راولپنڈی سے شیخ تجمل الاسلام صاحب کی ادارت میں ’’استقلال‘‘ کے نام سے ایک ماہوار جریدہ طبع ہوتا ہے جس کا بنیادی موضوع کشمیر ہے اور آزادئ کشمیر کے حوالے سے معلوماتی اور مفید مضامین اس میں شائع ہوتے ہیں۔ اگست ۲۰۰۱ء کے شمارہ میں اس جریدہ کے مدیر محترم نے ۱۹۳۱ء کی تحریکِ کشمیر کو اپنے شذرات میں گفتگو کا موضوع بنایا ہے، اور یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ آزادئ کشمیر کی موجودہ جدوجہد کے پس منظر میں ۱۹۳۱ء کی تحریکِ کشمیر کا ذکر کرتے ہیں، اور اسے بھی تحریکِ آزادئ کشمیر کے تسلسل کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں ان کا نقطۂ نظر درست نہیں ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے کہ چونکہ ۱۹۳۱ء کی تحریکِ کشمیر کا مقصد مہاراجہ کے سائے تلے ’’ذمہ دارانہ حکومت‘‘ کا قیام تھا اور موجودہ جدوجہد کا ہدف آزادی ہے، اس لیے ان میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔
چونکہ ہم ۱۹۳۱ء کی تحریکِ کشمیر بلکہ اس سے ایک صدی قبل ۱۸۳۱ء کی تحریکِ شہدائے بالاکوٹ کو بھی کشمیری عوام کی مسلسل جدوجہد کے تسلسل کا ایک حصہ سمجھتے ہیں، اور ان کالموں میں کئی بار اس کا اظہار کر چکے ہیں، اس لیے ’’استقلال‘‘ کے اس نقطۂ نظر پر کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مگر پہلے ۱۹۳۱ء کی تحریکِ کشمیر کا ایک مختصر خاکہ ذہن میں رکھ لیجئے جو ہم ’’حیاتِ امیرِ شریعت‘‘ کے مصنف جانباز مرزا مرحوم کے حوالہ سے خلاصہ کے طور پر نقل کر رہے ہیں۔
مہاراجہ ہری سنگھ والئ کشمیر نے ریاستی نظم و نسق سنبھالتے ہی غریب عوام اور کسانوں پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی۔ مظلوم طبقہ کی کمائی کی ساری پونجی مالیانہ اور آبیانہ کی نذر ہو جاتی۔ یہی وجہ تھی کہ کشمیر کے غریب عوام موسم سرما میں کشمیر سے نکل کر پنجاب کے میدانی علاقوں میں پھیل جایا کرتے تھے۔ ان حالات میں عوام نے اپنے جائز حقوق منوانے کے لیے باقاعدہ تحریک کا آغاز کیا۔ انہی دنوں ریاست جموں میں ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس سے ہندو حکمران اور مسلمان رعایا کے تعلقات خاص طور پر الجھ گئے اور آخر کار یہ تحریک ریاست سے باہر تک پھیل گئی۔
حادثہ یہ تھا کہ جموں میں ریاستی پولیس کا ایک مسلمان سپاہی اپنی بیرک میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا کہ بغیر کسی نزاع کے ایک ہندو سنیاسی نے سپاہی کے ہاتھ سے قرآن کریم چھین کر زمین پر دے مارا۔ کتاب اللہ کی توہین نے تمام نظم و نسق کو پریشان کر دیا۔ عوام، کسان اور خصوصاً مسلمان حکومت کشمیر کے خلاف نبرد آزما ہو گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ شیخ محمد عبد اللہ کشمیری عوام میں لیڈر کی حیثیت سے روشناس کرائے گئے۔ ان کی تقریروں نے کشمیری عوام کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا کر مہاراجہ کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اس تصادم میں حکومت کی طرف سے نہتے مسلمانوں پر گولیاں چلیں اور خون بے گناہ سے سرخ دریائے جہلم کی بپھری ہوئی موجیں کناروں سے ٹکرانے لگیں۔
ایسے حالات نے پنجاب کے مسلمانوں کو بھی چونکا دیا اور پریس نے حالات کو بیدار کرنے میں خوب معاونت کی۔ انہی دنوں سر فضل حسین نے شملہ میں چند رجعت پسند مسلمانوں کے تعاون سے کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی، جس کا صدر قادیان کے مرزا بشیر الدین محمود اور سیکرٹری عبد الرحمٰن (قادیانی) کو نامزد کیا گیا۔ میاں فضل حسین اس کمیٹی کے نگران مقرر ہوئے۔ کشمیر کمیٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی مرزائی خلیفہ نے سرکار پرست مسلمان راہنماؤں کو اس کمیٹی کا رکن نامزد کیا، اور ان کے علاوہ علامہ سر محمد اقبال کو بھی اس کمیٹی میں شامل کر لیا گیا۔ احرار راہنماؤں کو جب اس ڈرامے کا علم ہوا تو وہ علامہ اقبالؒ سے ملے، انہیں حالات سے آگاہ کیا کہ آپ کی وجہ سے نہ صرف کشمیر کا بتیس لاکھ مسلمان مرزائی ہو جائے گا، بلکہ بیرونی ممالک کے مسلمان بھی اس فریب سے متاثر ہوں گے، لہٰذا آپ کو کشمیر کمیٹی سے علیحدگی کا اعلان کر دینا چاہیے (جو انہوں نے کر دیا)۔ چنانچہ دوسرے ہی روز برکت علی محمڈن ہال میں کشمیر کمیٹی کا اجلاس ہوا، اس میں تحریکِ کشمیر کی ساری ذمہ داری مجلسِ احرار کے سپرد کر دی گئی۔
مجلسِ احرار کی ورکنگ کمیٹی نے اپنے لاہور کے اجلاس منعقدہ اٹھارہ اگست ۱۹۳۱ء میں تحریکِ کشمیر کو باضابطہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ انگریز، ریاستی حکام اور مرزائی حالات سے ہر گھڑی باخبر تھے۔ مجلسِ احرار کے فیصلے کی روشنی میں آنے والے نئے طوفان کا خوف دلا کر انگریز نے اپنے بااعتماد آدمی ہرکشن کول کو کشمیر کا وزیر اعظم بنا دیا۔ اوائل اکتوبر ۱۹۳۱ء کو چوہدری افضل حقؒ، مولانا مظہر علی اظہرؒ اور خواجہ غلام محمدؒ وفد کی صورت میں کشمیری حکام سے بات چیت کے لیے جموں روانہ ہوئے۔ انگریز اور مرزائی اپنی اپنی اوٹ سے جھانک رہے تھے کہ احرار راہنما سری نگر پہنچ گئے۔ ڈوگرہ شاہی منتظر تھی کہ وفد کے ارکان کو کسی طرح شیشے میں اتار سکیں، لیکن راج محل کا تمام جاہ و جلال اپنی امیدوں میں ناکام رہا۔ احرار راہنماؤں کا ضمیر خریدنے کے لیے شاہی سوداگر گداؤں کی طرح ملاقات کو آتے، مگر دریائے جہلم کی موجوں پر تیرنے والا شاہی بوٹ ہر روز دیکھتا کہ شاہی فقیروں سے شکست کھا رہی ہے۔ آخر وفد ناکام واپس لوٹ آیا۔
اس کے بعد احرار کے قائد امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا، مگر اس کے باوجود احرار راہنماؤں نے کشمیری عوام کی حمایت کے لیے نومبر کے دوران ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہونے کا اعلان کر دیا۔ جس کے نتیجے میں تمام تر رکاوٹوں کے باوجود چالیس ہزار کے لگ بھگ رضا کار مختلف راستوں سے کشمیر میں داخل ہوئے۔ بائیس نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا اور بالآخر دہلی کی انگریز حکومت کو مداخلت کر کے دوبارہ مذاکرات کی میز بچھانا پڑی۔ اس تحریک نے ریاست جموں و کشمیر میں سیاسی بیداری کی لہر پیدا کر دی۔ اس سیاسی بیداری کی کوکھ سے شیخ محمد عبداللہ مرحوم کی نیشنل کانفرنس اور پھر چوہدری غلام عباس مرحوم کی مسلم کانفرنس نے جنم لیا، اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام فرنگی حکمرانوں سے آزادی کے لیے برصغیر کے عوام کی تحریک کا حصہ بن گئے۔
’’استقلال‘‘ کے مدیر محترم کا کہنا ہے کہ اس تحریک کے قائدین بالخصوص محمد عبد اللہ کے پیش نظر اس وقت کامل آزادی نہیں تھی اور وہ مہاراجہ کے سائے تلے ذمہ دارانہ حکومت کے قیام پر رضامند تھے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ انڈین نیشنل کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ بھی ایک عرصہ تک برطانوی حکومت سے مکمل آزادی کی بجائے داخلی خود مختاری اور انگریزی حکومت کے زیر سایہ ذمہ دارانہ حکومت کے قیام کے لیے تگ و دو کرتی رہی ہیں، بلکہ گزشتہ صدی کے چوتھے عشرہ کے دوران کانگرس اور مسلم لیگ دونوں نے برطانوی حکومت کے زیر سایہ انتخابات میں حصہ لیا اور مختلف صوبوں سے وائسرائے کے سائے تلے حکومتیں بھی بنائیں۔ یہ ایک ارتقائی عمل تھا، جس سے گزر کر انڈین نیشنل کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ نے مکمل آزادی اور پاکستان کے قیام تک بتدریج رسائی حاصل کی۔ تو کیا ’’استقلال‘‘ کے نقطۂ نظر کی رو سے کانگرس اور مسلم لیگ دونوں کی تحریک کے اس دور کو تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کے تسلسل سے الگ کر دیا جائے گا، جس میں وہ کامل آزادی کی بجائے انگریزی حکومت کے زیر سایہ منتخب حکومتوں کے قیام کے لیے تگ و دو کرتی رہی ہیں؟