امریکی صدر، انسانی حقوق اور اقوام متحدہ

   
۱۵ جولائی ۱۹۹۸ء

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر جناب بل کلنٹن نے اپنے حالیہ دورۂ چین کے دوران بیجنگ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق پوری دنیا کے بنیادی حقوق ہیں۔ امریکہ کسی بھی ملک پر اپنے نظریات نہیں ٹھونسنا چاہتا، البتہ کئی حق ایسے ہیں جن کا بین الاقوامی سطح پر احترام کیا جانا چاہیے۔ ہر ملک میں لوگوں کو عزت کے ساتھ رہنے، اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے، اور سیاسی آزادی کا حق ہونے کے ساتھ مذہبی آزادی بھی ہونی چاہیے۔ یہ امریکہ یا یورپ کے حقوق نہیں بلکہ ہر جگہ کے لوگوں کے بنیادی حقوق ہیں۔

ادھر مشرقی امور کے بارے میں امریکی نائب وزیرخارجہ جناب رائیل نیومن نے واشنگٹن میں ’’سی آئی ایس آئی‘‘ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسی موضوع پر اسلام کے حوالہ سے گفتگو کی ہے اور کہا ہے کہ اسلام کے بارے میں امریکہ کو کوئی خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ امریکہ کا داخلی مسئلہ بھی ہے، مسلمان ایک بڑی تعداد میں امریکہ میں رہتے ہیں اور اسلام امریکہ میں تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق اور بعض عالمی اقدار تمام اقوام میں مشترک ہیں، ان میں امریکہ کی اجارہ داری نہیں ہے، البتہ امریکہ ان کا علمبردار ضرور ہے۔

انسانی حقوق کے بارے میں دو ذمہ دار امریکی راہنماؤں کے یہ خیالات امریکی پالیسیوں میں نئے رجحانات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اور صدر کلنٹن نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد نئے حقوق کو تسلیم کر لینے کی جو بات کی تھی شاید اس کی طرف پیش رفت کی کوئی عملی صورت سامنے آتی دکھائی دے رہی ہے۔

اب تک امریکہ کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کی طرف سے کی گئی اس کی تشریحات کو حرف آخر قرار دے کر امریکہ پوری دنیا سے انہیں من و عن تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتا آرہا ہے۔ امریکہ اور روس کے کیمپ کے دیگر ممالک کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات، بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی امداد و تعاون کی پالیسی طے کرنے میں یہی نکتہ محور بنا رہا ہے۔ مگر اب امریکی راہنما کہہ رہے ہیں کہ انسانی حقوق اور عالمی اقدار پر ان کی اجارہ داری نہیں ہے اور وہ کسی ملک پر اپنے نظریات ٹھونسنا نہیں چاہتے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے متعدد اداروں کی قراردادوں کے حوالہ سے انسانی حقوق کا موجودہ فریم ورک جس فلسفۂ حیات کی نمائندگی کرتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ عالم اسلام کے لیے قابل قبول نہیں ہے بلکہ چین بھی اسے پوری طرح تسلیم کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا اور اس کے بارے میں وہ اپنے تحفظات رکھتا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ اب سے نصف صدی قبل جن حالات میں ترتیب پایا تھا وہ آج سے قطعی مختلف حالات تھے۔ پوری دنیا پر مغرب کی اجارہ داری تھی، عالم اسلام کے بیشتر ممالک استعماری قوتوں کے زیر تسلط تھے، اور اس وقت کی عالمی قوتوں نے مشرقی یورپ اور مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی الٹ پلٹ کے ساتھ آپس میں جو بندر بانٹ کر لی تھی اس کے بعد عالم اسلام اجتماعی طور پر کوئی آواز بلند کرنے کے قابل نہیں رہ گیا تھا۔ اسی طرح چین کو بھی عالمی بساط پر کوئی مؤثر حیثیت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے مغربی اقوام نے اپنی اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخصوص فلسفۂ حیات کو انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کی شکل دی اور دنیا کی دیگر بے بس اقوام سے اس پر دستخط حاصل کروا لیے جو اب تک ان قوموں اور ملکوں کے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں۔ اور امریکہ اسی منشور کی آڑ میں دنیا کے جس ملک اور قوم کے خلاف اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کرنا چاہتا ہے، کامیابی کے ساتھ کر لیتا ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ انسانی حقوق کے حوالہ سے مغربی ممالک نے ہمیشہ دہرا معیار رکھا ہے۔ کشمیر، فلسطین، بوسنیا، چیچنیا، اور کوسووو میں انسانی حقوق کی پامالی امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی وہ توجہ کبھی حاصل نہیں کر سکی جو ان کے اپنے مفادات کے علاقوں میں ہمیشہ امتیازی حیثیت کی حامل رہی ہے۔ ہمارے نزدیک انسانی حقوق کا مغربی فلسفہ، اقوام متحدہ کا منشور، اور اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کی قراردادوں کا موجودہ فریم ورک ہی سرے سے متنازعہ ہے۔ مثلاً نکاح و طلاق اور خاندانی نظام کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر نے جو اصول بیان کیے ہیں، قرآنی تعلیمات ان کو قبول نہیں کرتیں۔ اور اس چارٹر کو من و عن قبول کرنے سے کوئی بھی مسلمان فرد، خاندان، یا قوم بنیادی اسلامی تعلیمات سے منحرف قرار پاتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی دفعات اس چارٹر میں ایسی موجود ہیں جو اسلامی احکام و قوانین کی نفی کرتی ہیں۔ اور اب جبکہ عالم اسلام کے بیشتر ممالک آزاد ہو چکے ہیں، ان میں سے بہت سے ملکوں میں اسلامی نظام کے نفاذ اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری کی تحریکات مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں، دنیا کے نقشے پر بہت سی مسلم حکومتوں کے گریز اور تذبذب کے باوجود عالم اسلام ایک واضح بلاک کی شکل اختیار کرتا نظر آرہا ہے، اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد طاقت کے عالمی توازن میں بھی عالم اسلام کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہوگئی ہے۔ اس صورتحال میں اقوام متحدہ کا منشور اور اس کی آڑ میں امریکہ و دیگر مغربی ممالک کا طرز عمل پہلے سے زیادہ متنازعہ ہوتا جا رہا ہے، اور عالم اسلام کی دینی تحریکات اور اسلامی عناصر اس کی مسلسل نفی کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت اب تک جو اقوام متحدہ کے منشور اور اس کے دیگر متعلقات پر دستخط کرنے سے گریزاں ہے اس کا پس منظر بھی یہی ہے۔

تین سال قبل اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقع پر ملیشیا کے وزیراعظم جناب مہاتیر محمد نے مسلم ممالک کو تجویز دی تھی کہ وہ انسانی حقوق کے بارے میں مغربی ممالک کے دہرے معیار اور طرز عمل کے خلاف احتجاج کے طور پر اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کا بائیکاٹ کریں۔ لیکن ایک دو کے سوا کسی مسلم حکومت نے اس تجویز کا مثبت جواب نہیں دیا۔ اس موقع پر جناب مہاتیر محمد نے اقوام متحدہ کے منشور پر نظر ثانی کا مطالبہ بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ بدلتے ہوئے حالات اور نئے عالمی حقائق کے پیش نظر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کو ازسرِنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ مطالبہ بھی صدا بصحرا ثابت ہوا تھا۔

ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے عالمی قوتوں کو گزشتہ نصف صدی کے دوران رونما ہونے والے نئے عالمی حقائق کا احساس دلا دیا ہے اور انہیں یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ جب ظاہری قوت کے اسباب و وسائل پر مکمل کنٹرول اور بھرپور ناکہ بندی کے باوجود ایک مسلم ملک کو ایٹمی قوت بننے سے نہیں روکا جا سکتا تو نظریے اور فلسفے کے محاذ پر مسلم امہ کو شکست دینا کیسے ممکن ہوگا؟ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت اسلامیہ کی عالمی قیادت بھی ان تبدیلیوں کو محسوس کرے اور نئے عالمی حقائق کے ادراک سے پیدا ہونے والی صورتحال سے استفادہ کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔

ہم گزارش کریں گے کہ فوری طور پر اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس طلب کیا جائے جو اقوام متحدہ کے تنظیمی ڈھانچے، انسانی حقوق کے منشور، اور اقوام متحدہ کی پالیسیوں کی موجودہ ترجیحات پر خود نظر ثانی کر کے واضح اور دوٹوک ترامیم اور تجاویز مرتب کرے اور انہیں عالمی ادارے سے تسلیم کرانے کے لیے پورا عالم اسلام متحد ہو جائے۔ کیونکہ اس کے بغیر نئے حالات میں عالم اسلام اپنا عالمی کردار مؤثر طور پر ادا نہیں کر پائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter