جامعہ دارالعلوم کراچی پر چھاپہ

   
۱۹ اگست ۲۰۱۲ء

جامعہ دارالعلوم کراچی پر رینجرز اور پولیس کے چھاپے، محاصرے اور تلاشی کی خبر سن کر یوں محسوس ہوا کہ جیسے کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہوں۔ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعۃ المبارک کے خطاب کے لیے منبر کی طرف بڑھ رہا تھا کہ چلتے چلتے ایک دوست نے خبر دی کہ دارالعلوم کراچی اس وقت رینجرز کے محاصرہ میں ہے اور کچھ پتا نہیں چل رہا کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ ذہن اچانک سناٹے کی زد میں آگیا اور جذبات کے سمندر میں تلاطم انگڑائیاں لینے لگا مگر کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے خاموشی کے ساتھ معمول کے مطابق جمعہ پڑھایا اور کراچی میں دوستوں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کیا۔ شام کو معلوم ہوا کہ کچھ مشکوک افراد کی موجودگی کی افواہ پر یہ چھاپہ مارا گیا مگر تین گھنٹے کی تلاشی کے بعد چھاپہ مار فورسز ناکام واپس چلی گئیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ملک کی کسی چھاؤنی کا محاصرہ کیا گیا ہے اور تلاشی لی گئی ہے کہ کہیں اندر مشکوک عناصر تو موجود نہیں ہیں۔ جامعہ دارالعلوم کراچی پاکستان کی علمی و فکری چھاؤنی ہے اور بین الاقوامی علمی حلقوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی علمی شناخت ہے۔

بانیٔ جامعہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ تحریک پاکستان کے راہنماؤں میں سے ہیں جنہوں نے شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کی رفاقت میں قیام پاکستان کی تحریک میں حصہ لیا اور سرگرم کردار ادا کیا۔ برصغیر کے اکابر کا یہ گروہ تحریک پاکستان میں اپنی ایک مستقل تاریخ رکھتا ہے۔ انہوں نے ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کے نام سے الگ جماعت بنا کر تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور خاص طور پر صوبہ سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم میں عوام کو پاکستان کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کرنے میں ان کے کردار کا ہمیشہ اعتراف و احترام کیا گیا ہے۔

مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اور ان کے قائم کردہ دارالعلوم کراچی نے تحریک پاکستان کے فکری و نظریاتی اہداف کی تکمیل کو اپنا مشن بنا لیا اور وہ اسی محاذ پر گامزن چلے آرہے ہیں۔ پاکستان پر جب بھی کوئی مشکل وقت کسی حوالہ سے بھی آیا دارالعلوم کراچی نے ملک کے نظریاتی اور فکری بیس کیمپ کا روپ دھار لیا اور کسی ملامت کا خوف کھائے بغیر اس نے وہی کیا جو ملک اور پاکستانی قوم کے مفاد میں تھا۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کے استحکام اور پاکستانی معاشرہ کی علمی و دینی راہنمائی میں جامعہ دارالعلوم کراچی کی خدمات اور کردار کا حق تو یہ تھا کہ اسے یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالات کا عنوان بنایا جاتا اور اس کے مختلف پہلوؤں کو تحقیق و ریسرچ کے ذریعے تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ کیا جاتا، مگر ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک میں اس قافلہ کے سالار اعظم شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے کردار اور دستور سازی کو نظریاتی رخ دینے میں ان کی تاریخی جدوجہد پر کوئی ڈھنگ کا کام ابھی تک سامنے نہیں آیا۔

حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے بعد ان کے قابل فخر فرزندان گرامی بالخصوص حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے جس متانت اور وقار کے ساتھ اپنے عظیم باپ کے مشن کو سنبھالا اور جس طرح وہ اسے بتدریج آگے بڑھاتے چلے جا رہے ہیں اسے دیکھ کر میرے جیسے نظریاتی کارکنوں کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی حجاب نہیں ہے کہ آج کے بین الاقوامی علمی حلقوں میں جو چند نام ہمارے تعارف اور پہچان کا ذریعہ ہیں ان میں ایک نمایاں نام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا ہے اور عالمی سطح پر ان کی علمی سرگرمیاں علماء دیوبند کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی عزت و وقار کا عنوان ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے نظریاتی تشخص کے تحفظ اور ملک کے عوامی اور دینی حلقوں کی علمی و فکری راہنمائی میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے مضبوط کردار کو جو حلقے اپنے ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں یقیناً یہ انہی کی سازش کا حصہ ہے کہ دارالعلوم کو اس مذموم کارروائی کا نشانہ بنایا گیا اور رمضان المبارک کے دوران جمعۃ المبارک کے دن اس عظیم دینی و تعلیمی ادارے کے محاصرہ اور اس کی تلاشی کا اہتمام کیا گیا۔ یہ عناصر مختلف قومی اداروں میں گھات لگائے بیٹھے ہیں اور پاکستان کو اسلامی اور نظریاتی شناخت سے محروم کر دینے کے خواہشمند عالمی حلقے ان کی پشت پر ہیں، انہیں جب اور جہاں موقع ملتا ہے وہ اپنا وار کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کی مثال بگلے کی سی ہے جو اپنی لمبی ٹانگوں کے سہارے پانی کے اندر بظاہر آنکھیں بند کیے گھنٹوں کھڑا رہتا ہے لیکن جوں ہی کوئی مچھلی اس کی چونچ کی رینج میں آتی ہے اور وہ اسے ہڑپ کرنے میں ایک لمحہ کی دیر بھی نہیں کرتا۔ اس لیے صرف جامعہ دارالعلوم کراچی کو نہیں بلکہ ملک میں اسلام، قوم اور وطن کے لیے مخلصانہ کام کرنے والے ہر حلقہ اور ادارہ کو چوکنا رہنا ہوگا کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی اور نظریاتی تشخص کو ختم کرنے کے لیے جو حلقے بین الاقوامی سطح پر اور ملک کے اندر مسلسل متحرک ہیں اور مختلف اطراف سے دباؤ بڑھاتے چلے جا رہے ہیں وہ دینی مدارس اور علمی مراکز کو اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کی راہ میں سب سے بڑی اور ناقابل شکست یہی دینی مدارس، علمی مراکز اور روحانی حلقے ہیں۔

جامعہ دارالعلوم کراچی کے محاصرہ اور تلاشی سے محاصرہ کرنے والوں کو کچھ حاصل نہیں ہوا اور وہ اسی طرح خالی واپس گئے جیسے عراق میں ممنوعہ ہتھیاروں کی موجودگی کی جھوٹی خبروں پر اس پر فوج کشی کی گئی تھی لیکن لاکھوں افراد کے قتل عام کے بعد یہ اعتراف کیا گیا کہ وہ رپورٹیں من گھڑت تھیں جن کی بنیاد پر یہ حملہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح جامعہ دارالعلوم میں بھی کچھ نہیں ملا مگر کرنے والے اپنا کام کر گئے ہیں، انہوں نے ملک کے کروڑوں مسلمانوں کو ایک بار پھر دل گرفتہ کر دیا ہے اور شاید یہی کچھ وہ کرنا بھی چاہتے تھے۔

   
2016ء سے
Flag Counter