برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری میں قرآن کریم کے قدیم ترین نسخے کے اوراق کی دریافت نے علم و تحقیق کی دنیا کو دلچسپی کا ایک اور میدان فراہم کر دیا ہے اور مختلف ماہرین اس نسخہ کے حوالہ سے اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ اوراق قرآن کریم کے قدیم ترین نسخے کے ہیں اور ان کی تحریر کا دور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کا دور سمجھا جا رہا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو یہ مقدس اوراق مصحف قرآنی کے اس نسخے کے ہو سکتے ہیں جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حکم پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت انصاریؓ نے مرتب کیا تھا اور مسجد نبویؐ میں عام لوگوں کے استفادے کے لیے اس ستون کے ساتھ رکھ دیا گیا تھا جو اسطوانہ مصحف کے نام سے معروف ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد یہ مصحف شریف ام المومنین حضرت حفصہؓ کے پاس رکھوا دیا گیا تھا اور جب حضرت عثمان بن عفانؓ نے اپنے دورِ خلافت میں قرآن کریم کو از سر نو قریش کی لغت پر لکھوایا تو حضرت زید بن ثابتؓ ہی کی قیادت میں ایک کمیٹی نے یہ فریضہ سر انجام دیا تھا۔ انہوں نے ام المومنین حضرت حفصہؓ سے مصحف شریف منگوایا اور اس کی نقلیں تیار کرنے کے بعد انہیں واپس کر دیا تھا۔ چنانچہ برمنگھم یونیورسٹی سے دریافت ہونے والے یہ اوراق اب تک کی تحقیق و ریسرچ کے مطابق اسی نسخہ کے محسوس ہوتے ہیں۔
حضرت عثمانؓ نے جو نسخے تیار کرائے تھے وہ اسی مصحف صدیقیؓ کی نقل اور کاپی تھے صرف اس فرق کے ساتھ کہ ان میں قریش کی لغت و زبان کی پابندی کو ملحوظ رکھا گیا تھا۔ یہ نسخے قرآن کریم کے اسٹینڈرڈ نسخوں کے طور پر عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں بھجوائے گئے تھے جن میں سے چند مصاحف اصلی حالت میں آج بھی موجود و محفوظ ہیں۔ ایک نسخہ استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں ہے جس کی زیارت کے لیے ہزاروں لوگ استنبول جاتے ہیں۔ ۱۹۸۵ء میں حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ہمراہ لندن جاتے ہوئے میں بھی دو دن کے لیے استنبول رکا تھا۔ ارادہ یہی تھا کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری ہو جائے اور توپ کاپی میوزیم میں مصحف عثمانیؓ کی زیارت کا شرف حاصل کر لیں۔ مگر میوزیم ان دنوں مرمت کے لیے بند تھا اس لیے اس سعادت سے ہم محروم رہے۔ البتہ سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری اور دعا کا شرف حاصل ہوگیا تھا۔
ایک نسخے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ تاشقند کی مرکزی جامع مسجد کے میوزیم میں ہے جبکہ تیسرا نسخہ لندن کے برٹش میوزیم کے سیکشن انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے۔ اس نسخے کی زیارت میں نے کی ہے۔ حضرت سید نفیس الحسینی شاہؒ اور مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے ہمراہ ایک موقع پر انڈیا آفس لائبریری میں حاضری ہوئی اور دیگر بہت سے تبرکات و نوادرات کے ساتھ ساتھ مصحف عثمانیؓ کی زیارت کی سعادت بھی حاصل کی بلکہ مصحف شریف کو ہاتھوں میں لے کر اس کی ورق گردانی اور اس کے آخر میں بعض ترکی، صفوی اور مغل حکمرانوں کی مہریں دیکھنے کا موقع ملا جن کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا یہ مصحف مبارک یہاں تک پہنچا تھا۔ میں اس سعادت پر تبصرہ کرتے ہوئے عام طور پر اپنے تاثرات یوں بیان کیا کرتا ہوں کہ قرآن کریم ہاتھ میں اٹھاتے ہوئے میری نظر آسمان کی طرف اٹھ گئیں اور زبان حال سے گویا ہوئیں کہ اے اللہ! تو کتنا بے نیاز ہے کہ مصحف عثمانیؓ کی حفاظت کن لوگوں کے ذریعہ کروا رہا ہے اور صرف حفاظت نہیں بلکہ اس کے اصلی ہونے کی شہادت بھی ان سے دلوا رہا ہے کہ مصحف شریف کے ساتھ اس کی تاریخ اور سند بھی درج ہے جس کے حوالہ سے وہ انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ کیا گیا ہے۔
حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ جب پہلی بار پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تو یہ خبر اخبارات میں گردش کر رہی تھی کہ یمن کے دارالحکومت صنعا کے کسی کتب خانہ میں قرآن کریم کا ایک قدیمی نسخہ دریافت ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تحریر فرمودہ ہے۔ مولانا چنیوٹیؒ اور راقم الحروف دونوں اس دور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان درخواستی گروپ کے مرکزی عہدہ دار تھے اور راقم جمعیۃ کے آرگن ہفت روزہ ترجمانِ اسلام کا مدیر تھا۔ یہ مولانا چنیوٹیؒ کا حسن ذوق تھا کہ وہ مصحف علویؓ کی زیارت کے لیے خود یمن گئے اور پوری رپورٹ لے کر آئے جس کے مطابق جرمن ماہرین نے ریسرچ کے بعد اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ مصحف حضرت علیؓ کے دور کا ہی ہے اور انہی کا تحریر کردہ معلوم ہوتا ہے۔ مولانا چنیوٹیؒ نے بطور خاص یہ بھی چیک کیا کہ اہم مقامات کے حوالہ سے مصحف عثمانیؓ اور مصحف علویؓ میں کوئی فرق تو نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک انہوں نے تقابل کر کے دیکھا ہے انہیں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ اس کی مختصر رپورٹ اس دور میں ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں ہم نے شائع کی تھی اور مصحف علویؓ کے ایک صفحہ کا عکس بھی غالباً شامل اشاعت کیا تھا۔
مصحف عثمانیؓ اور مصحف علویؓ کے حوالہ سے ان تاریخی شہادتوں کے بعد اب اگر برمنگھم یونیورسٹی سے دریافت ہونے والے مقدس اوراق کو مصحف صدیقیؓ کا مبینہ طور پر حصہ سمجھا جا رہا ہے تو یہ نہ صرف دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے خوشی اور مسرت کی بات ہے بلکہ قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی ایک اور تاریخی شہادت بھی ہے۔