’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کے مقدمہ کو اردو کے قالب میں اس سے قبل اپنے انداز میں پیش کیا تھا جو روزنامہ اسلام کی اشاعت ۱۱ تا ۱۴ مارچ ۲۰۱۶ء میں قسط وار شائع ہو چکا ہے مگر اس کی تمہید شامل نہیں ہو سکی تھی جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے اس عظیم کتاب کے موضوع کے تعارف اور تصنیف کے پسِ منظر کے طور پر تحریر فرمائی تھی، اسے اب قلمبند کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں تاکہ مقدمہ مکمل ہو جائے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ ! بے شک علوم یقینیہ (وحی کے علوم) کی بنیاد اور اس کا رأس، نیز فنونِ دینیہ کی اساس اور ان کی بنیاد ’’علمِ حدیث ‘‘ ہے جس میں ان امور کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن کا صدور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا وہ قولی ہوں، فعلی ہوں یا تقریری ہوں۔ تقریری سے مراد وہ امور ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوئے یا آپ کے علم میں لائے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرما کر ان کی عملی توثیق کر دی۔
علمِ حدیث کی حیثیت تاریکی میں جلائے جانے والے چراغوں اور راہِ ہدایت کے نشانات کی ہے اور وہ چمکتے ہوئے پورے چاند کی طرح ہے جو شخص اس کے سامنے جھک گیا اور اسے یاد کر لیا اس نے رشد و ہدایت پائی اور اس کو خیرِ کثیر عطا کی گئی اور جس نے اس سے اعراض کیا اور منہ پھیر لیا وہ گمراہ ہوا اور مقامِ ہدایت سے گر گیا اور اپنے نفس کے لیے خسارے کے سوا کچھ اضافہ نہ کیا اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی باتوں سے منع کیا ہے، بہت سے کاموں کا حکم دیا ہے، بہت سے کاموں سے ڈرایا ہے اور بہت سی باتوں کی بشارت دی ہے، ضرب الامثال کے طور پر باتیں ارشاد فرمائی ہیں اور نصیحتیں کی ہیں جو قرآن کریم کے مثل یا اس سے بھی زیادہ ہیں اس علم کے بہت سے درجات ہیں اور اس کے حاملین کے مختلف طبقات ہیں، اس کے کئی چھلکے ہیں جن کے اندر مغز ہے اور وہ سیپیوں کی طرح ہے جن کے اندر موتی ہیں۔
علماء کرام نے اس علم کے مختلف ابواب میں ایسی کتابیں تصنیف کی ہیں جن کے ذریعہ وحشی جانوروں کو شکار کیا جا سکتا ہے اور اڑیل جانوروں کو قابو میں لایا جا سکتا ہے یعنی مشکل سے مشکل مسائل و مقامات کو حل کیا جا سکتا ہے۔
اس علم کے تہہ در تہہ چھلکوں میں سب سے اوپر کا چھلکا احادیث کی صحت و ضعف اور ان کے مشہور یا غریب ہونے کی معرفت حاصل کرنا ہے، یہ کام محدثینِ کرام ؒ اور دور ِ اول کے حفاظ ِ احادیث نے کیا ہے اس کے بعد دوسرا درجہ احادیث کے نادر اور مشکل الفاظ کی تشریح کرنا ہے جو علوم عربیت اور فنون ادبیہ کے ائمہ اور ماہرین نے سرانجام دیا ہے۔
پھر احادیث کے شرعی مفہوم کو معلوم کرنے اور ان سے احکامِ فرعیہ کے استنباط کا دائرہ ہے جس میں غیر منصوص مسائل کو منصوص احکام پر قیاس کرنا اور عبارت النص یا اشارۃ النص وغیرہ کے طور پر ان کی درجہ بندی کرنا،ناسخ اور منسوخ کا فرق قائم کرنا اور راجح اور مرجوح کا تعین کرنا بھی شامل ہے علم حدیث کا یہ دائرہ اہلِ علم کے نزدیک مغز اور موتی کی طرح اصل مقصود کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس کا اہتمام فقہاء کرامؒ اور محققین نے کیا ہے۔
جبکہ اس کا چوتھا دائرہ یہ ہے جو میرے نزدیک تمام علوم ِ حدیث سے زیادہ دقیق، مقصد میں سب سے زیادہ گہرائی رکھنے والا، روشنی میں سب سے بلند اور قدر و منزلت میں سب سے زیادہ عظمت والا ہے وہ علم اسرار الدین ہے جو احکامِ شرعیہ کی حکمتوں اور مقاصد سے بحث کرتا ہے اور اعمال کی خصوصیات اور اسرار و نکات کو بیان کرتا ہے بخدا یہ علم اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ جو شخص اس کی صلاحیت رکھتا ہے وہ اپنے قیمتی اوقات کو اس میں صرف کرے اور فرض عبادت کی ادائیگی کے بعد اسی کو اپنی آخرت کی تیاری کا سامان بنائے۔
اس لیے کہ اس علم کے ذریعہ انسان کو شریعت کے لائے ہوئے احکام کے بارے میں بصیرت حاصل ہوتی ہے اور اس کی مثال ایسی ہو جاتی ہے جیسے شعر کے فن کا علم رکھنے والا شخص شعراء کے دیوان پڑھ کر ان کا صحیح حظ اٹھاتا ہے یا منطق کا فن جاننے والا حکماء کے اقوال کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے یا نحو کے اصولوں سے واقف شخص عرب ادیبوں کے کلام سے لطف اٹھاتا ہے یا اصولِ فقہ سے آگاہ شخص فقہی تفریعات کو بہتر طور پر سمجھ پاتا ہے۔
اسی طرح اس علم کی وجہ سے وہ اس کیفیت سے بچ جاتا ہے جو رات کے اندھیرے میں لکڑیاں جمع کرنے والے کی ہوتی ہے یا سیلاب میں ٖغوطے لگانے والے کی ہوتی ہے اور وہ بھینگی اونٹنی کی طرح ادھر ادھر پاؤں مارنے سے محفوظ رہتا ہے یا کسی اندھے جانور کی پشت پر سواری کرنے سے خود کو بچا لیتا ہے جیسے کسی شخص نے طبیب سے سنا کہ وہ مریض کو سیب کھانے کا کہہ رہا ہے تو اس کی شکل کے جنگلی پھل حنظلہ کو اس پر قیاس کر لیا۔
اس علم کے باعث صاحب ایمان شخص اپنے رب کے احکام کے بارے میں بصیرت حاصل کر لیتا ہے جیسے کسی کو ایک صادق شخص نے بتایا کہ زہر انسان کو قتل کر دیتا ہے تو اس نے یقین کر لیا مگر اس کو قرائن سے معلوم ہوا کہ اس کہ وجہ یہ ہے کہ زہر میں حرارت اور خشکی اس قدر زیادہ ہوتی ہے جو انسان کے مزاج سے متضاد ہوتی ہے اور انسان کا جسم اسے برداشت نہیں کر پاتا تو اس کے یقین میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اسرارِ دین کا یہ علم اگرچہ احادیث نبویہ علی صاحبھا التحیۃ والسلام نے اس کے اصول و فروع کو بیان کیا ہے آثارِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین ؒ میں اس کا اجمال اور تفصیل موجود ہے، فقہاء کرام نے شریعت کے ہر باب میں ان مصالح کے تعین و وضاحت کی انتہا کر دی ہے جن کی شریعت میں رعایت رکھی گئی ہے، فقہاء کرامؒ کے پیروکار محققین نے بڑے بڑے نکات واضح کیے اور دیگر نکتہ رسوں نے قیمتی پہلو اجاگر کیے ہیں جس سے یہ علم اس دائرہ سے نکل گیا ہے کہ اس میں بحث و کلام کو اجماعِ امت سے انحراف قرار دیا جائے یا اسے حیرت و ابہام کے دائرہ میں گھسنے سے تعبیر کیا جائے البتہ اس میں تصنیف کرنے والے لوگ بہت کم ہیں جنہوں نے اس علم کی بنیادوں پر گہرائی سے غور کیا ہو یا اس کے اصول و فروع کی کوئی ترتیب قائم کی ہو یا کوئی ایسی بات لائے ہوں جو ’’ بما یسمن أو یغنی من جوع‘‘ کے درجہ میں کفایت کرنے والی ہو حالانکہ یہ اس علم کا حق ہے جبکہ لوگوں میں یہ ضرب المثل مشہور ہے کہ ’’میں نے تو شیر پر سواری کر لی اب کون ہے جو میرا ردیف بننے کے لیے تیار ہے ؟ ‘‘
بظاہر یہ مشکل بھی ہے اس لیے کہ اس علم کے اسرار اسی شخص پر کھل سکتے ہیں جو تمام علوم شرعیہ پر قدرت رکھتا ہو اور فنون ِ الہیہ (سلوک و احسان) میں اس کی مہارت تام ہو اور اس علم کا مشرب و ماخذ اسی کو صاف میسر آتا ہے جس کا سینہ اللہ رب العزت نے علم لدنی کے لیے کھول دیا ہو مزاج کا سخی ہو، تقریر و تحریر میں اسے مہارت حاصل ہو، بات کی تعبیر اور اسے مزین کرنے کے ذوق سے بہرہ ور ہو اور اس بات کو سمجھتا ہو کہ اصول کیسے قائم کیے جاتے ہیں اور ان پر فروعات کی بنا کیسے رکھی جاتی ہے اور قواعد و ضوابط ترتیب دے کر ان کے مطابق نقلی اور عقلی دلائل کس طرح مہیا کیے جاتے ہیں۔
بے شک مجھ پر اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس ذات عظیم نے مجھے اس علم کا ذوق عطا فرمایا ہے اور مجھے اس کا کچھ حصہ دیا ہے مگر میں اپنی کوتاہی کا ہمیشہ سے معترف رہتا ہوں اور ’’وما ابرئی نفسی ان النفس لامارۃ بالسوء‘‘ ہمیشہ میرے پیشِ نظر رہتا ہے۔
اس کیفیت میں ایک روز عصر کی نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور متوجہ (مراقبہ میں ) بیٹھا تھا کہ مجھ پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارکہ کا ظہور ہوا اور مجھے اوپر سے ڈھانپ لیا جس سے میرے خیال میں یہ بات آئی کہ مجھ پر کوئی چادر ڈال دی گئی ہے اور اس حال میں میرے دل میں یہ بات القاء کی گئی کہ یہ دین کے بیان کی کسی نوع کی طرف اشارہ ہے (جس کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی جانے والی ہے) اس وقت میں نے اپنے سینے میں ایسا نور محسوس کیا جس کی روشنی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے پھر ایک زمانہ کے بعد میرے رب نے مجھے یہ الہام کیا کہ کہ اس نے اپنے برتر قلم کے ساتھ یہ لکھ دیا ہے کہ کسی دن میں اس کام لیے ضرور کھڑا ہوں گا اور یہ کہ زمین اللہ تعالی کے نور سے روشن ہو گئی ہے اور مغرب میں بھی اس کی روشنیاں منعکس ہو کر پھیل رہی ہیں اور یہ بات کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اس زمانہ میں دلیل و برہان کے مکمل لباس میں ظاہر ہو رہی ہے پھر میں نے مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران خواب میں دیکھا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مجھے زیارت ہوئی اور ان دونوں نے مجھے ایک قلم عطا کیا اور فرمایا کہ یہ ہمارے نانا جان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قلم ہے۔
اس وجہ سے کئی بار میں خود کو اس بات کے لیے آمادہ کرتا رہا کہ اس علم میں ایک رسالہ ایسا مرتب کر دوں جو مبتدی کے لیے بصیرت اور منتہی کے لیے تذکیر کا باعث ہو، جسے شہری اور دیہاتی سب سمجھ سکیں اور چھوٹی بڑی مجلسوں میں اسے پڑھا جا سکے لیکن کچھ باتیں میرے لیے رکاوٹ رہیں مثلا یہ کہ
- میرے پاس اور آگے پیچھے ایسے حضرات موجود نہیں ہیں جس سے مشکل اور مشتبہ امور میں اطمینان کے لیے مراجعت کر سکوں۔
- یہ جہل و عصبیت کا زمانہ ہے، ہر شخص اپنی معمولی آرا پر بھی خوش ہوتا رہتا ہے۔
- معاصرت ہمیشہ منافرت کا باعث بنتی ہے۔
- جس نے بھی کچھ لکھا ہے وہ نشانہ ضرور بنا ہے۔
اس لیے میں اگر ایک قدم آگے بڑھاتا تو دوسرا قدم پیچھے ہٹا لیتا، ایک چکر کاٹتا تو الٹے پاؤں واپس ہو جاتا میری اس کیفیت کو میرے ایک عزیز ترین بھائی اور محترم دوست مولانا محمد صاحب نے جو عاشق کے نام سے معروف ہیں محسوس کر لیا، انہوں نے اس علم کی اہمیت و مقام کو سمجھ لیا گیا اور ان کے دل میں یہ بات ڈال دی گئی کہ اس علم تک رسائی اس کے چھوڑے بڑے پہلوؤں کا تتبع کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکے گی اور اس کے لیے بہت سے شکوک و شبہات اور تناقضات و اختلافات پر جگر سوزی کرنا پڑے گی اور جو بھی اس میں کلام کرے گا وہ پہلا دروازہ کھٹکھٹانے والا ہوگا جسے اجنبی اور مشکل مسائل کا سامنا کرنا ہوگا چنانچہ مولانا عاشق موصوف اس مقصد کے لیے مختلف شہروں میں جہاں تک ہو سکا گھومے پھرے تاکہ کوئی ایسا شخص مل جائے جو یہ کام کر سکے، انہوں نے جس شخص میں خیر کا پہلو محسوس کیا اسے کریدا ایسے لوگوں کی سین شین چیک کی اور موٹے لاغر ہر قسم کے افراد کو پرکھا۔ مگر ایسا کوئی شخص انہیں نہ ملا جو ان کے خیال میں کوئی نفع بخش کام کر سکے یا کوئی بھڑکتا ہوا انگارہ پیش کر سکے، یہ دیکھ کر وہ مجھے چمٹ گئے اور ایسے اصرار کیا جیسے میرے گلے میں چادر ڈال دی ہو مجھے روک لیا اور کوئی عذر قبول کرنے کو تیار نہ ہوئے، میں جب بھی کوئی عذر پیش کرتا وہ مجھے لگام والی حدیث سنا کر لاجواب کر دیتے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس نے علم کی کوئی بات چھپائی اسے قیامت کے دن آگ کی لگام ڈالی جائے گی جس پر مجھے یقین ہوگیا یہ کام مجھے بہرحال کرنا ہی ہوگا اور ہر طرف سے یہ بات میرے سامنے آنے لگی کہ یہ وہی کام ہے جو میرے دل میں کئی بار القاء کیا گیا ہے اور وہ میرے ذمہ ہوگیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کیا استخارہ کیا۔
اور اپنی اختیار و قوت سے نکلتے ہوئے خود کو اللہ تعالی کی مرضی کے حوالہ کر دیا جیسے میت غسل دینے والے کے ہاتھ میں بے اختیار ہوتی ہے پھر میں نے اس کام کو شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے دعا مانگی کہ وہ میرے دل کو بے مقصد کاموں اور باتوں سے پھیر دے اور مجھے اشیا کی حقیقت ایسے دکھائے جیسا کہ وہ ہیں میرے دل کو مضبوطی اور زبان کو فصاحت عطاء کرے، میں جس بحث میں پڑوں مجھے اس میں غلط رخ سے محفوظ رکھے، ہر حال میں مجھے زبان کی سچائی ودیعت کرے اور میرے دل میں جو بھی شک و شبہ پیدا ہوا اس سے نکلنے میں میری مدد فرمائے اور میرے فکر کی اصلاح کرے بے شک وہی قریب مجیب ہے۔ آمین یا رب العالمین۔
مجھے اس امر کا اعتراف ہے کہ میں بیان کی مجلس کا خاموش سامع ہوں، گھوڑ دوڑ کے میدان کا لاغر گھوڑا ہو، میں چوس کر پھینکی جانے ولی ہڈی کی طرح ہوں، مجھ سے اب کتابوں کی ورق گردانی نہیں ہو پاتی کہ میرے دل کی مصروفیات کا وسیع دائرہ اس کا متحمل نہیں ہے، مجھے کتابوں کے سننے کا بھی اس درجہ کا موقع میسر نہیں ہے کہ ہر آنے جانے والے کے سامنے کھل کر باتیں کر سکوں میں اپنی ذات میں منفرد ہوں، قبر کی تیاری میں ہوں، معمولات کا اسیر ہوں اور نصیب و مقدر کا پابند ہوں وغیر ذلک۔ اس لیے جس کو میری یہ کاوش پسند آئے وہ اس پر قناعت کر لے اور جو اس سے زیادہ کچھ چاہے اسے اس کا اختیار ہے جو چاہے کرے۔
چونکہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں انسان کو مکلف قرار دینے اور سزا و جزا کے اسرار و رموز کا ذکر کرتے ہوئے اسے ’’فللہ الحجۃ البالغۃ ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ رسالہ اسی کے روشن افق کا ایک گوشہ ہے اس لیے یہ بہتر ہے کہ اس کا نام ’’حجۃ اللہ البالغۃ ‘‘ رکھا جائے۔ ’’حسبی اللہ و نعم الوکیل و لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ‘‘۔