افغانستان کی جنگ آخری راؤنڈ میں

   
۲ اپریل ۲۰۰۸ء

اپنی سابقہ تحریروں کا حوالہ دینے اور پچھلی باتیں دہرانے کی میری عادت نہیں ہے، لیکن آج جس مسئلہ پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے بطور تمہید اپنی ایک سابقہ تحریر کا حوالہ دینا ضروری ہو گیا ہے۔ روزنامہ ”اوصاف“ اسلام آباد میں ۱۶ نومبر ۲۰۰۲ء کو شائع ہونے والے ”نوائے قلم“ کے عنوان سے اپنے کالم میں راقم الحروف نے عرض کیا تھا کہ

”مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی کا شمار بھارت کے ممتاز علمی شخصیات میں ہوتا ہے، وہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ کے فرزند ہیں، ایک مدت سے ماہنامہ الفرقان لکھنو کے ایڈیٹر ہیں، صاحب فکر و دانش ہیں، کافی عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں، ان سے ہر سال لندن میں حاضری پر ملاقات کا موقع ملتا ہے، اس دفعہ ملاقات ہوئی تو دریافت کیا کہ انہوں نے ’’الفرقان‘‘ میں جو تفصیلی مضمون لکھا ہے وہ میری نظر سے گزرا ہے یا نہیں؟ یہ مضمون ’’الفرقان‘‘ کے اداریے کے طور پر دو قسطوں میں چند ماہ قبل شائع ہوا تھا، میں نے اس کے بارے میں سن رکھا تھا لیکن دیکھ نہیں پایا تھا، اس میں انہوں نے طالبان کی پالیسیوں اور سیاسی و فکری طرز عمل پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے اور اس حسرت کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی صورت میں ایک مثالی اسلامی ریاست و حکومت کا جو خواب دنیا بھر کے مسلمانوں نے دیکھا تھا وہ طالبان قیادت کے خلوص و دیانت اور سادگی و ایثار کے باوجود اس کی بعض مسائل میں غلط حکمت عملی کے باعث بکھر کر رہ گیا ہے۔ میں نے ان کے اس ارشاد کے بعد وہ مضمون دیکھا، مولانا سنبھلی کا خیال تھا کہ میں ان کے مضمون پر سخت ردعمل کا اظہار کروں گا مگر میں نے عرض کیا کہ مجھے ان کے موقف سے نہ صرف یہ کہ اصولی طور پر اتفاق ہے بلکہ میں ان کے مضمون کو ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ میں شائع کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں۔

مجھے ان لوگوں سے اتفاق نہیں ہے جو طالبان قیادت کو ’’معصومیت‘‘ کے مقام پر فائز کر کے ان کی حکمت عملی اور پالیسیوں سے اختلاف کو ’’گناہ‘‘ قرار دیے ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں اہل علم و دانش کو طالبان حکومت کے پانچ سالہ دور کا پوری تفصیل اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے اور خالصتاً علمی اور فکری بنیادوں پر جہاں انہیں کوئی جھول اور غلطی محسوس ہو اس کی صاف طور پر نشاندہی کرنی چاہئے، کیونکہ طالبان اگر افغانستان کے اقتدار میں دوبارہ آنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کے ذہن میں مستقبل کا کوئی نقشہ ہے تو اصحاب علم و دانش کا یہ بحث و مباحثہ ان کے پیش نظر ہونا چاہئے اور اسے سامنے رکھ کر انہیں اپنی نئی حکمت عملی اور پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں۔

البتہ مولانا سنبھلی سے میں نے یہ گزارش کی کہ ان کی اس بات سے مجھے اتفاق نہیں ہے کہ ’’خواب بکھر گیا ہے‘‘ اور معاملہ ختم ہو گیا ہے کیونکہ ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں، ابھی عشق کے اور بھی کئی امتحان انتظار میں ہیں، اور ستاروں سے آگے جہانوں کا سلسلہ ابھی بہت وسیع ہے۔ میرے اندازے کے مطابق ابھی طالبان نے ایک کروٹ لینی ہے اور جہاد افغانستان میں اسلام کی سربلندی کے جذبہ کے ساتھ حصہ لینے والے مجاہدین کی نئی صف بندی ہونی ہے۔ اس لیے موجودہ صورتحال کو حتمی تصور نہ کیا جائے اور اسے محمود غزنویؒ کے سومنات پر کیے جانے والے ان سولہ حملوں میں سمجھ لیا جائے جنہیں بعض لوگ ناکام حملے قرار دیتے ہیں لیکن میں انہیں سترھویں اور کامیاب حملے کی تمہید سمجھتا ہوں۔“

نومبر ۲۰۰۲ء میں لکھے جانے والے کالم کا یہ طویل اقتباس دہرانے کا پس منظر یہ ہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا یہ بیان ایک اخبار میں نظر سے گزرا کہ ”طالبان ناقابلِ شکست ہیں“ تو مجھے یاد آ گیا کہ یہ بات اب سے چھ برس قبل میں نے بھی عرض کی تھی، چنانچہ اس کالم کو ریکارڈ میں تلاش کیا اور اس کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

اس سلسلہ میں مزید گفتگو سے پہلے صدر بش کا یہ بیان پڑھ لیجیے جو روزنامہ ”نوائے وقت“ لاہور نے ۲۳ مارچ ۲۰۰۸ء کو اے پی پی کے حوالہ سے شائع کیا ہے:

”امریکا کے صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا ہے کہ طالبان کو اس وقت تک شکست نہیں دی جا سکتی جب تک افغانستان میں طالبان سے وہ لاتعلقی اختیار کرنے والا معاشرہ وجود میں نہیں لایا جاتا۔ امریکن محکمہ دفاع پینٹا گون کے چینل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر نے نیٹو کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں افغانستان کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے یہاں تعیناتی کے لیے زیادہ سے زیادہ فوجی دستے فراہم کریں۔ امریکی صدر بش نے کہا کہ جب تک افغانستان میں ایک ایسی سول سوسائٹی وجود میں نہیں لائی جاتی جو عوام کے لیے امید کی کرن ہو، طالبان ایک اہم عنصر رہیں گے اور اس وقت وہ ایک اہم عنصر ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ افغانستان پر حملے کے چھ سال بعد بھی طالبان کو ابھی تک شکست نہیں دی جا سکی۔“

امریکی صدر کے اس بیان میں دو باتیں واضح طور پر نظر آتی ہیں:

  1. ایک یہ کہ وہ اپنی تمام تر جنگی قوت اور یلغار کے باوجود افغانستان میں طالبان کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو رہے اور انہیں مستقبل میں بھی اس کامیابی کے امکانات واضح دکھائی نہیں دے رہے، اس کے لیے وہ نیٹو ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کریں۔ لیکن نیٹو ممالک کے جو رجحانات ان دنوں نظر آ رہے ہیں اور حالیہ الیکشن میں پاکستانی عوام کی طرف سے امریکا کی اس جنگ کے بارے میں جن جذبات کا اظہار سامنے آ گیا ہے، اس کے پیش نظر اس امر کا امکان اب کم دکھائی دیتا ہے کہ نیٹو ممالک افغانستان میں اپنی فوجوں کی تعداد بڑھانے میں دلچسپی لیں گے۔
  2. دوسری طرف امریکی صدر کے بیان میں یہ ہے کہ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ طالبان اس وقت تک جس طرح قدم جما کر لڑ رہے ہیں، اس کی بڑی وجہ ہے کہ افغانستان کے عوام ان سے لاتعلقی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس کا حل امریکی صدر کے نزدیک اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ پورے افغان معاشرے کو ہی تبدیل کر دیا جائے اور ایک ایسی سول سوسائٹی وجود میں لائی جائے جو طالبان سے لاتعلقی اختیار کر کے غیر ملکی فوجوں کو خوش آمدید کہے۔

ہم نے بھی جب یہ عرض کیا تھا کہ طالبان ایک کروٹ اور لیں گے اور انہیں طاقت کے بل پر اقتدار سے الگ کر کے یہ سمجھ لینا قطعی طور پر غلط بات ہے کہ وہ ختم ہو گئے ہیں اور انہیں افغانستان کے معاملات سے بالکل بے دخل کر دیا گیا ہے تو اس کا پس منظر بھی یہی تھا کہ طالبان افغانستان کے عوام کا حصہ ہیں، ان کے مذہب اور کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں، ان کی روایات و اقدار کے امین ہیں اور افغان قوم کی روایات میں دو باتیں اب تک بالکل واضح اور دوٹوک چلی آ رہی ہیں کہ وہ اپنے مذہب و ثقافت سے دست بردار ہونے کے لیے کسی صورت میں تیار نہیں ہوتے اور غیر ملکی تسلط کو قبول کرنا وہ اپنی ملی غیرت و حمیت کے منافی سمجھتے ہیں، اس لیے جلد یا بدیر وہ دوبارہ ضرور ابھریں گے اور بے رحم طاقت و جبر کا شکنجہ ڈھیلا ہوتے ہی وہ افغان معاشرے میں اپنا اصل مقام پھر حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

مجھ سے اس دور میں کچھ دوستوں نے پوچھا تھا کہ اس نئے جبر اور بحران سے نکلنے میں طالبان کو کتنا وقت لگ سکتا ہے؟ میں نے عرض کیا تھا کہ روسی جارحیت کا رخ موڑنے میں، جبکہ افغان مجاہدین کو دنیا بھر کی حمایت حاصل تھی، گیارہ سال لگ گئے تھے تو امریکی جارحیت سے نمٹنے کے لیے، جبکہ دنیا بھر کی عمومی فضا طالبان کے خلاف ہے، انہیں کم از کم دس سال تو دیں۔ میرا اندازہ تھا اور اس اندازے پر میں اب بھی قائم ہوں کہ افغانستان پر امریکی اتحاد کی فوج کشی کے بعد سے افغان مجاہدین کو، جن کی قیادت اب طالبان کر رہے ہیں، تسلط کی اس فضا کو ختم کرنے میں دس سال سے زیادہ عرصہ درکار نہیں ہو گا۔

امریکی اتحاد اس وقت افغانستان میں اپنی جنگ کے آخری راؤنڈ میں ہے، جس کا نتیجہ پہلے سے مختلف نہیں ہو گا اور صدر بش کا لہجہ بتا رہا ہے کہ وہ ذہنی طور پر اس نتیجے کو قبول کرنے کے لیے خود کو تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ ان کے اس انٹرویو کے حوالہ سے میں ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ صدر محترم! جب آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ افغان معاشرے کو طالبان سے لاتعلقی اختیار کرنے پر تیار نہیں کیا جا سکا اور طالبان آج بھی افغان معاشرے کا اہم عنصر ہیں تو پورے معاشرے اور سوسائٹی کے خلاف جنگ مسلط کر دینا اور پھر اسے جاری رکھنے پر اصرار کرنا جمہوریت اور سویلائزیشن کے کون سے اصول کی نمائندگی کرتا ہے؟ اور جب سوسائٹی اور معاشرے کو تبدیل کیے بغیر مقاصد حاصل کرنا ممکن نہ رہے تو کیا سوسائٹیاں اور معاشرے فوج کشی، بمباری، ڈیزی کٹر، دھونس اور جبر کے ذریعہ تبدیل ہوا کرتے ہیں؟ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ریاستہائے متحدہ امریکا کا کوئی صدر قوموں کی نفسیات اور تاریخ کے عمل سے اس قدر بے خبر بھی ہو سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter