تمام علوم دینیہ کا سرچشمہ حدیث نبویؐ ہے

   
تاریخ: 
۳۱ اگست ۲۰۱۲ء

رمضان المبارک اور عید الفطر کی مصروفیات ختم ہونے کے ساتھ ہی دینی مدارس میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کی تیاری شروع ہوگئی ہے اور بعض مدارس اپنی سرگرمیوں کا آغاز بھی کر چکے ہیں۔ گزشتہ روز محلہ رسول پورہ گوجرانوالہ کے مدرسہ آسیہ للبنات میں بخاری شریف کے سبق کا آغاز تھا، اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ دینی مدارس میں نئے تعلیمی سال کی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور آج آپ کے مدرسہ میں اسی سلسلہ میں یہ تقریب ہے۔ دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں قرآن کریم، حدیث و سنت اور فقہ اسلامی علوم مقصودہ ہیں جنہیں ’’علوم عالیہ‘‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ جبکہ باقی علوم و فنون مثلاً صرف و نحو، لغت، ادب، معانی اور منطق وغیرہ ان علوم تک رسائی کا ذریعہ ہیں اور ان کے ذریعے علوم عالیہ کو سمجھنے کی صلاحیت و استعداد پیدا کی جاتی ہے، اس لیے یہ ’’علوم آلیہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ علومِ عالیہ تو وحی اور اس سے استنباط کی بنیاد پر ہر دور میں یکساں رہے ہیں اور ہمیشہ وہی رہیں گے، لیکن علومِ آلیہ میں وقت گزرنے کے ساتھ زمانے اور حالات کے مطابق ردوبدل ہوتا آرہا ہے اور آئندہ بھی اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔

آج چونکہ ہم بخاری شریف کے سبق کا آغاز کر رہے ہیں اس لیے حدیث نبویؐ اور بخاری شریف کے حوالہ سے میں کچھ معروضات پیش کروں گا تاکہ بچیوں کے ذہن میں ہو کہ وہ کونسے علم کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں؟ اور جو کتاب انہوں نے آج شروع کی ہے اس کا درجہ و مقام کیا ہے؟ جہاں تک حدیث نبویؐ کا تعلق ہے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ یہ تمام علوم دینیہ کا ماخذ اور سرچشمہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی ہر بات ہمیں حدیث کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، حتٰی کہ قرآن کریم بھی ہمیں حدیث نبویؐ کے واسطے سے ملا ہے۔ مثلاً ہمارا یقین ہے کہ قرآن کریم کی ابتدائی پانچ آیات سورۃ العلق کی پہلی آیات ہیں جنہیں نزولی اعتبار سے قرآن کریم کی پہلی آیات کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ آیات ہم تک غار حرا کے واقعہ کی روایات کے ذریعے پہنچی ہیں جو حدیث کہلاتی ہیں۔ اگر غار حرا کے واقعہ پر ایمان ہو تو پہلی وحی پر ایمان بنتا ہے ورنہ اس پہلی وحی تک رسائی کے لیے ہمارے پاس اور کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بات ہم مانتے ہیں کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات منسوخ ہو گئی تھیں جو تلاوت میں تو موجود ہیں مگر حکماً منسوخ ہو چکی ہیں۔ یہ ساری تفصیلات ہمیں حدیث نبویؐ سے ملتی ہیں، اگر حدیث نبویؐ موجود نہ ہو تو یہ معلومات کسی اور ذریعے سے ہمیں حاصل نہیں ہو سکتیں۔

اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے علاوہ بھی اللہ تعالٰی کے سینکڑوں ارشادات بیان فرمائے ہیں جو ’’احادیث قدسیہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ آنحضرتؐ ’’قال اللہ تعالٰی‘‘ اور ’’یقول اللہ تعالٰی‘‘ کے ساتھ اللہ تعالٰی کے بہت سے ارشادات روایت کرتے ہیں لیکن وہ قرآن کریم کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ فرق بھی ہمیں حدیث نبویؐ کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ نے ’’قال اللہ تعالٰی‘‘ کے عنوان کے ساتھ جو ارشادات ربانی بیان فرمائے ہیں ان میں سے کون سا ارشاد قرآن کریم کا حصہ ہے اور کون سا ارشاد ’’حدیث قدسی‘‘ کے دائرے میں آتا ہے۔ اسی بنا پر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ حدیث نبویؐ تمام علوم دینیہ کا ماخذ اور سرچشمہ ہے۔ اسی سے ہمیں قرآن کریم کے بارے میں ضروری معلومات ملتی ہیں، اسی سے ہمیں سنت ملتی ہے اور اسی کے ذریعے ہماری فقہ تک رسائی ہوتی ہے۔

بخاری شریف احادیث نبویہؐ کا سب سے مستند مجموعہ ہے جسے اللہ تعالٰی نے امت مسلمہ میں وہ قبولیت عطا فرمائی ہے جو حدیث کے دوسرے مجموعوں کو حاصل نہیں ہوئی اور اس میں امام بخاریؒ کے خلوص، محنت اور للّٰہیت کے ساتھ ساتھ بخاری شریف کی جامعیت کا بھی دخل ہے کہ امام بخاریؒ نے اس میں بہت سے علوم کو یکجا کر دیا ہے۔ عام طور پر بخاری شریف کو حدیث کی کتاب سمجھ کر پڑھایا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر یہ حدیث ہی کی کتاب ہے لیکن امام بخاریؒ نے اس میں تفسیر قرآن کریم کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کر دیا ہے۔ بخاری شریف کے باب ’’کتاب التفسیر‘‘ سے قطع نظر عام تراجم ابواب میں بھی قرآن کریم کی آیات و الفاظ کی تفسیر و تشریح کا بے پناہ ذخیرہ موجود ہے۔ اس کے ساتھ یہ فقہ و استنباط کی کتاب ہے کہ اس میں امام بخاریؒ نے قرآن کریم کی آیات اور احادیث نبویہؐ سے استنباط کا جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ امام موصوف کے مجتہدانہ مقام اور علمی کمال کا ایک مستقل باب ہے۔ پھر امام بخاریؒ محدث، مجتہد اور مفسر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ مؤرخ بھی ہیں اور انہوں نے اہم تاریخی واقعات کو جس ذوق اور اہتمام کے ساتھ بیان کیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔

میرا عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بخاری شریف کو پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے یہ ساری باتیں ذہن میں رہیں گی تو اس سے صحیح استفادہ ہو سکے گا، اس لیے بخاری شریف پڑھانے والے اساتذہ اور پڑھنے والے طلبہ و طالبات سے گزارش کر رہا ہوں کہ وہ حدیث، فقہ ، تفسیر اور تاریخ کی اس عظیم کتاب کو اس کے موضوعات کے وسیع تر تناظر میں پڑھنے کی کوشش کریں تاکہ ہم علوم کے اس ذخیرے سے کماحقہ استفادہ کر سکیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲ ستمبر ۲۰۱۲ء)
2016ء سے
Flag Counter