۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء کے دساتیر

   
پاکستان میں نفاذ شریعت — الشریعہ اکادمی کے محاضرات
۲۰۱۷ء

اس کے بعد ایک نئی کشمکش شروع ہو گئی۔ جب قراردادِ مقاصد منظور ہوئی تو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین خان مرحوم تھے جو مشرقی پاکستان سے دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر آئے تھے اور فرید پور کے ضلع سے تھے۔ مجلس کے صدر تھے اور بہت سنجیدہ، فاضل اور دانشور آدمی تھے۔ قرارداد مقاصد کو منظور کروانے میں ان کا بہت کردار تھا۔ حتیٰ کہ آج کے سیکولر حلقے ابھی تک ان کے خلاف ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے مولوی تمیز الدین کے خلاف ایک مہم چلی کہ مولوی تمیز الدین نے دھاندلی سے قرارداد مقاصد منظور کروائی تھی۔ میں نے اس کا جواب دیا کہ نہیں دھاندلی تو دوسرے لوگ کر رہے تھے۔ لیکن مولوی تمیز الدین کا پھڈا ملک کے فیڈرل کورٹ سے پڑ گیا۔ سپریم کورٹ بعد میں بنی ہے، وفاقی عدالت اس وقت فیڈرل کورٹ ہوتی تھی، جسٹس محمد منیر اس کے سربراہ تھے۔

پاکستان میں المیہ یہ ہوا کہ لیاقت علی خان مرحوم اور ناظم الدین مرحوم تک ملک کی قیادت سیاسی رہی ہے لیکن ناظم الدین مرحوم کے دور میں ہی بیوروکریسی ملک کی قیادت میں گھس آئی۔ غلام محمد بیوروکریٹ تھے، سکندر مرزا اور چوہدری محمد علی مرحوم بھی بیوروکریٹ تھے۔ جب سیاست میں بیورو کریسی گھسی تو معاملہ بگڑنا شروع ہو گیا ۔ ۱۹۵۱ء / ۱۹۵۲ء میں بیوروکریسی قومی سیاست میں گھسی تھی اور ۱۹۵۸ء میں فوج بھی سیاست میں گھس آئی تھی کہ جنرل ایوب خان صدر بنے۔ یہ بیوروکریسی اور فوج جب سیاست میں دخیل ہونا شروع ہوئے تو پاکستان کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کی قیدی ہو گئی۔ تین طبقوں کا گٹھ جوڑتب سے اب تک چلا آ رہا ہے (۱) ملک کا اعلیٰ ترین کاروباری اور جاگیردار طبقہ، نواب، سردار وغیرہ (۲) بیوروکریٹ جو محکموں کے اعلیٰ حکمران ہیں (۳) اور جرنیل۔

یہ ایسی تکون قائم ہوئی ہے جس کا پہلا اظہار تب ہوا جب دستور ساز اسمبلی توڑی گئی۔ غلام محمد ملک کے گورنر جنرل تھے اور ناظم الدین مرحوم وزیراعظم تھے۔ ناظم الدین کی وزارتِ سے برطرفی کے بعد غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی۔ وہ دستور ساز اسمبلی جس نے قرارداد مقاصد پاس کی تھی اور اس کے مطابق ملک میں دستور کی تشکیل کے لیے کام کر رہی تھی، اسے غلام محمد نے گورنر جنرل کی حیثیت سے توڑ دیا۔ اس کو مولوی تمیز الدین خان نے فیڈرل کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ عوام کی منتخب اسمبلی ہے، گورنر جنرل کو اسے توڑنے کا اختیار نہیں ہے۔ جبکہ گورنر جنرل کا کہنا یہ تھا کہ میں چونکہ چیف ایڈمنسٹریٹر ہوں اس لیے مجھے اختیار ہے۔ یہاں سے ہمارے عدالتی اور دستوری جھگڑوں کا آغاز ہوا جو آج تک چل رہے ہیں۔

جسٹس محمد منیر نے مولوی تمیز الدین خان کی درخواست مسترد کر دی اور گورنر جنرل غلام محمد کا اقدام درست قرار دے دیا۔ یوں ہماری جمہوریت اور دستور سازی کی گاڑی پٹڑی سے اکھڑی اور پھر ۱۹۷۳ء میں جا کر ہم ٹریک پر چڑھے۔ یہ ۱۹۵۳ء / ۱۹۵۴ء کی باتیں ہیں۔

اس کے دو سال بعد ۱۹۵۶ء میں چوہدری محمد علی وزیر اعظم بنے جو ذاتی طور پر شریف آدمی تھے اور اسلامی نظریہ کے حامل تھے مگر بہرحال بیوروکریٹ تھے۔ وزارتیں ٹوٹتی رہیں، بنتی رہیں، کبھی کوئی پارٹی آئی، کبھی کوئی آئی۔ چوہدری محمد علی وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ۱۹۵۶ء میں نئی دستور ساز اسمبلی سے ایک دستور منظور کروایا جو ۱۹۵۶ء کا دستور کہلاتا ہے۔ اس میں ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا اور یہ پابندی عائد کی کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف دستور سازی نہیں کر سکے گی۔ اس میں کچھ اور چیزیں بھی شامل تھیں۔

۱۹۵۶ء کے دستور کا ایک بڑا کارنامہ صحیح یا غلط یہ تھا کہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کی صوبائیت ختم کر کے ون یونٹ بنا دیا۔ الگ الگ حیثیت ختم کر کے اِدھر مغربی پاکستان کے نام سے ایک صوبہ بنا دیا ، اور مشرقی پاکستان مشرقی بنگال دوسرا صوبہ تھا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی تقسیم ۱۹۵۶ء میں ہوئی۔ اس پر ملک کے دونوں خطوں میں اقتدار اور اختیارات کی سیاسی کشمکش چلتی رہی۔

۱۹۵۸ء میں معاملات زیادہ بگڑے تو کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور فیروز خان نون کی حکومت برطرف کر دی۔ سکندر مرزا ملک کے صدر تھے، ان کے ساتھ دو چار دن چلتے رہے پھر ان کو بھی چھٹی کرا دی۔ مارشل لاء ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۲ء تک چار سال رہا۔

جنرل محمد ایوب خان نے ملک کا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان بن کر ایک نیا آئین دیا جوکہ ۱۹۶۲ء کا آئین کہلاتا ہے۔ اس سے پہلے عبوری آئین تھا جس کا ایک بڑا ’’کارنامہ‘‘ یہ تھا کہ ملک کے نام سے اسلام کا لفظ حذف کر دیا اور جمہوریہ پاکستان نام کر دیا۔ جسٹس محمد منیر جس کا اوپر ذکر ہوا، یہ ایوب خان کا وزیر قانون تھا اور ساری سیکولر لابی آ گئی تھی۔ اس پر ملک میں خاصا شور مچا، ملک میں جلسے جلوس ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نام رہنا چاہیے، اسلامی کا لفظ ختم نہیں ہونا چاہیے۔

ہمارے ایک شاعر ہوتے تھے سعید علی ضیاء مرحوم و مغفور، ان کی ایک نظم بڑی مقبول ہوئی جو عموماً‌ جلسوں میں پڑھی جاتی تھی ہم بھی پڑھا کرتے تھے، اس کا ایک مصرع ہے؏ ’’ملک سے نام اسلام کا غائب ،مرکز ہے اسلام آباد‘‘۔ چونکہ انہی دنوں اسلام آباد بنا تھا، اس سے پہلے پاکستان کا دارالحکومت کراچی ہوتا تھا۔ کراچی جغرافیائی اور دفاعی اعتبار سے موزوں نہیں تھا تو دارالحکومت کے لیے متبادل جگہ جوہر آباد طے ہوئی۔ خوشاب کے ساتھ جوہر آباد نیا شہر دارالحکومت کے لیے بسایا گیا، مولانا محمد علی جوہر کے نام پر اس کا نام رکھا گیا اور ایک دفعہ فیصلہ ہو گیا کہ چونکہ یہ ملک کے وسط میں ہے، اس لیے ملک کا نیا دارالحکومت جوہر آباد ہوگا۔ لیکن جب ایوب خان صدر بنے تو انہوں نے یہ فیصلہ تبدیل کر کے مارگلہ کی پہاڑیوں میں اسلام آباد کے نام سے نیا دارالحکومت بنایا۔ اس وقت ایک طرف یہ کہ دستور سے اسلام کا لفظ ختم کر دیا اور دوسری طرف ملک کا دارالحکومت اسلام آباد بنایا تو اس پر یہ شعر مشہور ؎

ملک سے نام اسلام کا غائب مرکز ہے اسلام آباد
پاک حکمران زندہ باد پاک حکمران زندہ باد

لیکن جب ۱۹۶۲ء کا باقاعدہ دستور آیا تو پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان واپس لینا پڑا اور اس میں کچھ دفعات رکھنی پڑیں کہ یہ اسلامی ریاست ہے۔

اس کے بعد ۱۹۷۳ء کا دستور کیسے بنا؟ اس میں کون کون شریک تھے؟ کیا ہوا اور کن مراحل سے گزرے؟ یہ الگ داستان ہے۔

2016ء سے
Flag Counter