گزشتہ دنوں راقم الحروف نے آزادکشمیر میں عدالتی سطح پر شرعی قوانین کے نفاذ کے سلسلہ میں اب تک کی پیش رفت کے حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کی تھیں اور ان میں جمعیۃ علماء اسلام آزاد کشمیر کے سربراہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان آف پلندری کی خدمات کا تذکرہ کیا تھا۔ اس ضمن میں مولانا موصوف کا گرامی نامہ موصول ہوا ہے جس کا اہم حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
’’آزادکشمیر میں اسلامائزیشن کے سلسلہ میں آپ کی تحریر بہت سے احباب نے پسند کی ہے اور اکثر دوستوں نے کہا ہے کہ بہت سے مخفی گوشے اس کالم میں ظاہر ہوئے ہیں، اگر اس میں مناسب اضافہ ہو سکے تو شاید زیادہ بہتر ہو۔ جہاں آزاد کشمیر میں محکمہ قضا اور افتا قائم ہوئے وہاں تمام ضلعی، تحصیل اور مرکزی حکومت کے دفاتر میں روزانہ درس قرآن کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جو روزانہ کی بجائے ہفتہ وار ہوگیا مگر اب اس میں بھی کوتاہی ہو رہی ہے۔ البتہ بہت سی مساجد میں ظہر سے قبل درس قرآن کا سلسلہ قائم ہے جو اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اگر حکومت آزاد کشمیر اس سلسلہ کو مؤثر بنائے اور حسب سابق دفاتر میں اہتمام کیا جائے تو بڑا مفید ہوگا۔ افتا اور قضا میں کوٹہ سسٹم کی وجہ سے کچھ ایسے حضرات آگئے جو کوئی مؤثر کام نہیں کر سکے جس سے ان محکموں کی افادیت متاثر ہو رہی ہے۔ اگر ان محکموں میں صلاحیت اور میرٹ کا لحاظ رکھا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
محکمہ قضا کے قیام کے اسباب میں مولانا عبد العزیز (تھوراڑوی) مرحوم اور جناب چیف جسٹس محمد شریف صاحب جو اس وقت سب جج راولا کوٹ تھے کے درمیان تلخ کلامی میں مولانا نے جو یہ کہا تھا کہ دیکھو یہ شریعت نہیں مانتے، اس سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ محترم سردار محمد شریف صاحب کسی بھی مرحلہ پر واقعی شرعی قوانین نہیں مانتے تھے۔ مولانا کا یہ جواب ان کو خاموش کرانے کے لیے تھا ورنہ سردار صاحب ہمیشہ سے شرعی قوانین کے داعی رہے ہیں، ان کا اعتراض شرعی قوانین کے نفاذ پر نہ تھا بلکہ ان کا اعتراض متوازی عدالتوں کے قیام پر تھا۔ بہرحال یہ واقعہ ہے کہ اس کے بعد حکومت آزاد کشمیر نے علماء آزاد کشمیر سے بات چیت کی اور محکمہ افتا کا قیام عمل میں آیا۔
یہ تو ہوا کہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر قاضیوں کا تقرر ہوا مگر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کسی عالم کے عدم تقرر سے ماتحت قاضیوں کے فیصلے اپیلوں کے مرحلے پر پوری طرح اطمینان بخش نہیں ہو سکتے۔ اس لیے جب سے شریعت ایکٹ نافذ ہوا ہمارا اصرار ہے کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں ایک ایک شریعت بینچ قائم کیا جائے جو فقہ، حدیث اور قرآن کی تعلیمات کے حامل عالم اور ایک جج پر مشتمل ہو۔ اس بارے میں بارہا حکومت آزاد کشمیر سے مطالبہ کیا مگر تاحال اس کی پذیرائی نہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں علمائے کرام کی خدمات ہائیکورٹ (وفاقی شرعی عدالت) اور سپریم کورٹ کو حاصل ہیں جبکہ ماتحت عدالتوں میں اس طرح کا کوئی نظام نہیں ہے، جبکہ آزاد کشمیر میں ماتحت عدالتوں میں تو علمائے کرام کی خدمات حاصل ہیں مگر اوپر کی عدالتوں میں ایسا کوئی نظام نہیں۔
حکومت آزاد کشمیر سے ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ شریعت کو آزاد کشمیر کا سپریم لاء قرار دیا جائے اس لیے کہ جب تک آئین کا قبلہ درست نہیں ہوگا اس طرح کے جزوی قوانین مؤثر نہیں ہو سکتے۔ اس بار سردار عبد القیوم خان صاحب سابق وزیراعظم سے ہمارا معاہدہ بھی ہوا تھا مگر وہ اپنا پیریڈ پورا کر کے چلے گئے اور اس بارے میں کوئی پیش رفت نہ کر سکے۔ موجودہ حکومت سے بات کی اس کے وزیرقانون سے تفصیلی بات ہوئی تھی، وعدہ کیا تھا کہ ہم اس مطالبہ کو ضرور پورا کریں گے مگر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکے۔‘‘
میں مولانا محمد یوسف خان صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے مکتوب میں اس مسئلہ کے چند مزید پہلوؤں کو اجاگر کیا بالخصوص سردار محمد شریف صاحب کے حوالہ سے انہوں نے جو فرمایا ہے وہ بہت زیادہ توجہ طلب مسئلہ ہے۔ کیونکہ ہمارے مروجہ عدالتی سسٹم کے بہت سے جج صاحبان ہر سطح پر ایسے ہیں جو شرعی قوانین کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے نفاذ کے خواہاں ہیں لیکن وہ اپنے حلف اور ضوابط و قواعد کے حوالہ سے مروجہ عدالتی سسٹم کے پابند ہیں، اس لیے عقیدہ اور عقیدت کے باوجود وہ عملاً کچھ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح شرعی قوانین کے نفاذ کی صورت میں مروجہ عدالتی نظام قوانین کے ساتھ ٹکراؤ کو سامنے رکھتے ہوئے اگر وہ کسی الجھن کا اظہار کرتے ہیں تو اسے ان کی طرف سے شرعی قوانین کی مخالفت پر محمول کر لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بعض حضرات تو خلوص اور اصابت رائے رکھنے کے باوجود اہم مسائل پر اپنی رائے ظاہر نہیں کر پاتے۔ دوسری طرف علماء کرام کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنے منصب اور تعلیم و تربیت کے حوالہ سے شرعی قوانین کے نمائندہ متصور ہوتے ہیں اس لیے یہ بات ان کے بس میں نہیں ہوتی کہ شرعی قوانین کے نفاذ اور عملداری کے سلسلہ میں کسی بھی سطح کی رکاوٹ اور اختلاف کو وہ برداشت کر سکیں۔
چنانچہ دونوں طرف کی ان مجبوریوں کی وجہ سے علماء کرام اور مروجہ عدالتی نظام کے جج صاحبان کے درمیان ایک حجاب اور ذہنی خلیج کی سی کیفیت بدستور موجود ہے جو ہمارے نزدیک شرعی قوانین کے نفاذ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف ایک عرصہ سے دونوں طبقوں کی کسی محفل میں اس مسئلہ پر اظہار خیال کا موقع ملنے پر یہ عرض کرتا رہا ہے کہ قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی مہارت رکھنے والے علمائے کرام، جج صاحبان اور وکلاء کو ہر سطح پر مل بیٹھنا چاہیے، مشترکہ محافل کا انعقاد کرنا چاہیے، ایک دوسرے کی مجبوریوں کو سمجھنا چاہیے، قانونی اور آئینی الجھنوں کا شرعی اصولوں کی روشنی میں جائزہ لینا چاہیے، ایک دوسرے کی ضرورت کو محسوس کرنا چاہیے اور نفاذ شریعت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا مل جل کر حل نکالنا چاہیے۔ ورنہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے منہ پھیرتے ہوئے اور ایک دوسرے کی ضرورت سے انکار کرتے ہوئے اسی طرح آمنے سامنے کھڑے رہے تو پاکستان کے معروضی حالات میں شرعی عدالتی نظام کے قیام کا خواب اسی طرح ادھورا رہے گا۔
اس ضمن میں ایک اور غلط فہمی کا تذکرہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض دوست بھولپن کے ساتھ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں ’’خالصتاً علماء‘‘ کی بنیاد پر شرعی عدالتی نظام قائم کیا ہے اسی طرح ہم بھی یہاں کر لیں گے۔ لیکن یہ بات سادگی اور جذباتیت پر مبنی ہے اس لیے کہ افغانستان میں جب طالبان نے اقتدار سنھبالا تو اس وقت ان کے ملک میں ’’نظام‘‘ نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی اور پرانا نظام کھنڈر کی شکل اختیار کر چکا تھا جس پر کسی رکاوٹ کے بغیر انہوں نے نئے نظام کی بنیاد رکھ دی۔ جبکہ پاکستان میں صورتحال قطعی طور پر مختلف ہے یہاں نہ صرف ایک منظم نظام موجود ہے بلکہ اس کی حفاظت کرنے والے طبقات بھی پوری طرح چوکس اور طاقتور ہیں۔ اس نظام سے کسی نئے نظام کے لیے جگہ خالی کرانے کی ایک صورت تو وہی ہے جو افغان مجاہدین نے اختیار کی اور پرانے نظام کو کھنڈر میں تبدیل کرنے کے لیے انہیں پندرہ لاکھ جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ لیکن اگر موجودہ معروضی حالات میں یہ قابل عمل نہ ہو اور راقم الحروف کی دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ یہ راستہ پاکستان میں فی الواقع قابل عمل نہیں ہے، تو پھر دوسری صورت یہی ہے کہ مروجہ نظام میں شامل ان افراد سے راہ و رسم بڑھائی جائے جو اپنی مجبوریوں کے باعث اس سسٹم میں شریک ہیں مگر قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہیں اور شرعی نظام و قوانین کے نفاذ کے خواہاں ہیں اور انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے مروجہ نظام کی بھول بھلیوں سے نکلنے کی راہ تلاش کی جائے۔
ہمارا خیال ہے کہ اوپر کی سطح کو چھوڑ کر مروجہ نظام کے ہر شعبہ کے اہلکاروں کی غالب اکثریت انہی لوگوں پر مشتمل ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں اور ملک میں فی الواقع شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ علماء کرام انہیں شرعی قوانین کا مخالف سمجھنے کی بجائے ان کی مجبوریوں کا خیال کرتے ہوئے ان سے روابط استوار کریں، ان کی فکری و نظریاتی تربیت کریں، انہیں قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلامی نظام کی ضروری باتوں سے آگاہ کریں اور نفاذ اسلام کے حوالہ سے ان کی ذہن سازی کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر نفاذ اسلام کی خواہاں دینی جماعتیں اور مراکز اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کرتے ہوئے صرف پانچ سال کے لیے اس رخ پر محنت کر لیں تو ملک میں ایک خوشگوار انقلاب کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ ایسا انقلاب جس کے لیے خون اور جانوں کی قربانیوں کی شاید ضرورت نہ پڑے۔ البتہ یہ انقلاب علماء کرام اور دینی راہنماؤں سے مصروفیات، ترجیحات، فرقہ وارانہ بالادستی کے رجحان، باہمی معاصرانہ چشمک اور بلاشرکت غیرے ’’قائد انقلاب‘‘ بننے کی خواہش کی قربانی کا ضرور تقاضا کرتا ہے۔ اور جس روز ہماری مذہبی قیادت ان چار پانچ چیزوں کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئی اس روز پاکستان میں اسلامی انقلاب کی راہ ہموار ہو جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔