ایٹمی عدم پھیلاؤ کی مہم اور عالمی استعمار کا اصل مشن

   
تاریخ : 
۹ فروری ۲۰۰۴ء

ڈاکٹر عبد القدیر کے ’’اعتراف جرم‘‘ اور وفاقی کابینہ کی طرف سے سفارش کے بعد صدر پرویز مشرف نے ان کے لیے جس معافی کا اعلان کیا ہے، اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس سے مسئلہ نمٹ جائے گا اور ایٹمی پھیلاؤ کے مبینہ جرم کے ارتکاب کے حوالہ سے پاکستان کے خلاف جو الزامات عالمی سطح پر سامنے آرہے ہیں، ان کی شدت میں شاید اب کمی آجائے گی، لیکن دوسری طرف عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادعی نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر کا مبینہ اعتراف جرم اس وسیع جال کی پہلی کڑی ہے جو ایٹمی پھیلاؤ کے لیے دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور جس میں اور بھی بہت سے حقائق سامنے آنے کی توقع ہے۔ گویا جس بات کو ہم اس قضیے کا اختتام سمجھ رہے ہیں، وہ الزام عائد کرنے والوں کے نزدیک نقطہ آغاز کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے ابھی صورتحال یہی ہے کہ:

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

یہ اتفاق کی بات ہے کہ آج جمعۃ المبارک کے خطاب کے لیے جب میں منبر پر بیٹھا اور قرآن کریم کی ورق گردانی کی کہ آج کے حالات کے مناسب کوئی آیت کریمہ تلاش کر کے اس کی روشنی میں کچھ معروضات پیش کروں تو چند اوراق آگے پیچھے کرتے ہوئے نظر سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۱۷ پر ٹک گئی جس میں اللہ تعالیٰ نے اسی نوعیت کے ایک واقعے کا تذکرہ فرمایا ہے اور ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ہدایات بھی دی ہیں۔

دور جاہلیت میں قمری سال کے چار مہینوں رجب، ذی قعدہ، ذی الحج اور محرم کو حرمت والے مہینے سمجھا جاتا تھا اور ان مہینوں میں باہمی قتل و قتال اور دشمنیاں عارضی طور پر موقوف ہوجاتی تھیں۔ جبکہ سال کے باقی آٹھ مہینوں کے دوران قبائلی معاشرہ میں باہمی لڑائیوں کا بازار گرم رہتا تھا، دشمن قبیلوں کے علاقہ سے گزرنا ممنوع ہوتا تھا اور دشمن قبائل کے درمیان عملاً حالت جنگ رہتی تھی۔ قبائل کا یہ قانون اور رواج ابتدا میں مسلمانوں کے ہاں بھی قابل احترام تھا جبکہ بعد میں ان مہینوں کی حرمت والا قانون منسوخ ہو گیا، لیکن منسوخی سے قبل مسلمانوں کے ہاں بھی ان مہینوں کی حرمت کے بارے میں عرب روایات اور ضابطوں کی پابندی کا اہتمام ہوتا تھا۔

اس دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر جہاد کے لیے روانہ کیا۔ یہ لشکر جب اپنے ہدف پر پہنچا تو جمادی الاخریٰ کے آخری ایام تھے اور رجب کا آغاز ہونے والا تھا۔ امیر لشکر حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے یہ سمجھ کر کہ جمادی الاخریٰ کا آخری دن ہے، دشمن پر ہلہ بول دیا۔ قتل و قتال بھی ہوا اور دشمن سے مال غنیمت بھی ہاتھ آیا، مگر اصل واقعہ یہ تھا کہ رجب کا چاند نظر آ چکا تھا اور یہ حملہ رجب میں ہوا تھا۔ اس پر مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈا کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کہ انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور عرب روایات میں سے اس روایت کو توڑ دیا ہے جس کو وہ خود بھی تسلیم کرتے آ رہے ہیں، انہوں نے رجب کی حرمت توڑی ہے اور حرمت کے ضابطوں کو پامال کر دیا ہے۔ مشرکین مکہ نے اس بات کو بطور خاص اچھالا کہ ان کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ براہ راست دشمنی تھی۔ حضرت عبداللہ بن جحشؓ جب واپس آئے تو ان کی ”ڈی بریفنگ“ ہوئی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صورتحال کے بارے میں تفتیش کی تو انہوں نے پورے حالات سے آگاہ کر دیا اور عذر بھی پیش کر دیا کہ اس خلاف ورزی کی اصل وجہ غلط فہمی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبیہ فرما کر معاملہ نمٹا دیا لیکن مشرکین مکہ کی طرف سے طعن اور اعتراض کا سلسلہ جاری رہا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت میں چند اصولی باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔

اس آیت کریمہ میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حرمت والے ماہ رجب میں لڑائی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ اس کا کیا حکم ہے تو اے پیغمبرۖ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ حرمت والے مہینہ میں جنگ کرنا بڑی بات ہے، یعنی یہ غلطی ہے جس کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اعتراض کرنے والے اور طعنہ دینے والے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کے جرائم تو اس سے کہیں زیادہ بڑے ہیں اور انہیں اس غلطی کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے بڑے بڑے جرائم کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں ان کے جرائم کا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے سے لوگوں کو روکنا، اللہ تعالیٰ کے دین کا انکار کرنا، مسجد حرام سے لوگوں کو روکنا، اور مکہ والوں کو ظلم و جبر کے ساتھ وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دینا، (یہ) حرمت والے مہینہ میں لڑائی کی غلطی سے کہیں زیادہ بڑے جرم ہیں اور وہ فتنہ و فساد جو مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف ہر طرف بپا کر رکھا ہے، وہ قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔

قرآن کریم کے اس اسلوب سے ہمیں یہ راہنمائی ملتی ہے کہ جہاں کسی غلطی کی نشان دہی ہوتی ہو اور اس وقت کے معروضی حالات میں اس کا اعتراف کرنا ضروری ہو تو اسے تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ غلطی کا الزام لگانے والوں کو ان کے جرائم بھی یاد دلائے جائیں اور تقابل کر کے انہیں بتایا جائے کہ ان کے جرائم انسانیت کے حوالہ سے، امن کے حوالہ سے اور اصول و اخلاقیات کے حوالہ سے زیادہ بڑے جرائم ہیں، اس لیے انہیں دوسروں پر اعتراض کرنے سے قبل اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے۔

اس کے بعد اسی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عالم کفر اور عالم اسلام کی باہمی کشمکش اور تنازع و اختلاف کے حوالہ سے ایک اور حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ کافر قومیں جب مسلمانوں کے خلاف معرکہ آرا ہوتی ہیں تو ان کا اصل ہدف وہ اعتراضات اور شکایات نہیں ہوتیں جن کا وہ اظہار کرتی ہیں، بلکہ ان کا حقیقی ہدف اور حتمی مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی طرح اپنے دین سے پھر جائیں اور اپنے عقائد اور اپنی روایات سے دستبردار ہوجائیں، اور جب تک عالم کفر کا یہ آخری ہدف حاصل نہیں ہو جاتا، ان کی یہ جنگ مسلمانوں کے خلاف جاری رہے گی۔ چنانچہ آیت مبارکہ کے اس حصے کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’یہ کافر تم مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے واپس نہ پلٹا دیں، اگر یہ بات ان کے بس میں ہو۔ ‘‘ اور پھر آیت کریمہ کا اختتام اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اس تنبیہ پر کیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دین سے پھر گیا تو اس کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہو جائیں گے اور یہ اس کے لیے سراسر خسارے کا سودا ہوگا۔

اس آیت کریمہ کے پس منظر میں ہم آج کے حالات، بالخصوص ایٹمی سائنس دانوں کے حوالہ سے صورتحال کا جائزہ لیں تو ہمیں چند امور کی واضح رہنمائی ملتی ہے:

  • بین الاقوامی عرف و تعامل کا احترام ضروری ہے مگر اس وقت تک جب تک اس کے بارے میں قرآن و سنت کی کوئی ہدایت اس کے خلاف سامنے نہ آجائے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں بین الاقوامی عرف و تعامل کے احترام میں ہمیں تامل نہیں ہے، مگر یہ دو وجہ سے اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔ ایک اس وجہ سے کہ یہ بین الاقوامی عرف و تعامل یا قوانین ایٹمی صلاحیت پر چند ملکوں کی اجارہ داری کو تسلیم کرنے کے اصول پر قائم ہیں جو انصاف اور قوموں کی برابری کے مسلمہ ضوابط کے منافی ہے۔ اور دوسرا اس وجہ سے کہ قرآن کریم نے سورۃ الانفال کی آیت ۶۰ میں مسلمانوں کو واضح حکم دیا ہے کہ وقت کی جدید ترین عسکری قوت کو حاصل کرو اور تمہاری عسکری صلاحیت اس درجہ کی ہونی چاہیے کہ عالمی تناظر میں قوت کا توازن تمہارے ہاتھ میں ہو۔ اس لیے ایسے کسی بین الاقوامی عرف و تعامل اور قانون کی پابندی ہم پر ضروری نہیں ہے جو قرآنی احکام سے متصادم ہو۔
  • اگر کسی معاملہ میں کوئی غلطی سامنے آجائے جو اس وقت کے عالمی ماحول میں غلطی تصور کی جاتی ہو تو اس کو تسلیم کر لینے میں قباحت نہیں ہے، مگر اس کے ساتھ دشمن کو اس کے جرائم یاد دلاتے رہنا بھی ضروری ہے اور اعتراض و طعن کی زبان دراز کرنے والوں کے سامنے ان کے اعمال کا آئینہ رکھنا بھی ناگزیر ہے۔
  • مسلمانوں کو کبھی اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسلام پر ان کے قائم رہتے ہوئے عالم کفر ان کے ساتھ کوئی رواداری اور مصالحت برت سکتا ہے، اور اسلام سے دستبرداری اختیار کیے بغیر مسلمانوں کے خلاف کافروں کی محاذ آرائی میں کوئی کمی آسکتی ہے۔ اس لیے ان کی ہر پالیسی اور حکمت عملی کا تعین اس بنیادی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے طے ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان نے جس ’’جرم‘‘ کا اعتراف کیا ہے وہ فی الحقیقت جرم ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، لیکن دو منٹ کے لیے اسے جرم تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس جرم کی سنگینی اور حجم اس قدر نہیں جو اسے جرم قرار دینے والوں کے اپنے جرائم میں پائی جاتی ہے۔ انسانیت کی تاریخ میں اس سے بڑا جرم کون سا ہوگا کہ

  • مٹھی بھر افراد نے دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ جمایا ہوا ہے،
  • اقوام و ممالک کی آزادی اور خود مختاری پر پہرے بٹھا رکھے ہیں،
  • سائنس، ٹیکنالوجی اور عسکری قوت و صلاحیت پر اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے،
  • انسانی سوسائٹی پر آسمانی تعلیمات کی عمل داری کو قوت کے بل پر روک رکھا ہے،
  • آسمانی تعلیمات کی نمائندگی کرنے والی ظاہری علامتیں بھی ان کی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہیں،
  • اور انھوں نے ملکوں اور قوموں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے، تفتیش کرنے، فیصلہ سنانے اور اسے نافذ کرنے کے تمام اختیارات خود سنبھال لیے ہیں۔

تاریخ انسانی کے اس سب سے بڑے استحصال، اجارہ داری، جبر و تشدد اور جنگل کے قانون کے بارے میں بھی کسی کو حرکت میں آنا چاہیے، ان کی بھی ڈی بریفنگ ہونی چاہیے، اور ان کی بھی نقاب کشائی ہونی چاہیے اور اگر یہ کام ہم نے نہ کیا تو قانون فطرت تو بہرحال حرکت میں آئے گا، اور جب وہ حرکت میں آتا ہے تو جرم کرنے والے اور اس پر خاموش رہنے والے، دونوں اس کی گرفت میں ہوتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter