امامِ حرم شیخ عبد الرحمٰن السدیس کا علماء سے خطاب

   
۷ جون ۲۰۰۷ء

برطانیہ کے دورہ کے تاثرات کے بعض حصے باقی ہیں، لیکن ان سے پہلے امام حرمِ مکہ سماحۃ الشیخ عبد الرحمٰن السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ کی تشریف آوری کا تذکرہ ضروری ہے۔ امام موصوف کا شمار عالمِ اسلام کے ممتاز اصحابِ علم میں ہوتا ہے اور وہ صرف قرآن کریم کو اچھا پڑھنے میں ہی ممتاز نہیں ہیں، بلکہ علومِ قرآن کریم اور سنت نبویہ علی صاحبہا التحیۃ و السلام کے فہم میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اسلامی شریعت میں دکتورہ (پی ایچ ڈی) کیا ہے اور حرمِ مکہ میں ان کے خطبات علم و فکر اور فہم و دانش کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ وہ مغرب کی ثقافتی یلغار سے نہ صرف واقف نہیں، بلکہ اس حوالے سے عالمِ اسلام کی رہنمائی بھی مسلسل کرتے رہتے ہیں اور ہمیں وقتاً فوقتاً ان کے ارشادات سے استفادہ کا موقع ملتا رہتا ہے۔

جامعہ اشرفیہ لاہور کی دعوت پر ان کی تشریف آوری کے بارے میں معلوم ہوا تو خوشی ہوئی، دل میں ان کی زیارت کا اشتیاق تھا کہ برادرم مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کا فون آ گیا کہ امامِ حرم کے ساتھ پنجاب قرآن بورڈ کی ایک نشست طے پا گئی ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب قرآن بورڈ کے سرپرست کے طور پر وزیر اعلیٰ ہاؤس میں تقریب کا اہتمام کر لیا ہے۔ میں نے اسے غنیمت سمجھا، کیونکہ میں بھی پنجاب قرآن بورڈ کا رکن ہوں، اس لیے وہاں حاضر ہو گیا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرحمٰن السدیس کی اقتدا میں حرمِ پاک میں نماز تو متعدد بار پڑھی ہے، مگر ان کی زیارت، ملاقات اور براہ راست گفتگو سننے کا موقع پہلی بار ملا اور قاری محمد حنیف جالندھری نے اسٹیج پر بلا کر شیخ کے ساتھ مصافحہ اور مختصر تعارف کی سعادت سے بھی بہرہ ور کر دیا۔ اس نشست میں امام حرم کی گفتگو قرآن کریم کے حقوق کے حوالے سے تھی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس پاک کتاب کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کی بطورِ خاص تلقین کی کہ ہمیں کلام الٰہی کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے۔

جب انہیں بتایا گیا کہ پنجاب قرآن بورڈ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی خصوصی توجہ سے قائم ہوا ہے اور اس کے اہداف میں قرآن کریم کی عمدہ طباعت اور قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو احترام کے ساتھ ری سائیکلنگ کے ذریعے قرآن کریم کی طباعت کے لیے دوبارہ قابل استعمال بنانے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے علوم کی اشاعت و ترویج بھی شامل ہے تو انہوں نے اس پر بے حد خوشی کا اظہار کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اس باوقار تقریب میں پنجاب قرآن بورڈ کے ارکان کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام، اعلیٰ صوبائی حکام اور مختلف اضلاع کے ناظمین اور صوبائی وزراء کو بھی جمع کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ میں ان میں سے اکثر حضرات کو تو نہیں پہچانتا تھا، لیکن اسٹیج کے سامنے پہلی صف میں پنجاب کے چیف سیکرٹری سلمان صدیقی اور آئی جی پنجاب پولیس چودھری احمد نسیم کو دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ پہلی دو صفیں کس سطح کے حضرات پر مشتمل ہوں گی۔ بہرحال چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ پنجاب قرآن بورڈ کے چیئرمین مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور صوبائی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ سید سعید الحسن شاہ نے امامِ حرم کے اعزاز میں ایک منتخب اور باوقار تقریب کا اہتمام کر کے بہت سے ایسے حضرات کی امام حرم کے ساتھ ملاقات اور ان کی زیارت و ارشادات سے مستفید ہونے کی صورت نکال دی جو شاید عام حالات میں یہ سعادت حاصل نہ کر پاتے اور اس پر یہ تینوں حضرات مبارک باد اور شکریہ کے مستحق ہیں۔

ابھی اس ملاقات کا نشہ ذہن پر طاری تھا کہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے فون پر ایک اور مژدہ سنایا کہ فضیلۃ الشیخ عبد الرحمٰن السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی ایک نشست بھی طے ہو گئی ہے جو تین جون کو مغرب کی نماز کے بعد پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ہو گی، امامِ حرم اس نشست کے شرکاء کو مغرب کی نماز پڑھائیں گے اور اس کے بعد ان کے ساتھ وفاق المدارس کی نشست ہو گی۔ چنانچہ تین جون کو مغرب کی اذان کے وقت جب میں اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں پہنچا تو وہاں صورتحال یہ تھی کہ گیٹ بند کیے جا چکے تھے اور باہر علماء کرام کا رش تھا جو اندر جانا چاہتے تھے کہ امامِ حرم کی اقتدا میں نماز ادا کر سکیں، مگر سیکیورٹی حکام کی اپنی مجبوریاں تھیں کہ وہ ہر ایک کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر میں بھی پریشان ہو گیا کہ اذانیں ہو رہی ہیں، کہیں اندر جانے کی کوشش میں امامِ حرم کی اقتدا میں نماز ادا کرنے سے ہی محروم نہ ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہیں کہ اسی دوران چودھری پرویز الٰہی کی ٹیم کے ایک صاحب نے، جو گاڑی پر اندر جا رہے تھے، مجھے دیکھ کر پہچان لیا اور گاڑی روک کر مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا، جس کی وجہ سے میں بروقت اس ہال میں پہنچ گیا جہاں صفیں باندھی جا چکی تھیں اور شیخ عبد الرحمٰن السدیس نماز شروع کرنے والے تھے۔ بحمد اللہ تعالیٰ صفِ اول میں اس طرح جگہ مل گئی کہ مولانا گل نصیب خان کو تھوڑا سا تنگ کر کے میں ان کے ساتھ صف میں گھس گیا اور مغرب کی نماز ہم نے شیخ السدیس کی اقتدا میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کر لی۔

نماز کے بعد دوسرے ہال میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی تقریب کا آغاز ہوا۔ اسٹیج پر امام حرم کے ساتھ وفاق کے سربراہ مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر دامت برکاتہم، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم ، وفاق کے ناظم اعلیٰ برادرم مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور دیگر حضرات تشریف فرما تھے، جبکہ سامنے ملک بھر سے آئے ہوئے سینکڑوں علماء کرام اور دینی رہنما موجود تھے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہو رہی تھی کہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اتنے تھوڑے عرصہ میں کراچی سے گلگت اور پلندری سے پشاور تک کے سینکڑوں علماء کرام کو کیسے جمع کر لیا ہے؟ بہرحال ان کی ہمت اور مستعدی کی داد دینا پڑتی ہے، جس میں ان کے رفقاء بھی شامل ہیں کہ عرصہ کے بعد دیوبندی علماء کرام کا ایسا منتخب اور پرجوش اجتماع دیکھنے میں آیا۔

مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر اور مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے عربی میں وفاق المدارس العربیہ کا تعارف کراتے ہوئے اس کی اہم سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی اور معزز مہمان کو خوش آمدید کہا، جبکہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اردو میں وفاق کی سرگرمیوں کی تفصیلات پیش کیں۔ اس موقع پر معزز مہمان کو بتایا گیا کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی بنیاد ۱۳۷۹ھ میں مولانا خیر محمد جالندھری رحمہ اللہ، مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمہ اللہ، مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ، مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ اور دیگر اکابر کی مساعی سے رکھی گئی تھی اور اب تک اس میں کم و بیش گیارہ ہزار کے لگ بھگ مدارس شامل ہو چکے ہیں، جن میں سترہ لاکھ کے قریب طلبہ اور طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جبکہ پینتالیس ہزار سے زیادہ حفاظ، چھیالیس ہزار سے زیادہ فاضلین اور تیس ہزار کے لگ بھگ فاضلات اب تک تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔ ہمارے فاضل دوست اور تبلیغی جماعت کے عالمی مبلغ مولانا محمد طارق جمیل نے، جو تعلیم و تدریس کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور متعدد معیاری دینی مدارس چلا رہے ہیں، اپنی مسجع اور مقفیٰ عربی میں معزز مہمان کا پرجوش انداز میں خیر مقدم کر کے محفل میں خاصی گرم جوشی پیدا کر دی، جس سے معزز مہمان بھی محظوظ ہوئے۔

تقریب میں متعدد وفاقی وزراء بھی موجود تھے، جن میں محمد اعجاز الحق اسٹیج اور ڈاکٹر عامر لیاقت سامنے پہلی نشست پر تشریف فرما تھے۔ مفکر اسلام مولانا مفتی محمود قدس سرہ العزیز کے فرزند مولانا عطاء الرحمٰن اور سینیٹر مولانا گل نصیب خان بھی پہلی صف میں موجود تھے۔ اس موقع پر تحائف کا بھی تبادلہ ہوا اور امامِ حرم نے وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق کو بطور خاص خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا بطور تحفہ پیش کیا اور وفاق کے رہنماؤں کو تحائف عطا فرمائے۔ وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے ارکان کو شیخ السدیس نے اپنے تلاوت کردہ قرآن کریم کی کیسٹوں کا ایک ایک سیٹ اور اپنے خطبات کا مطبوعہ مجموعہ پیش کیا۔

  • شیخ عبد الرحمٰن السدیس نے اپنے خطاب میں علماء کرام کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور اس بات پر بطور خاص زور دیا کہ فقہی اور فروعی اختلافات کو ان کے اصل درجہ میں رکھا جائے اور انہیں نزاع اور خلاف کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
  • انہوں نے کہا کہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اور دوسرے سب فقہائے کرام ہمارے بزرگ اور مقتدا ہیں، ان کی فقہیں قرآن و سنت سے مستفاد ہیں اور ہم ان کا احترام بھی کرتے ہیں اور ان سے رہنمائی بھی حاصل کرتے ہیں۔
  • انہوں نے کہا کہ ان فقہاء کی بے احترامی اور توہین وہی شخص کر سکتا ہے کہ جو قاصر العلم ہو اور عقل سے عاری ہو۔ تمام فقہاء اور مجتہدین کا احترام واجب ہے اور ہمیں ان سب سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
  • انہوں نے اس سلسلے میں حوالہ دیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک ہی مسئلہ کے مختلف فقہی پہلوؤں پر بیک وقت عمل کرتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی پر نکیر نہیں فرماتے تھے۔ مثلاً بنو قریظہ کے ساتھ جنگ کے لیے جاتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا کہ جلدی وہاں پہنچو اور عصر کی نماز وہیں ادا کرو۔ اس پر بعض صحابہ کرامؓ نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تاخیر ہو جانے کے باوجود بنو قریظہ میں پہنچ کر نماز ادا کی، جبکہ بعض نے راستہ میں نماز قضا ہو جانے کے خوف سے وہاں پہنچنے سے پہلے ادا کر لی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کچھ نہیں کہا۔
  • انہوں نے کہا علماء کرام کی قدر دانی، احترام اور ان سے رہنمائی حاصل کرنا مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے اور انہیں ان کی ناقدری اور توہین سے بچنا چاہیے، جبکہ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت مسلمہ کی صحیح رہنمائی کریں، قرآن و سنت کی تعلیمات سے انہیں آگاہ کریں اور اپنے عمل اور کردار کے حوالہ سے ان کے لیے اسوہ اور قدوہ ثابت ہوں۔ علماء کرام کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے اور انہیں اپنے عمل اور کردار میں دوسروں کے لیے نمونہ ہونا چاہیے۔
  • انہوں نے کہا کہ کفر کا ہر دور میں یہ ایجنڈا رہا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے ہٹا دے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو مٹا دے، لیکن قرآن و سنت کی تعلیمات اسی طرح فطرت ہیں جس طرح پانی اور ہوا انسان کی فطری ضرورت ہیں، اس لیے اسلامی تعلیمات کو کبھی مٹایا نہ جا سکے گا۔
  • امامِ حرم نے کہا کہ علماء کرام کو حکمرانوں کے سامنے بات صحیح اور حق کرنی چاہیے، مگر لہجہ اور زبان کو نرم رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا تھا تو تلقین فرمائی تھی کہ بات نرمی سے کرنا، ہو سکتا ہے وہ نصیحت حاصل کر لے۔

امامِ حرم شیخ عبد الرحمٰن السدیس کے پرمغز خطاب کے صرف چند نکات پیش کر سکا ہوں، اگر وفاق المدارس العربیہ کی جانب سے اس خطاب کا متن اردو ترجمہ کے ساتھ شائع کیا جا سکے تو زیادہ مناسب رہے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter