حدیثِ نبویؐ۔ علومِ دینیہ کا سرچشمہ

   
۱۳ جنوری ۲۰۲۳ء

۱۳ جنوری ۲۰۲۳ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں مدرسہ انوار العلوم کے اختتامِ بخاری شریف کے اجتماع سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مدرسہ انوار العلوم جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ کے دورہ حدیث کے طلبہ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا داؤد احمد کی سربراہی میں اساتذہ کرام سے اپنے نصاب کی تعلیم حاصل کی ہے اور آج وہ بخاری شریف کا آخری سبق اور حدیث شریف پڑھنے کا اعزاز حاصل کر رہے ہیں۔ اس سعادت پر میں طلبہ، ان کے والدین و اہل خاندان، اساتذہ اور مدرسہ کے منتظمین و معاونین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے علم کی حفاظت کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں ، اور تمام متعلقین کو اس کی برکات عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ اس موقع پر دعا سے قبل دو تین گزارشات عرض کرنا چاہتا ہوں۔

حدیث شریف پڑھنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق و نسبت نصیب ہوتی ہے اور اس کی برکات و فیوض سے ہم بہرہ ور ہوتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہمیں اس علم سے عملی ماحول میں جو کچھ ملتا ہے اس پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے:

  1. حدیث کے ذریعے ہمیں قرآن کریم تک رسائی ملتی ہے۔ مثلاً پہلی وحی سورۃ القلم کی پانچ آیات ہیں جو ہمیں غارِ حرا کے واقعہ سے ملیں، اور غارِ حرا کا واقعہ ’’حدیث‘‘ کہلاتا ہے۔ یعنی قرآن کریم کی آیات اور سورتیں حدیث کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اور ہر آیت ،سورۃ اور جملہ کا معاملہ یہی ہے۔
  2. قرآن کریم کے مفہوم اور اللہ تعالیٰ کی منشا تک ہماری رسائی کا ذریعہ بھی حدیثِ نبویؐ ہے۔ اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم کا ارشاد ’’من یعمل سوء یجز بہ‘‘ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ پریشان ہو گئے کہ جب ہر چھوٹے بڑے عملِ سوء پر سزا ملنی ہے تو پھر کون نجات حاصل کر سکے گا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ ’’یجز بہ‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ ہر عمل کی سزا قیامت کو ہی ملے گی بلکہ مومن کے اعمالِ صالحہ کو اللہ تعالیٰ گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنا دیتے ہیں اور مومن کو پیش آنے والی ہر مصیبت، گناہ، پریشانی اور نقصان اس کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے۔ اس وضاحت پر حضرت ابوبکرؓ کی پریشانی دور ہوئی اور یہ وضاحت ہم تک حدیث کے ذریعے پہنچی ہے۔
  3. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و احکام تک ہماری رسائی بھی حدیث کے ذریعے ہوتی ہے، مثلاً سورج گرہن کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ جب سورج کو گرہن کی حالت میں دیکھو تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور نماز پڑھو، یہ حکم ہم تک حدیث کے ذریعے پہنچا ہے، اسی طرح باقی ارشاداتِ نبویؐ کا ذریعہ حدیث ہے۔
  4. اس کے ساتھ سنتِ رسولؐ بھی حدیث کے ذریعے سے معلوم ہوتی ہے، مثلاً نماز حضور نبی کریمؐ کے طریقے پر پڑھنی ہے جو کہ سنت کہلاتا ہے، اور نماز کے حوالے سے آپؐ کا طریق کار اور سنت ہم تک حدیث کے ذریعے ہی پہنچا ہے۔

    گویا قرآن کریم کے الفاظ و آیات، معنی و مفہوم، نبی کریمؐ کے ارشادات اور آپ کی سنت مبارکہ کو معلوم کرنے کا ذریعہ ہمارے پاس صرف حدیثِ نبویؐ ہے، اس کے بغیر ہم ان چاروں امور میں سے کسی ایک کا علم بھی حاصل نہیں کر سکتے۔

  5. دین کی ان چار بنیادوں کے علاوہ ایک اور اہم بات کا ذکربھی کرنا چاہوں گا جو فہمِ دین کے لیے ضروری ہے اور وہ بھی حدیث کی وساطت سے میسر آتا ہے۔ وہ یہ کہ قرآن کریم کے کسی ارشاد یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے یہ معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ یہ بات کس موقع پر کہی گئی ہے اور کس پس منظر میں کہی گئی ہے۔ کیونکہ موقع اور پس منظر کے بدلنے سے بات اور واقعہ کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ اسے آج کی دنیا میں بیک گراؤنڈ یا کانٹیکسٹ کہا جاتا ہے جبکہ مفسرینِ کرامؒ اسے ’’شانِ نزول‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی بھی ایک مثال عرض کروں گا کہ شراب کی حرمت کی آیات میں ’’لیس علی الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا‘‘ کا یہ جملہ بعض صحابہ کرامؓ کے لیے غلط فہمی کا باعث بن گیا اور انہوں نے سمجھا کہ اس میں تھوڑی بہت شراب پی لینے کی گنجائش موجود ہے۔ معروف بدری صحابی حضرت قدامہ بن مظعونؓ بطور خاص اس مغالطہ کا شکار ہوئے اور امیر المومنین حضرت عمرؓ کے دربار میں ان کی باقاعدہ طلبی ہوئی جس پر انہوں نے اس آیتِ قرآنی کا مذکورہ مطلب بیان کیا تو حضرت عمرؓ نے انہیں یہ فرما کر سختی سے ڈانٹا کہ اگر تم بدری صحابیؓ نہ ہوتے تو میں تمہیں اس کی سخت سزا دیتا۔ پھر وضاحت فرمائی کہ یہ آیت شراب کے حرام ہونے کے بعد بعض صحابہ کرامؓ کے اس سوال کے جواب میں نازل ہوئی تھی کہ شراب حرام ہے اور اسے قرآن کریم نے ’’رجس‘‘ گندگی کہا ہے تو ہمارے جو ساتھی حرمت کے اس اعلان سے قبل شراب پیتے تھے اور وہ اس دوران فوت ہو گئے بلکہ بعض شہید بھی ہوئے تو ان کا کیا بنے گا؟ ان کے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو اہلِ ایمان اس سے قبل شراب پیتے رہے ان پر کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی حرج نہ ہونے کی بات آئندہ کے لیے نہیں بلکہ ماضی کے حوالے سے ہے۔ اس سے صحابہ کرامؓ کا اشکال دور ہوا اور بات واضح ہوئی۔

چنانچہ (۱) قرآن کریم کے الفاظ (۲) اللہ تعالیٰ کی منشا و مراد (۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و اقوال (۴) اور آپؐ کی سنتِ مبارکہ کے ساتھ (۵) ان کے واقعاتی پس منظر تک رسائی بھی حدیث کے ذریعے ملتی ہے۔ اور اس طرح حدیث نبویؐ دین کی ہر بات تک رسائی کا واحد ذریعہ قرار پاتی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و حدیث پر عمل اور اس کی خدمت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter