دینی جدوجہد کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم

   
۶ نومبر ۲۰۱۵ء

ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر ان دنوں مختلف دینی جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور دینی جماعتوں کی سربراہی کانفرنس کی راہ ہموار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ملی مجلس شرعی پاکستان نے بھی چند دنوں سے اسی مقصد کے لیے سرگرمیوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ ۱۸ اکتوبر کو ہمدرد ہال لاہور میں ملی مجلس شرعی کے زیر اہتمام مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ راہنماؤں کا ایک بھرپور نمائندہ اجتماع ہوا تھا جس میں ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ نے بھی شرکت کی۔ اس اجتماع میں دینی جدوجہد کے حوالہ سے ملک کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے ان اہم ترین اہداف کا تعین کیا گیا جن کے لیے فوری جدوجہد کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے مختلف مکاتب فکر کی دینی جماعتوں پر مشتمل ان دونوں فورموں نے مل جل کر محنت کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ اہداف مختصرًا درج ذیل ہیں:

  • ملک کو تیزی کے ساتھ سیکولرازم کی طرف لے جایا جا رہا ہے جس کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے حلقے متحرک ہیں۔ اس کے لیے دستور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں اور اسلامی تشخص کے انکار سے لے کر فحاشی کے مسلسل فروغ تک مختلف دائرے واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ اس منفی عمل کی روک تھام کے لیے ملک کی دینی قوتوں اور پاکستان کے اسلامی تشخص پر یقین رکھنے والے تمام حلقوں کا متحد ہونا انتہائی ضروری ہے اور اس کا آغاز سربراہی کانفرنس کی صورت میں ہونا چاہیے۔
  • غازی ممتاز حسین قادری کے لیے موت کی سزا کا عدالتی فیصلہ شرعی اور قانونی بحث و تمحیص سے قطع نظر سوسائٹی میں ایک نئے فکری خلفشار کا باعث بن رہا ہے جس سے عالمی سیکولر قوتیں پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کے لیے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عدالت عظمیٰ اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کی صورت میں قانونی معاملات کے ساتھ ساتھ اس کے شرعی پہلوؤں اور اس سلسلہ میں عوام کے جذبات کو بھی سامنے رکھے۔ جبکہ اس سے اگلے مرحلہ میں صدر پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیکولر لابیوں کے دباؤ میں آنے کی بجائے غازی ممتاز حسین قادری کی سزائے موت کو معاف کرنے کا اعلان کریں۔ اس سلسلہ میں دینی تقاضوں اور عوامی جذبات کی نمائندگی کے لیے مشترکہ جدوجہد ضروری ہے۔
  • حکومت پاکستان دستور کی واضح ہدایت کے باوجود سودی نظام کے خاتمہ میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح فیصلہ کے بعد بھی اپیل در اپیل کے مراحل اس منحوس سودی نظام کے تسلسل کو دراز کر رہے ہیں۔ جبکہ عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی کے ان ریمارکس نے سودی نظام سے نجات کے سلسلہ میں عوام کے شکوک و شبہات میں اضافہ کر دیا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے اور وہ عدالت عظمیٰ میں مدرسہ کھول کر سود کی حرمت کا درس نہیں دے سکتے، جو سود نہ لینا چاہے نہ لے اور جو لیتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ خود پوچھ لے گا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت سمیت ریاستی ادارے سودی نظام کے خاتمہ اور اس سلسلہ میں دستوری ہدایات پر عملدرآمد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔
  • فحاشی اور عریانی کے ہر سطح پر فروغ کے لیے میڈیا اور ثقافت کے مختلف دائرے جس تیزی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اس سے معاشرہ کی اسلامی اور اخلاقی اقدار پامال ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے سدباب کے لیے بھی دینی جماعتوں کا متحد ہو کر سامنے آنا ضروری ہے۔

یہ اہداف وہ ہیں جن کے لیے پورے ملک کے ہر حلقہ میں، ہر سطح پر اور ہر دائرے میں فکرمندی پائی جاتی ہے اور اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر عوامی جذبات کی ترجمانی اور نمائندگی کے لیے کوئی مشترکہ فورم دکھائی نہیں دیتا، جس سے مایوسی جنم لے رہی ہے۔ کم و بیش انہی اہداف کے لیے ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر کئی روز سے سرگرم عمل ہیں اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن سمیت متعدد راہنماؤں سے ملاقات کر چکے ہیں۔ جبکہ تحریک انسداد سود پاکستان کے زیر اہتمام لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سیالکوٹ اور دیگر شہروں میں مختلف اجتماعات ہو چکے ہیں اور دیگر دینی جماعتیں بھی اپنے اپنے دائروں میں متحرک ہیں۔ لیکن اس کے لیے قومی سطح پر اجتماعی فورم کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے اور اس بار اس سلسلہ میں پیش رفت کے لیے ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ملی مجلس شرعی پاکستان کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے اس صورت حال پر باہمی مشاورت کے لیے ۴ نومبر کو اپنے دفتر میں کچھ سرکردہ حضرات کی ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں مولانا مفتی محمد خان قادری، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، علامہ خلیل الرحمن قادری، محترم حافظ عاکف سعید، مولانا سید عبد الوحید، مولانا محمد رمضان اور دیگر حضرات کے علاوہ راقم الحروف بھی شریک تھا۔

ملی مجلس شرعی پاکستان کے صدر مولانا مفتی محمد خان قادری نے اس موقع پر کہا کہ ان اجتماعی مقاصد کے لیے عوامی تحریک کی ضرورت ہے مگر یہ تحریک بڑی دینی جماعتوں کو متحد ہو کر چلانی چاہیے۔ ہمارا کام صرف توجہ دلانا، متعلقہ راہنماؤں سے رابطے کر کے انہیں اس کے لیے آمادہ کرنا اور ان سے تعاون کرنا ہے۔ ملی مجلس شرعی پاکستان ایک علمی و فکری فورم ہے جو مسائل کی نشاندہی، علمی راہنمائی اور توجہ دلانے کے دائرے میں کام کر رہا ہے۔ راقم الحروف نے مفتی صاحب محترم کی تائید میں عرض کیا کہ ہماری جدوجہد تحریک نہیں بلکہ ’’توجہ دلاؤ تحریک‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے اور ہم اس کے لیے بحمد اللہ مسلسل مصروف عمل ہیں۔

اس موقع پر طے پایا کہ مذکورہ بالا اہداف کے لیے ملی یکجہتی کونسل کے صدر صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر کی مساعی کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی بھرپور حمایت کی جائے اور ان سے ملاقات کر کے اس سلسلہ میں ان سے تعاون کا طریق کار طے کیا جائے۔ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ ملک کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے اپیل کی گئی کہ وہ نظریاتی و دینی جدوجہد کے حوالہ سے موجودہ صورت حال کی سنگینی کی طرف فوری توجہ دیں اور جلد از جلد سربراہی کانفرنس کا اہتمام کر کے قوم کی بروقت راہنمائی کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter