گیارہ ستمبر کو امریکہ کے دو بڑے شہروں نیویارک اور واشنگٹن میں جو قیامت صغریٰ بپا ہوئی ہے اس نے ظاہری طور پر دکھائی دینے والے معروضی حقائق کا نقشہ ایک بار پھر پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی تاریخ نے کئی بار یہ منظر دیکھا ہے کہ حالات و واقعات کا ظاہری منظر کچھ اور نظر آرہا ہے مگر سمندر کی پرسکون سطح کی تہہ میں کسی طوفان نے جب انگڑائی لی ہے تو سطح سمندر اور اس پر نظر آنے والا پورا منظر ہی تلپٹ ہو کر رہ گیا ہے۔
نیویارک کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں نے ۱۹۸۷ء میں دیکھا جب مولانا میاں محمد اجمل قادری مجھے سیر و سیاحت کے لیے اپنے ساتھ امریکہ لے گئے تھے۔ تب میرے ہم زلف محمد یونس صاحب نئے نئے نیویارک میں آباد ہوئے تھے اور وہی ہمارے میزبان تھے۔ ہم ایک روز ورلڈ ٹریڈ سنٹر دیکھنے گئے، اتنی بلند و بالا اور پرشکوہ عمارت دیکھ کر عقل دنگ رہ گئی۔ اس کی غالباً ۱۰۷ ویں منزل پر تفریح گاہ تھی جہاں تک ہم پہنچے، بادل اس سے نیچے تھے اس لیے نیویارک شہر کا منظر صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا، چنانچہ وہیں تھوڑی دیر گھومے پھرے اور پھر واپس آگئے۔
۱۱ ستمبر ۲۰۱۱ء کی شام کو جب میرے چھوٹے بیٹے حافظ عامر خان نے انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی یہ خبر مجھے سنائی کہ دو ہوائی جہاز ٹکرانے سے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی یہ محیر العقول بلڈنگ زمین بوس ہوگئی ہے تو چند لمحے یقین نہ آیا لیکن جب تفصیلات سنیں اور رات ۹ بجے کے خبرنامے میں اس کے مناظر دیکھے تو اس دلخراش منظر پر یقین کیے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا۔ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن میں وزارت دفاع کے مرکز پینٹاگان میں اغوا شدہ مسافر ہوائی جہازوں کے ذریعہ فدائی حملوں سے ہونے والے عظیم مالی نقصان اور ہزاروں بے گناہ انسانی جانوں کے ضیاع سے ہر شخص کو دکھ ہوا ہے۔ دنیا کے ہر ذی ہوش انسان نےاس پر صدمہ و افسوس کا اظہار کیا ہے اور ہم بھی امریکی قوم بالخصوص متاثرین کے خاندانوں کے اس غم میں ان کے ساتھ شریک ہیں اور دعاگو ہیں کہ ہلاک ہونے والوں میں جو بھی مغفرت کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور سب ہلاک شدگان کے خاندانوں کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین ثم آمین۔
جہاں تک اس کے اسباب و عوامل اور نتائج و عواقب کا تعلق ہے اس کے حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کرناہم ضروری سمجھتے ہیں۔ ان حادثات کے بعد بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت نے سارا ملبہ اسامہ بن لادن پر ڈالنے اور اس کی آڑ میں افغانستان کے خلاف کوئی بڑا فوجی ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا ہے جو ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک وقوع پذیر بھی ہو چکا ہو۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ محض غصہ نکالنے، امریکی قوم کو وقتی طور پر نفسیاتی تسکین دینے، اور افغانستان کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کا عمل ہوگا۔ کیونکہ جب تک چھان بین اور تحقیقات کے ذریعہ کوئی واضح رخ سامنے نہیں آجاتا اس وقت تک کسی کے خلاف اس قسم کی کوئی کارروائی شاید خود امریکی رائے عامہ کی نظر میں بھی قرین انصاف نہیں ہوگی۔ جبکہ اس سے قبل اوکلاہاما کے سنٹر کی تباہی کے موقع پر امریکی حکمران یہ تجربہ کر چکے ہیں کہ ابتداء میں ردعمل اور انتقام کا نشانہ مسلمان اور عرب نوجوان بن رہے تھے لیکن تحقیقات کے بعد یہ حرکت ایک مایوس امریکی نوجوان کی نکلی جس کا مسلمانوں اور عربوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس لیے ہم کسی درجہ میں یہ امید کر سکتے ہیں کہ امریکی حکمران غصہ اور جوش کے ساتھ ساتھ ہوش اور ماضی کے تجربہ سے بھی استفادہ کریں گے اور ان کے فوری اشتعال کا نزلہ افغانستان کے ’’عضو ضعیف‘‘ پر نہیں گرے گا۔
بعض اخبارات میں ایک جاپانی تنظیم کی طرف سے بھی اس المیہ کی ذمہ داری قبول کرنے کا تذکرہ ہوا ہے لیکن ہمارے خیال میں یہ صرف عالمی رائے عامہ کو یاددہانی کرانے کی ایک کوشش ہے کہ جس دہشت گردی کا نشانہ آج امریکہ ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ بڑی او رخوفناک دہشت گردی کا نشانہ جاپان کے عوام ناگاساکی اور ہیروشیما پر امریکہ کے ایٹمی حملوں کی صورت میں بن چکے ہیں اور ان حملوں میں ہزاروں نہتے اور بے گناہ شہری المناک ناگہانی موت کا شکار ہوگئے تھے۔ البتہ اگر امریکی قیادت اپنے غصہ اور انتقامی جذبہ پر تھوڑا سا قابو پا کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس صورتحال پر غور کے لیے آمادہ ہو تو ہم اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا چاہیں گے کہ یہ جو کچھ ہوا ہے اپنی تمام تر سنگینی اور تباہ کاری کے باوجود ایک ردعمل ہے۔ اور کسی بھی ردعمل کو اس عمل سے الگ کر کے دیکھنا قرین انصاف نہیں ہوتا جس کے جواب میں وہ ظہور میں آتا ہے۔ امریکی حکمرانوں کو اس ردعمل کے اصل عوامل تک پہنچنے کے لیے اس عمل کا ادراک کرنا ہوگا جس نے کسی بھی گروہ کے انتہا پسندوں کو اس حد تک آگے جانے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہزاروں بے گناہ جانوں کے ساتھ ساتھ خود اپنی جانوں کے تلف ہوجانے کو بھی انہوں نے اس قدر آسانی کے ساتھ قبول کر لیا ہے۔ اپنی جانوں کو اپنے ہاتھوں موت کے سپرد کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا اور کوئی انتہائی مجبوری، بے بسی اور مایوسی ہی انسان کو اس مقام تک لے جاتی ہے۔
چنانچہ اگر امریکی قیادت دہشت گردی کے خاتمے کے اعلان اور دعویٰ میں سنجیدہ ہے تو اسے دہشت گردی اور اس کے اسباب و عوامل کے ساتھ ساتھ مختلف اقوام اور گروہوں کو دہشت گردی کی انتہائی منزل تک لے جانے والے محرکات کا جائزہ بھی لینا ہوگا۔ اس لیے کہ آگ ہوگی تو دھواں بھی اٹھے گا اور اردگرد کے ماحول میں تپش بھی موجود رہے گی، صرف دھویں کو کنٹرول کرنے یا اردگرد کی تپی ہوئی دیواروں پر پانی ڈالنے سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے آگ کو بجھانا ضروری ہے۔ اور یہ آگ نا انصافی، جانبداری، منافقت، استحصال، اور ہر حال میں ایک گروہ کی بالادستی قائم کرنے کا وہ عالمی نظام ہے جس نے پوری دنیا کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے اور انسانیت ایک بار پھر عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ امریکہ جس جمہوریت اور انسانی حقوق کی باقی دنیا کے لیے دہائی دیتا ہے اسے خلیج عرب کے ممالک کے لیے بھی تسلیم کر لے، فلسطینیوں کے جن جائز حقوق کو اقوام متحدہ کا عالمی فورم تسلیم کرتا ہے امریکہ ان کا احترام کرتے ہوئے اسرائیل کی ناجائز پشت پناہی ترک کر دے، افغانستان کے عوام کو اپنے ملک میں اپنی مرضی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع دے، اور دنیا بھر کے مختلف ممالک و اقوام کو طاقت اور سرمائے کے ہیر پھیر کے ذریعہ زبردستی اپنا زیردست رکھنے کی پالیسی پر نظر ثانی کر لے تو کسی کو امریکی عوام کے ساتھ کیا دشمنی ہے کہ وہ اپنی جان کو قربان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جانوں کے بھی درپے ہو جائے؟
ان گزارشات کے ساتھ ہم اس عظیم اور المناک سانحہ و المیہ کے موقع پر امریکی حکومت، عوام اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ان کے غم میں شرکت کا اظہار کرتے ہیں اور امریکی قوم کے ساتھ پوری ہمدردی، خیر خواہی او رخلوص رکھتے ہوئے اس استدعا کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں کہ محض ردعمل کے اظہار کی بجائے صورتحال کو عمل اور ردعمل دونوں کے مجموعی تناظر میں دیکھا جائے اور دونوں کے اسباب و محرکات کو کنٹرول کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ ورنہ کوئی بھی یکطرفہ ردعمل اس قسم کے خوفناک واقعات میں اضافہ کا باعث تو بن سکتا ہے انہیں روکنے کے لیے قطعاً مفید ثابت نہیں ہوگا۔