سزائے موت ختم کرنے کی مہم

   
۵ ستمبر ۲۰۱۳ء

ثناء نیوز کے حوالہ سے شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس مشیر عالم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ماتحت عدالتوں سے انصاف نہ ملنے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سزائے قید کے قیدیوں کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔ کراچی کے نجی سکول کی تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ اعلیٰ اور ماتحت عدالتیں اپنی ذمہ داریاں بخوبی سر انجام دے رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر تفتیش صحیح خطوط پر ہو تو ملزمان سزا سے نہیں بچ سکتے۔

سزائے موت کے قیدیوں کو سزا ملنی چاہیے یا نہیں، یہ مسئلہ آج کل قومی اور عالمی سطح پر زیر بحث ہے اور عالمی فورم پر سزائے موت کو سرے سے ختم کر دینے کی مہم کے پس منظر میں ہمارے ہاں بھی نہ صرف یہ کہ سزائے موت کو تمام قوانین سے نکال دینے کی بات ہو رہی ہے بلکہ عملاً بھی کم و بیش ایک عشرہ سے سزائے موت پر عملدرآمد معطل ہے اور سزائے موت کے کسی ثابت شدہ مجرم کو بھی یہ سزا نہیں دی جا رہی۔

گزشتہ دنوں یہ خبر منظر عام پر آئی تھی کہ صدر آصف علی زرداری نے موجودہ حکومت سے کہا ہے کہ پچھلے پانچ سال کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے پارٹی پالیسی کے تحت سزائے موت پر عملدرآمد روکے رکھا تھا۔ اس بنا پر وہ نہیں چاہتے کہ ان کی صدارت کے دوران کسی مجرم کو سزائے موت دی جائے۔ اس لیے موجودہ حکومت اگر کسی مجرم کو پھانسی دینا چاہتی ہے تو وہ نئے صدر کے حلف اٹھانے کا انتظار کرے۔ جبکہ موجودہ حکومت کی طرف سے بھی یہ خبر آچکی ہے کہ وہ سزائے موت پر عملدرآمد پر پابندی کو جاری رکھے گی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کچھ عرصہ قبل ایک اکثریتی قرارداد کے ذریعہ دنیا کے ممالک سے کہا تھا کہ وہ اپنے قوانین میں سزائے موت کو ختم کر دیں۔ جبکہ یہ مہم اس سے قبل بھی ایک عرصہ سے جاری ہے جس پر بعض ممالک نے پیش رفت بھی کی ہے لیکن بہت سے ممالک میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے، متعدد جرائم میں موت کی سزا مقرر ہے۔ مثلاً پاکستان میں قتل عمد، توہین رسالتؐ اور بغاوت جیسے سنگین جرائم پر موت کی سزا کا قانون نافذ ہے اور ان سزاؤں کی بنیاد قرآن و سنت کے صریح احکام پر ہے جن میں مذکورہ اور اس نوعیت کے دیگر جرائم میں موت کی سزا کا حکم دیا گیا ہے۔

قصاص کے قانون کے تحت جان کے بدلے جان کا ضابطہ قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور یہ قانون بائبل میں بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے بلکہ قرآن کریم نے اسے حکم کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۷۸ میں ہے کہ:

’’اے ایمان والو! تم پر قصاص کا قانون فرض کیا گیا ہے۔‘‘

اس سلسلہ میں یہ بات بطور خاص قابل توجہ ہے کہ یہ حکم انہی آیات کے ساتھ بیان ہوا ہے جن میں مسلمانوں پر روزے فرض کیے گئے ہیں اور دونوں حکموں کے الفاظ ایک جیسے ہیں کہ:

’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔‘‘

اس کا مطلب واضح ہے کہ مسلمانوں کے لیے قصاص کا قانون اسی طرح فرض کا درجہ رکھتا ہے جس طرح رمضان المبارک کے روزے ان پر فرض کیے گئے ہیں اور اس کے ضمن میں قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:

’’اے اہل دانش! تمہارے لیے قصاص کے قانون میں زندگی ہے۔‘‘

یعنی معاشرے میں امن کی ضمانت اس سے حاصل ہوگی کہ جان کے بدلے جان کا قانون نافذ کیا جائے، اسی طرح بغاوت کے جرم میں موت کی سزا ہمارے ملک کے قانون کا حصہ ہے جو بہت سے دیگر ملکوں میں بھی اسی طرح دستور و قانون کا حصہ ہے۔

ہمارے ہاں ایک عرصہ سے یہ مہم جاری ہے کہ توہین رسالتؐ کے سنگین جرم پر موت کی سزا کو ختم کر دیا جائے۔ حتیٰ کہ بہت سے مغربی حلقے توہین رسالتؐ کو سرے سے ’’جرم‘‘ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ اس جرم کی سرپرستی کے لیے انسانی حقوق کا ٹائٹل استعمال کر کے اسے حقوق کی فہرست میں شمار کیا جا رہا ہے۔ لیکن پاکستانی قوم نے مکمل اتحاد کے ساتھ اس ناروا مطالبے کو متعدد بار مسترد کیا ہے جس کا اظہار ایک سے زیادہ مرتبہ قومی یک جہتی کی صورت میں ہو چکا ہے۔ چنانچہ ان حلقوں نے پینترا بدل کر سرے سے سزائے موت کے قانون کو ہی ختم کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے جو قومی حلقوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارے لیے دو باتیں انتہائی فکر انگیز اور قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ صدر آصف علی زرداری کا یہ ارشاد کہ ان کے دور میں سزائے موت پر عملدرآمد معطل رہا ہے، یہاں تک تو بات قابل فہم تھی کہ بین الاقوامی دباؤ کے تحت حکومتی مجبوریوں میں یہ بات شامل تھی، لیکن ان کا یہ ارشاد مستقل سوالیہ نشان ہے کہ ایسا ’’پارٹی پالیسی‘‘ کے تحت ہوتا رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اسلام کو اپنا دین کہتی ہے اور دین کی سب سے بڑی بنیاد قرآن کریم میں قصاص کے قانون کا صراحت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے۔ کیا پاکستان پیپلز پارٹی نے خدانخواستہ اسلام سے دست برداری اور قرآن کریم کے صریح احکام سے انحراف کو پارٹی پالیسی کے طور پر اختیار کر لیا ہے؟ اِس سوال کا جواب پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے ذمہ ہے اور اسے زور یا بدیر عوامی سطح پر اس سوال کا سامنا کرنا ہوگا۔ جبکہ اس سے کہیں زیادہ حیرت انگیز بیان پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ایک سرکاری ترجمان کا ہے کہ ’’سزائے موت پر پابندی کی پالیسی جاری رہے گی۔‘‘

پاکستان مسلم لیگ تحریک پاکستان کی علمبردار کہلاتی ہے اور پاکستان کی بانی جماعت ہونے کا ٹائیٹل رکھتی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ نے ہی خان لیاقت علی خان مرحوم کے دور میں دستور ساز اسمبلی سے قرارداد مقاصد منظور کرا کے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان میں وہی قوانین نافذ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ اور ان کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق ہوں گے۔ اس لیے سزائے موت پر پابندی کو جاری رکھنے کے سرکاری اعلان پر دو اصولی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر سزائے موت پر پابندی، ڈرون حملوں اور دیگر بہت سے معاملات پر مشرف دور کی پالیسیوں کا تسلسل ہی جاری رہنا ہے تو پھر انتخابات، عوامی مینڈیٹ اور حکومت کی تبدیلی کے اس تکلف بلکہ ڈھونگ کی کیا ضرورت تھی جو گزشتہ دونوں انتخابات میں روا رکھا گیا ہے۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان مسلم لیگ بھی ’’قرارداد مقاصد‘‘ سے انحراف کی راہ پر چل نکلی ہے؟

اس پس منظر میں ہمیں لاہور کے ممتاز وکلاء جناب شہزاد حسن شیخ، سید اسد عباس زیدی، جناب ساجد بشیر شیخ، جناب قاسم حسن بٹر، کامران بشیر مغل، چودھری ندیم احمد اور محترمہ فضائلہ فرحین رانا کے اس بیان سے مکمل اتفاق ہے جو ۱۹ اگست کو ایک قومی اخبار نے ان الفاظ میں شائع کیا ہے کہ:

’’پاکستان میں سزائے موت کو ختم کرنے اور پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد کو روکنے کے لیے انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے صدر کی جانب سے حکومت پاکستان کو لکھے جانے والے خط پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ممتاز وکلاء نے کہا ہے کہ اسلام نے جان کے بدلے جان کا حکم دیا ہے اور قاتل کو سزائے موت دینا فساد فی الأرض کو روکنا ہے اور قرآن ہمیں جان کے بدلے جان اور خون کے بدلے خون کا قانون دیتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی غیر ملکی این جی او، اور غیر اسلامی این جی اوز کے کہنے پر ملک میں سزائے موت ختم کرنا اور پھانسی کی سزا کو روکنا قرآن و حدیث کے منافی اقدام ہوگا جس کی اسلام ہمیں ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرنے والے کا نام ہی مسلمان ہے اور اگر ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی کریں گے تو پھر ہمیں مسلمان کہلوانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لہٰذا ملک سے سزائے موت کو ختم کرنا نہ صرف فساد فی الارض کو تحفظ دینا ہے بلکہ اللہ کے قانون اور شریعت سے انحراف کرنا ہے جو کسی حال میں بھی کسی اسلامی مملکت کو زیب نہیں دیتا۔‘‘

ہماری پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادتوں سے گزارش ہے کہ وہ ’’مولویوں‘‘ کی بات بے شک نہ سنیں کہ اس سے بین الاقوامی چودھریوں کی پیشانیاں شکن آلود ہوجاتی ہیں لیکن جسٹس مشیر عالم اور لاہور کے ممتاز وکلاء کی بات تو کم از کم سن لیں جو ملک کے نظریاتی تشخص کے تحفظ اور فساد فی الارض کو روکنے کی دُھائی دے رہے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter