دینی مدارس میں تقریبات کی بہار

   
۲۸ مئی ۲۰۱۲ء

اس وقت جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو کی لائبریری میں بیٹھا یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔ گزشتہ کئی دنوں سے مختلف دینی مدارس میں ختم بخاری شریف کی تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہر العلوم میں بھی آج (۲۶ مئی) ظہر کے بعد بخاری شریف کا آخری سبق ہو گا، جس کے لیے اپنے پرانے بزرگ دوست حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب کے حکم پر حاضر ہوا ہوں۔ ختم بخاری شریف کی ان تقریبات نے ملک بھر میں دھیرے دھیرے دینی مدارس کے سالانہ جلسوں کی شکل اختیار کر لی ہے، اس لیے ان میں جلسوں کا رنگ غالب ہوتا جا رہا ہے اور اس پر تحفظات و اشکالات کے اظہار کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔

کوٹ ادو میں بھی بعض علمائے کرام نے آج ایک مجلس میں اس قسم کے تحفظات کا اظہار کیا اور میری رائے دریافت کی تو میں نے عرض کیا کہ بخاری شریف کی آخری روایت کسی بزرگ سے پڑھنا اور اس کے لیے جائز حد تک اجتماع اور دعا کا اہتمام ہمارے اکابر کا معمول چلا آ رہا ہے۔ خود ہمارے ہاں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ایک دور میں ایسا ہوتا رہا ہے اور اس کے لیے حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت علامہ شمس الحق افغانیؒ اور حضرت مولانا حسن جان جیسے بزرگ وقتاً فوقتاً تشریف لا چکے ہیں۔ لیکن ہمارا یہ اجتماعی مزاج بن گیا ہے کہ ہم کوئی کام شروع کرتے ہیں تو عام طور پر اس کی حدود کا خیال نہیں رکھتے اور اس کے لیے جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح کر گزرتے ہیں، جس سے الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ ورنہ اختتامِ بخاری شریف کے موقع پر اجتماعی دعا اور سنجیدہ سی تقریب میں مجھے ذاتی طور پر کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا، لیکن چونکہ مدارس کے سالانہ جلسے اور ختم بخاری شریف کی تقریبات اکثر جگہ خلط ملط ہو گئی ہیں، اس لیے دونوں کے ملاپ سے بعض جگہوں پر جہاں اس سنجیدگی اور وقار کا مناسب لحاظ نہیں ہو پاتا جو بخاری شریف کے حوالہ سے ضروری ہے، وہاں تحفظات جنم لیتے ہیں اور اشکالات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

ہم نے جامعہ نصرۃ العلوم میں حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ کی ہدایت پر اس کا یہ حل نکالا ہے کہ دونوں تقریبات الگ ہوتی ہیں۔ دستار بندی کا جلسہ الگ ہوتا ہے جو اس سال ۱۵ جون کو جمعۃ المبارک کے اجتماع کے موقع پر ہو گا اور اس کے لیے مدرسہ کی انتظامیہ نے حضرت مولانا سمیع الحق صاحب سے تشریف آوری کی درخواست کر رکھی ہے، جبکہ بخاری شریف کا آخری سبق ۶ جون بدھ کو نمازِ ظہر کے بعد ہو گا، جس میں اساتذہ و طلبہ جمع ہو کر دعا میں شریک ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

ختم بخاری شریف کی ان تقریبات میں شرکت کے لیے میرا یہ سفر گزشتہ ایک ہفتہ سے جاری ہے اور تقریبات میں شرکت کے علاوہ مختلف بزرگوں کی زیارت و ملاقات بھی ہو رہی ہے، جس کا عام حالات میں موقع کم ملتا ہے۔

۲۲ مئی کو جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی میں ختم بخاری شریف کی تقریب تھی، جس میں شرکت کے لیے ۲۱ مئی کو لاہور ایئر پورٹ سے پی آئی اے کے طیارے پر سوار ہوا تو مخدوم زادۂ مکرم حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد صاحب آف کندیاں شریف سے ملاقات ہو گئی، جو وہیں جا رہے تھے۔ اگلے روز جامعہ اسلامیہ کی تقریب میں رفاقت رہی اور اس تقریب میں ایک انتہائی قابلِ احترام بزرگ حضرت مولانا سائیں عبد الصمد صاحب آف ہالیجی شریف کی زیارت کا شرف بھی طویل عرصہ کے بعد حاصل ہوا۔ امروٹ شریف، دین پور شریف، ہالیجی شریف، بھرچونڈی شریف اور بیر شریف ہماری عقیدت کے پرانے مراکز میں سے ہیں، ان میں سے کسی مرکز کا ذکر ہوتا ہے تو دل میں عقیدت خودبخود چٹکیاں لینے لگتی ہے اور کوئی بزرگ سامنے آ جائے تو قلبی کیفیات کا زبان سے اظہار مشکل ہو جاتا ہے۔ پیر سائیں مجھے دیکھ کر خوش ہوئے اور سینے سے لگا لیا، میری خوشی بھی اپنی حدود کو پھلانگنے کے لیے بے چین ہو رہی تھی اور جامعہ اسلامیہ کلفٹن میں حاضری کا یہ پہلو میرے لیے ”نعمت غیر مترقبہ“ ثابت ہوا۔

جامعہ اسلامیہ سے فارغ ہو کر مولانا جمیل الرحمٰن فاروقی کے ہمراہ اسی روز عصر کے بعد فیڈرل بی ایریا کے علاقہ میں حضرت مولانا سید زوار حسین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں حاضری ہوئی، جو ان کے فرزند مولانا سید فضل الرحمٰن اور پوتے ڈاکٹر مولانا سید عزیز الرحمٰن کی محنت و کاوش کے باعث آباد ہے اور نقشبندی مجددی سلسلہ کا روحانی ماحول علمی و تربیتی امتزاج کے ساتھ وہاں مل جاتا ہے۔ اس مرکز میں حضرت مولانا سید زوار حسین نقشبندیؒ کی یاد میں ”یادگاری خطبات“ کے عنوان سے سلسلہ وار خطبات کا سلسلہ جاری ہے، چار خطبات ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر محمود احمد غازی نے دیے تھے، جو اسی ادارہ کی طرف سے کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ ایک خطبہ محترم جناب ڈاکٹر سید سلمان ندوی زید مجدہم نے ارشاد فرمایا اور چھٹی نشست کے لیے ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن صاحب نے مجھے اعزاز بخشا اور میں نے عصر تا مغرب ”تحقیق کی اسلامی روایت اور اس کے عصری تقاضے“ کے عنوان سے کچھ متفرق معروضات پیش کیں۔

اس کے بعد ”روزنامہ اسلام“ کے دفتر میں حاضری دی اور احباب سے ملاقات کر کے بہت سی مفید معلومات سے بہرہ ور ہوا۔ رات قیام جامعہ انوار القرآن، آدم جی ٹاؤن، نارتھ کراچی میں رہا۔ اگلے روز صبح جامعہ میں ”تخصص فی الفقہ“ کی کلاس کے سامنے حسبِ معمول مولانا مفتی حماد اللہ وحید کی فرمائش پر ”اسلامی معیشت کے چند تعارفی پہلو“ کے موضوع پر گفتگو کی۔

ناشتے پر پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمٰن درخواستی سے ملاقات اور جماعتی معاملات پر گفتگو ہوئی اور طے پایا کہ پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ کا سالانہ اجلاس ۱۷ جون اتوار کو صبح دس بجے بھوربن مری میں ہو گا اور اسی روز ظہر کی نماز کے بعد جامع مسجد لنگرکسی مری میں نظامِ شریعت کانفرنس ہو گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اس کے بعد مولانا مفتی حماد اللہ وحید کے ہمراہ حضرت مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ کی تعمیر کردہ مسجد توابین، گلشن معمار میں حاضری ہوئی۔ قبر پر فاتحہ خوانی کی، ان کے فرزند مولانا محمد عثمان اور دیگر بچوں سے تعزیت کی اور دل میں غم و اندوہ کا سمندر لیے واپسی کے لیے ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔

اس روز شام کو جامعہ اسلامیہ امدادیہ چنیوٹ کی سالانہ تقریب میں شرکت کے لیے فیصل آباد جانا ہوا۔ حسنِ اتفاق سے حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد بھی اسی فلائٹ پر تھے، سفر کی دوہری رفاقت کے علاوہ چنیوٹ کے جلسہ میں باہمی شرکت کا حظ اٹھایا۔ مخدوم العلماء بركۃ العصر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم کی زیارت ہوئی اور اگلے روز جامعہ اسلامیہ محمدیہ، ستیانہ روڈ فیصل آباد کے جلسہ ختم بخاری شریف میں بھی زیارت و رفاقت کا یہ تسلسل قائم رہا۔ مولانا عبد الرزاق ہمارے محترم دوست ہیں، انہوں نے ایک عرصہ تک سمن آباد، فیصل آباد میں جامعہ اسلامیہ محمدیہ کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں، اب ستیانہ روڈ پر مچھلی فارم کے قریب وسیع قطعہ زمین پر جامعہ اسلامیہ محمدیہ کی تعمیر اور تعلیم کا سلسلہ جاری ہے اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ بھرپور جلسہ کا باذوق ماحول دیکھ کر مولانا موصوف کی محنت کا اندازہ ہوتا ہے۔

فیصل آباد سے فارغ ہو کر گوجرانوالہ پہنچا اور جمعۃ المبارک کی نماز پڑھاتے ہی ملتان کی طرف روانگی ہو گئی۔ جامعہ حنفیہ قادریہ، قادر پور راواں ملتان ایک باذوق بزرگ حضرت مولانا محمد نواز مدظلہ کی محنت و کاوش کا عکاس ہے، جو تعلیم، نظم و نسق اور فکری و روحانی تربیت کے عمدہ ذوق سے بہرہ ور ہیں اور جامعہ حنفیہ قادریہ کے اساتذہ، طلبہ اور متعلقین میں اس ذوق کی جھلک نظر آتی ہے۔ حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم کی زیارت و ملاقات کا شرف یہاں بھی حاصل ہوا، جنہوں نے بخاری شریف کا آخری سبق پڑھایا۔ ہمارے فاضل دوست مولانا سید عدنان کاکاخیل کا فکر انگیز خطاب سنا۔ وہ جس انداز میں آج کی دنیا میں دینی علوم و افکار کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں اور جس فکر انگیزی کے ساتھ اکابر علمائے دیوبند کے متوازن فکر کی نمائندگی میں مصروف ہیں، اسے دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ فکر و علم کی کوکھ ابھی بانجھ نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھیں اور نظر بد سے ان کی حفاظت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter