آکسفورڈ کی مدینہ مسجد میں مغرب کی روشن خیالی کے حوالے سے ہونے والی گفتگو کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے اور برطانیہ سے واپسی پر ہیتھرو ایئر پورٹ پر برطانوی انٹیلی جنس کے ایک افسر کے ساتھ ٹاکرے کا دل چسپ قصہ بھی قارئین کے گوش گزار کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، لیکن اس سے پہلے ایک وضاحت ضروری ہے۔
گزشتہ دنوں ضلع سیالکوٹ میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے آبائی گاؤں چیانوالی میں ان کے آبائی مکان کے خریدے جانے اور اس میں ایک درسگاہ کے قیام کا ذکر کیا تھا اور قارئین کو بتایا تھا کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی جس مکان میں ولادت ہوئی تھی، وہ ان کے غیر مسلم خاندان کے تقسیمِ ہند کے موقع پر بھارت چلے جانے کے باعث انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے ایک مسلمان خاندان کے قبضے میں آ گیا تھا۔ اب اس مہاجر خاندان سے وہ مکان خرید لیا گیا ہے اور اس کی قیمت ہمارے محترم اور مخدوم بزرگ حضرت سید نفیس شاہ صاحب نفیس رقم دامت برکاتہم نے ادا کی ہے۔ حضرت شاہ صاحب کی طرف سے یہ وضاحت کی گئی ہے اور اسے ریکارڈ میں لانا ضروری سمجھا گیا ہے کہ اس مکان کی رقم انہوں نے نہیں دی، بلکہ ”خانقاہ سید احمد شہیدؒ“ لاہور کی طرف سے ادا کی گئی ہے۔ سید احمد شہیدؒ برصغیر کے نامور صوفیاء اور مجاہدین میں سے ہیں، جنہوں نے ۱۸۳۰ء میں شاہ اسماعیل شہیدؒ کے ساتھ مل کر تحریک آزادی کی مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور پشاور کے صوبے پر قبضہ کر کے کم و بیش چھ ماہ تک امیر المؤمنین کی حیثیت سے حکومت کرنے کے بعد چھ مئی ۱۸۳۱ء کو بالا کوٹ ہزارہ میں جام شہادت نوش کر گئے تھے۔ جبکہ حضرت سید نفیس شاہ صاحب نے، جو جنوبی ایشیا کے معروف روحانی پیشوا حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلفاء میں سے ہیں اور خود بھی بلند پایہ روحانی شخصیت ہیں، لاہور میں دریائے راوی پر واقع سکیاں پل سے شیخوپورہ کی طرف جاتے ہوئے کم و بیش ایک کلومیٹر کے فاصلے پر حضرت سید احمد شہیدؒ کی یاد میں ”خانقاہ سید احمد شہیدؒ“ کے نام سے ایک روحانی مرکز قائم کیا ہے، جس میں ان کے متوسلین خانقاہی نظام کے مطابق ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ کا ذکر سیکھتے ہیں اور اپنے قلب و باطن کی اصلاح کا اہتمام کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب کا ارشاد گرامی ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا آبائی مکان خانقاہ سید احمد شہیدؒ کی طرف سے خریدا گیا ہے اور خانقاہ ہی کے تحت وہاں ایک مسجد اور دینی درس گاہ کے قیام کا پروگرام بنایا گیا ہے۔
آکسفورڈ کی مدینہ مسجد میں ”مغرب کی روشن خیالی“ کے بارے میں جو گفتگو ۸ جنوری ۲۰۰۷ء کو ہوئی، اس کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا چکا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ اس حوالے سے ہے کہ مغرب نے جن معاشرتی اقدار کو دوبارہ زندہ کیا ہے اور جنہیں پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے مغرب اپنے پورے وسائل اور توانائیاں صرف کر رہا ہے، وہ دراصل وہی جاہلی اقدار ہیں، جنہیں اسلام نے چودہ سو سال قبل دور جاہلیت کی قدریں قرار دے کر مسترد کر دیا تھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں یہ تاریخی اعلان فرما کر ان اقدار سے بیزاری کا اظہار فرمایا تھا کہ ’’آج جاہلیت کی تمام قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں‘‘، بلکہ بعض حوالوں سے اس دور کی جاہلیت یعنی ابوجہل اور ابولہب کی جاہلیت آج کی جاہلیت جدیدہ سے بہتر معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً سیکس کے فری ہونے کا مسئلہ وہاں بھی تھا اور آج بھی اس کے فری ہونے پر سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے، مگر ڈیڑھ ہزار سال قبل کے دور جاہلیت میں سیکس کے کئی راستے کھلے رکھنے کے باوجود کسی بچے کی ولادت پر اس کے نسب اور اس کی کفالت کی ذمہ داری کے تعین کا سسٹم موجود تھا اور کوئی بچہ بغیر باپ کے نہیں رہ پاتا تھا۔
اس دور جاہلیت میں بچے کے نسب اور کفالت کے تعین کا سسٹم تھا جس کی موجودگی میں کوئی بچہ لاوارث یا سنگل پیرنٹ نہیں ہوتا تھا، لیکن آج کی جدید جاہلیت اس کے نتائج سے نمٹنے کا کوئی نظام وضع نہیں کر سکی اور سنگل پیرنٹ کا قانون طے کر کے اس نے نسب اور کفالت کی ذمہ داری کا سرے سے پتہ ہی کاٹ دیا ہے اور سیکس کے جس عمل میں مرد اور عورت دونوں برابر کے شریک تھے، اس کے نتائج بھگتنے کے لیے عورت کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ نتائج تنہا عورت کو بھگتنا ہوتے ہیں جسے عورت کے حقوق اور اس کی آزادی اور مرد و عورت کی مساوات کا نام دے دیا گیا ہے۔
اس پر مجھے محترمہ ہیلری کلنٹن کی ایک بات یاد آ گئی۔ جب وہ امریکہ کی خاتون اول تھیں، اسلام آباد کے دورے پر تشریف لائیں اور ایک گرلز کالج کے دورے کے موقع پر انہوں نے سیکنڈ ایئر کی ایک پاکستانی طالبہ سے پوچھا کہ یہاں کالج کی طالبات کو کیا مسائل درپیش ہوتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ہمیں معیاری لائبریریاں اور لیبارٹریاں میسر نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے ہم ریسرچ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ اس لڑکی نے امریکہ کی خاتون اول سے سوال کیا کہ امریکہ میں کالج کی طالبات کو کیا مسائل درپیش ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کالج تک پہنچتے پہنچتے بہت سی لڑکیوں کی گود میں بچہ ہوتا ہے جس کا کوئی ذمہ دار نہیں ہوتا اور وہ مصیبت میں پڑی ہوتی ہے کہ اس بچے کی پرورش کرے یا تعلیم حاصل کرے۔
اس سے آپ اندازہ کر لیجیے کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل کے دور جاہلیت کے فری سیکس اور آج کی دور جاہلیت کے فری سیکس میں کیا فرق ہے؟ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق مانع حمل ادویات اور اسقاط حمل کی تمام تر سہولتوں کے باوجود جو بچے پیدا ہو رہے ہیں، ان میں سے گزشتہ سال چالیس فیصد بچے بغیر شادی کے پیدا ہوئے۔
اسلام نے اسی وجہ سے نکاح کے سوا جنسی تعلق کی تمام صورتوں کو ناجائز قرار دیا ہے اور زنا کے حوالے سے انتہائی سختی کی ہے کہ اس کے بغیر نسب، کفالت اور خاندان کا نظام ہی باقی نہیں رہتا۔
برطانیہ کے حالیہ سفر کے دوران نوٹنگھم سٹی پولیس کے چیف سے گفتگو کی رپورٹ گزشتہ ایک کالم میں قارئین کے سامنے رکھ چکا ہوں، اب ایک اور پولیس افسر کے ساتھ گفتگو کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
۱۰ جنوری کی شام ہیتھرو ایئر پورٹ سے میری گلف ایئر کی قطر اور اسلام آباد کے لیے پرواز تھی۔ میں احتیاطاً اڑھائی گھنٹے پہلے ایئر پورٹ پہنچ گیا، مگر بورڈنگ کارڈ حاصل کرنے کے بعد سیکیورٹی چیکنگ کے لیے لائن اتنی لمبی تھی کہ بمشکل سوا گھنٹے میں اس مرحلے سے گزر سکا اور جب سیکیورٹی چیکنگ سے گزر کر لاؤنج کی طرف جانے لگا تو ایک صاحب نے مجھے روک کر ایک طرف کر لیا اور کہا کہ میں پولیس آفیسر ہوں اور میرا تعلق انٹیلی جنس سے ہے، میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا فرمائیے! اس نے میرا پاسپورٹ چیک کیا، نام وغیرہ پوچھا اور دریافت کیا کہ میں کب آیا تھا اور کیوں آیا تھا؟
میں نے کہا کہ کم و بیش نو دن قبل آیا ہوں اور دوستوں سے ملنے کے لیے آیا ہوں۔
پوچھا کہاں ٹھہرے ہوئے تھے؟
میں نے ساؤتھ آل کے ایک دوست کا ایڈریس بتایا، جہاں میں اکثر ٹھہرتا ہوں۔
پوچھا ان سے کیا تعلق ہے؟
میں نے کہا میرے دوست ہیں۔
سوال کیا کہ دوستی کیسے ہوئی؟
میں نے جواب دیا کہ میرے شہر گوجرانوالہ کے ہیں۔
پوچھا کہ کب سے یہاں آ رہے ہو؟
میں نے کہا کہ ۱۹۸۵ء میں پہلی بار آیا تھا اور اس کے بعد کم و بیش ہر سال آتا ہوں اور کسی سال میں دو بار بھی آنا ہو جاتا ہے۔
پوچھا کہ تمہاری جیب میں کتنے پیسے ہیں؟
میں نے بتایا کہ چند سو پاؤنڈ ہیں۔
پوچھا کس نے دیے ہیں؟
میں نے کہا دوستوں نے دیے ہیں۔
سوال کیا کہ ساؤتھ آل کے علاوہ بھی کہیں گئے تھے؟
میں نے جواب دیا کہ برمنگھم، نوٹنگھم، آکسفورڈ وغیرہ گیا ہوں۔
سوال ہوا وہاں کس کے پاس گئے تھے؟
میں نے کہا دوستوں کے پاس گیا تھا۔
ایک سوال یہ تھا کہ گوجرانوالہ میں کیا کرتے ہو؟
میں نے کہا کہ مذہبی ٹیچر ہوں۔
سوال کیا کہ کیا مسجد میں امامت بھی کرتے ہو؟
میں نے جواب دیا کہ ہاں کرتا ہوں۔
سوال ہوا کہ کتنے عرصے سے امام ہو؟
میں نے جواب دیا کہ کم و بیش چھتیں برس ہو گئے ہیں۔
سوال کیا کہ تمہارے پاس اس کے سوا کوئی اور رقم بھی ہے؟
میں نے جواب دیا کہ ہاں! ایک دوست نے گوجرانوالہ میں اپنے بیمار بھائی کے لیے کچھ رقم دی ہے جو ایک لفافے میں الگ سے بند ہے اور اس کی مقدار مجھے معلوم نہیں ہے۔ اس نے وہ لفافہ میرے بیگ سے نکلوا کر دیکھا، جس پر بھیجنے والے اور جس کو بھیجا گیا تھا دونوں کا نام لکھا ہوا تھا۔
اس سوال و جواب کے دوران وہ میرا ٹکٹ اور پاسپورٹ لے کر کسی آفس میں چلا گیا اور مجھے وہیں انتظار کرنے کے لیے کہا۔ خاصی دیر گزر گئی اور مجھے خدشہ ہونے لگا کہ کہیں میری فلائٹ ہی نہ اڑ جائے۔ خدا خدا کر کے فلائٹ کی روانگی کے وقت سے تھوڑی دیر پہلے وہ صاحب تشریف لائے اور چند مزید سوالات کے بعد تعاون پر میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاسپورٹ اور ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا اور میں جہاز کی روانگی سے قبل اس میں پہنچنے میں کامیاب ہو سکا۔