(ختمِ بخاری شریف کی تقریب سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے تو مولانا قاری محمد نعیم سعدی اور ان کے رفقاء کو جامعہ سعدیہ کی نئی بلڈنگ کی تعمیر پر مبارک باد دوں گا جس کے ہال میں اس وقت ہم بیٹھے ہیں، اللہ تعالیٰ اسے جلد تکمیل سے نوازیں اور آبادی و رونق میں اضافہ کے ساتھ ترقیات و ثمرات اور قبولیت و رضا سے بھی بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مجھ سے پہلے بہت سے علماء کرام تفصیلی بیانات کر چکے ہیں اس لیے میں اپنی گفتگو کو سبق تک محدود رکھوں گا اور طالبات کے سامنے بخاری شریف میں ان کے نصاب کی آخری روایت پڑھ کر اس کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کروں گا۔
یہ حدیث بخاری شریف میں کتاب النکاح کی آخری روایت ہے جو ایک طویل روایت کا حصہ ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات میں بیان کی ہے اور اس کا ایک حصہ یہاں نقل کیا ہے۔
امام بخاریؒ کا ذوق و اسلوب یہ ہے کہ وہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ فقیہ و مجتہد بھی ہیں، اس لیے صرف حدیث بیان نہیں کرتے بلکہ اس میں سے جو مسئلہ اور حکم مستنبط ہوتا ہے اس کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ اس لیے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ بخاری شریف صرف حدیث کی کتاب نہیں بلکہ فقہ کی کتاب بھی ہے، مثلاً
- امام بخاریؒ حدیث بیان کر کے اس میں سے اخذ کیے جانے والے مسئلہ کا ذکر نہیں کرتے بلکہ مسئلہ بیان کر کے اس کی دلیل کے طور پر حدیث لاتے ہیں۔
- ترجمۃ الباب میں مسئلہ اور حکم بیان کرنے کے بعد ہر جگہ پوری حدیث نقل نہیں کرتے بلکہ بہت سے مقامات پر حدیث کا صرف اتنا حصہ نقل کرتے ہیں جتنا مسئلہ کی وضاحت یا استدلال کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
- بہت سی احادیث میں امام بخاریؒ کے ہاں تکرار پایا جاتا ہے جو ان میں سے اخذ کیے جانے والے مسائل کے تنوع کا باعث ہوتا ہے، اس لیے کہا جاتا ہے کہ بخاری شریف کی روایات کی تعداد چھ ہزار سے زیادہ ہے لیکن اگر تکرار حذف کر دیا جائے تو ان روایات کی تعداد پانچ ہزار سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ گویا امام بخاریؒ نے اس کتاب میں مسائل و احکام زیادہ بیان کیے ہیں جبکہ ان کے مقابلہ میں احادیث کی تعداد کم ہے۔
اسی وجہ سے بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ بخاری شریف حدیث کی نہیں بلکہ فقہ کی کتاب ہے کیونکہ اس کی ترتیب فقہی ہے۔ جبکہ میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ یہ حدیث اور فقہ دونوں کی کتاب ہے اور حضرت امام بخاریؒ نے اس میں بطورِ محدث اور فقیہ و مجتہد دونوں حوالوں سے اپنے علم و فن کا کمال درجہ میں اظہار فرمایا ہے۔ یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ فقہ کوئی الگ اور مستقل علم نہیں ہے بلکہ قرآن کریم اور حدیث و سنت سے اخذ کیے جانے والے احکام و مسائل کا نام فقہ ہے، اور حدیث و فقہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ البتہ محدث اور فقیہ کا دائرۂ کار الگ الگ ہے: حدیث کی سند اور متن بیان کرنا محدث کا کام ہوتا ہے، اور اس میں سے مستنبط ہونے والے مسائل و احکام بیان کرنا فقیہ کا کام ہوتا ہے، جبکہ امام بخاریؒ یہ دونوں کام کرتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں امام مسلمؒ کی الجامع و الصحیح کو دیکھیں تو وہ خالصتاً محدّثانہ ذوق کی کتاب ہے، وہ صرف سند اور متن روایت کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ اسی حدیث کو دیکھ لیں جو میں نے ابھی آپ کے سامنے اپنی سند کے ساتھ پڑھی ہے، یہ کتاب النکاح کی آخری روایت ہے اور امام بخاریؒ نے اپنے ذوق و اسلوب کے مطابق پوری روایت بیان کرنے کی بجائے اس کا صرف اتنا حصہ نقل کیا ہے جتنا ترجمۃ الباب میں ان کے بیان کردہ مسائل کے لیے ضروری ہے، جبکہ پوری روایت انہوں نے بخاری شریف میں پانچ چھ مقامات پر اسی طرح مختلف حصوں میں بیان فرمائی ہیں۔
اس روایت کی تفصیل میں جاؤں گا تو بات بہت لمبی ہو جائے گی اس لیے اس کی صرف فقہی حیثیت کا مختصراً تذکر ہکروں گا کہ حضرت امام بخاریؒ نے صرف اس ایک حدیث سے کون کون سے مسائل مستنبط کیے ہیں اور مختلف مقامات پر اسے کس طرح بیان کیا ہے:
- یہ روایت تیمم کے حوالہ سے بیان کی گئی ہے کہ اس کا حکم کب نازل ہوا تھا اور اس کی کیفیات کیا ہیں۔
- اس روایت میں مذکور ہے کہ تیمم کے حکم کا وقتی سبب حضرت عائشہؒ کے ہار کا سفر کے دوران ایک جگہ گم ہو جانا تھا، اس لیے صحابئ رسولؐ حضرت اسید بن حضیرؓ نے اس پر یوں تبصرہ کیا کہ ’’ما ہی بأول برکتکم یا اٰل ابی بکرؓ‘‘ اے خاندانِ ابوبکرؓ! یہ ہمارے لیے تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔ یعنی تمہاری وجہ سے ہمیں اس سے قبل بھی بہت سی برکات ملی ہیں، اس حوالہ سے یہ روایت امام بخاریؒ نے سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ اور ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی فضیلت کے طور پر بھی مناقب کے باب میں بیان کی ہے۔
- اسلام میں جرائم کی سزاؤں کے باب میں عام طور پر حدود و تعزیرات کے عنوان سے دو الگ الگ شعبے بیان کیے جاتے ہیں: حدود ان سزاؤں کو کہا جاتا ہے جو طے شدہ ہیں اور انہیں معاف کرنے یا ان میں کمی بیشی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ جبکہ تعزیرات ان سزاؤں کو کہا جاتا ہے جس میں سزا کے تعین یا اس میں کمی کا حکومت یا عدالت کو اختیار حاصل ہوتا ہے۔ سزاؤں میں حدود صرف چند جرائم میں ہے باقی سب تعزیرات کے دائرہ میں آتی ہیں۔ اور حدود و تعزیرات کے نفاذ کا حق صرف حکومت اور عدالت کو ہوتا ہے، پرائیویٹ سطح پر ان کے نفاذ کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی۔
جبکہ امام بخاریؒ نے سزاؤں کے ایک تیسرے شعبہ کا ذکر کیا ہے جو تادیب کہلاتا ہے اور یہ وہ ہلکی پھلکی سزائیں ہوتی ہیں جو باپ اپنے بیٹے کو، مالک اپنے غلام کو، خاوند اپنی بیوی کو، یا استاذ اپنے شاگرد کو دے سکتا ہے۔ اور اس کے لیے حکومت یا عدالت کی اجازت شرط نہیں ہوتی۔ امام بخاریؒ نے اس ضمن میں یہ حدیث الگ باب میں بیان کی اور اس واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے ایک موقع پر اپنی بیٹی حضرت عائشہؓ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور اس کے ساتھ ہلکی پھلکی سزا بھی دی تھی۔ ’’تأدیب‘‘ کا شعبہ سزاؤں کا ایک مستقل دائرہ ہے جس کے احکام و آداب فقہاء کرامؒ نے وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں اور امام بخاریؒ نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔
- کتاب النکاح کے آخر میں امام بخاریؒ نے تأدیب ہی کے حوالہ سے یہ روایت نقل کی ہے مگر اسے یہ الگ مستقل عنوان دیا ہے کہ ”طعن الرجل ابنتہ فی الخاصرۃ عند العتاب“ باپ اپنی بیٹی کو غصہ کے وقت ہلکی پھلکی سزا دے سکتا ہے اور ام المؤمنین حضرت عائشہؒ کا یہ ارشاد ذکر کیا ہے کہ ”عاتبنی ابوبکر وجعل یطعننی بیدہ فی خاصرتی فما یمنعنی من التحرک الامکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ورأسہ علٰی فخذی“۔
حدیث کے اس ٹکڑے پر جو عنوان امام بخاریؒ نے قائم کیا ہے اس سے وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کی اصلاح کے لیے ڈانٹ ڈپٹ اور ہلکی پھلکی سزا دینے کا حق حاصل ہے جو شادی کے بعد بھی قائم رہتا ہے۔ اور یہ اولاد کے لیے فائدہ مند ہے نقصان دہ نہیں، کیونکہ اس غصہ میں شفقت ہوتی ہے اور اس ڈانٹ ڈپٹ میں خیر خواہی ہوتی ہے۔ امام بخاریؒ ہماری بچیوں کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ وہ شادی شدہ ہونے اور اپنے گھر بار والی ہو جانے کے باوجود ماں باپ کی نگرانی اور ڈانٹ ڈپٹ کی محتاج رہتی ہیں۔ اولاد کتنی ہی آگے کیوں نہ نکل جائے اور کوئی بھی مقام حاصل کر لے، ماں باپ کے لیے وہ اولاد ہی ہے، اور اولاد کے لیے وہ ماں باپ ہی ہیں۔ ماں باپ کبھی ریٹائر نہیں ہوتے اور اولاد پر ان کا حق اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ خود موجود رہتے ہیں۔
ان گزارشات کے ساتھ بخاری شریف میں اپنے نصاب کا آخری سبق پڑھنے والی بچیوں کو مبارک باد دیتا ہوں اور ہم سب دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت ان کا پڑھنا ان کے لیے، ان کے والدین اور اساتذہ کے لیے اور جامعہ سعدیہ کے منتظمین و معاونین سب کے لیے دونوں جہانوں کی برکتوں، خوشیوں اور کامیابیوں کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔