بین الاقوامی معاہدات اور اصحاب فکر و دانش کی ذمہ داری

   
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
۱۰ اکتوبر ۲۰۱۹ء

شریعہ اکادمی (بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) نے ۸ تا ۱۱ اکتوبر مارگلہ ہوٹل اسلام آباد میں ’’آئی سی آر سی‘‘کے تعاون سے ’’اسلام اور بین الاقوامی قانون انسانیت‘‘ کے عنوان پر چار روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا جس میں مجھے ۱۰ اکتوبر کو ظہر کے بعد کی نشست میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ شریعہ اکادمی اور آئی سی آر سی کا شکر گزار ہوں کہ اس اہم موضوع پر اصحاب فکر و دانش کے اس اجتماع میں حاضری کا موقع عنایت کیا۔ اس سے قبل بھی ان اجتماعات میں حاضر ہوتا رہا ہوں اور بین الاقوامی قوانین و معاہدات کے حوالہ سے کچھ نہ کچھ عرض کرنے اور سننے کے مواقع سے مستفید ہوا ہوں، آج بھی اسی حوالے سے چند باتیں پیش خدمت کرنا چاہوں گا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نہ صرف ہم بلکہ کم و بیش ساری دنیا بین الاقوامی معاہدات کے حصار ہیں، اور جنگ و امن کے ساتھ ساتھ حقوق انسانی اور سولائزیشن کے حوالہ سے بھی بیسیوں معاہدات نے پوری دنیا پر حکمرانی کا سکہ جما رکھا ہے۔ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ اس وقت دنیا بھر میں حکومتوں کی حکمرانی کم اور معاہدات کی حکمرانی زیادہ ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ طاقتور اور امیر ممالک اپنے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں جبکہ غریب اور کمزور اقوام و ممالک کو ان معاہدات کی بہرحال پابندی کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ پابندی سے گریز کرنے والے ممالک کو سزا کے مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے، بالخصوص مسلم ممالک کی صورتحال زیادہ پریشان کن اور توجہ طلب ہے کہ ان معاہدات کی زد میں ان کے عقائد و احکام اور تہذیب و ثقافت بھی متاثر ہو رہے ہیں، مگر انہیں اس حوالہ سے شنوائی کا کوئی فورم میسر نہیں ہے۔ میں یاد دلانا چاہوں گا کہ ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد جب مسلم ممالک کے باہمی اشتراک کے فورم ’’او آئی سی‘‘ کے سربراہ تھے انہوں نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ اقوام متحدہ کے اصل پالیسی ساز فورم یعنی سلامتی کونسل کی پانچ ویٹو پاورز میں مسلمانوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے اور بین الاقوامی معاہدات میں ان کے عقیدہ و تہذیب کے بارے میں تحفظات کا لحاظ نہیں رکھا جا رہا، اس لیے ایک تو ان معاہدات پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور دوسرا ویٹو پاورز میں عالم اسلام کی متناسب نمائندگی ضروری ہے۔ مگر اس اصولی اور جائز بات کو ابھی تک عالمی سطح پر توجہ حاصل نہیں ہو سکی، اس لیے میرے خیال میں سب سے زیادہ اہم امر یہ ہے کہ عالمی ماحول میں ان دو باتوں کی طرف توجہ دلانے اور احساس بیدار کرنے کی کوشش کی جائے۔

اس کے ساتھ اصحاب فکر و دانش سے میری یہ گزارش ہے کہ بین الاقوامی قانون انسانیت اور موجودہ معاہدات کے بارے میں مسلم دنیا میں آگہی اور شعور کو بیدار کرنا بہرحال ان کی ذمہ داری ہے جس کی طرف مناسب توجہ اس وقت دکھائی نہیں دے رہی۔ بین الاقوامی معاہدات تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیے تھے اور ہم گزشتہ چودہ صدیوں کے دوران بین الاقوامی معاہدات کا حصہ رہے ہیں جس کا تسلسل آئندہ بھی جاری رہے گا، چنانچہ جناب رسول اکرمؐ کے اسوۂ حسنہ اور اسلامی تعلیمات و احکام کی روشنی میں آج کے بین الاقوامی معاہدات کا جائزہ لینا اور ان کے مثبت و منفی پہلوؤں سے امت مسلمہ بالخصوص نئی نسل کو آگاہ کرنا اور بیدار رکھنا اہل دانش کی اجتماعی ذمہ داری ہے جس سے بے پروائی مسلسل نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ اس سلسلہ میں مختلف حوالوں سے تحقیق و مطالعہ اور تجزیہ و تبصرہ ہمارے لیے ناگزیر ہوگیا ہے جن میں سے دو تین کا اس مختصر گفتگو میں تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ مثلاً:

  1. پہلی بات یہ کہ مروجہ معاہدات میں سے کون سے معاہدات تمام فریقوں کی مشترکہ ضروریات پر مبنی ہیں اور کون سے ایسے ہیں جو یکطرفہ ضروریات و مفادات کے تحفظ کے لیے پلان کیے گئے ہیں۔ اس لیے کہ معاہدات کا ایک بڑا حصہ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ کسی ایک طاقتور فریق نے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کے باعث یکطرفہ مفادات کے حوالہ سے مسلط کر رکھے ہیں اور دوسرے فریق کے لیے اس میں طاقتور فریق کے لیے قربانیاں دیتے چلے جانے کے علاوہ کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ اس زاویہ سے بین الاقوامی معاہدات پر نظر ڈالنا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ باہمی مفادات و ضروریات کا صحیح تناظر و تناسب سامنے لایا جائے اور اس کے مطابق اپنا اجتماعی کردار ازسرنو طے کیا جا سکے۔
  2. دوسری بات یہ کہ ان معاہدات میں مسلم امہ کے عقیدہ و احکام اور تہذیب و روایات کو جن تحفظات کا سامنا ہے اور معاہدات کی بہرحال پابندی کی صورت میں جن شرعی احکام و قوانین سے دستبردار ہونا پڑتا ہے، ان کی نشاندہی ضروری ہے۔ اس لیے کہ آج کے مروجہ بین الاقوامی قانون انسانیت کی رو سے بھی مسلم قوم کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کرے اور عقیدہ و احکام کو درپیش خطرات کا سدباب کرے۔
  3. جبکہ تیسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس ’’یہودی پروٹوکول‘‘ کا عالمی سطح پر تذکرہ کیا جاتا ہے اور اس میں صہیونیوں کی طرف سے دنیا کے مستقبل کے نقشہ گری کی جو عملی صورتیں بیان کی گئی ہیں، ان کے بارے میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس وقت دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اس مبینہ یہودی پروٹوکول کا کتنا حصہ ہے؟ اس حوالہ سے اب تک کیا کام ہو چکا ہے اور آئندہ کیا خدشات ہیں؟

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کو موجودہ صورتحال سے آگاہی اور مستقبل کے تقاضوں سے واقفیت دلانے کے لیے ان تینوں حوالوں سے شعور و ادراک فراہم کرنا ضروری ہے جو اصحاب فکر و دانش کی ذمہ داری ہے، اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین۔

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۱۳ اکتوبر ۲۰۱۹ء)
2016ء سے
Flag Counter