مختلف اخبارات میں ”آن لائن“ کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے عالمی کنونشنز پر دستخط کر کے ان کی توثیق کر دی ہے۔ عالمی کنونشنز نے مراد انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر اور اس کی تشریح و تعبیر میں مختلف اوقات میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والی کانفرنسوں اور کنونشنز کے فیصلے ہیں، جن میں عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، مزدوروں کے حقوق، قیدیوں کے حقوق اور اس نوعیت کی دیگر دستاویزات شامل ہیں۔ صدارتی ترجمان کے مطابق ان کنونشنز پر موجودہ حکومت کے دور میں ہی ۱۷ اپریل ۲۰۰۸ء کو دستخط کیے گئے تھے، مگر ان کی کابینہ سے منظوری اور صدر کی طرف سے توثیق کا انتظار تھا۔ ۲۴ مارچ ۲۰۱۰ء کو وفاقی کابینہ نے بعض تحفظات کے ساتھ ان کی منظوری دی اور اب صدر مملکت کے دستخط اور توثیق کے بعد اسے اقوام متحدہ کو بھجوایا جا رہا ہے، جس کے ساتھ ہی پاکستان سیاسی و سول حقوق کے تحفظ اور تشدد کے مخالف ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ صدارتی ترجمان کے مطابق وفاقی کابینہ نے ان کنونشنز کے سلسلے میں جن تحفظات کا اظہار کیا تھا، ان میں (۱) اسلامی قوانین (۲) نظریہ حق خود ارادیت اور (۳) پاکستان کے آئین کے مطابق/ متعلق کچھ امور شامل ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی چارٹر اور عورتوں سمیت مختلف طبقات کے حقوق کے حوالے سے ہم ان کالموں میں متعدد بار گفتگو کر چکے ہیں اور علمی و دینی حلقوں پر مسلسل زور دیتے آ رہے ہیں کہ یہ عالمی دستاویزات اسلامی تہذیب و ثقافت کے مختلف پہلوؤں اور قرآن و سنت کے متعدد صریح احکام سے متصادم ہیں، ان پر علمی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور دنیا پر یہ واضح کرنا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے حوالے سے بھی اور پاکستانی ہونے کے حوالہ سے بھی قرآن و سنت کے احکام کے دائرے میں رہنے کے پابند ہیں اور قرآن و سنت سے ہٹ کر کوئی پابندی قبول کرنا یا قرآن و سنت کے کسی حکم سے دست برداری اختیار کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ مثلاً:
- ان معاہدات میں مرد اور عورت کے درمیان ہر قسم کے امتیاز کو ختم کرنے اور مکمل مساوات کے قیام کے لیے کہا گیا ہے، جو اسلامی احکام کی رو سے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کی جا سکتی۔ مرد اور عورت کی جسمانی ساخت، نفسیات، فطری فرائض اور طبعی رجحانات میں قدرت نے جو فرق رکھا ہے، اسے آخر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ اسلام نے اسی فرق و امتیاز کی بنیاد پر مرد اور عورت کے احکام و قوانین میں فرق رکھا ہے اور ان کے درمیان تقسیم کار کے اصول پر حدود قائم کی ہیں۔ مغرب اس تقسیم کار اور حدود کی نفی کر کے فطرت سے انحراف کر رہا ہے اور خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں اس کی سزا بھی بھگت رہا ہے، مگر ہمارے لیے اس کا اصرار یہی ہے کہ ہم مرد اور عورت کے درمیان امتیاز کرنے والے قوانین سے دست بردار ہو جائیں اور ان کے حقوق و فرائض میں تقسیم کار کے اصول کی نفی کر کے مغرب کے ثقافتی معیار و ماحول کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیں۔
- اسی طرح ان معاہدات کا کہنا یہ ہے کہ سزائے موت کو ختم کر دیا جائے اور جرائم کی سزاؤں میں سے ہر ایسی سزا کو نکال دیا جائے جس میں موت، جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت کا عنصر شامل ہو، جبکہ اسلام کی حدود و تعزیرات میں موت بھی ہے، قطع اعضاء بھی ہے، کوڑے بھی ہیں اور سزا کو عمومی عبرت کا ذریعہ بنانے کے لیے اس کی تشہیر بھی شامل ہے۔ تجربہ نے بھی یہ بات واضح کر دی ہے کہ معاشرتی جرائم پر قابو پانا سخت سزاؤں کے سوا ممکن نہیں ہے۔ اگر عالمی کنونشنز کی ان دستاویزات کو من و عن قبول کیا جائے تو ہمیں اسلام کے حدود و قصاص کے پورے نظام سے دستبردار ہونا ہو گا۔
- اسی طرح کی صورت حال مذہبی امتیاز کے قوانین کی ہے کہ ان معاہدات کی رو سے ہم کوئی ایسا قانون ملک میں نافذ نہیں کر سکتے جس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے قوانین میں فرق ہو اور دونوں کا دائرہ کار الگ الگ بیان کیا گیا ہو، جبکہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست میں غیر مسلموں کے تمام جائز حقوق کے تحفظ و احترام کے باوجود بہت سے معاملات میں فرق اور امتیاز موجود ہے اور اس کی بنیاد قرآن و سنت کے صریح احکام پر ہے۔
- آزادئ اظہار رائے کے معاملہ میں بھی ایسی ہی کنفیوژن پائی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور دیگر بین الاقوامی معاہدات اور کنونشنز اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ کسی شخص کے کوئی رائے قائم کرنے اور اس کے کسی بھی سطح کے اظہار پر کوئی قدغن نہ ہو اور اسے کسی صورت میں بھی جرم تصور نہ کیا جائے، خواہ اس کی رائے خدا کے خلاف ہو، قرآن کریم کے خلاف ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو یا صریح اسلامی احکام کے خلاف ہو۔ ظاہر بات ہے کہ کسی نظریاتی اسلامی ریاست میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس وقت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی پر مبنی کارٹونوں اور خاکوں کے حوالہ سے جو بحث چل رہی ہے، اس کی بنیاد اسی نکتہ پر ہے کہ ہر شخص کو رائے قائم کرنے اور اس کے اظہار کا حق ہے اور کسی بھی گروہ کی طرف سے اس سلسلہ میں قدغن لگانے کا مطلب آزادئ اظہار رائے کے حق کو ختم کرنا ہے۔
صدارتی ترجمان کے مطابق ان کنونشنز پر دستخط کرتے ہوئے صدر مملکت کی طرف سے یا وفاقی کابینہ کی طرف سے جن تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے ان میں اسلامی قانون کا بطور حوالہ ذکر تو ہے، مگر اس کی وضاحت اور تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ ان تحفظات میں دستورِ پاکستان کے مطابق پرویژن کا بھی ذکر کیا گیا، جو یہی ہو سکتا ہے کہ چونکہ دستور پاکستان کی بنیاد اسلامی نظریے اور قرآن و سنت پر ہے، اس لیے انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدات کو اس کے دائرے میں ہی قبول کیا جا سکتا ہے۔ تحفظات میں تیسرے نمبر پر جس کا ذکر کیا گیا ہے وہ نظریہ حق خود ارادیت ہے، جن کی وجہ سے مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بازار گرم کیا گیا ہے۔ ان میں مظلوم قوموں کے حق خود ارادیت کے لیے ہتھیار اٹھانے اور دہشت گردی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا، بلکہ دہشت گردی کی کوئی مسلم تعریف طے کیے بغیر اس عنوان سے دنیا بھر میں مختلف حلقوں کے خلاف جنگ جاری ہے اور جنگ کرنے والے اس صورت حال کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے جسے چاہیں دہشت گرد قرار دے کر اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔
جہاں تک ان تحفظات کے تذکرے کا تعلق ہے، ہمیں اس سے خوشی ہوئی ہے کہ وفاقی کابینہ نے ان بین الاقوامی معاہدات کی منظوری دیتے ہوئے ان تحفظات کا ذکر کیا ہے اور صدر مملکت نے بھی توثیق کرتے ہوئے ان تحفظات کا اظہار کیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک صرف انتخابات کافی نہیں ہے، بلکہ حکومت کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ
- ان تحفظات کا ذکر صرف دستخط کی خبر جاری کرتے ہوئے پریس ریلیز میں ہی ضروری سمجھا گیا ہے یا ان اصل دستاویزات پر دستخط کے ساتھ بھی ان تحفظات کا کوئی حوالہ دیا گیا ہے؟
- یہ تحفظات جن کا صدارتی ترجمان نے اجمالاً ذکر کیا ہے، ان کی تفصیلات کیا ہیں اور ان کے بارے میں حکومت پاکستان کا مکمل موقف کیا ہے؟
- ان تحفظات کا صرف تذکرہ کافی سمجھ لیا گیا ہے یا حکومت ان تحفظات کو بین الاقوامی فورم پر اٹھانے اور ان کے حوالے سے کوئی لابنگ یا کمپین چلانے کا بھی پروگرام رکھتی ہے؟
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی سطح اور دائرے سے ہٹ کر ملک کے علمی اور دینی حلقوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلہ پر سنجیدہ توجہ دیں اور اسے اپنے باقاعدہ ایجنڈے اور پروگرام میں شامل کر کے عالمی اور ملکی دونوں سطحوں پر اسلام کے موقف کی وضاحت میں مؤثر کردار ادا کریں۔