ہمارے فاضل دوست مولانا جہانگیر محمود ’’سوسائٹی فار ایجوکیشنل ریسرچ‘‘ کے تحت نوجوان علماء کرام کی راہنمائی اور بریفنگ کے لیے سالانہ ’’لیڈرشپ پروگرام‘‘ کا اہتمام کرتے ہیں جس میں انہیں سوسائٹی کے راہنما کے طور پر ان کی ذمہ داریوں اور وقت کے تقاضوں سے آگاہ کیا جاتا ہے، اور مجھے بھی اس میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ گزشتہ سال یہ پروگرام اسلام آباد کے معروف دینی مرکز ادارہ علوم اسلامیہ بھارہ کہو میں منعقد ہوا تھا، اس سال کرونا بحران کے باعث یہ پروگرام ۱۸ تا ۲۰ جون کو آن لائن ہوا، اس کی ایک نشست میں کچھ معروضات میں نے پیش کیں جس کی آڈیو ریکارڈنگ کو کچھ قطع و برید کے ساتھ تحریری شکل میں قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو پیدا فرمایا اور زمین کی طرف بھیجا تو دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک یہ کہ یہاں ایک عرصہ تک آپ لوگوں کو رہنا ہے، اس لیے یہاں موجود تمام اشیا آپ کے لیے قابل استفادہ ہیں، دوسری بات یہ کہ میری طرف سے وقتاً فوقتاً آنے والی ہدایات کا انتظار کریں اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ آدم و حوا علیھما السلام کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور حسب ارشاد مختلف اوقات میں انبیاء کرامؑ تشریف لاتے رہے اور انسانیت کی ہدایت کا سامان ہوتا رہا۔ معاشرے میں علماء کرام کی جدوجہد کے دائرہ ہائے کار کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے انبیاء کرامؑ کی محنت کے دائرہ کار کو سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ علماء کرام ان کے وارث اور نائب ہیں، تو جو کام کسی شخص کا ہوتا ہے وہی اس کے نائب کو منتقل ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر غور کیا جائے تو انبیاء کرام کی محنت کے دائرے تین تھے: عقائد و عبادات ، معاملات اور معاشرت۔
- انبیاء کرامؑ کی محنت کا پہلا دائرہ عقائد و عبادات کا ہے کہ لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کی طرف بلایا جائے جس نے انہیں پیدا کیا اور جس نے جہانوں کو پیدا کیا۔ ابو البشر اور ابو الانبیاء علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات تک سب نے اس کا حق ادا کیا۔
- محنت کا دوسرا دائرہ معاملات ہیں۔ تمام انبیاء، کرامؑ نے لوگوں کو اپنے معاملات سدھارنے کی بھرپور دعوت دی، خرید و فروخت سے لے کر معیشت و تجارت اور سیاست و حکومت تک سبھی امور میں نہ صرف اصلاح کی کوششیں کیں بلکہ ضرورت پڑنے پر خود بھی زمام کار کو سنبھالا جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
- انبیاء کرامؑ کی محنت کا تیسرا دائرہ معاشرتی نظام ہے، جس میں فرد سے لے کر خاندان اور خاندان سے لے کر سوسائٹی تک سبھی دائرے شامل ہیں۔ تمام انبیاء کرامؑ نے وحی کی روشنی میں پہلے دو دائروں کے ساتھ ساتھ اس دائرے میں بھی معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ بحسن و خوبی ادا کیا۔
انبیاء کرامؑ نے آسمانی تعلیمات صرف پیش نہیں کیں اور نہ ہی ان کی ذمہ داری یہاں تک محدود تھی، بلکہ تعلیمات سماوی کو اپنے عمل میں ڈھال کر اسوہ حسنہ کے طور پر پیش کرنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا اور انہوں نے ایسا کر دکھایا۔ چنانچہ آج اگر علماء ان کی نیابت کا دعوی رکھتے ہیں اور خود کو ان کی محنت سے جوڑنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی ان تینوں دائرہ ہائے کار کو اپنی محنت کا جولان گاہ بنانا ہو گا۔ علماء کرام چونکہ انبیاء علیہم السلام کے نائبین ہیں، اس لیے ان کے لیے انبیاء کرامؑ کے کردار کی منصبی حیثیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ انبیاء کرامؑ نے صرف عبادات پر ہی زور نہیں دیا بلکہ معاملات و معاشرت پر بھی اتنا ہی زور دیا ہے۔ چنانچہ ایک اسلامی معاشرے میں مذہب کا کردار صرف عبادات یا فرد تک محدود نہیں بلکہ معاملات و معاشرت، خاندان و قوم اور عدالت و حکومت پر بھی محیط ہے۔ مغربی معاشرے سے مذہب کا کردار کب کا ختم ہو چکا ہے اور ہمارے ہاں کے دلدادگان مغرب اسی جانب گامزن ہیں، اس لیے علماء کرام کو سب سے پہلے معاشرے میں مذہب کے کردار کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدہ شعوری محنت کرنا ہوگی۔ تاہم اس کے لیے حکمت اور دلیل سے بات کرنا ہوگی، مناظرہ و مجادلہ کا دور گزر چکا، آج کا دور مکالمے کا دور ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ اور علامہ محمد اقبالؒ نے بھی یہی بات ارشاد فرمائی ہے۔ علماء کرام کو حالات حاضرہ پر نظر رکھنا چاہیے، ان کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ معاشرے میں مذہب کے کردار کو واپس لائیں۔
سوسائٹی میں آسمانی تعلیمات کے کردار کا تحفظ اور معاشرتی زندگی کے مختلف شعبوں میں دینی احکام و قوانین کی عملداری آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے اور اس میں علماء کرام کا کردار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اور یہی ان کی جدوجہد کا اصل دائرہ کار ہے، اللہ تعالٰی سب کو توفیق سے نوازیں، آمین۔