور خوف اور احتیاج سے محفوظ ہو۔ چونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو قانون کی عمل داری کے ذریعے محفوظ رکھا جائے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ انسان عاجز آکر جبر اور استبداد کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور ہو جائے ، چونکہ یہ ضروری ہے کہ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھایا جائے، چونکہ اقوام متحدہ کی ممبر قوموں نے اپنے چارٹر میں بنیادی انسانی حقوق، انسانی شخصیت کی حرمت اور قدر اور مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کے بارے میں اپنے عقیدے کی دوبارہ تصدیق کر دی ہے اور وسیع تر آزادی کی فضا میں معاشرتی ترقی کو تقویت دینے اور معیار زندگی کو بلند کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، چونکہ ممبر ملکوں نے یہ عہد کر لیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی اشتراک عمل سے ساری دنیا میں اصولاً اور عملاً انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گے اور کروائیں گے، چونکہ اس عہد کی تکمیل کے لیے بہت ہی اہم ہے کہ ان حقوق اور آزادیوں کی نوعیت کو سب سمجھ سکیں۔ لہذا جنرل اسمبلی اعلان کرتی ہے کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کے واسطے حصولِ مقصد کا مشترک معیار ہو گا تاکہ ہر فرد اور ہر ادارہ اس منشور کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے، اور انہیں قومی اور بین الاقوامی کاروائیوں کے ذریعے ممبر ملکوں میں اور ان قوموں میں جو ممبر ملکوں کے ماتحت ہوں منوانے کی بتدریج کوشش کر سکے۔‘‘
چنانچہ یہ حیثیت ہے اقوام متحدہ کے چارٹر کی۔ دو باتیں آپ یہاں پھر ذہن میں لے آئیں۔ پہلی یہ کہ کسی بھی ملک کو اقوام متحدہ کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس چارٹر کو قبول کرے۔ دوسری یہ کہ اس چارٹر کی حیثیت ایک ایسے بین الاقوامی معاہدے کی ہے جس پر عمل ہر ملک کے لیے ضروری ہے۔ اس میں تعلیم و تبلیغ بھی ہوگی اور قومی و بین الاقوامی کاروائیاں بھی ہوں گی۔ گویا عملاً اس منشور کو اس وقت دنیا میں بین الاقوامی دستور کی حیثیت حاصل ہے۔
اس لیے عام طور پر دنیا میں آج کل دو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہا جائے گا کہ فلاں بات بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔ یا یہ کہا جائے گا کہ انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ ان دونوں کا مطلب یہ چارٹر ہی ہے۔
ایک بات میں درمیان میں عرض کرتا چلوں۔ ہمارے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ پاکستان کے دستور میں ہم نے قرارداد مقاصد بھی منظور کی کہ ہم حاکمِ اعلیٰ اللہ کو تسلیم کرتے ہیں، عوام کے منتخب نمائندے قرآن و سنت کے پابند ہو کر حکومت کریں گے۔ دستور میں ہم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہے اور پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتی۔ اور یہ بھی کہ پارلیمنٹ پابند ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو اسلامی شکل دے۔ آپ کے خیال میں دستور میں یہ ساری باتیں ہونے کے باوجود ان پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ دستوری زبان میں قرآن و سنت کی بالادستی اور نفاذ کی جتنی بات ہم کر سکتے ہیں اس سے کہیں زیادہ پاکستان کے دستور میں موجود ہے۔ لیکن اس پر عمل نہیں ہو پا رہا۔ وجہ کیا ہے؟
وجہ یہ ہے کہ ہمارے دستور میں تضاد ہے۔ دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی کی گارنٹی بھی موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ دستور میں انسانی حقوق کے چارٹر کی بالادستی کی گارنٹی بھی موجود ہے۔ چنانچہ یہ دو گارنٹیاں آپس میں ٹکراتی ہیں۔ ہمارے ہاں ساٹھ سال سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ انہی دو گارنٹیوں پر کھیلا جا رہا ہے:
جب کوئی اسلامی ذہن کا آدمی آتا ہے تو اسلام والی گارنٹی سے فائدہ اٹھا لیتا ہے، جیسا کہ ضیاء الحق نے اٹھایا کہ قرارداد مقاصد دستور میں شامل کر دی، شرعی عدالت قائم کر دی، حدود آرڈیننس جاری کر دیے وغیرہ وغیرہ۔
اور اگر کوئی غیر اسلامی ذہن کا آدمی آتا ہے تو انسانی حقوق کی گارنٹی سے فائدہ اٹھاتا ہے جیسا کہ پرویز مشرف۔
تو یہ ایک مستقل کشمکش ہمارے ملک میں چل رہی ہے۔ اور ہم لوگ چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ تو یہ ہے اصل لڑائی۔ اس لڑائی میں ہمیں مار پڑتی ہے، ہمارے خلاف پراپیگنڈا ہوتا ہے، ہمیں وحشی کہا جاتا ہے، درندگی والا کہا جاتا ہے، غیر انسانی کہا جاتا ہے، دہشت گرد بھی کہا جاتا ہے اور بھی نہ جانے کون کونسے الزامات ہم پر لگائے جاتے ہیں۔ ان سب کی بنیاد دراصل یہی ہے۔
یہ تو تھا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا پس منظر۔ اب ہم اس چارٹر کی چند دفعات کا شق وار جائزہ لیتے ہیں۔ اس میں دو باتیں زیر بحث آئیں گی:
(۱) ایک تو یہ کہ اس چارٹر کے حوالے سے چارٹر والے حلقوں کے ہمارے قوانین پر کیا اعتراضات ہیں؟
(۲) دوسرا یہ کہ اس چارٹر کے حوالے سے شرعی نکتہ نظر سے اس پر ہمارے تحفظات کیا ہیں؟
دفعہ نمبر ۱:
’’تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوئی ہے۔ اس لیے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہیے۔‘‘
تبصرہ:
ایک گورنر صاحب نے کسی کو بلا وجہ مارا تو اس پر حضرت عمرِ فاروقؓ نے کہا کہ ’’مذکم تعبدتم الناس‘‘ تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا ہے؟ ’’ولقد ولدتہم امہاتہم أحرارا‘‘ ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد جنا تھا۔
اصولاً تو اس شق پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن تطبیقاً ہمارا ایک تحفظ ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ عزت و تکریم کے لحاظ سے سب انسان برابر پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن جب یہ تطبیق کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ عزتِ نفس کے اعتبار سے بھی سب انسان برابر ہیں۔ اس میں ہمیں تھوڑا سا کلام ہے۔ ہم جب بات کرتے ہیں تو ہم دو مرحلوں میں بات کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں ایک جگہ ہے ’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ثم رددناہ اسفل سافلین۔‘‘ ایک اور مقام پر ہے ’’ولقد کرمنا بنی آدم‘‘۔ پھر ایک اور مقام پر ہے ’’اولئک کالانعام بل ہم أضل‘‘۔ ہم کہتے ہیں کہ سب انسان برابر پیدا ہوئے ہیں، لیکن موت تک سب برابر نہیں ہیں۔ ’’ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقٰکم‘‘۔ ہمارے ہاں تکریم کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ مجرم اور غیر مجرم کی تکریم برابر نہیں ہے۔ یہ ہمارے اصولوں میں ہے۔ مجرم قتل کا ہو، زنا کا ہو، کسی معاشرتی جرم کا مجرم ہو، وہ بے گناہ شخص کی طرح تکریم کا مستحق نہیں ہے۔
جبکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بے گناہ شخص کی طرح ہی تکریم کا مستحق ہے۔ اس لیے یہ لوگ کہتے ہیں کہ مجرم کو ایسی سزا نہیں دی جائے گی جس سے اس کی تذلیل ہوتی ہو۔ یہ کہتے ہیں کہ انسان مجرم ہو یا غیر مجرم، تکریم میں سب برابر ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر مجرم اور غیر مجرم تکریم میں برابر ہوں گے تو جرم کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
تو پہلی شق میں یہ ہمارا جزوی تحفظ ہے۔ ’’لا فضل لعربی علٰی عجمی ولا لاحمر علٰی اسود الا بالتقوٰی‘‘۔ یعنی ہم کردار کی بنیاد پر ایک آدمی اور دوسرے آدمی کی عزت میں فرق کرتے ہیں۔ اصولاً ہمیں اس چارٹر کی پہلی شق سے اتفاق ہے لیکن اس کی بنیاد پر جو آگے تطبیقات ہوتی ہیں، ان میں ہمارا ایک تحفظ ہے کہ ہم مجرم و غیر مجرم کے لیے یکساں تکریم نہیں مانتے۔
دفعہ نمبر ۲:
’’ہر شخص ان تمام آزادیوں اور حقوق کا مستحق ہے جو اس اعلان میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس حق پر نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب اور سیاسی تفریق کا یا کسی قسم کے عقیدے، قوم، معاشرے، دولت یا خاندانی حیثیت وغیرہ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘
تبصرہ:
اصولاً یہ بھی ٹھیک ہے کہ تمام حقوق سب کے لیے برابر ہیں۔ کوئی کالا ہے، کوئی گورا ہے، امریکی ہے، افریقی ہے، تمام حقوق میں سب برابر ہیں۔ اس کے علاوہ جس علاقے یا ملک سے کوئی شخص تعلق رکھتا ہے ، اس کی سیاسی کیفیت، دائرہ اختیار یا بین الاقوامی حیثیت کی بنا پر اس سے کوئی امتیازی سلوک نہیں ہو گا۔ کوئی آزاد ملک میں رہتا ہے، کوئی غلام ملک میں رہتا ہے، کوئی اقوام متحدہ کے زیر تولیت ملک میں رہتا ہے، انسان تمام حقوق میں برابر ہوں گے۔
دفعہ نمبر ۳:
’’ہر شخص کو اپنی جان، آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق حاصل ہے۔‘‘
تبصرہ:
’’ان دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام، کحرمۃ یومکم ھذا، فی بلدکم ھذا، فی شھرکم ھذا‘‘۔ کسی شخص کی جان، مال اور عزت کسی دوسرے کے لیے حلال نہیں ہے۔ بخاری کی ایک روایت میں ’’و ابشارکم‘‘ کا لفظ بھی ہے کہ کسی کا چمڑا بھی کسی دوسرے کے لیے حلال نہیں ہے۔ اس دفعہ سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن آگے ہمارے جھگڑے شروع ہو رہے ہیں۔
دفعہ نمبر ۴:
’’کوئی شخص غلام یا لونڈی بنا کر نہ رکھا جا سکے گا۔ غلامی اور بردہ فروشی، چاہے اس کی کوئی شکل بھی ہو، ممنوع قرار دی جائے گی۔‘‘
تبصرہ:
اسے کہتے ہیں غلامی کا مکمل خاتمہ۔ اسے بڑی تفصیل کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ ہم نے غلامی کا خاتمہ کیا ہے، اور آپ لوگ غلامی کے خاتمہ پر ہم سے اتفاق بھی کرتے ہیں لیکن آپ پھر بھی اپنے اداروں میں غلامی پڑھا رہے ہیں۔ اور ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے قوانین میں غلامی ختم نہیں کی۔
قرآن میں بھی غلامی پڑھا رہے ہیں ’’والمحصنٰت من النساء إلا ما ملکت ایمانکم کتاب اللّٰہ علیکم‘‘۔ ایک اور جگہ پر ہے ’’إلا علٰی أزواجہم أو ما ملکت أیمانہم فإنہم غیر ملومین‘‘۔ قرآن کریم میں بھی ہم غلامی کے مسائل پڑھاتے ہیں اور احادیث میں بھی، فقہ میں بھی۔ یہ مکاتبت، تدبیر، استیلاد وغیرہ۔
ان کا اعتراض یہ ہے کہ ہم غلامی کے عملاً خاتمے میں تو ان کے ساتھ ہیں لیکن ذہناً غلامی کے خاتمے سے متفق نہیں ہیں۔ اور یہ بات درست بھی ہے کہ ہم نے عملاً غلامی کا خاتمہ قبول کر لیا ہے۔ گزشتہ ایک سو سال کے دوران جہاد کے عنوان سے جتنی جنگیں ہوئی ہیں، کیا کسی جنگ میں مسلمانوں نے کسی کو غلام یا لونڈی بنایا ہے؟ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور دیگر ممالک میں مسلمانوں نے کسی کو لونڈی یا غلام نہیں بنایا۔
ہمارے دینی مدارس کے نصاب پر ان کے جو اعتراضات ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ مخالف کی بات سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اور میں آپ حضرات کے سامنے ان کے موقف کی وضاحت کر رہا ہوں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ ہم سے متفق بھی ہیں اور عملاً آپ ایسا کر بھی نہیں رہے، تو پھر آپ اپنے مدارس میں یہ پڑھا کیوں رہے ہیں؟
ان کا ہم سے مطالبہ ہے کہ ہم اپنے ان قوانین میں ترمیم کریں۔ غلامی سے متعلقہ آیات قرآن سے نکالیں۔ غلامی سے متعلقہ احادیث کے ابواب کتابوں سے نکالیں۔ فقہ کی کتابوں سے غلامی کی بحثیں نکال دیں۔ اگر آپ لوگ نکال نہیں سکتے تو کم از کم ان کو پڑھانا تو چھوڑ دیں۔
میں ان سے کہتا ہوں کہ بھئی یہ تو ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ نہ قرآن کریم کے کسی قانون میں رد و بدل کا ہمیں اختیار ہے اور نہ صحیح احادیث میں سے کسی کا انکار ہمارے اختیار میں ہے۔
ایک صاحب مجھ سے بات کرنے لگے کہ ’’مولوی صاحب کچھ نہ کچھ کرنا تو پڑے گا۔ ورنہ ہم بین الاقوامی برادری میں کیسے ایڈجسٹ ہوں گے؟‘‘
تو میں نے ان صاحب کو سیدھا انکار کرنے کی بجائے یہ مشورہ دیا کہ بھئی، ٹھیک ہے، آپ ایک ایجنڈا بنا لیں کہ آپ نے قرآن و احادیث میں کہاں کہاں ترامیم کرنی ہیں، بلکہ میں اقوام متحدہ کے چارٹر کو سامنے رکھتے ہوئے اس ایجنڈا کی تیاری میں آپ کی مدد بھی کر دوں گا، لیکن اس ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے منظور کس اتھارٹی سے کروانا ہے؟ یہ کام آپ کا ہے۔ آخر کوئی اتھارٹی اسے قبول کر کے منظوری دے گی تو اس پر باقاعدہ عملدرآمد ہو گا۔
جیسے پاکستان کے دستور میں کوئی ترمیم کرنی ہو تو اس کی اتھارٹی پارلیمنٹ ہے۔ کسی جماعت کے منشور میں ترمیم کرنی ہو تو اس کی اپنی کوئی دستور ساز کمیٹی ہوتی ہے جس سے اسے منظور کروایا جاتا ہے۔ اسی طرح آپ قرآن و احادیث میں جو ترامیم طے کریں گے، آخر انہیں منظور کس اتھارٹی سے کروائیں گے؟ ہمارے پاس تو اس کی کوئی اتھارٹی نہیں ہے۔ نہ دارالعلوم دیوبند کے پاس ہے، نہ دارالعلوم کراچی کے پاس، نہ مدینہ یونیورسٹی کے پاس۔ اس دنیا میں تو کوئی اتھارٹی نہیں ہے جو یہ ترامیم منظور کر کے ان پر عملدرآمد کرا سکے۔ اب قرآن کریم میں ترمیم کی درخواست ہم اقوام متحدہ کو دینے سے تو رہے۔
وہ صاحب بالاخر کہنے لگے کہ جی اتھارٹی تو واقعی کوئی نہیں ہے۔ میں نے کہا: پھر وقت ضائع کرنے کا فائدہ؟
میں یہاں وہ بات پھر دہرا دیتا ہوں کہ اگر قرآن کریم کے کسی قانون میں رد و بدل کا اختیار ہوتا تو کس کے پاس ہوتا؟ میں ’’لو کان فیہما اٰلہۃ‘‘ کے درجہ کی بات کر رہا ہوں۔ اللہ نے تو اپنے نبی سے کہا ہے ’’واذا تتلیٰ علیہم اٰیاتنا بینات قال الذین لا یرجون لقائنا ائت بقرآن غیر ہٰذا او بدلہ‘‘۔ یہ تو تھا ایجنڈا، اب آگے فیصلہ ہے۔ کہا: ’’قل ما یکون لی ان ابدلہ من تلقاء نفسی‘‘۔ آپ کہہ دیجئے کہ مجھے تو تبدیلی کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔
یہ بات اللہ تعالیٰ کس سے کہلوا رہے ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اب تو قیامت تک جہاں اور جب بھی ’’ائت بقرآن غیر ھٰذا او بدلہ‘‘ کا مطالبہ ہو گا، اس کا یہی جواب ہوگا: ’’ما یکون لی ان ابدلہ من تلقاء نفسی’’۔
قرآن کریم نے تو یہاں بھی کفایت نہیں کیا، اور آگے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’ان اتبع الا ما یوحٰی الی‘‘ کہ میں تو بس وحی کا پابند ہوں۔ اور قرآن نے یہاں بھی بس نہیں کی، اور آگے یہ بھی کہہ دیا: ’’انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم‘‘ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے یہ غلطی کر دی تو قیامت کے روز عذاب میں پکڑا جاؤں گا۔
بہرحال میں ان کے اعتراض پر واپس آتا ہوں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جب آپ لوگ ہمارے ساتھ اس معاہدے میں شریک ہیں، دستخط بھی کر رکھے ہیں اور عملاً بھی آپ نے غلامی کا اختتام کر رکھا ہے تو پھر آپ نظری اور علمی طور پر اس کو کیوں باقی رکھے ہوئے ہیں؟ قرآن و حدیث میں آپ یہ کتابت و مکاتبت، استیلاد و تدبیر اور یہ کفارات کے مسئلے اپنے طلباء کو کیوں پڑھا رہے ہیں؟ یہ تو تھا ان کا اعتراض۔
اب ہم غلامی کی طرف آتے ہیں۔ غلامی کیا ہے اور اس پر ہمارا موقف کیا ہے؟ اس پر بات کرنے سے ان حضرات کے اعتراض کا جواب سامنے آجائے گا۔
جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں، تو اس زمانے میں کسی شخص کو غلام بنانے کے تین طریقے رائج تھے:
(۱) ایک طریقہ تو یہ تھا جسے آج کل بردہ فروشی کہتے ہیں۔ کوئی طاقتور آدمی کسی کمزور آدمی کو پکڑتا تھا اور غلام بنا کر بیچ دیتا تھا۔ زید بن حارثہؓ بھی ایسے ہی غلام بنے تھے۔ وہ کسی غلام خاندان کے نہیں تھے۔ راہ چلتے کچھ طاقتور لوگوں نے پکڑا اور بیچ دیا۔ سلمان فارسیؓ بھی ایسے ہی غلام بنے تھے۔ علم کی تلاش میں سفر کر رہے تھے، کچھ طاقتور لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے غلام بنا کر بیچ دیا۔ اسے آج کی اصطلاح میں بردہ فروشی کہتے ہیں۔ آج بھی کچھ لوگ ایسے کرتے ہیں کہ کسی بچے، کسی بچی کو اغوا کیا اور آگے بیچ دیا۔ چنانچہ ایک طریقہ غلام بنانے کا یہ رائج تھا۔
(۲) دوسرا طریقہ غلام بننے، بنانے کا یہ تھا، جس کا کہ بائبل میں بھی ذکر ہے، اور پرانی قوموں میں بھی یہ طریقہ رائج رہا ہے، کہ کسی آدمی پر کوئی جرم ہے، اس کے ذمے کوئی تاوان ہے، تو عدالت نے، پنچایت نے، تحکیم نے، قضا نے، اس شخص کو سزا کے طور پر غلام بنا دیا۔ بلکہ بعض اوقات تو مجبور آدمی خود کو بھی کسی کی غلامی میں دے دیتا تھا۔ مثلاً کسی پر کسی کا کوئی قرض ہے جسے وہ چکا نہیں سکتا، تو وہ آخر ہار مان کر کہہ دیتا تھا کہ ٹھیک ہے میں تمہارا غلام ہوں، مجھے بیچ کر اپنا قرضہ پورا کر لو یا خود مجھ سے کام لے لو۔
(۳) تیسرا طریقہ یہ تھا کہ جنگی قیدی جو ہاتھ میں آتے تھے، انہیں غلام بنا لیا جاتا تھا۔ جنگ کے دوران جو لوگ قید میں آجاتے تھے، ان کے بارے میں مختلف آپشنز ہوتے تھے۔ مثلاً یہ کہ انہیں قتل کر دیا جائے، یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، یا کبھی کبھار کسی حکمت کے تحت ویسے ہی چھوڑ دیا جائے، یا قیدیوں کا تبادلہ کر لیا جائے، یا آخری صورت یہ ہوتی تھی کہ انہیں قید کر لیا جائے۔
اب جب قید کر لیا جاتا تو پھر دو صورتیں ہوتیں: یا تو انہیں قید خانے میں ڈال دیا جائے، یا پھر انہیں غلام بنا کر مختلف خاندانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یعنی جیل کا قیدی، یا پھر گھر کا قیدی۔ حضورؐ کے زمانے میں عرب میں اجتماعی قید خانے نہیں ہوا کرتے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قید میں رکھنا مشکل ہوتا تھا۔ چنانچہ یہ قیدی خادم کے طور پر مختلف خاندانوں میں تقسیم کر دیے جاتے تھے۔
چنانچہ یہ تین طریقے اس وقت غلام بنانے کے رائج تھے۔ ان میں سے دو صورتیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل طور پر منع فرما دیں۔ ’’بیع الحر حرام‘‘ حضورؐ نے بردہ فروشی کو حرام قرار دے دیا۔ ’’ثمن الحر حرام‘‘ جرمانے یا تاوان میں بھی غلام بنانے کو حرام قرار دے دیا۔ یہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں نا کہ جی ہم نے غلامی کو ختم کر دیا، ان کے ہاں تو ابھی ایک سو سال پہلے تک، بلکہ امریکہ میں، جو آج دنیا کا بڑا چودھری ہے، افریقہ سے بحری جہاز بھر بھر کر انسانوں کو لاتے تھے اور امریکہ کی منڈیوں میں لا کر بیچ دیتے تھے۔
یعنی آج سے سو سال پہلے تک امریکہ میں غلاموں کی منڈیاں موجود تھیں۔ آزاد آدمی پکڑ کر لائے جاتے تھے اور منڈیوں میں بیچ دیے جاتے تھے۔ امریکہ میں تو گزشتہ صدی تک غلامی کے جواز عدمِ جواز کی بحث چلتی رہی ہے۔ گزشتہ صدی میں امریکہ میں جو شمال و جنوب کی جنگ ہوئی ہے، میں نے وہ میدان دیکھا ہے جہاں جنگ ہوئی اور جنرل لی نے ہتھیار ڈالے۔ اس جنگ کے دور میں امریکہ کے دانشوروں کی کتابوں کی کتابیں غلامی کے جواز پر دلائل سے بھری پڑی ہیں۔ یہ ابھی گزشتہ صدی کی بات ہے۔
آج امریکہ آزادی کا ٹھیکیدار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور امریکہ میں رہنے والے افریقی نسل کے لوگوں کو ۱۹۶۴ء تک ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ کونڈو لیزا رائس جو آج کل امریکہ کی وزیر خارجہ ہے۔ امریکہ میں وزیر خارجہ کو تقریباً وزیر اعظم کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ صدر کے بعد دوسری بڑی شخصیت وزیر خارجہ کی ہوتی ہے۔ یہ کونڈو لیزا رائس صرف سیاستدان نہیں ہے بلکہ یہ مغرب کے چند بڑے فلسفیوں میں سے ایک ہے۔ میں نے اس کا شہر بھی دیکھا ہے اور اس کا گھر بھی دیکھا ہوا ہے۔ اس عورت کا باپ ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے ووٹ کا حق لینے کے لیے امریکہ میں عدالتی جنگ لڑی۔ یعنی اس کے باپ کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا، اس لیے کہ وہ افریقی النسل کالا تھا۔
تو ایک طویل عدالتی جنگ لڑی کہ ہم لوگ بھی امریکہ کے شہری ہیں، ہمیں ووٹ کا حق کیوں حاصل نہیں ہے۔ میں دراصل یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ اس بات کو تو ابھی آدھی صدی بھی نہیں گزری۔ اور یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے غلامی ختم کی ہے۔ جبکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ غلامی سب سے پہلے اسلام نے ختم کی ہے۔ بردہ فروشی، اور بطور تاوان کے غلام بنانے کو اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ختم کر دیا تھا۔ اب باقی رہ گئی غلامی کی تیسری قسم۔
یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا اسلام نے غلام بنانے کا حکم دیا ہے یا غلامی کی جو تین صورتیں رائج تھیں ان میں سے دو کو ختم کر کے ایک صورت کو بطور آپشن باقی رکھنے کی اجازت دی ہے؟ یعنی جنگی قیدی اگر آپ کے ہاتھ میں آگیا ہے تو آپ کی مرضی ہے اس سے کس طرح سے فائدہ اٹھائیں، سزائے موت دے دیں، اپنے قیدی کے ساتھ تبادلہ کر لیں، فدیہ لے کر چھوڑ دیں، ویسے ہی رضاکارانہ چھوڑ دیں، یا قید خانے میں ڈال دیں، یا اس سے ایسا کام لے لیں جو اس کے بس سے باہر کا نہ ہو۔
اور اسلام میں جنگی قیدیوں کو غلام بنانا کوئی فرائض، واجبات یا مستحبات میں سے نہیں ہے، یہ تو مباحات میں سے ہے۔ اور ایسا کوئی بین الاقوامی معاہدہ قبول کرنا جس سے کسی مباح پر اثر پڑے تو اس کے لیے اس مباح کو چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ فإما منا بعد وإما فداءً حتیٰ تضع الحرب أو زارہا‘‘۔ اور ہم نے ایسا ہی کیا ہے۔ ہم نے غلامی کی ایک صورت کو اس زمانے کے عرف کے حوالے سے قبول کیا تھا۔ اور آج کے عرف کے حوالے سے اس ایک صورت سے بھی ہم نے عملاً دستبرداری اختیار کر لی ہے۔
ایک بات سمجھنے کی ہے۔ ایسا ہم نے اصولاً نہیں بلکہ عملاً کیا ہے۔ خدانخواستہ غلامی کے ایسے حالات دنیا میں پھر پیدا ہو جائیں، تو ہم ان حالات سے نمٹنے کا راستہ کیوں بند کریں؟ اصولاً ہم اپنے موقف پر قائم ہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اصولاً اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ ہم احکام سے دستبردار نہیں ہوئے بلکہ تطبیق سے دستبردار ہوئے ہیں۔
اب ایک مزید بات سمجھنے کی ہے۔ میرا مغرب سے سوال ہے، کہ تم اپنے عرف کو دائمی اور حتمی عرف کیسے کہہ دیتے ہو؟ آیا عرف کبھی دائمی رہا ہے؟ تعامل کبھی ابدی رہا ہے؟ یہ تو بدلتا رہتا ہے۔ ایک بات میں پھر عرض کرتا چلوں کہ جہاں ہمارے احکامِ صریحہ، نصِ قطعی، نصِ صریح متاثر نہ ہوتے ہوں وہاں ہم بین الاقوامی معاہدات قبول بھی کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں۔ ہاں جہاں ہمارے احکامِ منصوصہ متاثر ہوں گے، وہاں ہمیں ضرور اعتراض ہوگا۔ ہم تو آج خود مطالبہ کرتے ہیں کہ گوانتانامو جزیرے کے قیدیوں سے بین الاقوامی معاہدے جنیوا کنونشن کے مطابق سلوک کیا جائے۔
چنانچہ میں کہہ رہا تھا کہ اگر کبھی ایسا دور پھر واپس آجائے، جس کی ہمیں دھمکیاں بھی دیتے ہیں یہ لوگ کہ، ہم تمہیں پتھر کے دور میں واپس بھیج دیں گے، یعنی اس کا مطلب ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ پتھر کا دور واپس آجائے، امکانات تو یہ لوگ خود تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارا نکتہ یہ ہے کہ اگر دنیا میں ایسا دور، ایسے حالات دوبارہ آجائیں کہ غلامی کی یہ صورت رائج ہو جائے، تو ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس احکامات موجود ہیں، ان احکامات سے ہم دستبردار نہیں ہوئے، وہ اپنی جگہ پر موجود ہیں۔
چنانچہ میرا مغرب کے دانشوروں سے ایک سادہ سا سوال ہے۔ فرض کریں ہم پتھر کے دور میں واپس چلے گئے ہیں، اور کسی جنگ میں کچھ قیدی ہمارے ہاتھ آگئے ہیں، ان قیدیوں کو ہم اپنی سیاسی، جنگی حکمتِ عملی کے تحت نہ آزاد کر سکتے ہیں، نہ کسی قسم کے تبادلے میں چھوڑ سکتے ہیں، اور ہم انہیں قتل بھی نہیں کرنا چاہتے۔ اب اس کی ہمارے پاس دو صورتیں ہیں: یا تو انہیں اجتماعی طور پر کسی قید خانے میں ڈال دیا جائے، یا پھر انہیں مختلف خاندانوں کے حوالے کر دیا جائے۔
یہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آیا اس قیدی کے لیے ان میں سے بہتر صورت کونسی ہے؟ اب قید کی کوئی مدت بھی معین نہیں ہے۔ اب آپ اس قیدی سے پوچھیں کہ وہ جیل میں رہنا چاہتا ہے یا کسی کے ساتھ گھر میں؟ مکمل غلامی یا نیم آزادی؟ قیدی سے پوچھیے کہ وہ حقوق کے تعین کے ساتھ کسی کے ساتھ رہنا چاہتا ہے یا پھر بس جیل میں پڑا گلنا سڑنا چاہتا ہے؟
آج کل کی جیلیں آپ دیکھ لیں۔ مثلاً ایک قیدی ایک لمبی قید گزار رہا ہے، جب وہ اپنی قید کا ایک بڑا عرصہ گزار لیتا ہے تو اسے ضمانت پر باہر بھیج دیا جاتا ہے کسی زمیندار یا کسی رفاہی ادارے کی خدمت کے لیے، جہاں وہ اپنی قید کا باقی عرصہ گزارتا ہے۔ آپ اس قیدی سے پوچھیے کہ اس کے لیے وہ جیل کی چاردیواری بہتر تھی یہ نیم آزادی کے ساتھ خدمت بہتر ہے؟ ایک عورت کے لیے جیل میں سڑنا بہتر ہے، یا حقوق کے تعین کے ساتھ کسی کے ساتھ رہنا بہتر ہے؟
چنانچہ میں عرض کر رہا تھا کہ اسلام نے غلامی کی تین قسموں میں سے ایک قسم کی اجازت دی، اور اس قسم پر بھی بہت سے آپشنز ختم کرنے کے بعد عمل کی نوبت آتی ہے، کہ جب ایک جنگی قیدی کو فدیہ لے کر نہ چھوڑنا ہو، قیدی کے تبادلے میں رہا نہ کرنا ہو، سزائے موت نہ دینی ہو، تو ایسی صورت میں اسے بجائے قید میں ڈال کر اس کی زندگی ہی بالکل بے مقصد بنانے کے، اسے حقوق کے تعین کے ساتھ کسی کے ساتھ رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔ اور میں پورے شرح صدر کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ ایسی صورت میں قیدی کا بہترین مفاد اسی میں ہے کہ اسے جیل میں ڈالنے کی بجائے کسی کا غلام بنا دیا جائے جہاں اسے زندگی کے کچھ نہ کچھ حقوق میسر ہوں۔ اب یہ بات اس کے بعد کی ہے کہ اسلام نے اس غلام کے ساتھ حسنِ سلوک پر کس طرح ابھارا ہے اور اس سے بد سلوکی پر کیسی مذمت کی ہے۔
چنانچہ ان کا اعتراض یہ ہے کہ اگر آپ لوگ غلامی کے خاتمے پر عملاً متفق ہیں تو پھر آپ لوگ اپنے نصاب میں غلامی پڑھاتے کیوں ہیں، غلامی کا ذکر کیوں کرتے ہیں، اور غلامی کے متعلق قرآن و سنت کے احکام منسوخ کیوں نہیں کرتے؟ چارٹر کی شق اس طرح سے ہے کہ ’’کوئی شخص غلام یا لونڈی بنا کر نہ رکھا جا سکے گا۔ غلامی اور بردہ فروشی چاہے اس کی کوئی شکل بھی ہو ممنوع قرار دے دی جائے گی۔‘‘
اس کے جواب میں، میں نے جو عرض کیا اس کا خلاصہ عرض کر دیتا ہوں، کہ غلامی کی جو دو صورتیں ہیں وہ تو ہم نے آپ لوگوں سے کوئی بارہ سو سال پہلے ہی ختم کر دی تھیں۔ یعنی ہمارے ختم کرنے کے بعد بھی آپ لوگ بارہ سو سال تک بردہ فروشی کرتے چلے آئے۔ تاوان اور سزا میں غلام بنانے کو بھی اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ختم کر دیا تھا۔ تاہم تیسری قسم، کہ جنگی قیدیوں کو بطور غلام رکھنے کا اسلام نے حکم نہیں دیا بلکہ ایک آپشن کے طور پر باقی رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اور ہم اپنے قوانین کی روشنی میں قیدی کے لیے، ایسے حالات کے اندر کہ جب اسے کسی صورت چھوڑنا قومی و ملکی مفاد میں نہ ہو، دوسرے آپشن یعنی جیل میں ڈالنے سے بہتر سمجھتے ہیں۔
اس وقت جو عالمی عرف ہے غلامی کے حوالے سے، ہم نے اسے مکمل طور پر قبول کر لیا ہے۔ ہم تو کسی جنگ میں بھی کوئی غلام نہیں بنا رہے۔ بلکہ ایک لطیفے کی بات ذکر کرتا چلوں، روسی استعمار کے خلاف جہادِ افغانستان کے دوران مجھے ایک صاحب نے پوچھا: آپ کو کوئی لونڈی ملی ہے جہاد سے؟ میں نے کہا نہیں بھئی، ہم بین الاقوامی معاہدے کے پابند ہیں، اس لیے کہ غلام اور لونڈی بنانا اسلام کے منصوصات میں سے نہیں ہے، بلکہ مباحات میں سے ہے، اور خاص حالات میں صرف ایک اجازت کی حد تک ہے۔ یہاں ایک بات پھر واضح کرتا چلوں کہ قرآن و احادیث کی منصوصات کو تبدیل کرنے کی اتھارٹی نہ ہم خود رکھتے ہیں نہ کسی اور کی مانتے ہیں۔
دفعہ نمبر ۵:
’’کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ، انسانیت سوز یا ذلیل سلوک یا سزا نہیں دی جائے گی۔‘‘
تبصرہ:
یعنی ہم کسی شخص کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کریں گے جس میں جسمانی اذیت ہو یا تذلیل ہو۔ جسمانی تشدد ہو یا دوسروں کے سامنے توہین ہو۔ یعنی کسی شخص کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوگا جس میں جسمانی تشدد ہو اور اس کی تذلیل ہو۔ اور کسی شخص کو ایسی سزا نہیں دی جائے گی جس میں جسمانی تشدد ہو اور اس کی تذلیل ہو۔
اسلام کا سزاؤں کا نظام تین حصوں میں ہے: (۱) قصاص (۲) حدود (۳) تعزیرات۔
قصاص میں قرآن کہتا ہے ’’ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن والجروح قصاص‘‘۔ اب اس میں تو جسمانی تشدد بھی ہے اور تذلیل بھی ہے۔ حدود کی سزاؤں میں رجم کی سزا ہے۔ اب رجم تو نام ہی تشدد کا ہے۔ ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کی سزاؤں میں بھی تشدد ہے۔ تعزیرات میں کوڑے مارنے کی سزائیں ہیں۔ ان میں بھی تشدد ہے۔
اور پھر ’’ولیشہد عذابہما طائفۃ من المؤمنین‘‘۔ اب برسرِ عام سزا دینے میں تذلیل بھی ہے۔ لہٰذا قریب قریب اسلامی سزاؤں کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچتا جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی زد میں نہ آتا ہو۔
اخبارات میں یہ جملے تو اکثر آپ حضرات پڑھتے ہوں گے کہ جی یہ غیر انسانی، ظالمانہ اور وحشیانہ سزائیں ہیں۔ ان جملوں کے پیچھے دراصل یہ دفعہ بول رہی ہوتی ہے۔ اب تو پاکستان سے یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ قصاص میں قتل کی سزا بھی ختم کی جائے۔ اب حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور ہوئی ہے کہ موت کی سزا کسی بھی جرم میں نہ دی جائے۔ ہمارے ہاں موت کی سزا قصاص، ارتداد، محاربہ، قطع طریق اور بغاوت وغیرہ میں ہے۔ جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے یہ قرارداد منظور کی ہے کہ سزائے موت کا قانون پوری دنیا سے ختم ہونا چاہیے۔ اور اس مقصد کے لیے پوری دنیا میں ایک کیمپین چل رہی ہے۔ اور ظاہر ہے پاکستان بھی دنیا سے باہر تو نہیں ہے، ہم سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ سزائے موت ختم کر دی جائے۔
دیگر قوانین تو آہستہ آہستہ ختم ہو ہی رہے ہیں۔ جیسے کہ کوڑوں کی سزائیں ختم کر کے پانچ سال قید کی سزا رکھ دی گئی ہے۔ اس لیے کہ دنیا والے کہتے ہیں کہ آپ اتنے معزز اور مکرم آدمی کو سر عام کوڑے کیوں مارتے ہیں؟ اب اس دفعہ کا یہ چھوٹا سا جملہ آپ کی سمجھ میں آگیا ہو گا کہ اسی میں انہوں نے اسلام کے سزاؤں کے سارے نظام کو لپیٹ دیا۔ اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان کی باتوں کو سمجھ بھی نہیں پاتے اور وہ اپنا سارا کام کر گزرتے ہیں۔
ایک لطیفے کی بات یاد آگئی۔ برمنگھم برطانیہ میں ہمارا ایک برخوردار نوجوان قاری ہے، بڑا اچھا قرآن پڑھتا ہے، خاص طور پر سعودی قراء سدیس، شریم حذیفی وغیرہ کی نقل بڑی کامیابی سے اتارتا ہے۔ ایک مجلس میں ایسے ہی بڑی کامیابی سے وہ قاری عبد الرحمٰن السدیس کی طرز پر تلاوت کر رہا تھا، اور اتنی کامیابی سے کہ بالکل محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ کوئی اور ہے۔ ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں کہ اُس مجلس میں میرے پیچھے ایک پختون صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے منہ سے داد دینے کے انداز سے بے ساختہ نکلا ’’ ڈیر حرامی دا‘‘۔ تو میرے منہ سے بھی یہ جملہ بسا اوقات ان لوگوں کے لیے نکل جاتا ہے، جو کہ مذمت کے لہجے میں نہیں بلکہ داد کے لہجے میں ہوتا ہے کہ کس طرح یہ لوگ کامیابی سے وار کرتے ہیں، اور اپنے منصوبوں کو کس طرح خوشنما الفاظ کا لبادہ پہنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
چنانچہ میں بات کر رہا تھا کہ یہ جو آپ کی قصاص، حدود اور تعزیرات وغیرہ کی سزاؤں کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جاتا ہے اور انہیں غیر انسانی، وحشیانہ قرار دیا جاتا ہے، یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی اس دفعہ نمبر ۵ کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ سے مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ نے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں کہ ہم کسی شخص کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کریں گے اور کسی شخص کو ایسی سزا نہیں دیں گے، تو پھر آپ ایسی سزائیں کیوں نافذ کرتے ہیں جن میں ہاتھ پاؤں وغیرہ کاٹے جاتے ہیں، کوڑے لگائے جاتے ہیں ، اور سب کے سامنے مجرم کی تذلیل کی جاتی ہے؟
ہمارے ہاں سپریم کورٹ میں ایک بحث چلی تھی، چکوال کا ایک ڈکیتی کا مقدمہ تھا۔ ایک آدمی نے قتل بھی کیا تھا اور ڈاکہ بھی ڈالا تھا۔ چکوال کی ایک خصوصی عدالت نے اس کیس میں فیصلہ سنایا کہ اس آدمی کو برسر عام پھانسی دی جائے گی۔ اس فیصلے کا سپریم کورٹ نے ’’سوموٹو‘‘ نوٹس لے لیا۔ اب سپریم کورٹ میں یہ بات زیر بحث آگئی کہ کسی مجرم کو برسر عام سزا دینے میں تذلیل ہے۔ تذلیل عزتِ نفس کے منافی ہے۔ اور عزتِ نفس انسانی حقوق میں شامل ہے۔
چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل، اٹارنی جنرل بحث میں شریک ہوئے۔ ہمارے ایک دوست ہیں بہت بڑے وکیل ہیں ایس ایم ظفر، وہ بھی پیش ہوئے۔ اس بحث میں وکلاء کا موقف تھا کہ برسر عام سزائیں نہیں ہونی چاہئیں، اور اس موقف کی حمایت میں انہوں نے دو دلیلیں پیش کیں:
ایک دلیل یہ کہ قرآن میں ہے ’’یا ایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود‘‘ قرآن کریم ہمیں معاہدات کی پابندی کا حکم دیتا ہے۔
دوسری دلیل یہ دی کہ قرآن کریم معاملات میں ہمیں عرف کی پابندی کی تلقین کرتا ہے، جبکہ یہ آج کا عالمی عرف ہے، لہٰذا ہم اس بات کے پابند ہیں کہ ہم اپنے قانونی نظام میں اس بات کی پابندی کریں۔
میں نے پہلے یہ بات واضح کی تھی کہ ہمیں بین الاقوامی معاہدات سے انکار نہیں ہے، لیکن ہمارے ہاں اس کے لیے ایک حدِ فاصل ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم نصوصِ صریحہ اور احکامِ قطعیہ کے حوالے سے نہ ہم عالمی عرف کو مانتے ہیں اور نہ معاہدات کو مانتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر ہر معاملے میں عرف کو بھی مان سکتے ہیں اور معاہدات کو بھی قبول کر سکتے ہیں۔
غلامی کے معاملے میں ہم نے عرف کو قبول کر لیا ہے کیونکہ وہ منصوصات میں سے نہیں ہے۔ لیکن قصاص، حدود اور تعزیرات کے معاملے میں ہم عرف کو قبول نہیں کرتے کیونکہ یہ احکامِ قطعیہ ہیں اور ان میں ہمارے لیے کوئی عرف یا معاہدہ قبول کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
لیکن سپریم کورٹ میں یہ دلیل بہرحال پیش کی گئی کہ کیونکہ قرآن کریم معاہدات کی پابندی کا اور بین الاقوامی عرف کو قبول کرنے کا حکم دیتا ہے، اس لیے ہمارے لیے اپنے قانونی نظام میں ان باتوں کی پابندی لازم ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے یہ آرڈر جاری کیا کہ ہمارے لیے اپنے قانونی نظام میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی اس دفعہ کی پابندی لازم ہے۔ لہٰذا برسرِ عام سزا دینے کا وہ فیصلہ سپریم کورٹ نے منسوخ کر دیا۔
ہمارے ہاں قانونی نظام میں سب سے زیادہ سنگین سزا موت کی ہے۔ اور یہ سزا صبح سحری کے وقت جیل میں دی جاتی ہے۔ اور قانون کے مطابق اس سزا کے وقت سپرنٹنڈنٹ جیل، مجسٹریٹ، ڈاکٹر، اور پھانسی کا لیور کھینچنے والا جلاد، ان چار آدمیوں کے علاوہ کسی پانچویں آدمی کی موجودگی ممنوع ہے۔ اور اس کا پس منظر یہی ہے کہ یہ ایک سنگین سزا ہے اس لیے مجرم کی تذلیل نہیں ہونی چاہیے، اور بس وہی لوگ وہاں موجود ہونے چاہئیں جن کی موجودگی بامر مجبوری ضروری ہے۔
چنانچہ یہ بنیاد ہے، اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اس ایک جملے کی زد میں حدود و تعزیرات کے قوانین کا سارا نظام آگیا ہے۔
ہم بات کر رہے تھے دفعہ نمبر ۵ پر کہ اگر ہم اس دفعہ کو من و عن قبول کر لیں، عملاً تو ہم نے قبول کیا ہوا ہے لیکن اگر ہم عقیدے اور اصول کے طور پر بھی اسے قبول کر لیں تو ہمیں اپنے پورے تعزیراتی نظام سے، جس میں تعزیرات، حدود، قصاص، سب سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں دفعہ ۱۶ کا ذکر کروں، پہلے آپ خاندانی زندگی سے متعلق اصطلاحات سمجھ لیں۔ قانون کی دنیا میں چند ایک اصطلاحات ہیں، جیسے فوجداری قوانین، دیوانی قوانین اور عائلی قوانین۔
(۱) فوجداری قوانین لڑائی جھگڑوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ ایسے قوانین میں حکومت فریق ہوتی ہے، کیونکہ ان معاملات کا تعلق امنِ عامہ سے ہوتا ہے۔ ایسے معاملات جن میں حکومت کسی کو بغیر کسی اطلاع یا شکایت کے پکڑ سکتی ہے۔
(۲) دیوانی قوانین وہ ہوتے ہیں جن میں آپس کی شکایات پر مقدمات درج ہوتے ہیں۔ ان میں اجتماعی امنِ عامہ تو زد میں نہیں آتا لیکن لوگوں کے باہمی معاملات کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے، جیسے کہ ایک شخص کو کسی دوسرے شخص سے شکایت ہے کہ اس نے مجھ سے فلاں زیادتی یا نا انصافی کی ہے۔ ایسے معاملات میں حکومت کا خود سے کوئی دردِ سر نہیں ہوتا، آپ کے ساتھ کسی نے نا انصافی، ظلم کیا ہے تو آپ کو خود شکایت کرنا ہوگی، آپ شکایت نہیں کریں گے تو حکومت آپ کے معاملے میں خود سے کوئی دخل اندازی نہیں کرے گی۔
پبلک لاء (Public Law) اور پرسنل لاء (Personal Law) کی اصطلاحات بھی ہمارے ہاں استعمال ہوتی ہیں۔
پرسنل لاء کہتے ہیں خاندانی نظام کو ’’القوانین الشخصیۃ‘‘۔ اس کو شخصی قوانین، عائلی قوانین وغیرہ بھی کہتے ہیں۔ نکاح، طلاق، وراثت، حضانت، کفالت، ولایت، کفاءت وغیرہ سب اسی کے تحت آتے ہیں۔ اسے آپ عائلی قوانین، پرسنل لاء، شخصی قوانین، خاندانی قوانین، وغیرہ میں سے کچھ بھی کہہ لیں، ایک ہی بات ہے۔
ایک بات آج کی دنیا کی مسلّمات میں سے ہے جس کے لیے ڈاکٹر ولیم روون، آرچ بشپ آف کنٹربری، جو کہ پروٹسٹنٹ کی دنیا کے سربراہ ہیں، نے برطانیہ میں حکومت سے کہا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے پرسنل لاء دیے جائیں۔ اور یہ برطانیہ کے مسلمانوں کا حق بھی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی عیسائیوں کو ان کے پرسنل لاء پر عمل کا حق حاصل ہے۔ اب عیسائی تو ہم مسلمانوں کے طریقے سے نکاح نہیں کر سکتے۔ اسی طرح طلاق، حضانت، وراثت اور بچوں کی کفالت وغیرہ کے ان کے اپنے قوانین ہیں، اور اس پر عمل کا حق ان کو حاصل ہے۔
علماء کرام نے جب ۲۲ نکات پیش کیے تو ان میں ہم نے یہ تسلیم کیا کہ ہم اقلیتوں کو ان کے پرسنل لاء پر عمل کا حق دیں گے۔ بالکل یہی حق ہم برطانیہ میں مسلمانوں کے لیے مانگ رہے ہیں۔ برطانیہ کے مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کے نکاح، طلاق، وراثت، حضانت، کفالت وغیرہ کے معاملات ان کے اپنے قوانین کے مطابق طے ہوں۔ اب یہاں مغرب کا دہرا معیار سامنے آتا ہے کہ ہمارے ہاں وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اقلیتوں کو ان کے پرسنل لاء کے مطابق معاملات طے کرنے کا حق دیا جائے، لیکن جب یہی حق ہم مسلمان ان سے برطانیہ میں مانگتے ہیں تو وہاں وہ ہمیں یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
برطانیہ کے برعکس امریکہ میں مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے، اور وہاں چند ایک شہروں میں اکا دکا شرعی عدالتیں بھی ہیں لیکن اجتماعی طور پر ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ یہودیوں کو بھی اپنے پرسنل لاء پر عمل درآمد کا حق حاصل ہے اور وہ کرتے ہیں۔ بہرحال امریکہ کے دستور میں یہ سہولت موجود ہے کہ آپ مالیاتی معاملات میں اور شخصی معاملات میں اپنے قوانین پر عمل درآمد کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ اپنی عدالتیں رجسٹر کروا سکتے ہیں، جس کی رو سے آپ کے فیصلے نافذ ہوں گے۔ جبکہ برطانیہ میں ابھی یہ حق ہمیں حاصل نہیں ہے۔
ہمارے جو اپنے شخصی قوانین اور اصول ضابطے ہیں نکاح، طلاق، وراثت، حضانت، کفالت، کفاء ت وغیرہ ، ان سب پر آج کی دنیا کو اعتراض ہے۔ ان اعتراضات کی وجہ یہ دفعہ نمبر ۱۶ ہے۔ آئیے اب یہ دفعہ دیکھتے ہیں۔
دفعہ نمبر ۱۶:
o ’’بالغ مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی ایسی پابندی کے جو نسل، قومیت یا مذہب کی بنا پر لگائی جائے، شادی بیاہ کرنے، اور گھر بسانے کا حق ہے۔ مردوں اور عورتوں کو نکاح، ازدواجی زندگی، اور نکاح کو فسخ کرنے کے معاملے میں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔‘‘
o ’’نکاح فریقین کی پوری اور آزاد رضامندی سے ہوگا۔ ‘‘
o ’’خاندان معاشرے کی فطری اور بنیادی اکائی ہے، اور وہ معاشرے اور ریاست دونوں کی طرف سے حفاظت کا حق دار ہے۔‘‘
تبصرہ:
پہلی بات تو یہ قانون یہ تسلیم کرتا ہے کہ نکاح صرف بالغ مرد اور عورت کا تصور کیا جائے گا۔ صغیر اور صغیرہ کے نکاح کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ملک کے قانون میں بھی نکاح کے لیے لڑکی کی کم از کم عمر ۱۶ سال اور لڑکے کی کم از کم عمر ۱۸ سال مقرر ہے۔ اگر آپ اس سے کم عمر کے لڑکے یا لڑکی کا نکاح پڑھائیں گے تو قانون اسے جرم تصور کرے گا۔ عائلی قوانین کی رو سے یہ جرم ہے۔ لوگ اس پر زیادہ عمل نہیں کرتے لیکن قانون میں بہرحال یہ ہے۔
مثلاً اگر کسی مولوی صاحب نے سولہ سال سے کم لڑکی یا اٹھارہ سال سے کم لڑکے کا نکاح پڑھا دیا اور کسی نے اس کی شکایت کردی تو لڑکا اور لڑکی کے علاوہ مولوی صاحب بھی گرفتار ہو جائیں گے۔ اس جرم کی تین مہینے قید سزا بتائی جاتی ہے۔ نکاح کے علاوہ جو کچھ بھی ہو اسے قانون درست تسلیم کرتا ہے لیکن نکاح اس سے کم عمر میں نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ اگر یہ شق ہم قبول کر لیں تو صغیرہ اور صغیر کے تمام قوانین سے ہم ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو ہماری فقہ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔
دوسری بات یہ شق کہتی ہے کہ ہر بالغ مرد اور عورت کو آپس میں شادی کا حق حاصل ہے۔ لیکن بغیر کسی ایسی پابندی کے جو نسل، قومیت یا مذہب کے نام پر لگائی جائے۔ کوئی امریکی آسٹریلیا کی کسی خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہے تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ کوئی چائینی کسی روسی سے شادی کرنا چاہے تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ کوئی کالا کسی گوری سے شادی کرنا چاہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کوئی مسلمان کسی ہندو یا کسی یہودی سے شادی کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ کوئی سکھ کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو کوئی پابندی نہیں۔ مذہب، نسل، قومیت ، ان تینوں میں سے کسی کی بنیاد پر بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
ان تینوں میں سے دو کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نسل یا قومیت کی بنیاد پر نکاح میں ہمارے ہاں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ کوئی روسی مسلمان بوسنیا کی کسی مسلمان خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ہم مذہب کا فرق مانتے ہیں۔ مسلمان عورت کسی غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی۔ مسلمان مرد کسی غیر کتابی غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتا۔ ’’لا تنکحوا المشرکات حتی یؤمن ولا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا‘‘۔ یہ نصِ قطعی اور نصِ صریح ہے۔ مسلمان عورت تو کسی غیر مسلم مرد سے کسی صورت شادی کر ہی نہیں سکتی۔ لیکن مسلمان مرد غیر مسلم کتابیہ سے شادی کر سکتا ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں مذہب کی بنیاد پر نکاح کی جو پابندی ہے، آج کی دنیا کے لیے یہ ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس پر بڑے تنازعات ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک محترمہ ہیں جو انسانی حقوق کی بہت باتیں کرتی ہیں، عاصمہ جہانگیر ان کا نام ہے۔ اس خاتون کا خاوند قادیانی ہے، خود کو وہ مسلمان کہتی ہے۔ ان کے والد ملک غلام جیلانی مرحوم ہمارے ملک کے معروف لیڈروں میں سے تھے، اور مسلمان تھے۔ یہ خاتون کہتی ہے کہ میں خود تو مسلمان ہوں لیکن میرا خاوند قادیانی ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میرا خاوند کافر ہے۔ میں نے کہا: ہاں تجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن ہوتے تھے اور ان کے بذلہ سنجی کے واقعات چلتے رہتے تھے۔ مولانا کا اپنا ایک مزاج تھا بات کرنے کا۔ ایک دفعہ اسمبلی میں ایک خاتون کھڑی ہو گئی، کہا: مولوی صاحب! مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے، عورت کو چار شادیوں کی اجازت کیوں نہیں ہے، یہ تو مساوات کے خلاف ہے۔
مولانا نے جواب دیا، بھئی آپ چاہیں تو دس شادیاں کریں، آپ کو تو ہم نہیں روک رہے۔ یہ قانون تو مسلمانوں کے لیے ہے۔ اس پر مولانا نے ایک پبلک جلسہ میں ایک لطیفہ سنایا۔
کہنے لگے: پرانے زمانے کی بات ہے، ایک نواب صاحب تھے، انہیں ایک مسئلہ درپیش ہوا تو انہوں نے علماء سے رجوع کیا کہ میں پانچویں شادی کرنا چاہتا ہوں، آپ کوئی جزئیہ تلاش کریں جس سے مجھے اس کی اجازت مل جائے۔ آپ نے ایک مسئلہ کی اجازت دینی ہو تو پھر جزئیہ بھی آپ کہیں سے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ایک مولوی صاحب نے نواب صاحب سے کہا کہ میں اس کا فتویٰ دیتا ہوں، تمہارے لیے پانچویں شادی کی اجازت ہے۔
اس پر شور مچ گیا کہ فلاں مولوی صاحب نواب صاحب کو پانچویں شادی کی اجازت دے رہے ہیں۔ اس پر باقی علماء نے ان مولوی صاحب کو مناظرے کا چیلنج کر دیا کہ پانچویں شادی بالکل جائز نہیں ہے۔ ان مولوی صاحب نے بھی چیلنج قبول کر لیا۔ نواب صاحب بہت خوش کہ یہ تو بہت تگڑا مولوی ہے۔ چنانچہ مناظرے کا دربار لگ گیا، باقی علماء اور ان کے ساتھی کتابوں کے ڈھیر کے ساتھ آگئے جبکہ یہ مولوی صاحب بالکل خالی ہاتھ وہاں پہنچ گئے۔ جب مولوی صاحب سے دلیل مانگی گئی تو انہوں نے اپنے حق میں دلیل دی کہ یہ قرآن میں ’’مثنٰی وثلاث وربٰع‘‘ تو مسلمانوں کے لیے ہے۔ آپ حضرات کے خیال میں یہ نواب صاحب پانچویں شادی کی اجازت مانگ کر بھی مسلمان رہیں گے؟ اب جب وہ مسلمان نہیں رہیں گے تو چاہے دس کریں۔ نواب صاحب پانی پانی ہوگئے کہ ان مولوی صاحب نے تو بیڑا ہی غرق کر دیا۔
بہرحال یہ تو لطیفے کی بات تھی۔ یہ سوال ہمارے ہاں اتنا نہیں ہوتا لیکن یورپ وغیرہ اور خاص طور پر انڈیا میں بہت اٹھایا جاتا ہے۔ یورپ وغیرہ میں تو ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان پاکستانی، انڈین، بنگلہ دیشی لڑکیاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بیاہ کر کے چلی جاتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کو قانون تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہمارے ہاں الحمد للہ ابھی تک عدالتیں ایسی شادیاں قبول نہیں کرتیں جن میں لڑکی مسلمان ہو اور لڑکا غیر مسلم۔ لیکن یورپ وغیرہ میں بہرحال ایسا نہیں ہے۔
انڈیا میں یہ بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ مسلمانوں پر اعتراض ہے کہ باقی سارے مذاہب کے لوگ آپس میں شادیاں کرتے ہیں تم لوگ الگ کیوں ہو۔ اس بنیاد پر مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ قومی برادری میں ایڈجسٹ نہیں ہو رہے، کہ نہ رشتہ دیتے ہو اور نہ لیتے ہو، تم اپنے آپ کو انڈین سوسائٹی سے الگ رکھے ہوئے ہو۔ وہاں یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جا چکا ہے اور اس پر آئین میں ترمیم تک بات ہو رہی ہے۔ لیکن الحمد للہ وہاں کے مسلمان ڈٹے ہوئے ہیں، بلکہ ہم لوگوں سے زیادہ ڈٹے ہوئے ہیں۔
چنانچہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی اس دفعہ نمبر ۱۶ کو ہم اگر عقیدے اور اصول کے طور پر قبول کر لیں تو ہماری قرآن و سنت کی نصِ صریح اور نصِ قطعی متاثر ہوتی ہیں۔
اب پہلی شق کی تیسری بات پر نظر ڈالتے ہیں کہ، مردوں اور عورتوں کو نکاح، ازدواجی زندگی، اور نکاح کو فسخ کرنے میں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
اگر ہم مسلمان دفعہ نمبر ۱۶ کی اس شق کو قبول کر لیں تو ولایت، خواہ اجباری ہو یا غیر اجباری، ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ولایت بھی ہے اور کفاءت بھی ہے۔
نکاح کرنے میں بالغ لڑکے اور بالغ لڑکی دونوں کے حقوق برابر ہونے میں ہمارے ہاں فقہاء میں اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک بالغہ پر ولی کی ولایت غیر اجباری اور صغیرہ پر اجباری ہے۔ جبکہ باقی فقہاء بالغہ پر بھی ولی کی ولایت کو اجباری کہتے ہیں۔ ان کے ہاں بالغہ لڑکی کا نکاح بھی ولی کرے گا۔
احناف کے ہاں بالغہ لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے۔ اسی پر ہماری عدالتیں فیصلے دے رہی ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل جو لڑکیاں گھر سے فرار ہو کر چلی جاتی ہیں اور اپنی مرضی کا نکاح کر لیتی ہیں اور پھر ان کے ماں باپ عدالت میں مقدمہ لے کر آتے ہیں کہ فلاں نے ہماری بیٹی کو ورغلایا اور بھگا کر لے گیا، اس پر پھر عدالت میں وہ لڑکا لڑکی بھی پیش ہوتے ہیں اور آکر کہتے ہیں کہ ہم نے تو شادی کی ہے، اب عدالت اس شادی کو قبول کرتی ہے اور ماں باپ سے کہتی ہے کہ آپ کی چھٹی! اب آپ اپنے گھر جائیے اور یہ لوگ اپنے گھر جائیں گے۔ عدالتیں یہ فیصلے احناف کے اس موقف کے حوالہ سے دیتی ہیں کہ بالغ لڑکی اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک واقعہ ہوا کہ ایک لڑکی گھر سے نکل گئی، ایک دو مہینے لڑکے کے ساتھ رہی مختلف ہوٹلوں وغیرہ میں، ماں باپ نے عدالت میں شکایت کی، اس پر وہ لڑکا لڑکی بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ کہ ہم نے تو شادی کر لی ہے۔ عدالت نے ماں باپ سے کہا کہ بھئی آپ اپنا کام کریں، یہ تو میاں بیوی ہیں۔ فیصلہ اسی حوالے سے تھا کہ چونکہ امام ابو حنیفہؒ یہ موقف رکھتے تھے، اس لیے اس کی رو سے لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کا حق حاصل تھا۔
اس پر میں نے جج کو ایک مضمون میں لکھا کہ کیا امام صاحبؒ کا صرف ایک ہی قول تمہیں ملا ہے؟ امام صاحبؒ نے باقی جو اتنا کچھ کہا ہوا ہے، وہ تمہاری نظر سے کیسے چھپا رہ گیا؟ میں نے کہا: مقدمے کے ریکارڈ کے مطابق لڑکی گھر سے از خود نکل کر گئی ہے، ایک دو مہینے اس لڑکے کے ساتھ ہوٹلوں میں رنگ رلیاں مناتی رہی ہے، اور اس کے بعد پھر نکاح ہوا ہے۔ اس معاملے میں بھی امام ابوحنیفہؒ کچھ کہتے ہیں یا نہیں؟ اس کا تم نے کیا نوٹس لیا ہے؟ تمہیں صرف آخر میں جا کر ہی فقہ حنفی یاد آئی ہے۔
یہ لوگ امام صاحبؒ کے قول کے حوالہ سے جو یہ فیصلہ دیتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ امام صاحبؒ ان کے لیے کوئی اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں، یہ صرف اس لیے ہے کہ اس سے ان کو گنجائش ملتی ہے۔
لاہور کا ایک مشہور کیس تھا، صائمہ کیس۔ ایک روپڑی خاندان ہے، اہلِ حدیث علماء کا خاندان ہے۔ ان کی ایک بالغ لڑکی کالج میں ایک لڑکے کے ساتھ نکل گئی، شادی کر لی، عدالت میں کیس آگیا۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ، سی این این، وائس آف جرمنی، اور دنیا کے اخبارات میں اس کا چرچا ہوا کہ مولویوں کی لڑکی بھاگ گئی اور نکاح کر لیا۔ ان لوگوں کو وہابی یا دیوبندی سے غرض نہیں ہے، ان کو تو مولوی سے غرض ہے۔ اب اہلِ حدیث کے ہاں شوافع کے قول کو مانا جاتا ہے کہ بالغ لڑکی کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کا حق نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے مقدمہ دائر کر دیا کہ نکاح نہیں ہوا۔ جبکہ بعض حنفی علماء کرام نے اس کے مقابلہ میں عدالت میں جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔
جب یہ مقدمہ منظر عام پر آیا تو میں نے بھی اس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اس مسئلے پر فیض الباری میں علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ نے خوب بحث کی ہے۔ شاہ صاحبؒ کے مطابق امام صاحبؒ کی طرف جو یہ موقف منسوب ہے، مطلقاً درست نہیں ہے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ امام صاحبؒ کا موقف یہ ہے کہ:
(۱) بالغہ کی شادی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔
(۲) اور بالغہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ولی اور کفو کا احترام کرے۔
ان دونوں باتوں کو شامل کر کے شاہ صاحبؒ نے حنفی موقف یہ قرار دیا کہ اجتماعِ رضائین شرط ہے۔ ولی بالغہ کی مرضی کے بغیر اس کی شادی نہیں کر سکتا اور بالغہ ولی کی مرضی کے بعد اپنی شادی نہیں کر سکتی۔ علامہ سید انور شاہ کاشمیریؒ کے مطابق احناف کا اصل موقف یہ ہے کہ اجتماعِ رضائین شرط ہے۔
چنانچہ میں نے یہ سارا موقف تحریری صورت میں مرتب کیا اور علماء کرام کی خدمت میں پیش کر دیا۔ الحمد للہ سب علماء دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، بلکہ اہلِ تشیع نے بھی میرا یہ موقف قبول کیا۔ سب کے مشترکہ دستخطوں سے ہائیکورٹ میں ہمارا یہ موقف داخل ہوا۔
احناف کے موقف کے حوالے سے ایک پرانا واقعہ بھی ذہن میں آگیا۔ بریلوی، دیوبندی تقسیم جب برصغیر میں شروع ہوئی ہے، تو سب سے پہلی بڑی شخصیات دونوں طرف سے جو تھیں، ان میں بریلویوں کی طرف سے مولانا احمد رضا خان بریلویؒ، اور دیوبندی طرف سے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ تھے۔
اس زمانہ میں ایک بالغہ لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کر لیا۔ اب احناف کے ہاں ولی کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔ اس اعتراض سے اگلا مرحلہ یہ آتا ہے کہ آیا نفسِ اعتراض سے نکاح فسخ ہو جاتا ہے یا قضا اور تحکیم سے ہوتا ہے۔ اس میں احناف کے ہاں دو آرا ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ نفسِ اعتراض سے نکاح فسخ ہو جاتا ہے، جبکہ دوسری رائے میں یا تحکیم سے ہوگا یا قضاء سے۔
اس پر ایک دلچسپ واقعہ اس وقت میں آپ کو سناتا ہوں۔ فتاویٰ رشیدیہ میں پڑھ لیں۔ یہ اُس دور کی بات ہے۔ مذکورہ لڑکی کی اس حرکت پر باپ نے اعتراض کر دیا کہ میری توہین ہوئی ہے، میری عزت مجروح ہوئی ہے، مجھے یہ نکاح قبول نہیں ہے۔ اب مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ باپ کے قبول نہ کرنے سے یہ نکاح باقی رہ گیا یا نہیں؟
فتویٰ کے لیے سوال گیا مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کے پاس، انہوں نے فتویٰ دے دیا کہ نکاح ختم ہوگیا ہے۔
اب یہی سوال گیا مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے پاس۔ مولانا گنگوہیؒ نے کہا کہ نہیں بھئی، اعتراض کا حق تو ہے لیکن نکاح ختم ہو گا یا تحکیم سے یا قضاء سے۔
اب یہ دونوں فتوے محاکمے کے لیے حضرت مولانا عزیز الرحمٰنؒ کے پاس گئے، جو کہ اس وقت دارالعلوم دیوبند میں مفتئ اعظم تھے۔ مفتی صاحبؒ نے ایک جملہ اس میں لکھا کہ مجیبِ اول کا جواب درست ہے۔ اب مجیب اول تو مولانا احمد رضا خان بریلویؒ تھے جو کہ مخالف تھے، جبکہ دوسری طرف مولانا رشید احمد گنگوہیؒ تو خود مولانا عزیز الرحمٰنؒ کے استاذ تھے۔ لیکن آپ ان کی فقہی دیانت دیکھیے کہ جو موقف صحیح سمجھا وہی بیان کیا، قطع نظر اس کے کہ یہ اپنے ہی استاذ کے مخالف کے حق میں جا رہا ہے۔
میں یہ بتا رہا تھا دفعہ نمبر ۱۶ کو عقیدے اور اصول کے طور پر تسلیم کرنے سے نکاح کے انعقاد میں ہمارے ہاں جو ولایت، کفاءت وغیرہ کے احکامات ہیں، سب ختم ہو جاتے ہیں۔
اگلا جملہ ہے دورانِ نکاح کا، یعنی ازدواجی زندگی کے دوران۔ اسلام کا واضح قانون ہے ’’الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللّٰہ بعضہم علیٰ بعض وبما انفقوا من اموالہم‘‘۔ اس کا اولین مصداق خاندان ہے۔ عمومی مصداق میں ملک کی حکومت بھی مراد لی جاتی ہے، لیکن اولین مصداق یہی ہے کہ مرد گھر کا حاکم ہے۔ اور ’’وللرجال علیہن درجۃ‘‘ گھر کے نظم کا حکمران مرد ہے۔
اس کی دو وجوہات بھی قرآن کریم نے بیان کی ہیں:
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اللہ نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔ اس سے اس دنیا کی فضیلت مراد ہے کہ اللہ نے مرد کی عقلی و جسمانی ساخت ایسی بنائی ہے کہ وہ عورت کی جسمانی و عقلی ساخت پر حاوی ہے۔ مرد میں فعالیت ہے اور عورت میں انفعالیت ہے۔
دوسری وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ عورت پر مال خرچ کرتا ہے۔ اب یہ مال خرچ کرنے والی بات مغربی ممالک میں تو نہیں ہے کیونکہ وہاں مرد بھی کماتا ہے اور عورت بھی۔ لیکن بات یہ ہے کہ اسلام ایک جامع خاندانی نظام پیش کرتا ہے جس میں مرد کے ذمہ گھر کے باہر کی ذمہ داریاں اور عورت کے ذمہ گھر کے اندر کی ذمہ داریاں ہیں۔ اس سے ایک متوازن معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
اب آپ مغرب کی طرف ہی دیکھ لیں، وہاں عورت گھر سے باہر نکل کر پیسے تو کما لیتی ہے لیکن مجموعی طور پر معاشرہ خاندانی اقدار اور ان کی افادیت سے تہی دامن ہے۔
چنانچہ اسلام میں گھر کا حکمران مرد ہے۔ عورت حاکم تو نہیں ہے لیکن گھر کی چار دیواری کے اندر ایک منتظم ضرور ہے۔ کیونکہ ارشاد نبویؐ ہے کہ ’’والمرأۃ راعیۃ فی بیت زوجہا و مسئولۃ عنہا‘‘۔ لیکن بالاتری مرد کو حاصل ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ دنیا کا کوئی نظام، چھوٹا ہو یا بڑا۔ فائنل اتھارٹی ایک ہاتھ میں ہوگی تو نظام چلتا ہے، دو ہاتھوں میں یکساں ہو تو نظام نہیں چلتا۔ ایک ملک کے دو صدر ہوں، یا ایک کمپنی میں یکساں اختیار رکھنے والے دو پریزیڈنٹس ہوں، تو نظام نہیں چل سکتا۔ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ کائنات کا نظام ہزارہا برس سے صحیح کیوں چل رہا ہے؟ اس لیے کہ ان کا کنٹرول ایک ہاتھ میں ہے۔
قرآن کہتا ہے ’’لو کان فیہما اٰلہۃ الا اللّٰہ لفسدتا‘‘ یعنی اگر اختیارات کسی اور کے پاس بھی ہوتے تو بیڑا غرق ہو جاتا۔ ’’اذاً لذہب کل اٖلٰہ بما خلق ولعلیٰ بعضہم علی بعض‘‘۔ ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کے ساتھ الگ کھڑا ہوتا۔ ہر وقت جھگڑے ہی ہوتے رہتے۔ توحید کا فلسفہ یہی ہے کہ ایک ہی اللہ ہے جو ہر چیز کا حاکم اور مالک ہے۔
کسی بھی ادارے کا کسی بھی کمپنی کا نظام اس وقت صحیح چلتا ہے جب اس کی فائنل اتھارٹی ایک ہاتھ میں ہوگی۔ گھر بھی ایک نظام ہے، اس کی فائنل اتھارٹی بھی ایک ہاتھ میں ہوگی تو نظام چلے گا، دو ہاتھوں میں ہوگی تو بیڑا غرق ہو جائے گا، جیسے کہ مغرب کے خاندانی نظام کا ہو چکا ہے۔ آج مغرب سر پکڑے بیٹھا ہے کہ فیملی سسٹم کدھر گیا؟ میں آپ کو مغرب کے خاندانی نظام کا نقشہ بتاتا ہوں۔
مغرب کی فیملی صورتحال یہ ہے کہ چچا، پھوپھی، خالہ کے رشتے تو گم ہی ہوگئے۔ والدین کے رشتے بڑی مشکل سے ملتے ہیں، باپ بھی اولڈ ہوم میں، ماں بھی اولڈہوم میں۔ میاں بیوی کی آپس کی لڑائیوں کے نتیجے میں وہاں شادی کے قوانین ایسے سخت ہیں کہ لوگ شادیاں کرنا گوارا ہی نہیں کرتے، بغیر شادی کے ہی اکٹھے رہے رہتے ہیں۔ کسی جوڑے کی سال دو سال ساتھ رہنے کے بعد انڈرسٹینڈنگ ہو گئی تو شادی ہو جائے گی ورنہ الگ ہو جائیں گے کسی نئے ساتھی کی تلاش میں۔ کسی جوڑے کی شادی دو چار سال چل جائے تو اسے بڑی کامیاب شادی تسلیم کیا جاتا ہے۔
بچے پیدا کرنا تو ان کی ترجیحات میں کوئی چوتھی پانچویں نمبر کی ترجیح ہوتا ہے۔ بچوں پر کیریئر کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اور اگر کسی جوڑے کو شوق آہی گیا بچے کا تو ماں کے پاس تو وقت نہیں ہے بچے کے لیے، اس نے تو اپنے کام پر جانا ہے، اس صورت میں ماں کام پر جاتے ہوئے اپنے بچے کو بے بی سٹنگ کے لیے کسی ڈے کیئر سنٹر کے حوالے کر جاتی ہے۔ ایسے سنٹرز کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک معقول معاوضے کے عوض ماؤں کی غیر موجودگی میں ان کے بچوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں یہ کام کرنے والی بھی خواتین ہوتی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ اب ماں کسی اور کے لیے کام کر رہی ہے اور اس کے بچے کی دیکھ بھال کے لیے کوئی عورت اس کے لیے کام کر رہی ہے۔ میاں اپنے کام پر، بیوی اپنے کام پر، بچوں کے لیے تو وقت ہی نہیں ہوتا۔
جب دونوں کماتے الگ الگ ہیں تو پھر خرچ بھی اپنا اپنا کرتے ہیں۔ گھر کے خرچے میں دونوں شریک ہوتے ہیں۔ آخر میں تصویر یہی سامنے آتی ہے کہ دونوں نے اپنی جسمانی ضروریات کے لیے ایک سمجھوتہ کیا ہوا ہے اور بس۔ اور اکثریت تو اس بات کو بھی گوارا نہیں کرتی کہ جسمانی ضرورت کے لیے کسی ایک ساتھی کو مستقل اپنے ساتھ چمٹائے رکھو۔
یہ میں مجموعی صورتحال بتارہا ہوں۔ بہت سے خاندان ابھی بھی ہیں جو پرانی روایات پر چلتے ہوئے باقاعدہ رشتہ داریاں قائم کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں بچے کی پہچان کے لیے باپ کا نام لکھتے ہیں۔ مغرب میں مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ اکثر یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ فلاں شخص کا باپ کون ہے۔ جب باپ کا پتہ نہیں ہو گا تو چچا، پھوپھی اور کزن وغیرہ کہاں سے آئیں گے۔ اس لیے مغرب میں بچے کی پہچان ماں کے نام سے کی جاتی ہے۔ اسے سنگل پیرنٹ کا قانون کہتے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی ایک این جی او نے مطالبہ کیا کہ یہ قانون ہمارے ہاں بھی نافذ کیا جائے۔ میں نے کہا بی بی، ہمارے ہاں ہزار میں سے نو سو ننانوے لوگوں کو اپنے باپوں کا پتا ہوتا ہے۔ ہمیں کوئی ایسی دقت پیش نہیں آتی جس کے لیے یہ قانون نافذ کیا جائے۔
روس کا سابق صدر گوربا چوف مغرب کے بڑے دانشوروں میں سے ہے۔ روس کی بھی اسی نے کمیونزم سے جان چھڑا دی۔ اس نے ایک کتاب لکھی ہے پرسٹرائیکا۔ اس کتاب میں اس نے مغرب کے فیملی سسٹم پر بحث کی ہے۔
گوربا چوف کہتا ہے مغرب میں بھی خاندانی نظام بہت مضبوط تھا، لیکن پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں یہ ہوا کہ لاکھوں کروڑوں افراد مارے گئے جس سے افرادی قوت کا خلا پیدا ہوگیا۔ صورتحال یہ ہو گئی کہ کارخانوں میں مزدور نہیں، دفتر میں کلرک نہیں، تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور عملہ نہیں، افرادی قوت ختم ہو گئی جس سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا۔
گورباچوف کہتا ہے کہ ہم نے عورت کو ورغلایا کہ ہم تمہیں مردوں کے برابر کے حقوق دیتے ہیں، ہم نے عورت کو افرادی قوت کا خلا پر کرنے کے لیے گھر سے نکالا، تاکہ دفتر خالی نہ رہیں، فیکٹریاں اور سکول خالی نہ رہیں۔ لیکن اس سے ہوا یہ کہ ہمارے دفتر، سکول، کارخانے توبچ گئے، مگر گھر کا سارا نظام برباد ہوگیا۔ اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ عورت واپس اپنے گھر جائے اور گھر کے انتظامات سنبھالے، لیکن اب عورت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔
گوربا چوف کہتا ہے کہ ہم تو راستے ڈھونڈ رہے ہیں کہ کسی طرح عورت کو اس بات پر آمادہ کر لیں کہ وہ گھر میں رہے کہ گھر میں رہنا اس کے لیے بہتر ہے۔
برطانیہ کے ایک قومی سطح کے سیاسی لیڈر کا چند مہینے پہلے ایک طویل انٹرویو اخبارات میں شائع ہوا، اس میں اس نے کہا کہ میں اپنے ایک مسلمان دوست کے ہاں ۲۴ گھنٹے کے لیے جا کر رہا ہوں، یہ دیکھنے کے لیے ان کا فیملی سسٹم کیا ہے۔ کہتا ہے کہ مجھے رشک آتا ہے کہ آپس میں ان کا اتنا جوڑ ہے۔ اس نے کہا کہ میرے وہاں رہنے کے دوران ان کے اتنے رشتہ دار ملنے کے لیے آئے کہ میرے ہاں کبھی سال میں اتنے نہیں آئے۔
اور یہ رشک کا لفظ صرف برطانوی لیڈر ہی نہیں بلکہ امریکہ کی سابق خاتون اول ہیلری کلنٹن نے بھی بولا تھا۔ جن دنوں یہ خاتون اول تھی، اس نے اسلام آباد کا دورہ کیا جس میں اس کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ مجھے مشرق کا خاندانی نظام دیکھ کر رشک آتا ہے۔ اس نے کہا کہ یہاں ایک نوجوان لڑکی اپنے ماموں، چاچا، پھوپھی، خالہ کے حصار میں ہے۔ یہاں حصار کا لفظ اس نے حفاظت کے معنی میں استعمال کیا۔
ہیلری کلنٹن نے اپنے دورے کے دوران اسلام آباد کے ایک وومن کالج کا دورہ کیا۔ اس میں اس نے وہاں کی ایک لڑکی سے پوچھا کہ اپنی تعلیم کے دوران عام طور پر تمہیں کیا مسئلہ درپیش ہوتا ہے؟ لڑکی نے کہا کہ ہم یہاں تعلیم حاصل کرتی ہیں، لیکن ہمیں اپنی ریسرچ کے لیے لائبریریز، لیبارٹریز اور متعلقہ وسائل کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہماری تعلیم کمزور رہ جاتی ہے۔
پھر اس لڑکی نے امریکی صدر کی بیوی سے پوچھ لیا کہ آپ کے ہاں کالج کی لڑکی کو کیا مسئلہ درپیش ہوتا ہے؟ ہیلری نے کہا کہ ہمارے ہاں کالج تک پہنچتے پہنچتے لڑکی کی گود میں بچہ ہوتا ہے اور اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ تو ہیلری نے کہا، لیکن اگر بچہ نہ بھی ہو تو بھی وہ اس وقت تک ان گنت لوگوں کی ہوس کا نشانہ بن چکی ہوتی ہے، جس میں بے احتیاطی کے نتیجے میں کئی لڑکیوں کو ابارشن کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
میں نے اس پر مضمون لکھا کہ بی بی! اسلام کا نظام دیکھو، قرآن کہتا ہے کہ ’’ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسافحین ولا متخذی اخدان‘‘ کہ اگر کسی عورت کو ہاتھ لگانا ہے تو پہلے اس کی مالی ذمہ داری قبول کرو، مہر بھی اور نان نفقہ بھی، اور پھر اس کا مقصد گھر بسانا ہو، صرف شہوت مقصد نہ ہو، اور گرل فرینڈ نہیں بلکہ خاندان بنانا مقصود ہو۔
اسی طرح لڑکیوں کو بھی کہا ’’ولا متخذات اخدان‘‘۔ یعنی اسلام کہتا ہے کہ عورت کو اپنی بیوی کے طور پر قبول کرو، اس کے اور بچوں کی مالی ذمہ داری قبول کرو تو پھر جنسی خواہش کی طرف آؤ۔ پھر یہ رشتہ ریکارڈ پر ہو، خفیہ نہ ہو۔
چنانچہ میں نے اپنے ایک مضمون میں ہیلری سے مخاطب ہو کر کہا کہ اسلام کا سسٹم دیکھو، کتنا محفوظ اور نیچرل سسٹم ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ تم جو کچھ عورت کے ساتھ کرنا چاہتے ہو، اس کے تمام تر ممکنہ نتائج کی ذمہ داری قبول کرتے ہو تو اس کے قریب جاؤ، ورنہ نہیں۔
گوربا چوف نے کہا کہ ہم نے عورت کو افرادی خلا پُر کرنے کے لیے ورغلایا، اور نعرہ یہ لگایا کہ ہم عورت کو مردوں کے مساوی حقوق دے رہے ہیں۔
اس پر میں نے برمنگھم میں ایک جگہ اپنی تقریر میں کہا کہ دیکھو! عورت کے ذمہ گھر کے فرائض ہیں، خاوند کے ذمہ باہر کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ قدرت کی تقسیمِ کار ہے کہ زندگی کے کچھ کاموں کی ذمہ داری عورت کے سپرد ہے اور کچھ مردوں کے سپرد۔ مثلاً جو کام عورت کر سکتی ہے وہ کام مرد تو نہیں کر سکتا۔ بچہ جننا، اسے دودھ پلانا، اس کی پرورش کرنا عورت کا کام ہے، مرد یہ نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا کہ یہ عجیب لوگ ہیں، انہوں نے عورت کے ساتھ یہ ظلم کیا ہے کہ اسے کمانے میں تو اپنے ساتھ شریک کر لیا لیکن اس کی کسی ڈیوٹی میں خود شریک نہیں ہوئے، کہ چلو ایک بچہ تم جنو، ایک میں جنتا ہوں۔ یا ایک کو تم دودھ پلاؤ دوسرے کو میں پلاتا ہوں، یا ایک بچے کو نہلانے دھلانے، اس کی جسمانی ضروریات کا تم خیال رکھو، اور دوسرے کا میں رکھتا ہوں۔
اب عورت بچہ بھی جنے گی، اسے دودھ بھی پلائے گی، اس کی پرورش بھی کرے گی، اور کمائے گی بھی۔ مرد کو اپنی ذمہ داری میں شریک کیے بغیر عورت اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مرد کی ذمہ داریوں میں شریک ہوئی ہے۔ یہ حقوق میں اشتراک ہے یا فرائض میں اشتراک ہے؟ عورت کے حقوق میں اضافہ ہوا ہے یا فرائض میں؟ ذرا کھلے ذہن سے اس پر غور کریں۔ اور اس سارے معاملے کو عنوان کیا ملا ہے؟ عورت کے مردوں کے ساتھ مساوی حقوق۔ اب آپ ہی بتائیے عورت ناقص العقل ہے یا نہیں؟ اضافہ تو ہوا ڈیوٹی میں، اور خوش اس بات پر ہے کہ میرے حقوق برابر ہوگئے۔ یہ ڈے کیئر سنٹرز بچوں کے سنبھالنے کا کام کرتے ہیں، جہاں مائیں اپنے بچوں کو صبح ڈال جاتی ہیں اور شام کو لے جاتی ہیں۔ اب اس سارے سسٹم سے کام تو چل جاتے ہیں لیکن خاندان کا ایک نظام جو قدرت نے قائم کیا، اس کا سارا ستیاناس ہوگیا جس کے سوسائٹی پر اجتماعی نقصانات کو مغرب کے دانشور نہ صرف شدت سے محسوس کر رہے ہیں بلکہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اپنی خاندانی اقدار کی طرف واپس جانے کی ضرورت ہے۔
اس دفعہ ۱۶ کے تحت مرد اور عورت کے برابر ہونے کا مطلب یہ ہے۔ اس سلسلہ میں ایک اور بات عرض کرتا ہوں اور پھر ہم اس دفعہ کی تیسری شق پر بات کریں گے۔
ترکی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ ترکی نے یورپ میں شامل ہونے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ خلافت اور دین چھوڑنے کے علاوہ بہت سی دنیوی قربانیاں بھی دی ہیں۔ صرف اس لیے کہ ترکی کو یورپین شمار کیا جائے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت ختم کی، شرعی عدالتیں ختم کیں، مدارس ختم کیے، مسلمانوں کی قیادت سے دست برداری اختیار کی، اس لیے کہ ہمیں یورپین یونین کا ممبر بنایا جائے۔ بہت منتیں کیں، ناک رگڑے، لیکن یورپی یونین اسے قبول نہیں کر رہی۔ یورپین یونین شرطیں لگاتی رہتی ہے، کبھی یہ شرط کبھی وہ شرط۔ ابھی چند سال پہلے یورپین یونین نے ایک نئی شرط لگائی کہ تمہارے ہاں قوانین میں جب کنبے کا ذکر ہوتا ہے تو کنبے کا سربراہ مرد کو لکھا جاتا ہے۔ یہ مرد اور عورت کی مساوات کے خلاف ہے، چنانچہ یہ انسانی حقوق کے منافی ہے۔ چنانچہ ترکی کی اسمبلی نے باقاعدہ قرارداد کر کے یہ قانون ختم کیا کہ مرد کنبے کا سربراہ ہے۔ اس کے باوجود یورپی یونین کی رکنیت اسے نہیں ملی۔
امریکی سپریم کورٹ میں کچھ عرصہ پہلے ایک رٹ دائر ہوئی تھی کہ بین الاقوامی قانون اور امریکی دستور یہ کہتا ہے کہ مرد اور عورت میں مساوات ہے، ان میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن جب بھی خدا کا ذکر ہوتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ’’خدا کہتا ہے‘‘، یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ ’’خدا کہتی ہے‘‘۔ اس پر سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس اخبارات کی زینت بنے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ دونوں کہہ سکتے ہیں، کبھی یہ کہ خدا کرتا ہے، کبھی یہ کہ خدا کرتی ہے۔
دفعہ نمبر ۱۶ کی تیسری شق کے مطابق فسخِ نکاح میں دونوں کا حق برابر ہے۔ جس طرح مرد کو طلاق دینے کا حق ہے اسی طرح عورت کو بھی برابر کا طلاق دینے کا حق ہے۔ جبکہ اسلام میں مرد کو براہ راست طلاق کا جبکہ عورت کو مطالبۂ طلاق کا حق حاصل ہے جسے خلع کہا جاتا ہے۔ اور اگر خاوند عورت کے مطالبہ پر طلاق نہ دے تو عورت کو تحکیم یا قضاء کی طرف رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ’’فابعثوا حکماً من اہلہ وحکماً من اہلہا‘‘۔ اب اگر عورت حق پر ہے، خاوند زیادتی پر ہے تو تحکیم یا قضاء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خاوند کی مرضی کے بغیر عورت کے لیے طلاق صادر کر دے۔
چنانچہ اسلام میں عملی طور پر مرد اور عورت دونوں کو طلاق کا حق حاصل ہے لیکن ترجیحات کا فرق ہے۔ مرد کو بلاواسطہ، جبکہ عورت کو بالواسطہ طلاق کا حق حاصل ہے۔ حکمت اس میں یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک کا فیصلہ میں برتر ہونا نظم کے لیے ضروری ہے۔ دونوں کے اس اتھارٹی میں برابر ہونے سے خاندان مستحکم نہیں رہے گا۔
چنانچہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ عورت کو بھی مساوی طلاق کا حق دو۔ ہمارے حکمران دو طرفہ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ ہماری طرف سے دباؤ ہوتا ہے تو ہمیں خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور مغرب کی طرف سے دباؤ ہوتا ہے تو ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایوب خان مرحوم کے زمانے میں عائلی قوانین نافذ ہوئے۔ اسی وقت نکاح کے فارم بھی بنے۔ نکاح کے فارم میں ایک تفویضِ طلاق کا خانہ بنایا گیا۔ فارم کا سوال کچھ اس طرح ہے ’’کیا خاوند نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے؟‘‘
اسلامی طور پر خاوند اگر بیوی کو طلاق کا حق تفویض کر دے تو پھر بیوی کو بھی برابر کا طلاق کا حق مل جائے گا۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ نکاح کے وقت نکاح خواں میاں یا بیوی، کسی سے نہیں پوچھتا۔ ایک دفعہ میں نے ایک نکاح خواں کو دیکھا نکاح کا فارم پُر کرتے ہوئے۔ وہ جب اس سوال پر پہنچا تو اس نے خود ہی اس پر کراس لگا دیا۔ میں نے اس سے پوچھا بھائی صاحب یہ طلاق کا حق آپ خود ہی کیسے تفویض کر رہے ہیں، خاوند سے تو پہلے پوچھیے۔
ایک لطیفے کی بات ذہن میں آگئی۔ ہمارے پاکستان کی سیاست کی ایک معروف خاتون ہیں، وہ ایک صاحب کے نکاح میں تھیں۔ میکے گئیں اور چند مہینوں کے بعد ایک اور نکاح کر لیا۔ خاوند نے اعتراض کر دیا کہ یہ تو میری بیوی ہے، اس نے نیا نکاح کیسے کر لیا؟ اس نے کہا میں تو تمہاری بیوی نہیں رہی، اس لیے کہ تم نے مجھے نکاح کے فارم میں طلاق کا حق تفویض کیا تھا۔ میں نے وہی حق استعمال کیا ہے جو کہ شرعی بھی ہے اور قانونی بھی۔ میں نے خود ہی طلاق دی ہے، عدت گزاری ہے اور پھر دوسرا نکاح کر لیا ہے۔
اب وہ صاحب کہنے لگے کہ جی مجھے تو اس تفویضِ طلاق کے حق کا کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔ بات عدالت میں چلی گئی۔ عدالت نے فارم منگوائے۔ چنانچہ فیصلہ اس پر قرار پایا کہ اگر فارم میں تفویضِ طلاق کے سوال کے سامنے خانہ میں ’’ہاں‘‘ ہے تو پھر طلاق ہے، اگر نہیں تو پھر طلاق قرار نہیں پائی۔ فارم پر اس سوال کا خانہ میں ’’ہاں‘‘ تھا۔ جبکہ وہ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے تو نکاح کے وقت کسی نے اس کے متعلق نہیں پوچھا۔ عملی طور پر ہوا یوں کہ وہ حق نکاح خواں نے خود ہی ان محترمہ کو تفویض کر دیا تھا۔
اس بات کو مرد اور عورت کی مساوات کے خلاف کہا جا رہا ہے کہ آپ لوگ عورت کو طلاق کا وہ حق نہیں دیتے جو خاوند کو ہے۔ اقوام متحدہ کے منشور نے جن باتوں کو عقیدے میں شمار کیا ہے ان میں ایک یہ ہے کہ مرد اور عورت میں مساوات ہو۔ اس کے خلاف کوئی بھی بات ہو تو اسے جنس کی بنیاد پر امتیاز شمار کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر ہماری حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ جنس کی بنیاد پر امتیاز کے تمام قوانین ختم کیے جائیں۔ بظاہر یہ نعرہ بہت خوشنما ہے کہ امتیازی قوانین ختم کر دیے جائیں۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ امتیازی قوانین سے ان کی مراد کیا ہوتی ہے؟ ایک کہتے ہیں جنس کی بنیاد پر امتیاز، اور ایک کہتے ہیں مذہب کی بنیاد پر امتیاز۔
(۱) جنس کی بنیاد پر امتیاز کا مطلب یہ ہے کہ کسی معاملہ میں مرد کے لیے قانون اور ہو اور عورت کے لیے کوئی اور ہو۔ لہٰذا یہ قانون کہ مرد کو براہ راست طلاق کا ہے جبکہ عورت کو نہیں، امتیازی قانون قرار پاتا ہے۔
اسلام میں مرد کو حکمرانی کا حق حاصل ہے جبکہ عورت کو نہیں۔
نماز کی امامت کے لیے مرد کو امام بننے کی اجازت ہے جبکہ عورت کو نہیں۔
ہمارے ہاں ایک مرد کی گواہی کے برابر دو عورتوں کی گواہی تسلیم کی جاتی ہے ’’فان لم یکونا رجلین فرجل ومرأتان‘‘۔
ہمارے ہاں مرد پابند نہیں ہے کہ وہ گھر سے باہر جائے تو پوچھ کر جائے۔ عورت کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ گھر سے باہر جائے تو پوچھ کر جائے۔ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ولی (خاوند، والد، بھائی وغیرہ) سے اجازت لے کر گھر سے جائے۔ مرد اس بات کا پابند نہیں ہے۔
ہمارے ہاں وراثت میں مرد کا حصہ مختلف ہے اور عورت کا مختلف۔
یہ ساری باتیں جنس کی بنیاد پر امتیاز قرار پاتی ہیں۔ اس لیے جب یہ کہا جاتا ہے کہ جنس کی بنیاد پر کوئی قانون روا نہیں رکھیں گے، تو اس سے مراد قرآن و سنت کے وہ تمام احکام لیے جاتے ہیں جن میں کسی معاملے میں مرد کے لیے مختلف حکم ہو اور عورت کے لیے مختلف۔ اقوام متحدہ کا منشور کہتا ہے کہ ہم ایسے تمام قوانین ختم کر کے مرد اور عورت کے درمیان مکمل مساوات قائم کریں گے۔
(۲) دوسری بات یہ کہتے ہیں کہ ملک میں مذہب کی بنیاد پر کوئی قانون نہیں ہونا چاہیے۔ مثلاً ہمارے قانون میں ہے کہ ملک کا نہ تو صدر کوئی غیر مسلم ہو سکتا ہے اور نہ وزیراعظم۔ اسے مذہب کی بنیاد پر امتیاز کہا جاتا ہے۔ مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سوسائٹی میں اپنے مذہب کی تبلیغ و پرچار کرے۔ غیر مسلم کو یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ مسلم سوسائٹی میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرے۔ چنانچہ جب نعرہ لگتا ہے کہ مذہبی امتیاز کے قوانین ختم کر دیے جائیں، تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جہاں جہاں بھی آپ مذہب کے حوالے سے قانون اور ضابطے میں فرق کرتے ہیں ان سب قوانین کو ختم کر دیا جائے۔
میں عرض کر رہا تھا کہ ہمارے حکمرانوں نے عورت کو طلاق کا حق دینے کے حوالے سے ایک حیلہ اختیار کیا کہ نکاح کے فارم میں ایک شق رکھ دی کہ آیا مرد عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔ اور مغرب کو یہ فارم دکھا دیا گیا کہ ہم نے عورت کو طلاق کا حق دے دیا ہے۔
ہمارے ہاں جو قانونی سسٹم رائج ہے طلاق کا، وہ یہ ہے کہ خاوند جب طلاق لکھ دیتا ہے تو اس کے لکھنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ وہ طلاق نامہ عورت کو مل بھی جائے، پھر بھی واقع نہیں ہوتی۔ مروجہ قانون کے مطابق خاوند طلاق لکھ کر ثالثی کونسل کو بھیجے گا۔ ثالثی کونسل یہ ناظم وغیرہ ہوتے ہیں۔
ثالثی کونسل کو قانونی طور پر ہدایت ہے کہ جب بھی آپ کو کوئی طلاق کا نوٹس ملے تو آپ فریقین کو بلا کر صلح کروائیں، قطع نظر اس کے کہ طلاق کی نوعیت کیا ہے۔ رجعی ہے، بائن ہے، مغلظہ ہے، فسخ ہے، نکاح ہے؟ ثالثی کونسل کو اس سے غرض نہیں ہے۔ قانون کے مطابق اگر ثالثی کونسل خاوند اور بیوی میں صلح کرانے میں کامیاب ہوگئے، تو قانون کے مطابق طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اگرچہ طلاق رجعی ہو، بائن ہو، یا کچھ بھی ہو۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ثالثی کونسل صلح کرانے میں ناکام ہو گئی اور اس نے طلاق کی توثیق کر دی، تو اب قانوناً ثالثی کونسل کے دستخطوں کے بعد طلاق واقع ہو گئی۔ اب طلاق بھی یہیں سے شمار کی جائے گی اور عدت بھی، چاہے اصل طلاق کو چھ مہینے ہی کیوں نہ گزر گئے ہوں۔ یعنی ہمارے قانون کے مطابق طلاق کا وقوع ثالثی کونسل کے طلاق نامہ پر دستخط سے ہوتا ہے۔
اسی ضمن میں ایک لطیفے کی بات اور ذہن میں آگئی ہے۔ ایک دفعہ میں گوجرانوالہ کے ایک حلقہ کے ناظم صاحب سے ملنے گیا، ہمارے اچھے دوست ہیں۔ وہ اتفاق سے اس وقت ثالثی کونسل کے طور پر طلاق کا ایک مقدمہ سن رہے تھے۔ اس نے فریقین کو بلا رکھا تھا اور صلح کی کوشش کر رہا تھا۔ میں بھی بیٹھ گیا کارروائی دیکھنے کے لیے۔ اس نے کوئی آدھ پون گھنٹہ کوشش کی لیکن صلح کرانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ وہ خاتون صلح کے لیے آمادہ نہیں ہو رہی تھی۔ اب ناظم صاحب خاتون سے کچھ اس طرح سے مخاطب ہوئے: ’’صلح نہیں کرو گی تو پھر میں طلاق دے دوں؟‘‘
میرے تو اس جملے پر کان کھڑے ہوگئے کہ یہ ناظم صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا: ’’جناب! طلاق تساں دینی اے؟‘‘ کہنے لگے: ’’ایتھے تے میں ای دینی اے‘‘۔ یعنی میں نے ان سے پوچھا کہ کیا طلاق آپ نے دینی ہے یا خاوند نے؟ وہ بھی مذاق سے کہنے لگے کہ مولانا صاحب یہاں تو میں نے ہی دینی ہے۔ میں نے وہ طلاق کے کاغذات اٹھا کر دیکھے تو ہمارے شرعی لحاظ سے اس طلاق کو واقع ہوئے اڑھائی مہینے گزر چکے تھے۔ اب اتنے عرصے کے بعد ناظم صاحب عورت سے پوچھ رہے تھے کہ اگر تم نے صلح نہیں کرنی تو میں طلاق دے دوں۔
چنانچہ پہلا حیلہ اس سلسلے میں ہمارے حکمرانوں نے یہ اختیار کیا کہ تفویضِ طلاق کا خانہ نکاح نامے کے فارم میں شامل کر کے مغرب کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ ہم نے اس پر عمل کر دیا ہے۔ آخر مغرب کو بھی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ یہ بات تو عملاً دھوکہ ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ نہیں بھئی، عورت کو قانوناً طلاق کا وہی حق دو جو مرد کو حاصل ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اُدھر مغرب کو بھی نہ نہیں کہہ سکتے اور اِدھر ہمیں بھی نہ نہیں کہہ سکتے۔ یہ سینڈوِچ بنے ہوئے ہیں۔
ہمارے اس حوالے سے دہرے تہرے طرز عمل ہیں:
پہلا ترکی کا طرز عمل کہ دین، شریعت سب کچھ چھوڑا کہ، جو تم کہتے ہو مانتے ہیں، لیکن ہمیں یورپین یونین میں شامل کرو۔ لیکن سب کچھ کر کے بھی انہیں صلہ نہیں ملا۔
دوسرا طالبان کا طرز عمل تھا کہ بالکل نہیں مانتے بھئی! جو کرنا ہے کر لو۔ اس کی انہوں نے سزا بھی بھگتی لیکن مانے نہیں۔
بطور طرز عمل تو یہ دونوں قابل سمجھ ہیں، قطع نظر اس سے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ لیکن تیسرا طرز عمل وہ ہے جو باقی تقریباً تمام مسلمان ممالک کا ہے۔ یہ لوگ درمیان میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ جب مغرب کا دباؤ ہوتا ہے تو ان کے مطالبات کو نافذ کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں، جب اپنے ملکوں کی عوام کا دباؤ ہوتا ہے تو ان کو خوش رکھنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ ’’لا الا ھٰؤلاء ولا الا ھٰؤلاء‘‘۔
اب اس سلسلے میں ہمارے ہاں یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے کہ ہمارے ملک کے ہائی کورٹس مسلسل یہ فیصلے کرتے جا رہے ہیں کہ خلع جو ہے یہ عورت کا مطلق حقِ طلاق ہے۔ اور یہ کہ اس میں صرف اصطلاح کا فرق ہے ورنہ بات ایک ہی ہے۔ خاوند کے حق کو کہتے ہیں طلاق، جبکہ عورت کے حق کو کہتے ہیں خلع۔ لاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ خلع عورت کا مطلقاً حقِ طلاق ہے۔ اسی طرح کا ایک فیصلہ سندھ ہائیکورٹ کا بھی آچکا ہے۔
آج سے چند سال قبل ایک وومن کمیشن بنا جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے جسٹس زاہد اسلم صاحب تھے، جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اس کمیشن نے سفارشات پیش کیں کہ خلع کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔ اس کمیشن نے جو طریقہ کار تجویز کیا جو کہ عنقریب نافذ ہونے والا ہے، یہ ہے کہ جس طرح مرد طلاق نامہ لکھ کر ثالثی کونسل بھیجتا ہے، جس کا نام اب تبدیل کر کے فیملی کورٹ رکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح عورت بھی طلاق کا نوٹس فیملی کورٹ کو بھیجے گی۔ ایک نقل خاوند کو اور ایک نقل فیملی کورٹ کو۔ اب اگر فیملی کورٹ نے اس نوٹس کو سماعت کے لیے منظور کر لیا تو اس کے ساتھ ہی وہ دونوں میاں بیوی نہیں رہے۔ ان کی ازدواجی حیثیت معطل ہو گئی۔
دفعہ نمبر ۱۸:
o ’’ہر انسان کو آزادئ فکر، آزادئ ضمیر، آزادئ مذہب کا پورا حق ہے۔ اس حق میں مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے، پبلک یا نجی طور پر تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل کر عقیدے کی تبلیغ، عمل، عبادت اور مذہبی رسمیں پوری کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔‘‘
o ’’ہر شخص کو اپنے رائے رکھنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں یہ امر بھی شامل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے قائم کرے ، جس ذریعے سے چاہے بغیر ملکی سرحدوں کا خیال کیے، علم اور خیالات کی تلاش کرے، انہیں حاصل کرے اور ان کی تبلیغ کرے۔‘‘
تبصرہ:
یہ آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا حق کہلاتا ہے، اس پر بھی ہم سے ان لوگوں کا بہت لمبا تنازعہ ہے۔ مثلاً، کیا ہم اپنے ملک میں قرآن کریم کے کسی حکم کے خلاف کسی شخص کو رائے رکھنے کا حق دیتے ہیں؟ یا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے کوئی منفی رائے دینے کا حق دیتے ہیں؟ خدا اور مذہب کے خلاف کوئی بات کہنے کا حق دیتے ہیں؟
ان لوگوں کے مطابق ہم آزادئ رائے کے حق کو مجروح کر رہے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ بھئی اگر کسی شخص کی خدا کے خلاف ایک رائے قائم ہو گئی ہے تو آپ کون ہوتے ہیں اسے روکنے والے؟ قرآن و رسول کی کسی بات پر ایک شخص مطمئن نہیں، اس نے اس کے خلاف ایک رائے قائم کر لی ہے، تو اس کو اس کا حق حاصل ہے۔ یعنی آزادئ رائے کا معنی یہ ہے کہ ایک شخص کوئی بھی رائے، کوئی بھی فکر، کسی بھی قسم کے خیالات قائم کرے، اور پھر ان کی تبلیغ کرے، یہ اس شخص کا حق ہے۔
آج کل آزادئ رائے کا حق استعمال کیسے ہو رہا ہے؟
ایک معروف شخص ہے سلمان رُشدی، پہلے انڈین تھا اب برطانوی ہے۔ Satanic Verses (شیطانی آیات) ناول کے انداز کی ایک کتاب ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ازواجِ مطہراتؓ اور اکابر صحابہ کرامؓ کو اس نے بہت توہین آمیز انداز سے اس کتاب میں پیش کیا ہے۔ اس نے ایک تمسخر کے انداز سے اس دور کی اکابر شخصیات کا ناول کے انداز سے ذکر کیا ہے۔ اس کتاب پر دنیا بھر میں اعتراض ہوا کہ یہ ہم مسلمانوں کے اکابر کی توہین ہے۔ مسلمانوں نے سلمان رُشدی کو گستاخِ رسول قرار دیتے ہوئے اسے قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ لیکن حکومتِ برطانیہ نے اس اُس شخص کو اپنی پناہ میں لے لیا، اور کئی سالوں سے حکومتِ برطانیہ اس کی حفاظت کر رہی ہے۔ اور اس حفاظت پر لاکھوں پاؤنڈ سالانہ خرچ ہوتا ہے۔ اور حکومتِ برطانیہ کہتی ہے کہ ہم صرف ایک شخص کی حفاظت نہیں کر رہے، بلکہ ہم آزادئ رائے کے حق کی حفاظت کر رہے ہیں۔ یعنی ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک شخص کا تمہارے مذہبی رہنما محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف ذہن ہوگیا ہے تو تم لوگ اسے بات کرنے سے کیوں روکتے ہو؟ اگر آپ کو اس کی بات سے اختلاف ہے تو آپ تسلیم نہ کریں، لیکن آپ اسے اس کی رائے کے اظہار سے کیوں روکتے ہیں؟
اس سلسلہ میں ایک اور مثال تسلیمہ نسرین کی ہے۔ اس نے بھی اس طرح کی خرافات پر مشتمل چند کتابیں لکھیں۔ بنگلہ دیش کے علماء نے اس کے خلاف مقدمہ دائر کر کے اسے گرفتار کروا دیا۔ یورپی یونین نے باقاعدہ سرکاری سطح پر اس کو رہا کرانے کا بندوبست کیا اور ان کا نمائندہ باقاعدہ ڈھاکہ آیا اور اسے چھڑوا کر ساتھ لے کر گیا، وہاں اسے مال بھی دیا گیا اور پناہ بھی دی گئی۔
مصر کے ایک صاحب ہیں ڈاکٹر نصر ابو زید۔ قاہرہ یونیورسٹی کے پروفیسر تھا، اس نے ایک کتاب لکھی ’’الوحی فی مواجھۃ العقل‘‘ (وحی اور عقل کا تقابل)۔ وہی معتزلہ والی بات کہ وحی بنیاد ہے یا عقل؟ عقل کو وحی پر پرکھیں گے یا وحی کو عقل پر؟ پرانا جھگڑا نئے انداز میں۔
ہمارے ہاں عقل کی نفی نہیں کی جاتی، لیکن عقل کے لیے معیار وحی کو قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم وحی کو عقل پر پرکھیں گے۔ ڈاکٹر نصر ابو زید نے عقل کی برتری پر بڑے دلائل دیے۔ ’’نقلِ کفر، کفر نہ باشد‘‘۔ میں اس کے چند ایک جملے نقل کرتا ہوں۔
نصر ابو زید کہتا ہے کہ دیکھیں، آج کا ایک شخص جو ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہے، انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے، آج کی جدید ٹیکنالوجی کا عبور رکھتا ہے، اِس شخص کو اُس شخص کی پیروی کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جو خیموں میں رہتا تھا اور خچر پر سواری کرتا تھا۔ یہ ڈاکٹر نصر ابو زید کے بات کرنے کا انداز نقل کر رہا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ، جب تک ان اساطیر اور خرافات سے آج کی نسل نجات حاصل نہیں کرے گی ترقی نہیں کر پائے گی، جن اساطیر اور خرافات سے قرآن کریم بھرا ہوا ہے (نعوذ باللہ)۔
جس طرح ہمارے ہاں توہینِ رسالت پر موت کی سزا کا قانون ہے، اس طرح کا کوئی قانون مصر میں نہیں ہے۔ ہمارے اس قانون پر دنیا کا اعتراض ہے کہ ایک آدمی کی رائے اگر قرآن اور رسول اللہؐ کے خلاف ہو گئی ہے تو اس پر اسے تم موت کی سزا کیسے دے سکتے ہو؟ چنانچہ اس قانون کو ختم کرنے کے لیے مسلسل مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ہم پر اس قانون کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ یہ آزادیئ رائے کے منافی ہے۔
مصر میں توہینِ رسالت پر سزا کا قانون تو نہیں ہے لیکن وہاں شافعی فقہ کے مطابق عائلی قوانین نافذ ہیں۔ چنانچہ مصر کے وکلاء نے عدالت میں فسخِ نکاح کا دعویٰ دائر کیا کہ یہ شخص ایسی باتیں کہہ کر چونکہ مسلمان نہیں رہا، اس لیے اس کا نکاح اس کی بیوی سے ٹوٹ گیا ہے۔ عدالت نے تفریق کی ڈگری جاری کر دی۔ اس شخص کو بھی ڈنمارک کی حکومت نے پناہ دے رکھی ہے جہاں وہ عیاشی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔
اسی طرح ڈنمارک کے اخبارات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر توہین آمیز کارٹون چھاپے جن پر ابھی تک جھگڑا چل رہا ہے۔ ان اخبارات کا موقف بھی اسی دفعہ کے حوالہ سے ہے کہ آزادئ خیال، آزادئ فکر، آزادئ رائے اور اپنی رائے کی اشاعت، یہ سب ہمارے حقوق ہیں۔ ہم نے اگر یہ کارٹون چھاپے ہیں تو اپنا حق استعمال کیا ہے۔
ہمارے ہاں آزادئ رائے کا مطلقاً حق نہیں دیا جاتا۔ وہ تمام قوانین جن میں توہینِ رسالت کا قانون بھی ہے، کسی غیر مسلم کو اپنے مذہب کی عام تبلیغ نہ کرنے کی پابندی بھی ہے، اور خدا و رسول، شعائر اسلام وغیرہ کے خلاف بات نہ کرنے کی پابندی بھی ہے۔ یہ سب انسانی حقوق کے منافی تسلیم کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ سال امریکہ نے ہماری حکومت سے آن ریکارڈ تین مطالبات کیے تھے: پہلا یہ کہ حدود آرڈیننس ختم کیا جائے۔ دوسرا، توہینِ رسالت کی سزا کا قانون ختم کیا جائے۔ تیسرا، قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کا قانون ختم کیا جائے۔
پہلا مطالبہ تو ہماری حکومت نے حدود آرڈیننس کا صفایا کر کے پورا کر دیا ہے۔ باقی دو مطالبوں کے متعلق امریکہ کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ الیکشن کے بعد کر دیے جائیں گے۔
یہ جھگڑے تو آزائ رائے کے حوالے سے ہیں۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ آزادء مذہب کے حوالے سے ہمارے کیا تنازعات ہیں۔
آزادئ مذہب کے حوالے سے یہ لوگ دو باتیں کہتے ہیں:
ایک بات تو یہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے مذہب کو تبدیل کر کے کوئی دوسرا مذہب اختیار کرتا ہے تو اس شخص کو ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ اب ہمارے ہاں یہ بات قابلِ قبول نہیں ہے۔ ہم اسلام سے منحرف ہونے والے کو مرتد کہتے ہیں اور اسے سزا کا مستحق سمجھتے ہیں۔
دوسری بات یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کسی ملک میں مذہب کی بنیاد پر امتیازی قوانین نہیں بنائے جائیں گے۔
اب یہ بات ذرا تفصیل سے سمجھنے کی ہے۔ ہمارے ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا قانون بنایا گیا۔ قادیانیوں کے بارے میں علماء نے بہت بحث کی ہے۔ جو شخص مسلمان سے قادیانی ہوا ہے اسے شرعی اصطلاح میں ہم مرتد کہتے ہیں۔ اور جو شخص کسی قادیانی کے ہاں پیدا ہوا ہے اسے زندیق کہا جاتا ہے۔
جب مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی نبوت کا دعویٰ اور پرچار کیا، اسے یہ شوق آیا کہ وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز پر اردگرد کے حکمرانوں کو اپنی نبوت کی دعوت دے۔ اس نے ایک خط والئ افغانستان امیر حبیب اللہ خان کو بھیجا کہ تم میرا مذہب قبول کرو۔ پٹھانوں کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ وہ ایک آزاد اور خود مختار حکمران تھا۔ اس نے جواب بھیجا اور ایک جملہ لکھا ’’ایں جا بیا‘‘ کہ یہاں آکر بات کرو۔ مرزا نے کابل میں دو نمائندے بھیجے، امیر نے دونوں کو لٹکا دیا۔
اس پر بحث چھڑ گئی کہ آیا مرتد کی سزا قتل ہے یا نہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے قرآن کی طرف رجوع کیا گیا کہ آیا قرآن میں ارتداد کی سزا ہے یا نہیں۔ اس پر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کا ایک رسالہ ہے ’’الشہاب‘‘، اس رسالہ میں حضرت شیخؒ نے قرآن کریم سے استدلال کیا۔
ہمارے ہاں ایک اصول ہے کہ اگر قرآن کریم گزشتہ مذاہب کا کوئی حکم بیان کرے اور اس کی تنسیخ نہ کرے، تو وہ حکم ہمارے لیے بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ پچھلے مذاہب کے لیے۔ جس طرح قرآن نے تورات کا قانون حکماً نہیں بلکہ حکایتاً بیان کیا کہ ’’کتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن والجروح قصاص‘‘ اور یہ ہمارے لیے حکم ہے۔
علامہ عثمانیؒ نے کہا کہ ہمارا اصول یہ ہے کہ قرآن کریم پرانی شریعتوں کا کوئی حکم بیان کرے اور پھر اس کی تنسیخ کی بات نہ کرے تو وہ جیسے پچھلی شریعتوں کے لیے قانون تھا ویسے ہمارے لیے بھی قانون ہے۔ اسی طرح قرآن کہتا ہے کہ بنی اسرائیل میں بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو ’’فاقتلوا انفسکم‘‘ کہہ کر ارتداد کی سزا دی، اور پھر کسی جگہ پر اس کو منسوخ نہیں کیا۔
جب پاکستان بنا تو ایک مسئلہ پیدا ہوگیا کہ قادیانیوں کا کیا معاملہ ہو گا۔ ہمارے علماء نے پاکستان بننے کے بعد تین چار بڑے مسائل پر اجتہادات کیے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ کہ قادیانیوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں گے۔ اس پر تمام مکاتب فکر کے علماء دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، سب نے متفق ہو کر ایک اجتہادی فیصلہ یہ کیا کہ قادیانیوں پر قتل کا حکم ہم نہیں لگائیں گے۔ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے گا۔ اور یہ تجویز اصل میں علامہ اقبال مرحوم کی تھی کہ اتنے گھمبیر حالات میں قادیانیوں کو اتنے بڑے پیمانے پر قتل نہیں کیا جا سکے گا، اس کا بہتر حل یہ ہے کہ انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دلوا دو۔
اس سلسلہ میں ۱۹۵۳ء میں اس کی تحریک چلی۔ پھر ۱۹۷۴ء میں ایک اور تحریک چلی، جس میں حضرت مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبد الحق اور دیگر بڑے اکابر علماء رحمہم اللہ علیہ اجمعین شریک تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ قادیانیوں نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ ہم ہی مسلمان ہیں۔
۱۹۸۴ء میں جنرل ضیاء الحق نے یہ آرڈیننس جاری کیا کہ قادیانیوں کو اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسلام کے شعائر استعمال نہیں کر سکیں گے مثلاً ام المؤمنین، مسجد، نماز، روزہ وغیرہ کی اصطلاحات استعمال نہیں کر سکیں گے۔ چنانچہ یہ دو قوانین بھی بین الاقوامی حلقوں میں متنازعہ ہیں۔ جب ہم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ قادیانیوں کے خلاف اقدامات منسوخ کیے جائیں تو ان سے مراد یہی دو قوانین ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال ایک بہت بڑا مغالطہ ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس سلسلہ میں ہمیں بہت مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔
نیویارک میں ۱۹۸۷ء میں میرا ایک یہودی جنرلسٹ سے مکالمہ ہوا۔ میرے ایک دوست نے اس کا اہتمام کیا۔ ان دنوں یہ مسئلہ بڑے زوروں پر تھا۔ اس نے سوال کیا کہ جب قادیانی قرآن کو بھی مانتے ہیں اور محمد کو بھی مانتے ہیں تو وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟
اب اللہ کو تو اور بہت سے لوگ مانتے ہیں، اس لیے بظاہر تو مسلمان ہونے کی امتیازی علامت یہی ہے کہ وہ قرآن کو مانتا ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مانتا ہو۔
میں نے اس جنرلسٹ کے سامنے لمبے چوڑے دلائل دینے کے بجائے الٹا اس سے ایک سوال کر دیا۔ میں نے کہا کہ تم یہودی ہو، تم حضرت موسٰیؑ اور تورات کو مانتے ہو۔
کہنے لگا: ہاں۔
میں نے کہا کہ عیسائی بھی موسٰیؑ اور تورات کو مانتے ہیں، اگر کوئی عیسائی یہودی ہونے کا دعویٰ کر دے تو کیا تم مان لو گے؟
کہنے لگا: نہیں، میں ایک عیسائی کو یہودی کیسے مان سکتا ہوں؟
میں نے پوچھا: کیوں؟
اس نے کہا کہ وہ موسیٰ اور تورات کے بعد عیسیٰ اور انجیل کو بھی مانتے ہیں اس لیے وہ یہودی نہیں ہو سکتے، وہ الگ ہیں۔
اب میں نے جواب میں کہا کہ دیکھو! میں عیسیٰ، موسیٰ، تورات، انجیل اِن سب کو مانتا ہوں، میں اگر یہ کہہ دوں کہ میں یہودی ہوں تو مان لو گے؟
کہنے لگا: نہیں، اس لیے کہ تم ان سب کے بعد قرآن اور محمد کو بھی مانتے ہو۔
میں نے کہا: پھر تو اصول یہ ہوا کہ نئی کتاب اور نئے رسول کو ماننے سے مذہب الگ ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں یہ چیلنج نہیں کرتا کہ قادیانی قرآن اور محمد کو نہیں مانتے۔ وہ موسیٰ اور تورات، عیسیٰ اور انجیل، قرآن اور محمد سب کو مانتے ہوں گے، لیکن ان کے بعد ایک اور نبی اور کتاب کو بھی مانتے ہیں، اس لیے میں انہیں یہودی، عیسائی اور مسلمان، ان تینوں میں سے کچھ بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ قادیانی مرزا غلام احمد کو نبی اور ’’تذکرہ‘‘ نامی کتاب کو وحی کی کتاب مانتے ہیں۔
چنانچہ اس جنرلسٹ نے کہا کہ میری سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ، چونکہ وہ ایک نئے نبی اور ایک نئی کتاب کو مانتے ہیں اس لیے وہ مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔
اس نے ایک اور سوال کر دیا کہ تم لوگ انہیں مسجد بنانے، اذان دینے اور کلمہ وغیرہ پڑھنے سے کیوں روکتے ہو، یہ تو انسانی حقوق کے منافی ہے۔
میں نے کہا: میرے بھائی! ذرا ٹھنڈے دل سے میری بات سنو۔ ایک کمپنی ہے جو سو سال سے چلی آرہی ہے، اس کا ایک نام ہے، ایک ٹریڈ مارک ہے۔ اس کمپنی کی مارکیٹ میں ایک ساکھ ہے اور لوگ اس کے ٹریڈ مارک کو دیکھ کر اس کی اشیا خریدتے ہیں۔ اب اگر اس میں سے دو چار آدمی الگ ہو کر نئی کمپنی بنا لیں، کیا اس نئی کمپنی کو پرانی کمپنی کا نام یا اس کا ٹریڈ مارک استعمال کرنے کا حق حاصل ہے؟
وہ جنرلسٹ کہنے لگا: نہیں۔
میں نے کہا: اگر وہ ایسا کریں تو؟
کہنے لگا کہ یہ تو فراڈ ہے۔
میں نے کہا: ہم لوگ یہی تو کہہ رہے ہیں کہ قادیانی ہمارے ساتھ فراڈ کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: بھئی ہم چودہ سو سال سے چلے آرہے ہیں، ہماری کمپنی کا نام اسلام ہے۔ کلمہ، امیر المؤمنین، خلیفۃ المسلمین، مسجد، اذان، نماز، یہ سب ہمارے ٹریڈ مارکس ہیں۔ اب کچھ لوگوں نے نئی کمپنی بنا کر اس کا یہی نام اور یہی ٹریڈ مارکس رکھ لیے ہیں۔ ہمارا مطالبہ تو بس یہی ہے کہ بھئی اپنا نام اور ٹریڈ مارکس الگ کرو۔ میں نے کہا کہ بھئی یہ تو ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ والی بات ہو گئی ہے۔ زیادتی پر زیادتی وہ لوگ کرتے چلے آرہے ہیں، اور ہم جب عدالت میں جا کر انصاف طلب کرتے ہیں تو یہ الزام ہم پر لگ جاتا ہے کہ ہم اُن لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ شناخت تو ہماری مجروح ہو رہی ہے، ہمارے نام اور ہمارے ٹریڈ مارکس پر یہ لوگ دو نمبر مال بیچ رہے ہیں۔
امریکہ، مغرب اور اقوام متحدہ وغیرہ ہم سے کہتے ہیں کہ جب آزادئ رائے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے تو آپ قادیانیوں پر پابندیاں کیوں لگاتے ہیں، یہ انسانی حقوق کے منافی ہے، آزادئ مذہب کے خلاف ہے، آزادئ فکر کے خلاف ہے۔ اور اس سارے الزام کی بنیاد اقوام متحدہ کے منشور کی یہ دفعہ ہے۔ ان حضرات کا مطالبہ یہ ہے کہ اگر آپ لوگوں نے اس منشور پر دستخط کر رکھے ہیں تو آپ اِس منشور کی اِس دفعہ پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ اس کے خلاف آپ لوگوں کے قوانین کیوں بنا رکھے ہیں۔
یہ ہے ہماری اصل الجھن۔ دستخط ہم نے اس لیے کر رکھے ہیں کہ ہم نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر رہنا ہے، اس کے بغیر رہنا عملاً کم از کم ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہم مذہب کی طرف سے پابند ہیں کہ اپنی نصوصِ صریحہ اور قطعیہ کے خلاف عمل بھی نہیں کر سکتے۔ یہ ہے ہماری اصل الجھن۔
یہ تھی کچھ مختصر گفتگو ان جھگڑوں سے متعلق جو قادیانیت، عقلیت اور توہینِ رسالت کے حوالے سے چل رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی کے متعلق اصول طے کیے ہوئے ہیں۔ جس طرح خاندانی زندگی کا ایک معیار طے کر رکھا ہے، اس سے ہٹ کر جو بھی بات اور قانون ہو گا اسے یہ انسانی حقوق کے منافی قرار دیں گے۔ اور جس طرح سزاؤں اور تعزیرات کے انہوں نے اصول قائم کیے ہوئے ہیں، اس کے خلاف کوئی قانون ہو گا تو اسے انسانی حقوق کے خلاف سمجھا جائے گا۔ اسی طرح آزادئ رائے، آزادئ مذہب کا ایک معیار انہوں نے قائم کیا ہے، اس سے ہٹ کر کوئی بات ہوگی تو اسے یہ لوگ انسانی حقوق کے منافی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ خاندانی نظام، عدالتی نظام، مالیاتی نظام، سیاسی نظام اور دیگر زندگی کے شعبوں کے متعلق انہوں نے معیار قائم کیے ہوئے ہیں۔
اسی طرح اقوام متحدہ نے یہ بھی طے کر رکھا ہے کہ وہ کس سیاسی نظام کو صحیح سمجھیں گے اور کس نظام کو صحیح نہیں سمجھیں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کا منشور سیاسی نظام کے متعلق کیا کہتا ہے۔
دفعہ نمبر ۲۱:
’’ہر شخص کو اپنے ملک کی حکومت میں براہ راست یا آزادانہ طور پر منتخب کیے ہوئے نمائندوں کے ذریعے حصہ لینے کا حق ہے۔ ہر شخص کو اپنے ملک میں سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا برابر کا حق ہے۔ عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیاد ہوگی۔ یہ مرضی وقتاً فوقتاً ایسے حقیقی انتخابات کے ذریعے ظاہر کی جائے گی جو عام اور مساوی رائے دہندگی سے ہوں گے۔ اور جو خفیہ ووٹ یا اس کے مساوی کسی دوسرے آزادانہ طریقۂ رائے دہندگی کے مطابق عمل میں آئیں گے۔‘‘
تبصرہ:
یعنی اقوام متحدہ کے نزدیک ایک جائز حکومت وہ کہلائے گی جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو، اور ملک کے ہر شہری کو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس میں رائے دینے کا حق حاصل ہو۔ اور جو حکومت اس معیار پر پورا نہیں اترتی وہ اقوام متحدہ کے نزدیک جائز حکومت قرار نہیں پائے گی۔
اس میں تین چار الگ الگ مسئلے ہیں۔ آج ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جمہوریت اور اسلامی نظام میں کیا فرق ہے؟ جمہوریت کس حد تک جائز ہے؟
پہلے تو میں اپنے نظام کے حوالے سے بات کرتا ہوں۔ اسلام کے سیاسی نظام کی اصطلاح ہے ’’خلافت‘‘۔ قرآن کریم نے یہ اصطلاح دی ہے ’’یا داوود انا جعلناک فی الارض خلیفۃ‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا ’’کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وأنہ و لا نبی بعدی وسیکون بعدی خلفاء‘‘۔ بخاری شریف کی یہ حدیث اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد ہے۔ بنی اسرائیل میں نبی سیاسی نظام کی قیادت کرتے تھے، چونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اس لیے اب خلفاء ہوں گے۔
اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیاسی نظام کے حوالے سے جو سب سے پہلا اور سب سے بڑا جھگڑا قرار دیا جاتا ہے وہ خلافت اور امامت کے حوالہ سے ہے۔ ہمارے ہاں حضورؐ کے بعد سیاسی نظام خلافت کے نام سے ہے۔ اہل تشیع کے ہاں یہ نظام امامت کے نام سے ہے۔
خلافت اور امامت میں تین بنیادی فرق ہیں:
پہلا فرق خلافت منصوص نہیں ہے بلکہ امت کے اختیار پر ہے۔ جبکہ امامت منصوص ہے، وصی رسول اللّٰہ۔
دوسرا فرق خلافت خاندانی یا نسبی نہیں ہے۔ جبکہ امامت خاندانی ہے۔ اہل تشیع کے بارہ امام ایک ہی خاندان سے ہیں جبکہ یہ خمینی صاحب اور خامنہ ای صاحب وغیرہم تو امام غائب کے نمائندے ہیں۔
تیسرا فرق خلیفہ معصوم نہیں ہے، خلیفہ کی کسی بھی بات سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ امام معصوم ہے اور امام کی کسی بھی بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ امام جو کہہ دے وہی قرآن کی منشا ہے اور جو کہہ دے وہی سنت کا مقصد ہے۔ امام کے معصوم ہونے کا معنیٰ ہے ’’معصوم عن الخطاء‘‘ غلطی سے پاک۔ اس کا دوسرا معنٰی ہے کہ امام اتھارٹی ہے۔
چنانچہ امت مسلمہ کی جمہور اکثریت یعنی اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک خلافت کی بنیاد ان اصولوں پر ہے کہ
(۱) خلیفہ کا انتخاب عام مسلمانوں کی مرضی سے ہو گا،
(۲) خلافت نسبی یا خاندانی نہیں ہوگی،
(۳) خلیفہ شخصی اتھارٹی کی بجائے قرآن و سنت کے مطابق حکومت کرے گا،
(۴) خلیفہ کی کسی بات اور اس کے کسی فیصلے سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیا جا سکتا ہے،
اسے سیاسی اصطلاح میں قانون اور دلیل کی حکومت کہتے ہیں، کیونکہ بادشاہت میں بادشاہ ہی خود اتھارٹی ہوتا تھا، مگر خلیفہ ایک پہلے سے طے شدہ قانون کا پابند ہوتا ہے اور اسے اسی کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔
اس لیے اگر جمہوریت کا معنی یہ ہے کہ حکومت عوام کی منتخب ہو اور ان کی مرضی سے قائم ہو تو یہ جمہوریت سب سے پہلے اسلام نے قائم کی ہے۔ البتہ ہماری اصطلاح جمہوریت نہیں بلکہ شورائیت ہے۔
مگر جمہوریت کے دوسرے رُخ کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے کہ عوام اور ان کے منتخب نمائندے تمام فیصلوں میں آزاد ہیں اور وہ جو بھی طے کر دیں وہی قانون ہے۔ دوسرے لفظوں میں پہلے جو اتھارٹی بادشاہ کو حاصل ہوتی تھی، جمہوریت میں وہی اتھارٹی پارلیمنٹ کو حاصل ہو گئی ہے۔ لیکن اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ حکمران، پارلیمنٹ اور عوام تینوں کو قرآن و سنت کا پابند دیکھنا چاہتا ہے۔ اور یہی اسلامی خلافت کا بنیادی اصول ہے۔ آج کی اصطلاح میں اسے ’’پارلیمنٹ کی خود مختاری‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ہم جب یہ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کی پابند ہوگی تو اس پر جدید سیاسی حلقوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ’’پارلیمنٹ کی خود مختاری‘‘ کے خلاف ہے۔
پاکستان بننے کے بعد ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات اور قراردادِ مقاصد کی صورت میں تین اجتہادی اصول طے کیے:
(۱) حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی،
(۲) حکومت عوام کے منتخب نمائندے کریں گے،
(۳) حکومت اور پارلیمنٹ قرآن و سنت کے پابند ہوں گے۔
بہرحال سیاسی نظام کے حوالہ سے اقوام متحدہ کے طے کردہ اصولوں کے بارے میں ہمارے یہ تحفظات ہیں جن کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے۔ اور ہمارے ان عقائد پر ہے جن سے ہم کسی صورت میں دستبردار نہیں ہو سکتے۔ لیکن عالمی اداروں کا اقوام متحدہ کے منشور کے عنوان سے ہم پر مسلسل دباؤ ہے کہ ہم حکومت، دستور و قانون اور پارلیمنٹ کو مذہب کے اثر سے آزاد کر کے عوام اور پارلیمنٹ کی مطلق خود مختاری کے تصور کو تسلیم کریں جس کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔
محترم علماء کرام!
میں نے تین چار نشستوں میں آپ حضرات کے سامنے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی چند دفعات پر تبصرہ کیا ہے اور اپنے ان تحفظات سے آگاہ کیا ہے جو اسلامی عقائد اور قرآن و سنت کی تعلیمات کی بنیاد پر ہم اس بین الاقوامی قانون کے بارے میں رکھتے ہیں۔
میرے نزدیک اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی علمی مرکز میں ایک مستقل کام کے طور پر اس موضوع کو اختیار کرتے ہوئے جید علماء کرام کی ایک ٹیم اقوام متحدہ کے اس منشور کا شق وار جائزہ لے اور پورے تجزیہ و تحلیل کے ساتھ اس بات کو واضح کرے کہ
انسانی حقوق کے اس منشور کی کون کون سی بات ہمارے لیے قابلِ قبول ہے؟
ہمیں کس کس بات سے اختلاف ہے اور کون سی باتیں ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں؟
اختلاف کی وجوہ اور ہماری ترجیحات کے دلائل کیا ہیں؟
اور اس کے ساتھ ہی اسلامی قوانین کی برتری اور افادیت کو بھی آج کے اسلوب میں بیان کیا جائے۔
میری ذاتی رائے ہے کہ یہ منشور نہ سارے کا سارا قابلِ قبول ہے اور نہ ہی پورے منشور کو یکسر مسترد کر دینا درست ہے۔ اسی طرح میری طالب علمانہ رائے یہ بھی ہے کہ جن امور میں ہم اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلّمہ اصولِ اجتہاد کے دائرے میں رہتے ہوئے آج کے عالمی عرف اور بین الاقوامی ماحول کے ساتھ ہم آہنگی اور ایڈجسٹمنٹ کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں ہمیں اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اور مسائل و امور کے پوری طرح تجزیہ و تنقیح کے بعد جو موقف واضح ہو کر سامنے آئے اسے مغرب کے سامنے پوری جرأت کے ساتھ پیش کر کے اس کے لیے عالمی سطح پر لابنگ اور ذہن سازی کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اسلام کے بارے میں عالمی رائے عامہ کی غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکیں اور آج کے ماحول، عالمی عرف اور بین الاقوامی اسلوب کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا فریضہ صحیح طور پر انجام دے سکیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں اور اس کے لیے اسباب و مواقع، ثمرات و نتائج اور قبولیت و رضا سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔