خواتین کی نسل کشی، دورِ جاہلیت کی روش

   
۲۷ اپریل ۲۰۱۴ء

ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والی ’’آن لائن‘‘ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں خواتین کے حقوق کے حوالہ سے ایک تنظیم متحرک ہوئی ہے جس کا نام ’’جینڈرسائیڈ اویئرنیس پروجیکٹ‘‘ بتایا گیا ہے اور اس کی بانی چیئرمین بیورلی بل نامی خاتون ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں ڈیلس میں ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ساتھ میٹنگ میں کہا ہے کہ خواتین کو دنیا بھر میں نسل کشی کا سامنا ہے جس میں چین سرفہرست ہے اور اس کے بعد بھارت دوسرے نمبر پر ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس ضمن میں پیچھے نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرد کی طرح عورت کی پیدائش بھی فطرت کا حصہ ہے لیکن ہر سال ۲ ملین کے لگ بھگ لڑکیوں کو اسقاط حمل کے ذریعے پیدائش سے قبل ہی فارغ کر دیا جاتا ہے اور بعض علاقوں میں مرد کو اثاثہ اور عورت کو بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔

خواتین کی نسل کشی کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ اس دور جاہلیت کا بھی حصہ رہی ہے جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لا کر ختم کیا۔ جاہلیت کی جن اقدار سے انسانی معاشرہ کو اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے نجات دلائی ان میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا بھی شامل تھا۔ قرآن کریم میں اس رسم بد کی دو وجہیں بتائی گئی ہیں: ایک ’’خشیۃ املاق‘‘ یعنی فاقے کے ڈر سے، کیونکہ عورتوں کو معاشی طور پر بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ اور دوسرا ’’من سوء ما بشر بہ‘‘ اس کا سبب عار تھا کہ لڑکی کی ولادت ماں باپ کے لیے عار متصور ہوتی تھی اور طعنے کے خوف سے لڑکی کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔

ایک صاحب جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرنے کا ارادہ ظاہر کیا مگر پوچھا کہ میرے گناہوں کا کیا بنے گا؟ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اسلام قبول کرنے کی برکت سے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ آنے والے نے بتایا کہ میں اپنی آٹھ بیٹیوں کو یکے بعد دیگرے زندہ دفن کر چکا ہوں اور ساتھ ہی آٹھویں بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا واقعہ سنایا تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں نم آلود ہوگئیں۔

تاریخی روایت ہے کہ مشہور عرب شاعر فرزدق کے دادا ناجیہ نے ایک بار سفر کے دوران کسی خیمہ میں بچی کی ولادت پر اس کے باپ سے اسے زندہ درگور کرنے کا ارادہ سنا تو ایک اونٹنی دے کر بچی اس سے لے لی کہ اس کی پرورش میں کروں گا۔ اس کے بعد انہوں نے معمول بنا لیا کہ جہاں بھی کسی کے ہاں بچی کی ولادت کے بعد اسے قتل ہونے کا خطرہ محسوس کرتے وہاں پہنچ کر وہ بچی ایک اونٹ کے عوض خرید لیتے۔ ان صاحب نے جناب رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر جب اسلام قبول کیا تو ان کی حویلی میں اس قسم کی سینکڑوں پرورش پا رہی تھیں۔

اسلام نے جاہلیت کی اس قبیح اور ظالمانہ رسم کا خاتمہ کر کے گویا عورت کو زندگی کا حق عطا کیا۔ اور جناب نبی اکرمؐ نے اپنے گھر میں چار بیٹیوں کی پرورش کر کے اور انہیں محبت و احترام فراہم کر کے دنیا کو سبق دیا کہ بچی قتل کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ زندگی کی حقدار ہے اور محبت و احترام کی مستحق ہے۔ لیکن یہ رسم قبیح آج بھی دنیا میں مختلف شکلوں میں موجود ہے جس کا اظہار مذکورہ بالا رپورٹس میں کیا گیا ہے۔ خاص طور پر بھارت میں یہ مسئلہ قومی سطح پر پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے کہ الٹراساؤنڈ کے ذریعے یہ معلوم ہونے پر کہ حمل میں بچی ہے، اس کا اسقاط کرا کے اسے زندگی کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اس پر بھارت کی اعلیٰ قیادت بھی پریشان ہے کہ ہر سال ہزاروں لڑکیاں پیدائش سے قبل ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ اس لیے یہ مہم بہت اچھی ہے کہ لوگوں میں بیداری پیدا کی جائے اور اسقاط حمل کے ذریعے خواتین کی نسل کشی سے روکا جائے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اسقاط حمل جس طرح لڑکی کے حوالہ سے قتل کی صورت شمار کی جا رہی ہے لڑکے کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ اسقاط حمل لڑکے کا ہو یا لڑکی کا ہو، اگر وہ قتل ہے تو دونوں کا قتل ہے۔ اور محترمہ بیورلی بل کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ مغرب میں وسیع پیمانے پر جو اسقاط حمل ہو رہا ہے اور اس میں لاکھوں کی تعداد میں بچے زندگی کے حق سے محروم ہو رہے ہیں ان میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں اور ان کی تعداد چین اور بھارت میں بچیوں کی نسل کشی سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ جنوبی ایشیا کے بعض علاقوں میں بچی کی پیدائش کو عار کا باعث سمجھا جاتا ہے اور اسقاط حمل کے ذریعے اسے زندگی کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے لیکن یہ بات بھی اسی طرح درست ہے کہ مغرب میں زنا عام ہونے اور بچے کی کفالت کی ذمہ داری زانی مرد پر نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں بچے اور بچیاں اسقاط حمل کا شکار ہوتی ہیں جس کی بنیادی وجہ زنا کی کھلی آزادی ہے۔ مگر مغربی ممالک اس کی اصل وجہ کو دور کرنے کی بجائے دنیا بھر میں اسقاط حمل کو عورت کا قانونی حق قرار دلوانے کے چکر میں ہیں اور اقوام متحدہ کے عالمی فورم سے بھی یہ آواز مسلسل اٹھائی جا رہی ہے کہ عورت کو اسقاط حمل کا غیر مشروط حق دیا جائے اور تمام ممالک اپنے اپنے قوانین میں ترمیم کر کے اسے قانونی جواز فراہم کریں۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے پیٹ میں بچے میں جان پڑ جانے کے بعد اسقاط حمل کو قتل قرار دیا ہے اور محترمہ بیورلی بل بھی اسے قتل ہی تسلیم کر رہی ہیں۔ تو دنیا بھر میں اسقاط حمل کو قانونی حق کا درجہ دلوانے کی عالمی مہم کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ زنا کو انسانی حق قرار دینے کے بعد اب قتل کو بھی حقوق کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ہم خواتین کی نسل کشی کے خلاف مذکورہ بالا امریکی تنظیم کی اس مہم کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسقاط حمل کے ذریعے دنیا بھر میں بچوں اور بچیوں دونوں کا جس وسیع پیمانے پر قتل عام کیا جا رہا ہے اور زنا جیسے قبیح جرم کو جواز فراہم کر کے قتل کو فروغ دینے کی باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے اس پر بھی غور کیا جائے۔ کیونکہ قتل بچی کا ہو یا بچے کا، اگر اسقاط حمل قتل کے مترادف ہے تو لڑکا اور لڑکی دونوں اس سے بچاؤ اور تحفظ کے مستحق ہیں اور اسے صرف خواتین کی نسل کشی قرار دینا بھی نسلی امتیاز ہی کہلائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter