اجتہاد اور اس کے راہنما اصول

   
یکم اپریل ۱۹۹۹ء

اجتہاد کا لغوی معنٰی کوشش کرنا ہے۔ اور شرعاً ’’اجتہاد‘‘ اس کوشش کو کہتے ہیں جو کوئی مجتہد سطح کا عالم دین کسی ایسے دینی مسئلہ کا حکم معلوم کرنے کے لیے کرتا ہے جس میں قرآن و سنت کا کوئی واضح حکم موجود نہ ہو۔ یہ شریعت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضہ ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی ترغیب دی ہے۔ آپؐ نے معروف صحابی حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو اس موقع پر ان سے انٹرویو لیا جسے حدیث کی بہت سی کتابوں میں نقل کیا گیا ہے۔

رسول اللہؐ نے معاذ بن جبلؓ سے پوچھا کہ تمہارے سامنے کوئی معاملہ پیش ہو تو فیصلہ کیسے کرو گے؟ جواب دیا کہ قرآن کریم کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ رسول اکرمؐ نے سوال کیا کہ اگر کتاب اللہ میں کوئی حکم نہ ملا تو پھر کیا کرو گے؟ جواب دیا کہ آپؐ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ نبی کریمؐ نے پھر دریافت کیا کہ اگر میری سنت میں بھی کوئی حکم نہ ملا تو پھر کیا کرو گے؟ جواب دیا کہ پھر میں اپنی طرف سے کوشش (اجتہاد) کروں گا اور صحیح فیصلہ تک پہنچنے میں کوئی کوتاہی روا نہیں رکھوں گا۔ اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر حضرت معاذ بن جبلؓ کے جواب کی توثیق و تصویب فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کے نمائندہ کو اسی بات کی توفیق عطا فرمائی ہے جس کو اللہ تعالیٰ خود پسند فرماتے ہیں۔ تو گویا آنحضرتؐ نے اہل علم کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ جس مسئلہ میں قرآن کریم اور سنت رسولؐ کا حکم واضح نہ ہو اس میں وہ اپنے علم کی بنیاد پر رائے قائم کریں اور اس کے مطابق فیصلہ دے دیں۔

اجتہاد خود جناب نبی اکرمؐ بھی کیا کرتے تھے کہ اگر کسی مسئلہ میں وحی نازل نہیں ہوتی تھی اور فیصلہ کرنا ضروری ہو جاتا تو اپنی صوابدید پر فیصلہ فرما دیا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ وحی جاری تھی اور بعض فیصلوں پر اللہ رب العزت کی طرف سے گرفت بھی ہو جاتی تھی جن میں سے کچھ کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے، اس لیے رسول اللہؐ کے کسی اجتہادی فیصلہ کے بعد اس کے خلاف وحی نازل نہ ہونے کی صورت میں بارگاہ ایزدی سے اس کی توثیق و تصدیق ہو جاتی تھی۔ اور اس خاموش توثیق کے ساتھ حضورؐ کے فیصلوں کو وحی کی حیثیت حاصل ہو جاتی تھی اور اسی وجہ سے حدیث و سنت کو ’’وحی حکمی‘‘ شمار کیا جاتا ہے۔

حضرات صحابہ کرامؓ کا معمول یہ تھا کہ قرآن کریم اور سنت نبویؐ میں کوئی فیصلہ واضح نہ ہوتا تو وہ اجتہاد کرتے تھے۔ اور حضرات صحابہ کرامؓ میں ایسے بزرگوں کی بڑی تعداد موجود تھی جو اجتہاد کر کے فتویٰ دیتے تھے اور ان کا فتویٰ تسلیم کیا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو وہ کتاب اللہ میں اس کا حکم تلاش کرتے تھے اور اس کے مطابق فیصلہ کر دیتے تھے۔ اگر کتاب اللہ میں حکم نہ ملتا تو رسول اللہؐ کی سنت میں حکم معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر انہیں خود کوئی ایسی سنت یاد نہ ہوتی تو صحابہ کرامؓ سے دریافت کرتے تھے کہ انہیں اس کے بارے میں رسول اللہؐ کا کوئی ارشاد معلوم ہو تو بتائیں۔ اور اس طرح کوشش کے بعد بھی اگر رسول اکرمؐ کا کوئی فیصلہ نہ ملتا تو پھر سرکردہ اور صالح افراد کو جمع کر کے مشورہ کرتے تھے اور اس کی روشنی میں فیصلہ فرما دیتے تھے۔

صحابہ کرامؓ چونکہ براہ راست درسگاہ نبویؐ سے فیض یافتہ تھے اس لیے ان کے دور میں اس سلسلہ میں کوئی اصول وضع کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ البتہ صحابہ کرامؓ نے اس بارے میں اپنے طرز عمل کے ساتھ ایسے اصول قائم کر دیے تھے جو بعد میں مجتہدین کے لیے راہنما بن گئے۔ چنانچہ امام بیہقیؒ نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کا معمول یہ تھا کہ کسی معاملہ میں فیصلہ کرتے وقت اگر قرآن و سنت سے کوئی حکم نہ ملتا تو حضرت ابوبکرٌ کا کوئی فیصلہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور اگر ان کا بھی متعلقہ مسئلہ میں کوئی فیصلہ نہ ملتا تو پھر خود فیصلہ صادر کرتے تھے۔ اور امام بیہقیؒ نے ہی حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے نام حضرت عمر بن الخطابؓ کا یہ خط بھی نقل کیا ہے جو انہوں نے امیر المومنین کی حیثیت سے تحریر فرمایا تھا کہ:

’’جس معاملہ میں قرآن و سنت کا کوئی فیصلہ نہ ملے اور دل میں خلجان ہو تو اچھی طرح سوچ سمجھ سے کام لو اور اس جیسے فیصلے تلاش کر کے ان پر قیاس کرو، اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور صحیح بات تک پہنچنے کا عزم رکھو۔‘‘

اسی طرح امام بیہقیؒ نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے ایک خطبہ کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ تمہارے پاس جو معاملہ درپیش ہو اور اس میں قرآن اور سنت نبویؐ کا کوئی فیصلہ نہ ملے تو یہ دیکھو کہ اس سے پہلے نیک بندوں نے اس کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے؟ اور فیصلہ نہ ملے تو پھر اپنی رائے سے اجتہاد کرو۔

چنانچہ ان اکابر صحابہؓ کے ارشادات اور فیصلوں کی روشنی میں اجتہاد کے راہنما اصول یہ ہیں:

  • قرآن کریم یا سنت رسولؐ کا حکم جس مسئلہ میں واضح ہے اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں۔
  • قرآن و سنت میں واضح حکم نہ ملے تو سابقہ مجتہدین اور صالحین کے فیصلوں کی پیروی کی جائے۔
  • سابقہ مجتہدین اور صالحین کا بھی کوئی فیصلہ نہ ملے تو اپنی رائے سے اجتہاد کیا جائے۔
  • اپنی رائے سے اجتہاد کا معنٰی یہ نہیں کہ جیسے چاہے رائے قائم کر لی جائے۔ بلکہ قرآن کریم، سنت نبویؐ، اور ماضی کے مجتہدین کے فیصلوں میں زیر بحث مسئلہ سے ملتے جلتے مسائل و معاملات تلاش کیے جائیں اور ان پر قیاس کر کے نئے مسائل میں فیصلے کیے جائیں۔

صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین کا دور آیا تو ’’اجتہاد‘‘ کے لیے باقاعدہ اصول و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت پیش آئی اور مذکورہ ’’راہنما اصولوں‘‘ کی روشنی میں بیسیوں مجتہدین نے قواعد و ضوابط مرتب کر کے ان کے مطابق اجتہادی کاوشوں کا آغاز کیا۔ تابعین میں سے حضرت امام ابوحنیفہؒ ، تبع تابعین میں سے حضرت امام مالکؒ اور ان کے بعد حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے وضع کردہ اصولوں کو امت میں قبولیت عامہ حاصل ہوئی اور ان کی بنیاد پر فقہی مکاتب فکر تشکیل پائے۔ ان مجتہدین نے صحابہ کرامؓ کے حوالہ سے مذکورہ بالا راہنما اصولوں کے ساتھ ایک اور اہم اصول کا اضافہ کیا جو اس عمل کا فطری اور منطقی تقاضا تھا کہ اجتہاد کا حق ہر شخص کو حاصل نہیں ہے۔ بلکہ وہی شخص یہ حق استعمال کر سکے گا جس کو قرآن کریم پر، سنت رسولؐ پر، عربی زبان پر، اور ماضی کے اجتہادات پر مکمل عبور حاصل ہو۔ کیونکہ اس کے بغیر اجتہاد کے دائرے کو ملحوظ رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔

چنانچہ یہ اجتہاد اور اس کے دائرہ و استحقاق کا ایک ابتدائی تعارف ہے جس سے قارئین اجتہاد کی ضرورت اور اس کی نوعیت کے بارے میں کسی حد تک واقف ہو جائیں گے۔ البتہ ایک اہم سوال باقی ہے کہ کیا آج کے دور میں اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا ہے؟ اس پر پھر کسی وقت گزارشات پیش کی جائیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter