سر سید احمد خان مرحوم اور ولی اللّٰہی جماعت

   
۶ جولائی ۲۰۰۰ء

سر سید احمد خان مرحوم کے بارے میں راجہ انور صاحب کا یہ تاثر کہ وہ شاہ عبد العزیزؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کے فکری پیروکار تھے، شاید اس واقعہ پر مبنی ہے کہ سر سید احمد خان مرحوم حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے شاگرد تھے جو حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے جانشین حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ کی حجاز مقدس کی طرف ہجرت کے بعد ولی اللّٰہی جماعت کے علمی سربراہ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بھی انہی کے شاگرد ہیں۔ اور اس طرح علی گڑھ تحریک کے بانی سر سید احمد خان مرحوم اور دیوبندی تحریک کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ دونوں آپس میں استاذ بھائی تھے اور ایک ہی چشمۂ علم کے فیض یافتہ تھے۔

لیکن محض استاذی شاگردی یا کسی درسگاہ سے تعلیم محاصل کرنا ہم خیال ہونے اور فکری پیروکار کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے عقائد و افکار اور مشن اور پروگرام کی یکسانیت بھی ضروری ہوتی ہے، جبکہ سر سید احمد خان مرحوم نے عقائد و نظریات اور جدوجہد کے حوالے سے جو راستہ اختیار کیا وہ ولی اللّٰہی جماعت سے قطعی طور پر مختلف بلکہ متضاد تھا۔ اس لیے سر سید احمد خان مرحوم کو شاہ عبد العزیز دہلویؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کا فکری پیروکار قرار دینا خود ولی اللّٰہی جماعت کے عقائد و نظریات اور اہداف و مقاصد سے عدمِ آگاہی کی غمازی کرتا ہے۔

سر سید احمد خان مرحوم نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے دوران اور اس کے بعد مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے جو پروگرام تجویز کیا اس کے اہم نکات یہ ہیں کہ:

  • انگریزی اقتدار کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ نئے حکمرانوں کا ساتھ دیا جائے۔
  • آزادی کے لیے لڑنے والے گروپوں اور مجاہدین کی مخالفت کی جائے اور انہیں فسادی اور غنڈے قرار دینے میں انگریزوں کی ہمنوائی کی جائے۔
  • اسلامی احکام و عقائد کے بارے میں مغربی دانشوروں کے اعتراضات کو مسترد کرنے کی بجائے ان کے سامنے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا جائے، اور اسلامی احکام و عقائد کی ایسی تشریح و تعبیر کی جائے جو مغرب کے لیے قابل قبول ہو۔
  • مسلمان انگریزی کی تعلیم حاصل کریں اور جدید علوم سیکھ کر انگریزی حکومت کے مختلف شعبوں میں شریک ہوں اور اس کے کَل پرزے بنیں۔
  • مسلمان اپنے جداگانہ تشخص کی بنیاد پر حقوق کا تحفظ کریں۔
  • انگریزی تہذیب اور ثقافت کو قبول کیا جائے اور اس پر فخر کیا جائے۔

جہاں تک اسلامی عقائد و احکام کی نئی تعبیر و تشریح کا تعلق ہے، سر سید احمد خان مرحوم اس میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ’’امداد الفتاویٰ‘‘ جلد ششسم میں سر سید احمد خان کی کتابوں اور ان کی عبارتوں کے حوالے سے ان کے افکار و خیالات کا جو خاکہ کئی صفحات میں مرتب کر کے پیش کیا ہے، وہ اس قدر ہوشربا ہے کہ اسے پڑھنے کے لیے بھی اچھا خاصا حوصلہ درکار ہے۔

اس میں سے صرف ایک اصولی اور بنیادی بات مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں کہ سر سید احمد خان کے نزدیک وحی کا معنٰی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبریل علیہ السلام پیغام لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرامؑ کے پاس آتے تھے، کیونکہ ان کے خیال میں وحی کا تعلق خارج سے نہیں بلکہ یہ جناب نبی اکرمؐ کی داخلی کیفیت کا نام ہے، اور جبریل علیہ السلام کا بھی کوئی خارجی وجود نہیں ہے۔ اس لیے سر سید احمد خان کے قول کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی پیغمبر پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی تھی اور اس کیفیت میں ان کی زبان سے کلام صادر ہوتا تھا، اس کیفیت کا نام ’’جبریل‘‘ اور کلام کا نام ’’وحی‘‘ ہے۔ سر سید احمد خان نے اس کیفیت کی نوعیت سمجھانے کے لیے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ یہ اسی طرح ہے جیسے کسی پر جنون یا مرگی کے دورہ کی کیفیت ہو اور اس میں وہ نارمل کیفیت سے ہٹ کر خاص قسم کی گفتگو کرے۔

اس ساری تعبیر و تشریح میں باقی سارے لوازمات سے قطع نظر کر لیا جائے تو بھی اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے ’’کلامِ الٰہی‘‘ ہونے کا عقیدہ اپنی بنیاد سے محروم ہو جاتا ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی بجائے خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام قرار پاتا ہے۔ یہ وہی بات ہے جو مشرکینِ مکہ کہا کرتے تھے کہ حضرت محمدؐ پر (نعوذ باللہ) جنون کا دورہ طاری ہوتا ہے اور وہ اس کیفیت میں جو کلام کرتے ہیں اسے وحئ الٰہی کے نام سے ہمارے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ اس تفصیل سے تو نبوت اور قرآن کریم کی پوری عمارت دھڑام سے زمین پر آ پڑتی ہے۔

اس لیے یہ کہنا کہ سر سید احمد خان فکری طور پر ولی اللّٰہی اکابر کے پیروکار تھے، قطعی طور پر ناقابل قبول بات ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ سر سید احمد خان کے اس فکر اور تعبیرات کو ان کی جماعت حتٰی کہ مولانا حالیؒ اور مولانا شبلی نعمانیؒ جیسے قریبی رفقاء نے بھی قبول نہیں کیا۔ اور ان حضرات نے کھلم کھلا سر سید احمد خان کے ان خیالات و عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے ان سے برأت کا اظہار کیا۔ ہمارے نزدیک سر سید احمد خان کے مذکورہ پروگرام کے صرف دو حصوں کو مسلمانوں میں قبولیت حاصل ہوئی ہے:

  • ایک یہ کہ مسلمان اپنے حقوق کا تحفظ جداگانہ تشخص کی بنیاد پر کریں،
  • اور دوسری یہ کہ انگریزی تعلیم حاصل کر کے نئے نظام میں عملاً شریک ہوں۔

ان دونوں کی بنیاد ہندو اکثریت کے غلبہ کے خوف سے مسلمانوں کے تحفظ کے جذبہ پر تھی۔ جس میں سر سید احمد خان بلاشبہ مخلص نظر آتے ہیں اور اسی لیے اسے قبول کیا گیا۔ جبکہ ان دو حوالوں سے خود ہم بھی سر سید احمد خان مرحوم کی خدمات، جدوجہد، قربانیوں اور ایثار کے معترف ہیں اور کسی مقام پر بھی اس کے تذکرہ و اعتراف میں حجاب محسوس نہیں کرتے۔ لیکن ان دو امور کے علاوہ سر سید احمد خان مرحوم کے باقی ماندہ افکار و خیالات کو مسلمانوں میں سے کسی سنجیدہ طبقہ نے قبول نہیں کیا۔ اور راقم الحروف اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ

  • اسلامی عقائد و احکام کی نئی تعبیر و تشریح، اور
  • انگریزوں کی وفاداری کی تلقین

کے بارے میں سر سید احمد خان کا فکری پروگرام ان سے ایک نسل بھی آگے نہیں بڑھ سکا۔

اس مرحلہ پر ایک اور غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ولی اللّٰہی جماعت کے اکابر نے انگریزی زبان اور جدید علوم کی تعلیم کی کبھی مخالفت نہیں کی، بلکہ ہر دور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ البتہ انگریزی زبان کے ساتھ خودبخود وارد ہو جانے والی انگریزی ثقافت اور سوچ کی ضرور مخالفت کی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں دو حوالے پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں:

ایک فتوٰی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا ہے جو دیوبندی جماعت کے سب سے بڑے مفتی ہیں اور سر سید احمد خان کے معاصرین میں سے ہیں، ان کا یہ فتویٰ ’’فتاویٰ رشیدیہ‘‘ میں آج بھی موجود ہے کہ

’’انگریزی زبان سیکھنا درست ہے بشرطیکہ کوئی معصیت کامرتکب نہ ہو، اور نقصان دین میں اس سے نہ آوے۔‘‘

دوسرا فتویٰ حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کا ہے جن کی وفات کے وقت سر سید احمد خان کی عمر صرف سات سال تھی، شاہ صاحبؒ فتاویٰ عزیزی میں لکھتے ہیں کہ:

’’انگریزی پڑھنا یعنی انگریزی حروف کا پہچاننا اور اس کی لغت اور اصطلاح جاننا، اس میں کچھ قباحت نہیں، بشرطیکہ صرف مباح ہونے کے خیال سے انگریزی حاصل کی جائے۔ اس واسطے کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے موافق زید بن ثابتؓ نے یہود و نصاریٰ کی خط و کتابت کا طریقہ اور ان کی زبان سیکھی تھی، اس غرض سے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس زبان میں کوئی خط آئے تو اس کا جواب لکھ سکیں۔ ہاں اگر صرف ان کی خوشامد کی غرض سے اور ان کے ساتھ اختلاط رکھنے کے لیے یہ علم پڑھے، اور اس ذریعہ سے چاہے کہ ان کے ہاں تقریب حاصل ہو، تو البتہ اس میں حرمت اور کراہت ہے۔‘‘

شاہ صاحبؒ کا یہ ارشاد اس امر کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ علماء کرام نے انگریزی زبان کی مخالفت نہیں کی تھی، بلکہ انگریز پرستی کے اس رویہ کے خلاف نفرت کا اظہار کیا تھا جس نے آج تک ہمیں ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter