زلزلہ: بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تشویش

   
۱۴ اکتوبر ۲۰۰۵ء

میں ۱۰ ستمبر کو امریکہ پہنچا تھا۔ ۱۰ اکتوبر کو وہاں سے لندن واپسی ہوئی اور اس وقت ساؤتھ لندن میں بیٹھا یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔ امریکہ میں ایک ماہ کے قیام کے دوران نیویارک کے علاقوں بروک لین، کوئینز اور لانگ آئی لینڈ، ورجینیا کے علاقے سپرنگ فیلڈ اور اس کے علاوہ اٹلانٹا، برمنگھم، بالٹی مور، واشنگٹن ڈی سی، نیو جرسی اور دیگر علاقوں میں مختلف دینی اجتماعات میں حاضری کا موقع ملا۔ پہلا روزہ میں نے برمنگھم البامہ میں منگل کو رکھا۔ وہاں کے علمائے کرام نے سعودی عرب کے ساتھ رمضان المبارک شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں اس روز وہیں تھا، اگرچہ مجھے اس سے اتفاق نہیں تھا، مگر مقامی علمائے کرام کے فیصلے کے احترام میں پہلا روزہ میں نے ان کے ساتھ رکھا۔ پاکستان میں جمعرات کو پہلا روزہ تھا، اس طرح اس سال میرے روزے اکتیس تو یقیناً ہوں گے، جبکہ بتیسویں روزے کا امکان بھی موجود ہے۔ برمنگھم کے احباب نے اس سلسلے میں مجھ سے بات کی تو میں نے عرض کیا کہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے، فقہاء کے دونوں اقوال موجود ہیں اور دونوں طرف دلائل بھی ہیں۔

  1. ایک یہ کہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کیا جائے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی چاند نظر آ جائے، پورے عالم اسلام میں اس کے مطابق روزے اور عید کا ایک ہی دن اہتمام کیا جائے۔ جدید ترین مواصلات کے اس دور میں یہ قابل عمل بھی ہے۔
  2. جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے اپنے علاقے میں چاند دیکھ کر عید اور روزے کا فیصلہ کیا جائے۔

دونوں میں سے کسی بھی قول پر عمل کی گنجائش موجود ہے، مگر اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ علمائے کرام ہر علاقے میں متفقہ طور پر فیصلہ کریں۔ وہ جو فیصلہ بھی کریں گے درست ہو گا اور اس میں برکت ہو گی، لیکن مسلمانوں میں وحدت کا اہتمام اور متفقہ فیصلہ بہت زیادہ ضروری ہے۔ یہ صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں ایک ہی شہر میں کچھ لوگوں کا روزہ ہوتا ہے اور کچھ کا نہیں ہوتا اور عید کے موقع پر بھی کچھ مسلمان عید منا رہے ہوتے ہیں اور کچھ روزے سے ہوتے ہیں۔ بالخصوص برطانیہ میں بعض ذمہ دار حضرات کے بقول حکومت مسلمانوں کو عیدین کے لیے سرکاری چھٹی کی سہولت دینے کے لیے تیار ہے، لیکن اس اختلاف کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پا رہا۔ اجتہادی مسائل میں اختلاف رائے اور مختلف اقوال کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ اجتماعی حالات اور ضروریات کے تحت ان میں سے کوئی قول بھی اختیار کیا جا سکتا ہے اور علمائے کرام باہمی مشاورت و اتفاق سے کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں، لیکن برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے علمائے کرام اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے، جو اس مسئلے کا افسوسناک پہلو ہے۔

پیر کو میں اپنے دوست افتخار رانا کے ساتھ اٹلانٹا میں تھا۔ وہاں ہم نے سیاہ فاموں کے لیڈر مارٹن لوتھر کنگ کی یاد میں قائم میوزیم دیکھا، جس نے ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۸ء تک سیاہ فاموں کو ووٹ کا حق دلانے کے لیے پُرامن جدوجہد کی اور اس میں کامیابی حاصل کی۔ اس میوزیم کے سامنے پارک میں مہاتما گاندھی کا مجسمہ نصب ہے اور اس کے نیچے لکھا ہے کہ

”مارٹن لوتھر کنگ عوام کے حقوق کے لیے پرامن جدوجہد اور عدم تشدد کے حوالے سے مہاتما گاندھی کے فلسفے سے متاثر تھا اور اس کی روشنی میں اس نے امریکہ میں سیاہ فام آبادی کے لیے شہری حقوق کے حصول کی کامیاب جدوجہد منظم کی۔“

ہم وہاں سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے قائم کردہ ”کارٹر سنٹر“ میں بھی گئے، جہاں ایک اچھی لائبریری کے ساتھ صدر کارٹر کے دور کے اہم ریکارڈ اور دستاویزات کو محفوظ کر دیا گیا ہے اور مختلف دانشور اور سکالرز وہاں آ کر اپنے اپنے پسندیدہ موضوعات پر ریسرچ کرتے ہیں۔ اس قسم کا ایک سنٹر کیلی فورنیا میں سابق صدر نکسن نے بھی قائم کیا تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کارٹر سنٹر سے بڑا ہے اور ایک اہم تحقیقی مرکز ہے۔ اس سنٹر کو دیکھنے کی بھی ایک عرصے سے تمنا ہے، خدا کرے کہ جلد کوئی صورت نکل آئے۔ یہ سنٹر امریکی عوام اور دانشوروں کے لیے فکری رہنمائی کا کام کرتے ہیں اور انہیں علم و دانش کی خوراک فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس قسم کا کوئی رجحان نہیں ہے، ہمارے سابق صدور میں سے جناب غلام اسحاق خان، سردار فاروق احمد خان لغاری اور جناب محمد رفیق تارڑ حیات ہیں اور علم و دانش کے ذوق سے بھی بے بہرہ نہیں ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بزرگ امریکہ کے نکسن سنٹر اور کارٹر سنٹر کی طرز پر کسی علمی تحقیقی مرکز کی بنیاد رکھ سکیں تو جہاں ملک کے اہل علم و دانش کے ساتھ بھلائی ہو گی، وہاں خود ان کی ایک اچھی یادگار بھی قائم رہے گی۔ سردار فاروق احمد لغاری تو وسائل بھی رکھتے ہیں اور ایک علمی و تحقیقی مرکز قائم کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ خدا کرے کہ ان کے ذہن میں یہ بات آ جائے۔

میں نے افتخار رانا سے اس پارک میں جانے کی بھی فرمائش کی، جہاں امریکہ میں جنوب اور شمال کی طویل خانہ جنگی کے خاتمہ پر جنوب کے جنرل لی نے شمال کے جنرل شرمن کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے، مگر ابھی ہم مشورہ کر رہے تھے کہ برمنگھم سے افتخار رانا کو فون آ گیا کہ چاند ہو گیا ہے، اس لیے رات کو تراویح اور کل روزہ ہو گا۔ جس وقت فون آیا، عصر کے لگ بھگ وقت تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ اس وقت کون سا چاند ہو گیا ہے، مگر پتہ چلا کہ چونکہ سعودی عرب میں روزے کا اعلان ہو گیا ہے، اس لیے اس کے مطابق یہاں بھی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ افتخار رانا کی رہائش برمنگھم میں ہے، جو اٹلانٹا سے کم و بیش ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر ہے، اس لیے ہم باقی پروگرام ادھورا چھوڑ کر برمنگھم واپس روانہ ہو گئے۔ رات تراویح تک تو نہ پہنچ سکے، البتہ صبح منگل کو روزہ رکھا، مگر جب شام کو برمنگھم سے بذریعہ طیارہ بالٹی مور پہنچا تو وہاں پہلی تراویح تھیں۔ چنانچہ میں نے اس سال تراویح کی پہلی نماز بالٹی مور کی مسجد الرحمۃ میں ادا کی، جہاں پاکستان سے تعلق رکھنے والے قاری محمد زاہد صاحب نے پانی پتی لہجے میں ڈیڑھ پارہ پڑھا۔ پانی پتی لہجے کا اپنا ایک حسن ہے اور قاری زاہد کا تعلق حضرت مولانا قاری اہل اللہ پانی پتیؒ کے خاندان سے ہے، اس لیے انہوں نے بہت اچھا پڑھا اور بہت لطف آیا۔ بالٹی مور اور واشنگٹن کے مسلمانوں نے بدھ کو پہلا روزہ رکھا، جبکہ میرا اس دن دوسرا روزہ تھا۔

امریکہ میں قیام کی آخری شب نو اکتوبر میں نے نیو جرسی میں گزاری۔ ”ایسٹ ونڈسر“ کے علاقے میں واقع ایک اسلامک سنٹر میں عشاء اور تراویح پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ پڑھے لکھے پاکستانیوں کا سنٹر ہے۔ زیادہ تر ڈاکٹر صاحبان ہیں، شمالی امریکہ کے مسلمانوں کی تنظیم ”اکنا“ سے تعلق رکھتے ہیں اور اچھے باذوق ساتھی ہیں۔ پاکستان میں زلزلے کی تباہ کاریوں سے بہت پریشان اور مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے بے حد فکر مند ہیں۔ پاکستان میں خوفناک زلزلے کی قیامت خیزی نے دنیا بھر کے مسلمانوں، خاص طور پر مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو انتہائی افسردہ کر دیا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ یہاں کے مسلمان اور پاکستانی اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے بہت زیادہ فکرمند ہیں، مختلف مقامات میں چندے جمع ہو رہے ہیں، امداد کی مختلف صورتیں اختیار کی جا رہی ہیں اور دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے۔ مذکورہ سنٹر کے نمازی اس وقت تک پچیس ہزار ڈالر جمع کر چکے تھے، جبکہ مزید چندے کا سلسلہ جاری تھا۔ مگر انہیں فنڈز جمع کرنے سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ یہ امداد کسی طرح صحیح لوگوں تک پہنچ جائے۔ مجھ سے ایک دوست نے مشورہ چاہا تو میں نے عرض کیا کہ جہاں آپ اتنی محنت کر رہے ہیں، وہاں اس کا بھی اہتمام کیجئے کہ خود آپ کے نمائندے متاثرہ علاقوں میں جائیں اور امدادی رقم اور سامان مستحق لوگوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ وہاں کی ضروریات کا بھی جائزہ لیں، تاکہ آئندہ امدادی کاموں میں آسانی ہو۔ یہاں ساؤتھ آل لندن میں بھی یہی صورت حال ہے۔ مسلمان پوری توجہ سے امدادی رقوم جمع کرنے میں مصروف ہیں، ساؤتھ آل براڈوے کی مسجد ابوبکرؓ میں ”سیدنا ابوبکرؓ ریلیف فنڈ “قائم کر دیا ہے۔ ابوبکرؓ مسجد کے ذمہ دار محمد اشرف صاحب کا تعلق آزاد کشمیر کے علاقے باغ سے ہے، جو اس خوفناک زلزلے میں بری طرح متاثر ہوا ہے۔ خود اشرف صاحب کے خاندان کے بعض افراد جاں بحق ہو گئے ہیں اور وہ ایک دو روز میں وہاں جا رہے ہیں۔

نیوجرسی کے مذکورہ اسلامک سنٹر اور ساؤتھ آل کی مسجد ابوبکرؓ میں مجھ سے نماز تراویح کے بعد کچھ عرض کرنے کی فرمائش کی گئی۔ میں نے قرآن کریم کے حقوق کے حوالے سے گزارش کی کہ رمضان المبارک قرآن کریم کا مبینہ ہے، اسی لیے اس ماہ میں باقی سارے سال سے زیادہ قرآن کریم پڑھا اور سنا جاتا ہے اور اس کے ساتھ تعلق کو دنیا بھر کے مسلمان پھر سے تازہ کرتے ہیں۔ یہ بہت اجر و ثواب کی بات ہے، اس سے ہماری بیٹریاں پھر سے چارج ہو جاتی ہیں اور ایمان کو تازگی ملتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس کلام اور پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس پر عمل کا اہتمام کریں۔ قرآن کریم کو سمجھنا، اس پر عمل کرنا اور زندگی کے مسائل میں اس سے رہنمائی حاصل کرنا یہ قرآن کریم کا ہم پر حق ہے، جس سے ہم عام طور پر غافل ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

میں نے پاکستان میں تباہ کن زلزلے سے متاثر ہونے والے بھائیوں اور خاندانوں کی امداد کی طرف دوستوں کو توجہ دلائی اور وہ اس سلسلے میں جو کچھ کر رہے ہیں، اس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان امدادی سرگرمیوں کو زیادہ منظم اور وسیع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بیرون ملک پاکستانی اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے فکرمند اور پریشان ہیں اور امداد کے لیے تیار ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اور اپوزیشن دونوں مل کر امدادی سرگرمیوں کی تنظیم اور نگرانی کے لیے کوئی مشترکہ نیٹ ورک قائم کریں اور امدادی رقوم اور سامان کے صحیح مصرف تک پہنچنے کے حوالے سے اعتماد کی فضا قائم کریں، تاکہ امداد کرنے والے زیادہ اعتماد اور توجہ کے ساتھ اس سمت پیش رفت کر سکیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter