امریکا میں اردو صحافت

   
۲۹ ستمبر ۲۰۰۷ء

امریکہ کے مختلف شہروں سے اردو اخبارات شائع ہوتے ہیں، جن میں پاکستان کے حالات، عالمی صورت حال اور امریکہ کی اہم خبروں کے ساتھ ساتھ امریکہ میں مقیم پاکستانی دانشوروں کی نگارشات اور پاکستان کے قومی اخبارات میں شائع ہونے والے معروف کالم نگاروں کی تحریروں کا انتخاب بھی شائع ہوتا ہے اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی سرگرمیوں کی ایک عمومی جھلک ان میں نظر آ جاتی ہے۔ یہ اخبارات مارکیٹ میں فروخت ہونے یا گھروں میں سپلائی کیے جانے کی بجائے مفت تقسیم ہوتے ہیں۔ جمعہ کے روز مساجد کے دروازوں پر یا جنرل سٹوروں اور گروسری کی دکانوں میں رکھ دیے جاتے ہیں، جہاں سے آنے جانے والے اپنی پسند کے مطابق اخبار اٹھا لیتے ہیں، اس طرح اردو خوان امریکیوں، خاص طور پر پاکستانی حلقوں میں ہزاروں کی تعداد میں پڑھے جاتے ہیں۔ ان میں مضامین اور خبروں سے زیادہ اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے اور پاکستانیوں کی کاروباری سرگرمیوں کے بارے میں بھی ایک سرسری سا اندازہ ہو جاتا ہے۔ نیویارک، واشنگٹن اور ہیوسٹن سے شائع ہونے والے چند اردو اخبارات کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔

ہفت روزہ ”پاکستان پوسٹ“ کے نام سے ایک اخبار نیویارک سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی پیشانی پر درج ہے کہ یہ واشنگٹن، شکاگو، اٹلانٹا، میامی، ڈیلس، ہیوسٹن، کیرولائناز، لاس اینجلس، ٹورانٹو اور مونٹریال سے بھی شائع کیا جاتا ہے۔ اس کا ۲۰ تا ۲۶ ستمبر ۲۰۰۷ء کا شمارہ اس وقت میرے سامنے ہے، جو بیس صفحات پر مشتمل ہے، جن میں سے بارہ صفحات اشتہارات کی نذر ہو گئے ہیں، باقی آٹھ میں سے اڑھائی سے تین صفحات مضامین، کالموں اور اداریہ پر مشتمل ہیں، اس کے علاوہ خبریں، بیانات اور دیگر مواد ہے۔ صفحہ اول کی اہم خبروں میں مولانا حسن جان کی شہادت، سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ بحث صدر کی وردی کے بارے میں رٹ کی تازہ ترین صورت حال، فلاڈیلفیا میں پرتشدد واقعات اور نیویارک میں دو امریکی پولیس افسروں جیف فالکنر اور لیمیونٹی چسپر کے قبولِ اسلام کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ ایک یہودی مذہبی رہنما ربی آرتھر واسکو کے حوالے سے یہ خبر نمایاں ہے کہ عراق جنگ کے خلاف امریکہ کے مختلف شہروں میں مسلمان، یہودی اور عیسائی ”انٹرفیتھ روزہ“ کا اہتمام کر رہے ہیں، جو ۸ اکتوبر کو نیویارک، واشنگٹن، شکاگو اور سان فرانسسکو میں رکھا جائے گا۔ اس کا مقصد مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے ساتھ ساتھ عراق جنگ کی مخالفت اور امن کی حمایت ہو گا۔ یہودی مذہبی رہنما کے بیان میں کہا گیا ہے کہ رمضان المبارک مسلمانوں کا مقدس مہینہ ہے اور اسی ماہ یہودیوں کا مقدس مہینہ بھی منایا جاتا ہے۔

ہفت روزہ ”پاکستان نیوز“ نیویارک کا ۲۰ تا ۲۶ ستمبر کا شمارہ اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہے، جن میں سے انیس صفحات پر صرف اشتہارات ہیں، باقی خبریں اور مضامین ہیں۔ مضامین زیادہ تر امریکہ میں مقیم اصحابِ قلم سے ہیں، جن میں پاکستان، عالم اسلام اور امریکی مسلمانوں کے مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ صفحہ اول کی خبروں میں امریکی حکومت کی ایک رپورٹ کا ذکر ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مذہبی آزادی کے حوالے سے پاکستان، مصر اور ایران کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ایران میں سنی مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے، جبکہ چین سے مشنریوں کو نکالا جا رہا ہے۔

اسی صفحے پر نیویارک کی یہ خبر ہے کہ پولیس نے گزشتہ روز ایک سترہ سالہ پاکستانی طالبعلم یاسین چودھری کو اپنے ٹیچر کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے پر گرفتار کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق جیکسن ہائٹس نیویارک کے ایک ہائی سکول کے طالبعلم یاسین چودھری کو اپنے ٹیچر کے میل باکس میں اسلامی لٹریچر رکھنے اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق یاسین چودھری نے اپنے ٹیچر کو زبانی دھمکیاں دی تھیں اور اس کے میل باکس میں خط رکھا تھا، جس کی بنا پر اسے نیٹ کرائم کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

”پاکستان پوسٹ“ کا ایک ایڈیشن ہیوسٹن سے بھی شائع ہوتا ہے، جس کی ۶ تا ۱۲ ستمبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں ایم۔ آر فرخ کی ایک خصوصی تجزیاتی رپورٹ صفحہ اول کی زینت بنی۔ اس رپورٹ میں نائن الیون کے واقعہ کی برسی کے حوالے سے مختلف دانشور حلقوں کے خیالات پیش کیے گئے ہیں، چند اہم تبصرے درج ذیل ہیں:

پاکستان کب تک ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ملبہ اٹھاتا رہے گا؟ ۱۱ ستمبر نے سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور پاکستانیوں کو پہنچایا۔ امیگرنٹ کمیونٹی بھی سانحہ سے بری طرح متاثر ہوئی، جس کے سبب چھ سال سے لیگل امیگرنٹس کے لیے قانون سازی نہیں ہو رہی۔ امریکہ کی روشن خیال پالیسی نے مسلم دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بڑھاوا دیا۔ تبدیلی کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔

ہفت روزہ ”نیویارک عوام“ نیویارک کی ۲۱ تا ۲۷ ستمبر کی اشاعت بیس صفحات پر مشتمل ہے، جن میں سے تیرہ صفحات اشتہارات کا احاطہ کرتے ہیں، اس کے صفحہ اول کی خبروں میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس جاوید اقبال کے یہ ریمارکس نمایاں ہیں کہ فوج کی آمد پر مٹھائیاں بانٹنے والے آج عدلیہ سے رجوع کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ جسٹس فلک شیر کے یہ ریمارکس بھی شامل ہیں کہ پارلیمنٹ اپنا سارا بوجھ عدلیہ پر ڈال رہی ہے۔ آج بھی کئی سیاستدان پاور شیئرنگ کے لیے صدر کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں۔ سیاستدان چاہتے ہیں تو وہ صدر کو منتخب نہ کریں۔

اندرونی صفحات میں امریکی نائب وزیر خارجہ نکولس برنز کے ایک انٹرویو کو رپورٹ کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ صدر مشرف دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں، لیکن ہمیں مزید کارروائی کرنا ہو گی۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان، افغانستان اور نیٹو کو مل کر کارروائی کرنا چاہیے اور اس کے لیے پاکستان کے اندر طالبان اور القاعدہ کے ٹھکانوں تک رسائی کی ضرورت ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی امریکی سنٹرل کمانڈ کے سابق سربراہ انتھوفی زینی کے ایک مضمون کے اقتباسات بھی خبر کی صورت میں پیش کیے گئے ہیں، جن میں انہوں نے کہا ہے کہ مجھے اس بات پر مایوسی ہوئی ہے کہ امریکی میڈیا اور سیاسی رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مارے جانے والے پاکستانی فوجیوں کی تعداد کا کوئی ذکر نہیں کیا یا بہت کم ذکر کیا ہے، حالانکہ ہلاک ہونے والے پاکستانی فوجیوں کی تعداد طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکہ سمیت تمام اتحادیوں کے جانی ضیاع سے زیادہ ہے۔

”نیویارک عوام“ کے ساتھ اٹھائیس صفحات کا میگزین بھی ہے، جس کے کم و بیش سترہ صفحات اشتہارات پر مشتمل ہیں، جبکہ باقی صفحات میں منتخب مضامین شائع کیے گئے ہیں، ان مضامین میں مولانا یوسف لدھیانوی کی جانب سے دینی سوالات کے جوابات کا ایک صفحہ شامل ہے، اس کے علاوہ ایک صفحہ غزلوں پر مشتمل ہے، جس میں مختلف شعراء کا کلام پیش کیا گیا ہے۔

جبکہ ہفت روزہ ”پاکستان نیوز“ کے ساتھ بھی اسی طرح کا ایک میگزین چالیس صفحات پر مشتمل ہے، جن میں ستائیس صفحات اشتہارات کے لیے وقف ہیں اور باقی مضامین ہیں۔ مضامین میں ایک صفحہ کا مضمون برطانیہ کے لارڈ نذیر احمد کے حالاتِ زندگی اور انٹرویو کے لیے مخصوص ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ تحریک آزادئ کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا پلان بن چکا ہے۔

ہفت روزہ ”ایشیا ٹربیون“ نیویارک سے شائع ہوتا ہے، اس کی ۱۹ ستمبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میرے سامنے ہے، جو بیس صفحات پر مشتمل ہے۔ ان میں کم و بیش نو صفحات اشتہارات کے لیے ہیں، چار صفحات میں انگریزی میں خبریں ہیں، جبکہ باقی صفحات اردو خبروں اور مضامین کے لیے مخصوص ہیں۔ پہلے صفحے کی خبروں میں امریکی فوج کے سابق کمانڈر جان ابی زید کا یہ بیان اہمیت کا حامل ہے کہ ایران پر امریکی حملہ پورے خطے کے لیے تباہ کن ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا جوہری صلاحیت کے حامل ایران کے ساتھ گزارا کر سکتی ہے، مگر تصادم برداشت نہیں کر سکے گی۔ جبکہ مضامین کے حصے میں دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ رحیم اللہ یوسف زئی، ہارون الرشید ، کلدیپ نیئر اور عباس اطہر کے منتخب کالموں کے علاوہ بائیں بازو کے معروف دانشور طارق علی کی ایک کتاب کی مسلسل قسط بھی شامل ہے، جس میں انہوں نے صلیبی جنگوں کا اپنے مخصوص نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ ایک خبر یہ بھی توجہ طلب ہے کہ ایک مصری عدالت نے صدر حسنی مبارک پر تنقید کے الزام میں چار سینئر صحافیوں کو ایک ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے۔ مصری ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق یہ صحافی جو اخبارات کے مدیر تھے، ان پر صدر حسنی مبارک اور ان کے بیٹے جمال پر تنقید اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے الزامات تھے۔

ہفت روزہ ”صدائے پاکستان“ نیویارک کا ۲۰ تا ۲۷ ستمبر کا شمارہ چوبیس صفحات پر مشتمل ہے، جن میں سے اشتہارات کے کم و بیش سترہ صفحات نکال کر باقی صفحات خبروں اور مضامین پر مشتمل ہیں۔ صفحہ اول کی خبروں میں سی آئی اے کی ایک رپورٹ کے حوالے سے ایک اہم خبر ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کی قومی سلامتی، علاقائی سیکیورٹی اور مسلم دنیا میں امریکی مقاصد کے حصول کے لیے انتہائی اولیت کا حامل ملک ہے، لہٰذا امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے بالاتر ہو کر پاکستان کے ساتھ وسیع بنیادوں پر تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ رپورٹ میں امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو تشکیل دے اور یہ تعلقات صرف تصادم کے خاتمے، عدمِ استحکام اور انتہا پسندی تک ہی مرکوز نہ ہوں۔ صفحہ اول پر وائٹ ہاؤس کے سامنے ہزاروں افراد کے مظاہرے کی خبر اور تصویر بھی شائع کی گئی ہے، جس میں مظاہرین نے عراق میں جنگ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ ”صدائے پاکستان“ کے مضامین کے حصے میں ایاز امیر اور حامد میر کے منتخب کالم شامل کیے گئے ہیں۔

ہفت روزہ ”پاکستان جرنل“ نیویارک کا ۲۱ ستمبر کا شمارہ چوبیس صفحات پر مشتمل ہے، جن میں سے تیرہ کے لگ بھگ صفحات اشتہارات کی نذر ہیں۔ صفحہ اول کی خبروں میں یو ایس ایڈ کی ایک دستاویز کے حوالے سے یہ خبر خاصی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں واشنگٹن ساڑھے سات سو ملین ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن اس کے لیے امریکہ کی شرط یہ ہے کہ وہ اس رقم کو کہاں اور کیسے خرچ کرنے کے بارے میں اپنا نظام قائم کرے گا، جس کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام سے اتنے مسائل حل نہیں ہوں گے جتنے پیدا ہوں گے۔

”پاکستان جرنل“ کے اسی شمارے میں شائع ہونے والی یہ خبر بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کو سٹی آف ہیوسٹن کے میئر بل وائٹ کی طرف سے گزشتہ جمعہ کو اعزازی شہریت اور سفیرِ خیر سگالی کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ یہ اعزاز انہیں ہیوسٹن کے دورے کے موقع پر دیا گیا، جہاں وہ ایک IT کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

ہفت روزہ ”پاکستان ایکسپریس“ نیویارک کا ۲۱ ستمبر ۲۰۰۷ء کا شمارہ سولہ صفحات پر مشتمل ہے، جن میں نو سے زائد صفحات کو اشتہارات نے گھیر رکھا ہے۔ صفحہ آخر کی ایک اہم خبر یہ ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان وزیرستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف مکمل آپریشن شروع کرے۔ امریکہ نے یہ خواہش اپنے سفارتی ذرائع سے حکومتِ پاکستان تک پہنچا دی ہے، جس کے مطابق بش انتظامیہ چاہتی ہے کہ پاکستان وزیرستان کے قبائلی علاقوں میں فوری طور پر تازہ آپریشن کرے۔ مضامین میں معروف دانشور جناب نیر زیدی کا کالم بطورِ خاص اہمیت کا حامل ہے، جس کے بارے میں صفحہ اول پر اعلان ہے کہ یہ بطور خاص ”پاکستان ایکسپریس“ کے لیے لکھا گیا ہے۔

ہفت روزہ ”اردو ٹائمز“ کا ۲۰ ستمبر کا شمارہ ۲۶ صفحات پر مشتمل ہے، جن میں اٹھارہ سے زائد صفحات اشتہارات سے پُر ہیں اور باقی صفحات میں مضامین اور خبریں ہیں۔ صفحہ تین کی خبروں میں ایک اہم خبر یہ ہے کہ بھارت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی غیر معینہ عرصے کے لیے بند کر دی گئی ہے اور ۴۸ گھنٹوں کے اندر ہاسٹل خالی کرنے کے احکام جاری کر دیے گئے ہیں۔ واقعات کے مطابق 16 ستمبر کو شعبہ انجینئرنگ کے ایک طالبعلم کے قتل کے بعد یونیورسٹی میں ہنگامے شروع ہو گئے اور مشتعل طلبہ نے وائس چانسلر کی رہائش گاہ کو نذرِ آتش کر دیا۔ سٹوڈنٹ یونین کا موقف ہے کہ یونیورسٹی حکام نے قتل کے بارے میں اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں۔ جبکہ دوسری اہم خبر یہ ہے کہ نیویارک میں امریکی عدالت نے پاکستانی نژاد خالد اعوان کو دہشت گردوں سے تعلق کے الزام میں چودہ سال کی سزا سنا دی ہے۔ انہیں نائن الیون کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے علاوہ بعض افراد کی شناخت چوری کرنے اور اس کے غلط استعمال کا الزام بھی ہے۔

ہفت روزہ ”پاکستان ٹائمز“ ٹیکساس سے شائع ہوتا ہے، جس کا ۶ ستمبر کا شمارہ اس وقت میرے سامنے ہے۔ ۱۶ صفحات کے اس اخبار میں بھی خبروں اور اشتہارات کا تناسب کم و بیش دوسرے اخبارات جیسا ہی ہے۔ اس کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی یہ خبر خاصی دلچسپی کی حامل ہے کہ ترکی کے نئے صدر عبد اللہ گل نے صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد کمال اتاترک کے مزار پر حاضری دے کر یہ اعلان کیا ہے کہ ان کا کوئی اسلامی ایجنڈا نہیں ہے، انہوں نے سیاسی اسلام سے تمام رشتے توڑ لیے ہیں اور سیکولر روایات کے ساتھ مخلص رہیں گے۔ مگر اس کے باوجود ترک فوج کے جرنیلوں نے انہیں ایک فوجی تقریب میں شرکت کے لیے آنے پر سیلیوٹ نہیں کیا اور فوج کی طرف سے ان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ جاری ہے، حالانکہ ترکی دستور کے مطابق وہ ترکی افواج کے کمانڈر انچیف بھی ہیں۔

یہ امریکہ سے شائع ہونے والے چند اردو اخبارات کی ایک جھلک ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں اردو صحافت پاکستانی کمیونٹی کی کس انداز سے خدمت سرانجام دے رہی ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter