پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی ان دنوں برطانیہ میں ہیں اور مختلف شہروں میں منعقد ہونے والے دینی و روحانی اجتماعات میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے لندن میں بنگلہ دیش کے بزرگ عالم دین شیخ الحدیث حضرت مولانا عزیز الحقؒ کی تعزیت کے لیے منعقدہ سیمینار میں شرکت کی جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بنگلہ دیش میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے شاگردوں اور معتقدین کا ایک وسیع حلقہ ہے اور مولانا فداء الرحمان درخواستی دوستوں کے تقاضے پر کئی بار بنگلہ دیش کا سفر کر چکے ہیں۔ حضرت مولانا عزیز الحقؒ بھی حضرت درخواستیؒ کے عقیدت مندوں میں سے تھے اور ایک عرصہ تک دینی علوم کی تعلیم و تدریس میں مصروف رہے ہیں۔
۳۰ ستمبر کو برطانیہ کے معروف شہر رچڈیل کی مرکزی جامع مسجد میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کی دینی و علمی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک پروگرام ’’حافظ الحدیث سیمینار‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوا جس کے مہمان خصوصی دارالعلوم دیوبند کے استاذ الحدیث حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم تھے جبکہ سیمینار کی صدارت مولانا فداء الرحمان درخواستی نے کی۔ اس سیمینار میں مولانا محمد یوسف متالا، علامہ ڈاکٹر خالد محمود، مولانا بشیر احمد شاد، مولانا سید صدر الدین شاہ آف بنگلہ دیش، مولانا قاری تصور الحق، مولانا امداد الحسن نعمانی، مولانا حبیب الرحمان، مولانا ریاض الحق گورا، مولانا قاری محمد طیب عباسی، ڈاکٹر محمود چانڈیا، ڈاکٹر اختر الزمان غوری، مولانا محمد قاسم اور دیگر علماء نے خطاب کیا اور کم و بیش پانچ گھنٹے تک یہ پروگرام مسلسل جاری رہا۔
مولانا سید ارشد مدنی نے حضرت درخواستیؒ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ دین کے معاملے میں سہولت پسند اور مصلحت پسند نہیں تھے اور دینی معاملات پر ڈٹ جانے والے بزرگ تھے۔ مولانا مدنی نے دین پور شریف اور حضرت درخواستیؒ کے واقعات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور بتایا کہ ان بزرگوں کا حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت درخواستیؒ جیسے اصحاب عزیمت آج کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور ان کی روایات اور اقدار کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
علامہ ڈاکٹر خالد محمود نے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر کی حیثیت سے حضرت درخواستیؒ کی جدوجہد اور خدمات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور کہا کہ انہوں نے نازک دور میں علماء حق کی حوصلہ مندی کے ساتھ قیادت کی اور دینی جدوجہد کو اکابر کی طرز پر صحیح سمت جاری رکھا۔ علامہ صاحب نے کہا کہ مشرقی اقوام اور مغربی اقوام کے مزاج کا ایک بڑا فرق یہ ہے کہ مشرقی اقوام اپنے بزرگوں کو یاد رکھتی ہیں اور کسی فوت ہونے والے بزرگ کے جنازے کو اپنے کندھے پر اس کے پوتے اور نواسے اٹھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن مغرب میں لوگ ماں باپ کو بوڑھا ہونے پر زندہ ہی اولڈ پیپلز ہوم میں پہنچا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو قومیں اپنے بزرگوں کو یاد رکھتی ہیں وہ ترقی کرتی ہیں اور بزرگوں کو بھول جانے والی قومیں اپنے ماضی سے کٹ جایا کرتی ہیں۔
مولانا فداء الرحمان درخواستی نے کہا کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ دینی جدوجہد کے ہر شعبہ کی سرپرستی کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ دعوت و تبلیغ کا کام بھی ہمارا ہے، نفاذِ شریعت کی جدوجہد بھی ہمارا کام ہے، جہاد کا کام بھی ہمارا ہے، تحفظ ختم نبوت کا کام بھی ہمارا ہے، خانقاہوں کا کام بھی ہمارا ہے، دینی مدارس کا کام بھی ہمارا ہے، ناموس صحابہؓ کے تحفظ کا کام بھی ہمارا ہے اور توحید و سنت کی اشاعت کا کام بھی ہمارا ہے، یہ سب کام ہمارے ہیں اس لیے ہم سب کے ساتھ ہیں اور سب کے لیے دعا گو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت درخواستیؒ کے اس ذوق کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہم سب کو باہمی تعلق و ربط میں اضافہ کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا ذوق و جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔
سیمینار میں بطور خاص اس بات کا تذکرہ کیا گیا کہ حضرت درخواستیؒ ماضی کے ان عظیم محدثین کرامؒ کے اس ذوق اور روایت کی علامت تھے جو لاکھوں احادیث کے حافظ ہوتے تھے اور جنہوں نے حدیث نبویؐ کی ترویج و حفاظت میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ حضرت درخواستیؒ کو ہزاروں احادیث ان کی اسناد کے ساتھ زبانی یاد تھیں جنہیں وہ اکثر بیان کرتے تھے اور ہر مجلس میں ان کی زبان پر کوئی نہ کوئی حدیث نبویؐ ہوتی تھی جس کی وجہ سے انہیں ’’حافظ الحدیث‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا لیکن آج کل یہ ذوق کم ہوگیا ہے۔ حضرت درخواستیؒ کا خصوصی ذوق یہ تھا کہ وہ خلوت و جلوت اور چھوٹے بڑے ہر اجتماع میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و احادیث کو سنایا کرتے تھے اور اپنے سامعین اور تلامذہ کو بھی یاد کرایا کرتے تھے۔ جب وہ وجد کے عالم میں حدیث نبویؐ پڑھتے اور سامعین سے بھی پڑھواتے تو عجیب سا روحانی ماحول بن جاتا تھا اور ہزاروں مسلمان ان کے اس ذوق سے روحانی فیض پاتے تھے۔
سیمینار میں تجویز پیش کی گئی کہ پرانے محدثین کرامؒ اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے اس ذوق کو زندہ رکھنے کے لیے دینی مدارس میں طلبہ کو احادیث یاد کرانے کا بھی اہتمام کیا جائے اور ذوق رکھنے والے طلبہ کو حدیثیں یاد کرنے کی ترغیب دلا کر اس روایت کا تسلسل باقی رکھنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ اس تجویز پر سب سے پہلے رچڈیل کی اسی مرکزی جامع مسجد میں قائم مدرسہ میں ’’بزم حافظ الحدیث‘‘ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا اور طلبہ کی ایک کلاس کو اس مقصد کے لیے پہلا سبق پڑھا کر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ مولانا بشیر احمد شاد نے جو حضرت درخواستیؒ کے خصوصی خدام میں سے تھے، اس تجویز کو انتہائی خوش آئند قرار دیتے ہوئے دینی مدارس پر زور دیا کہ وہ اس کو عملی شکل دینے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دیں۔
مولانا فداء الرحمان درخواستی کو بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے عظیم والد گرامی کی طرح دینی تعلیم کے فروغ اور دینی مدارس کی سرپرستی کے ذوق سے نوازا ہے وہ جہاں پاکستان میں جامعہ انوار القرآن کراچی اور مرکز حافظ الحدیث حسن ابدال سمیت درجن بھر دینی مدارس و مراکز کی عملی سرپرستی کر رہے ہیں وہاں بیرون ملک بھی بہت سے دینی اداروں اور مدارس کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی میں مصروف ہیں۔ کم و بیش ۸۰ برس کے لگ بھگ عمر میں بڑھاپے اور علالت کے باوجود وہ جس طرح دینی کاموں اور مدارس کی خدمت کے لیے متحرک رہتے ہیں وہ یقیناً قابل رشک ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبولیت سے نوازے اور حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے اس فیض کا تسلسل جاری رکھنے میں ان کے پورے خاندان اور متعلقین کی جدوجہد کو کامیابی عطاء فرمائے، آمین یا رب العالمین۔