سات دسمبر منگل کا دن اسلام آباد میں خاصا مصروف گزرا، اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے سیالکوٹ کے سانحہ کے حوالہ سے سرکردہ علماء کرام کی باہمی مشاورت اور سری لنکا کے ہائی کمیشن میں تعزیت اور اظہار یکجہتی کے لیے حاضری کے پروگرام میں شرکت کا پیغام ملا تو اطمینان ہوا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس قسم کے اہم مسائل پر کردار ادا کرنے کا عزم کیا ہے۔ دونوں پروگراموں میں حاضری ہوئی اور اس موقع پر دیگر بعض سرکردہ حضرات کی طرح میں نے بھی اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ کونسل اس قسم کے اہم قومی و ملی معاملات میں اس نوعیت کے کردار کا تسلسل قائم رکھے گی۔ اس سلسلہ میں کونسل کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ درج ذیل ہے:
’’سیالکوٹ کے دلخراش و افسوسناک واقعہ پر پاکستان بھر کے جید علماء کرام و اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی سربراہی میں سری لنکن سفیر سے ملاقات و اظہار افسوس اور تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، مفتیان، عظام و مشائخ کی پریس کانفرنس:
شرکاء پریس کانفرنس: (۱) ڈاکٹر قبلہ ایاز ، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل (۲) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان (۳) مولانا انوار الحق حقانی، نائب صدر وفاق المدارس العربیہ(۴) مولانا زاہد الراشدی، سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل (۵) قاری محمد حنیف جالندھری، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ (۶) مولانا عبد الخبیر آزاد، چیئرمین روئیت ہلال کمیٹی (۷) مولانا عبد الخیر زبیر (۸) مولانا پیر نقیب الرحمن (۹) پیر علی رضا بخاری (۱۰) علامہ حامد سعید کاظمی (۱۱) صاحبزادہ حسان حسیب الرحمن (۱۲) حافظ طاہر محمود اشرفی (۱۳) مولانا مفتی عبد الرحیم، جامعۃ الرشید کراچی (۱۴) ڈاکٹر حبیب الرحمن (۱۵) مولانا محمد طیب طاہری (۱۶) علامہ امین شہیدی (۱۷) علامہ عارف واحدی (۱۸) سینٹر پروفیسر ساجد میر (۱۹) مولانا یوسف کشمیری (۲۰) پیر حبیب الحق (۲۱) پیر حبیب عرفانی (۲۲) پیر خالد سلطان اور دیگر سرکردہ حضرات۔
مشترکہ اعلامیہ:
ہم آج سری لنکن سفارت خانے میں ۳ دسمبر کے اندوہناک واقعہ پر اظہارِ تعزیت اور اظہارِ یکجہتی کرنے آئے ہیں۔ سیالکوٹ کا حالیہ سانحہ ایک المیہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں غم و غصہ پھیل گیا ہے۔ ہجوم کی صورت میں بے رحمانہ انداز میں ایک انسان کو مارا پیٹا گیا اور بالآخر موت کے گھاٹ اتار کر اس کی لاش جلائی گئی۔ ماورائے عدالت قتل کا یہ ایک بھیانک واقعہ ہے، بغیر ثبوت کے توہین مذہب کا الزام لگانا غیر شرعی حرکت ہے۔ یہ پوری صورتحال قرآن و سنت، آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ملک میں رائج جرم و سزا کے قوانین کے سراسر خلاف ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سمیت پاکستان بھر کے مستند علماء نے بھر پور طریقے سے اس کی مذمت کی ہے۔
عاقبت نا اندیش عناصر کا یہ اقدام ملک و قوم، اسلام اور مسلمانوں کی سبکی کا باعث بنا ہے۔ علاوہ ازیں ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کی قومی دستاویز جس میں ایسے ہر قسم کے مسلح اقدام کی نفی کی گئی، یہ اقدام اس سے سراسر انحراف ہے۔ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کو پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور مدارس بورڈز کی تائید حاصل ہے۔ ان شر پسند افراد کے خلاف رائج ملکی قوانین کے مطابق سخت سے سخت قانونی اقدامات کئے جائیں۔ اس تکلیف دہ واقعہ میں امید کی ایک کرن یہ تھی کہ ایک نوجوان ملک عدنان نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر اس قتل ہونے والے بے گناہ شخص کو بچانے کی بھر پور کوشش کی، اس نو جوان کا یہ اقدام قابل تحسین بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔ وزیر اعظم پاکستان نے اس نوجوان کی حوصلہ افزائی کے لیے ’’تمغۂ شجاعت‘‘ دینے کا اعلان کر کے ایک بہت مستحسن اقدام کیا ہے۔
آج کا نمائندہ اجتماع قرار دیتا ہے کہ اسلام میں تشدد اور انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں ہے، لہذا علماء کرام اعتدال پسندی کو فروغ دیں، انتہا پسندی کو روکنے کے لیے معاشرے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں تاکہ ملک پاکستان امن اور آشتی کا گہوارہ بن جائے۔‘‘
اس دوران معلوم ہوا کہ امارت اسلامی افغانستان کے بعض سرکردہ وزراء اسلام آباد آئے ہوئے ہیں اور مختلف امور پر پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد میری بھی خواہش تھی کہ امارت اسلامی افغانستان کے کچھ ذمہ دار حضرات سے ملاقات ہو تو ان سے افغانستان کی صورتحال کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔ رابطہ کیا تو مولانا عبد الباقی حقانی وزیر برائے خصوصی تعلیم، ڈاکٹر قلندر عباد وزیرصحت اور مولوی لطف اللہ خیر خواہ نائب وزیر خصوصی تعلیم کے ساتھ ملاقات کی ترتیب طے پا گئی اور ان ملاقاتوں میں پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا عبد الرؤف محمدی، راولپنڈی کے سیکرٹری جنرل مفتی محمد سعد سعدی مولانا ارسلان سیال اور دیگر احباب بھی میرے ساتھ شریک تھے۔
افغانستان کا دورہ کر کے وہاں عمومی صحت کی صورتحال اور میڈیکل ضروریات کا جائزہ لینے والے ڈاکٹر صاحبان کے گروپ میں سے ڈاکٹر مشتاق احمد آف پشاور اور دیگر ڈاکٹر صاحبان کے ساتھ بھی تفصیلی گفتگو کا موقع ملا اور افغان قوم اس وقت جس سنگین بحران سے دوچار ہے اس کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کی رپورٹ بارہ دسمبر اتوار کو لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے مشترکہ اجلاس میں پیش کروں گا جو جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی کی دعوت پر ہو رہا ہے۔ اور اس مشاورت کے بعد افغانستان کی مجموعی صورتحال، افغان عوام کی موجودہ معاشی جکڑبندی، آنے والے دور کے خدشات و خطرات اور اس میں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہمیں کیا کرنا چاہیے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس کے بارے میں تفصیل کے ساتھ گذارشات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
سردست صرف یہ عرض ہے کہ افغان عوام اس وقت شعب ابی طالب کے ماحول میں ہیں اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں مغربی ایجنڈے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں خاموش اور لاتعلق رہنے کی بجائے ہم سب کو اپنے اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا ورنہ یہ ہمارے لیے ملی اور قومی دونوں حوالوں سے سنگین جرم ہو گا۔