پیر صاحب آف پگارا شریف انتقال کر گئے ہیں اور گزشتہ روز انہیں ان کے روحانی مرکز پیر جوگوٹھ میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آج کی نسل کے سامنے پیر صاحب آف پگارا کا تعارف اس دائرے میں ہے کہ وہ سندھ کے ایک بڑے پیر تھے، ہزاروں عقیدت مند رکھتے تھے، قومی سیاست میں ان کی موجود گی ہمیشہ محسوس کی جاتی تھی، وہ منفرد انداز میں سیاسی بات کرتے تھے، جس میں مزاح ہوتا تھا، طنز کی ملاوٹ ہوتی تھی اور سیاسی کارکن ان کی باتوں میں مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں بھی تلاش کر لیتے تھے۔ سندھ کی سیاست میں لسانی یا علاقائی حوالہ سے کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا تو پیر صاحب آف پگارا پاکستان اور وفاق کے مضبوط نمائندے کے طور پر متاثرین کا سہارا ثابت ہوتے تھے۔ بلاشبہ وہ یہ سب کچھ تھے، لیکن وہ اس سے آگے بھی بہت کچھ تھے، جس سے آج کی نسل کا واقف ہونا ضروری ہے اور اس کے تذکرہ کے بغیر پیر صاحب آف پگارا اور ان کے عظیم خاندان کا تعارف مکمل نہیں ہوتا۔
۱۸۱۸ء کے دوران سندھ میں قادری سلسلے کے عظیم روحانی پیشوا حضرت شاہ محمد راشدؒ کا انتقال ہوا (راقم الحروف بھی انہی کی نسبت اور عقیدت کے باعث ”راشدی“ کہلواتا ہے) تو انہوں نے اپنا حلقۂ ارادت اپنے دو بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک کو پگڑی عطا کی جو پیر صاحب آف پگارا کہلائے اور دوسرے کو پرچم دیا جو پیر آف جھنڈا کے نام سے متعارف ہوئے۔ یہ دو گدیاں سندھ کے دو بڑے پیر خانے شمار ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی مستقل تاریخ ہے۔
پہلے پیر صاحب آف پگارا سید صبغت اللہ شاہ اولؒ تھے اور ان کا دور وہ تھا جب سندھ ابھی ایک آزاد مسلم ریاست کے طور پر جنوبی ایشیا کے نقشے پر موجود تھا، وہاں امیرانِ سندھ کی حکومت تھی۔ سندھ پر انگریزوں کا قبضہ ۱۸۴۳ء میں ہوا، جب سر چارلس نیپئر کی فوجوں نے حیدر آباد کے قریب امیرانِ سندھ کو شکست دے کر اس ریاست کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دائرہ اختیار میں شامل کر لیا تھا۔ اس سے قبل سندھ پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی، لیکن پنجاب میں سکھوں کا اقتدار سندھ کے دروازے پر دستک دے رہا تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کا رخ بھی سندھ کی طرف تھا۔ اس فضا میں پیر صاحب آف پگارا سید صبغت اللہ شاہ اولؒ نے اپنے مریدوں کو عسکری تربیت حاصل کرنے کی ہدایت کی اور ”حُر مجاہدین“ کی فورس منظم کی، تاکہ غیر مسلموں کے حملوں سے سندھ کی حفاظت کی جا سکے۔ یہ حُر سندھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد سندھ کے عوام کی طرف سے مزاحمت کی پہلی تحریک ثابت ہوئے اور وہ وقفے وقفے سے چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے انگریزوں کو نقصان پہنچاتے رہے۔
اسی دوران سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریکِ مجاہدین منظم ہوئی، جن کا ہدف یہ تھا کہ شمالی علاقوں میں ایک آزاد ریاست قائم کر کے اسے تحریکِ آزادی کے لیے مستقل بیس کیمپ بنایا جائے اور متحدہ ہندوستان کو انگریز کے تسلط سے نجات دلانے کے لیے مسلح جنگ کی جائے۔ وہاں تک مجاہدین کی اتنی بڑی تعداد کا پہنچنا مستقل مسئلہ تھا اور راستے میں قدم قدم پر انگریزی فوجوں کی مزاحمت کے امکانات موجود تھے، اس لیے انہوں نے راجپوتانہ کے راستے آزاد مسلم ریاست سندھ کے طویل راستے کو منتخب کیا اور بالائی علاقوں سے ہوتے ہوئے پشاور پہنچے، جہاں انہوں نے جنگ کر کے ۱۸۳۰ء میں ایک اسلامی امارت قائم کرنے میں وقتی طور کامیابی حاصل کر لی۔
مجاہدین کا یہ قافلہ، جو دعوت و اصلاح اور تعلیم و تربیت کے عنوان سے اجتماعی سفر کر رہا تھا، جب سندھ کے اس علاقے سے گزرا تو پیر جوگوٹھ نے ان کا نہ صرف خیر مقدم کیا، بلکہ پیر صاحب آف پگارا نے ان کی بھرپور حمایت کی اور تعاون کا یقین دلایا۔ جبکہ بعد میں بھی ان رہنماؤں کے درمیان رابطے اور مراسلت ہوتی رہی۔ تحریکِ مجاہدین کے قائدین سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ تو مئی ۱۸۳۱ء میں بالا کوٹ کے مقام پر جامِ شہادت نوش کر گئے، مگر سندھ میں حُر مجاہدین کی گوریلا کارروائیاں جاری رہیں، تاآنکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران سندھ کی اس عظیم روحانی خانقاہ نے فرنگی اتحادیوں کو مختلف مقامات ۔۔، ابتدا میں جرمنوں سے مار کھاتے دیکھ کر سندھ میں برطانوی حکمرانوں پر ضرب لگانے کا فیصلہ کیا اور باقاعدہ بغاوت کا اعلان کر دیا۔
اس وقت گدی نشین سید صبغت اللہ شاہ ثانیؒ تھے جو پیر پگارا ششم کے عنوان سے حروں کی قیادت کر رہے تھے، انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور موت کی سزا سنا دی گئی۔ پیر جوگوٹھ اور سندھ کے دیگر مختلف مقامات پر فوجی آپریشن ہوا، ہزاروں مجاہدین کو زیرِ حراست لے لیا گیا، توپ خانے اور فضائیہ کو حرکت میں لایا گیا اور پیر جوگوٹھ پر بمباری کر کے اسے تباہ کیا گیا اور پھر اس مرکز کو ڈائناسٹ لگا کر اڑا دیا گیا۔ پیر صاحب آف پگارا کے خاندان کو گرفتار کر کے کراچی میں نظر بند کر دیا گیا۔ پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانیؒ کو ۱۹۴۳ء میں پھانسی دے دی گئی، جس سے ان کے گھر والوں کو بے خبر رکھا گیا اور پیر صاحب شہیدؒ کو بھی صرف چند گھنٹے قبل اس سزا کے بارے میں بتایا گیا۔ مگر انہوں نے کسی قسم کے اضطراب کا مظاہرہ کیے بغیر پہلے نوافل ادا کیے، پھر پھانسی کے پھندے پر جھول کر اسلام کی سربلندی اور وطن کی آزادی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔
جس وقت پیر سید صبغت اللہ ثانی شہیدؒ کو پھانسی دی گئی ان کا خاندان کراچی میں نظر بند تھا، جس میں ان کے دو بیٹے تیرہ سالہ سید سکندر علی شاہ اور گیارہ سالہ سید نادر علی شاہ بھی تھے۔ ان دونوں کو انگریزوں نے اپنی تحویل میں لے لیا اور پہلے علی گڑھ میں اور پھر لندن لے جا کر تعلیم دینا شروع کی۔ ان کی گدی کو ختم کر کے ان کی جائیداد ضبط کر لی اور تعلیم کا پلان ایسا بنایا کہ انہیں مسیحیت کی تعلیم دے کر اسلام سے بیگانہ کر دیا جائے۔ یہی سید سکندر علی شاہ ہمارے ممدوح سید مردان علی شاہ ہیں، جو پاکستان بن جانے کے بعد ۱۹۵۲ء میں تیس سال کی عمر میں گدی نشین ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم نے سرکردہ زعماء جن میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ بھی شامل تھے، ان کی سفارش پر پیر صاحب آف پگارا شریف کی گدی اور جائیداد بحال کر کے ان دونوں بھائیوں کو برطانیہ سے واپس لانے کا اہتمام کیا اور سید سکندر علی شاہ، سید مردان علی شاہ کے نام سے پیر پگارا ہفتم کے طور پر گدی نشین ہوئے، جن کا لندن میں انتقال ہوا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
پیر پگارا ہفتم سید مردان علی شاہ پاکستان کی قومی سیاست میں مسلسل متحرک رہے۔ ایک دور میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے قومی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ۱۹۷۷ء کے انتخابات اور پھر تحریک نظامِ مصطفیٰ میں پاکستان قومی اتحاد کی ہائی کمان کا متحرک کردار رہے ہیں۔ اس دوران راقم الحروف کو بھی دو تین سال ان کی سیاسی رفاقت نصیب رہی ہے۔ پیر صاحب آف پگارا پاکستان قومی اتحاد کے پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین تھے، جبکہ مجھے مولانا قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ مرحوم کے ہمراہ پارلیمانی بورڈ میں جمعیت علمائے اسلام کی نمائندگی کا موقع ملا۔ اس دوران پیر صاحب مرحوم کے ساتھ درجنوں اجلاسوں میں شرکت اور مختلف مجالس میں گفتگو کے مواقع میسر آئے۔
میرا روحانی تعلق شیرانوالہ کے حضرت مولانا عبید اللہؒ سے ہے، جن کی پیر صاحب آف پگارا کے جد امجد حضرت شاہ محمد راشدؒ سے روحانی تعلق اور نسبت تھی، اسی نسبت سے یہ سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ کہلاتا ہے۔ اس لیے طبعی طور پر ان ملاقاتوں میں میرا رجحان اس طرف رہا کہ اس سلسلے کے حوالے سے پیر صاحب سے گفتگو کا کوئی موقع ملے۔ چنانچہ ایک مسلم لیگی رہنما کے گھر میں پیر صاحب مرحوم سے اس بارے میں الگ ملاقات کی اور سلسلہ راشدیہ کی تاریخ اور موجودہ صورت حال کے حوالے سے کچھ سوالات کیے، مگر پیر صاحب مرحوم طرح دے گئے۔
پیر صاحب آف پگارا پاکستان کی قومی سیاست کا ایک منفرد کردار تھے اور ان کی اس حیثیت کا کم و بیش تمام حلقوں میں احترام کیا جاتا تھا کہ وہ پاکستان کی سالمیت، قومی وحدت اور وفاق پاکستان کے استحکام کے بارے میں بے لچک موقف اور کردار رکھتے تھے۔ چنانچہ اس حوالے سے جب بھی ضرورت پیش آئی، وہ خطرات اور سازشوں کے سامنے پوری جرأت کے ساتھ ڈٹ گئے۔ ان کے فرزند و جانشین سید صبغت اللہ شاہ راشدی ثالث نے پیر پگارا ہشتم کے طور پر گدی سنبھال لی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی پیر صاحب کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور ان کے جانشین کو اپنے بزرگوں، بالخصوص سید صبغت اللہ شاہ اولؒ اور سید صبغت اللہ شاہ ثانیؒ کی روایات کو زندہ کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔