انیق احمد: بسم اللہ الرحمن الرحیم، محترم خواتین و حضرات! السلام علیکم پیام صبح کے ساتھ ایک بار پھر حاضر میں ہوں آپ کا میزبان انیق احمد۔ خواتین و حضرات! سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۲۷۵ کا آج ہم آغاز کریں گے۔ نیا موضوع اور ایک بڑا موضوع بلکہ بہت بڑا موضوع اور بہت اہم موضوع۔ یہاں سے سود کے حوالے سے بات شروع ہو رہی ہے۔ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات کہ لاہور میں تشریف فرما ہیں محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب۔ میں بہت ممنون ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ آپ نے گوجرانوالہ سے سفر کیا اور لاہور پہنچے اور یہ پروگرام ان شاء اللہ تعالیٰ ہم آپ کے ساتھ کریں گے اور آپ سے بہت سی باتیں سیکھیں گے۔
سوال: علامہ صاحب! ایک تو یہ ارشاد فرمائیے کہ سود کہتے کسے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی فرمائیے کہ قرآن کریم میں جو سود کی حرمت آئی یا سود کو حرام قرار دیا گیا، یہ شراب کی طرح بتدریج حرام قرار دیا جا رہا ہے، اس کی کیا حکمت ہے؟
جواب: الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین وعلیٰ الہ و اصحابہ و اتباعہ اجمعین، اما بعد۔ انیق بھائی! میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ اتنے اہم موضوع پر جو آج دنیا کا بھی بڑا اہم موضوع ہے اور امت مسلمہ کا بھی بڑا اہم موضوع ہے اس موضوع پر اس گفتگو میں مجھے شریک کیا۔ سود قرآن پاک نے ہی حرام نہیں کیا، بلکہ پہلی شریعتوں اور آسمانی کتابوں میں بھی سود حرام ہی رہا ہے۔ تمام آسمانی مذاہب میں اللہ رب العزت نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور آج بھی بائبل، تورات اور انجیل میں سود کی حرمت کے احکام موجود ہیں۔ اس لیے آسمانی مذاہب کا یہ تسلسل شروع سے چلا آ رہا ہے کہ سود ان محرمات میں شامل ہے جو تمام مذاہب میں حرام رہے۔
سود کے ذکر سے پہلے اللہ رب العزت نے سورہ بقرہ کی ان آیات میں تجارت کا ذکر کیا ہے، قرضے کا ذکر کیا ہے اور انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کیا ہے اور ساتھ سود کا ذکر کیا ہے۔ انسانی سوسائٹی میں آپس میں لین دین کے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی جو مختلف شکلیں ہیں اس میں اللہ رب العزت نے سب سے بہترین شکل انفاق فی سبیل اللہ کو قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں میرے دیے ہوئے مال میں سے دیتے ہو۔ ”مما رزقناھم ینفقون“ میں نے جو دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں تو سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ اللہ کے راستے میں اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے۔ اس کی دوسری شکل قرض ہے کہ واپسی کے وعدے پر دیا جائے۔ آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کی ایک شکل تجارت اور اشیاء کا لین دین ہے۔ تجارت میں بھی باہمی تعاون کا بہت حصہ ہے، لیکن سب سے بدترین شکل جو قرآن پاک نے بیان فرمائی ہے وہ ہے سود۔ سود میں نفع لینا نہیں ہوتا، بلکہ نفع حاصل کرنا ہوتا ہے اور ایک آدمی کی ضرورت اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے اور اس کا ایک نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔ دیکھیں ہر عمل انسان پر نفسیاتی اثر ڈالتا ہے۔ آیت کریمہ” الذین یاکلون الربا لا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطٰن من المس“ میں سود خور کی نفسیاتی کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے کہ چونکہ اس کا مزاج بن جاتا ہے کہ اس نے ہر وقت نفع اٹھانا ہے، ہر وقت دوسرے کی ضرورت سے فائدہ اٹھانا ہے اور دوسرے کی مجبوری کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا ہے تو یہ یکطرفہ مفاد کا اس کا مزاج بن جاتا ہے اور اس کی نفسیات بن جاتی ہیں تو دنیا میں جب بھی اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے تو وہ اس کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتا اور قیامت کے دن بھی سود خور اس کیفیت میں اٹھایا جائے گا کہ جیسے مخبوط الحواس اور حواس باختہ ہو۔ تو اللہ رب العزت نے سود کی حرمت کا ذکر کرتے ہوئے سود خور کی نفسیات کی کیفیت کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا کہ سود اللہ رب العزت نے حرام قرار دیا ہے۔
میرے خیال میں شراب کی حرمت جس طرح تدریجاً ہوئی ہے سود کی حرمت اس طرح تدریجاً نہیں ہوئی، بلکہ سود کی حرمت کے احکام یکبارگی آئے ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں سود کی حرمت کا اعلان فرمایا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کی تمام شکلوں کو حرام قرار دیا اور اس زمانے میں سود ذاتی قرضوں پر بھی لیا دیا جاتا تھا اور تجارتی معاملات میں بھی سود کا لین دین تھا، اسی لیے جب مشرکین نے سود کی حرمت پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا تو اس میں سود کو تجارت پر قیاس کیا ”قالوا انما البیع مثل الربو“ اور کہا کہ تجارت، بزنس میں اور سود میں فرق نہیں ہے، تو اللہ رب العزت نے ان کی اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا اور فرمایا کہ اللہ پاک نے سود حرام کیا ہے اور سود کی حرمت ایسی ہے کہ اگر سود کھانا نہیں چھوڑو گے، سود پر اصرار جاری رکھو گے تو یہ اللہ و رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے۔
ایک بات تو میں نے یہ عرض کی ہے میری طالب علمانہ رائے میں سود کی حرمت بتدریجاً نہیں ہوئی، بلکہ بیک وقت ہوئی ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کی تمام صورتوں کی حرمت کا اعلان فرمایا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس زمانے میں جاہلی معاشرے میں سود ذاتی قرضوں پر بھی لیا دیا جاتا تھا، جیسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چچا محترم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سود کی رقموں کا حجۃ الوداع کے خطبے میں عام معافی کا اعلان کیا کہ آج کے بعد سود کی رقمیں واپس نہیں ہوں گی۔
سوال: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم دس ہجری میں آخری خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں اور حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ کا سود معاف کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دس ہجری تک سود کا لین دین چلتا رہا؟
جواب: جاہلی معاشرے میں سود کا لین دین تو تھا، لیکن جب حرام قرار دے دیا ہے تو پھر اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام شعبوں میں حرام قرار دیا۔ جیسے بہت سی باتیں جاہلی معاشرے میں چلتی رہی ہیں، لیکن جب اس کی حرمت کا اعلان ہوا تو اس کے بعد حرام قرار دے دیا۔ اور میں جو بات عرض کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ تجارتی معاملات میں بھی سود چلتا تھا، جیسے بنو ثقیف کے وفد نے شرط پیش کی تھی کہ ہم سود نہیں چھوڑ سکیں گے کیونکہ ہمارا دوسری قوموں کے ساتھ تجارتی لین دین میں سود چلتا ہے۔ لیکن حضورؐ نے وہ شرط مسترد کر دی تھی کہ میں یہ شرط نہیں مانتا اور بنو نجران کے ساتھ، عیسائیوں کے ساتھ حضور نبی کریمؐ کا جو معاہدہ ہوا تھا اس معاہدے کی ایک شق ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اگر سود کا لین دین کرو گے تو ہمارا معاہدہ مجروح ہوگا۔ لہٰذا میرا موقف یہ ہے کہ جب جناب نبی کریمؐ نے سود کی حرمت کا اعلان کیا ہے تو ذاتی قرضوں کے سود میں بھی اور تجارتی معاملات کے سود میں بھی حضورؐ نے اس کی حرمت کا اعلان فرمایا ہے۔
اور جو قوموں کے درمیان تجارتی معاملات یا ذاتی طور پر تجارتی معاملات ہیں، اس پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی روایت بخاری شریف میں ہے کہ انہوں نے کھجوروں کا لین دین تفاضل کے ساتھ سود کی صورت میں کیا تھا، تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا اور فرمایا یہی ربا ہے، یہی سود ہے جو آپ نے گھٹیا کھجوریں زیادہ دے کر عمدہ کھجوریں کم حاصل کی ہیں، ایک جنس کا تبادلہ اسی جنس کے ساتھ کمی بیشی کے ساتھ ہوا ہے تو حضور نبی کریمؐ نے اس کو سود قرار دیا تھا۔
اسی طرح خیبر سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو محصل صدقات وغیرہ وصول کر کے لایا تھا تو اس میں بھی یہی صورت پیش آئی تھی کہ اس نے عام کھجوریں زیادہ مقدار میں دے کر اچھی کھجوریں حاصل کر لی تھیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا تھا ”أکل تمر خیبر ھکذا“ کہ کیا خیبر کی ساری کھجوریں ایسی ہوتی ہیں؟ اس نے کہا نہیں، میں نے عام کھجوریں زیادہ دے کر عمدہ کھجوریں تھوڑی حاصل کی ہیں تو حضورؐ نے فرمایا یہی سود ہے۔
میں جو بات عرض کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سود کی حرمت کا اعلان فرمایا ہے تو جاہلی معاشرے میں ذاتی قرضوں پر بھی سود کا لین دین چل رہا تھا، شخصی تجارت میں بھی سود کا لین دین چل رہا تھا اور قوموں کے باہمی تجارتی معاملات میں بھی سود کا لین دین چل رہا تھا، جناب نبی کریم علیہ السلام نے سود کی تمام مروج صورتوں کی ممانعت فرما دی اور ان کی حرمت کا اعلان فرمایا اور اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد خلافت راشدہ کی صورت میں یا خلافت کی صورت میں جو اسلامی رفاہی سوسائٹی قائم ہوئی، اس میں سود کا لین دین کہیں بھی نہیں تھا، کسی شعبے میں نہیں تھا۔
اس لیے ہمارا آج بھی تقاضا یہ ہے۔ میں یہ حوالہ دینا چاہوں گا کہ پاکستان بننے کے بعد جب قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم و مغفور نے سٹیٹ بینک کا افتتاح کیا تھا تو یہی کہا تھا کہ ہم مغرب کے معاشی اصولوں پر پاکستان کے معاشی نظام کی بنیاد نہیں رکھنا چاہتے۔ انہوں نے مغرب کے معاشی نظام کی برائیاں بیان کی تھیں اور یہ فرمایا تھا کہ مغرب کا معاشی نظام دنیا میں جنگوں کا باعث بنا ہے، تباہی کا باعث بنا ہے۔ انہوں نے اپنے معاشی ماہرین کو ہدایت کی تھی کہ آپ اپنے معاشی نظام کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر رکھیں اور مغرب کے اصولوں کی پیروی نہ کریں۔ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی یہ واضح ہدایت موجود ہے اور اب تک ہمارے ہاں تسلسل چلا رہا ہے کہ سود کے حوالے سے ہمارے آئینی اداروں نے جو کام کیا وفاقی شرعی عدالت، اسلامی نظریاتی کونسل اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے۔ وہ تدریج اس حوالے سے تو ٹھیک ہے کہ قانون کے تنفیذ میں اس کو بتدریجاً یہاں تک پہنچایا، لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ تمام تر دستوری قانونی مراحل اور قانون سازی کے تمام تر مراحل سے گزر کر بھی ہم سودی نظام کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں اور اس سے نجات کی کوئی صورت ہمیں نظر نہیں آ رہی۔
میں اس پر اس بات کا بھی حوالہ دینا چاہوں گا کہ دیکھیں ہم ایک اسلامی ریاست ہو کر سود غیر سودی بینکاری کی طرف نہیں آرہے یا آئے ہیں تو رفتار بہت سست ہے اور سودی نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے، لیکن مغرب آج غیر سودی بینکاری کا تجربہ کر رہا ہے اور مغرب میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ غیر سودی بینکاری سودی بینکاری کی بنسبت مال کا تحفظ بھی زیادہ دیتی ہے اور سودی بینکاری کی بنسبت غیر سودی بینکاری میں ترقی کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت افسوسناک صورتحال ہے کہ مغرب تو اس طرف متوجہ ہو رہا ہے اور سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی قائم کردہ کمیٹی نے باقاعدہ رپورٹ دی تھی کہ دنیا کے معاشی نظام کو اگر توازن اور بیلنس پر لانا ہے تو قرآن کے معاشی اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ یہ صورتحال اصل میں توجہ کے قابل ہے کہ ہمیں پاکستان میں اور مسلم ممالک کو اپنے اسلامی معاشروں میں یا مسلم معاشروں میں سود سے نجات کی جو کوشش کرنی چاہیے تھی ہم وہ نہیں کر پا رہے، حالانکہ قرآن پاک کی آیات، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور سود کے حوالے سے دنیا کے تجربات آج بالکل ہمارے سامنے ہیں اور آج دنیا سودی معاشی نظام کا تجربہ کر کے اس کے تلخ نتائج بھگت کر اس مقام پر پہنچی ہے کہ اس سے جتنا جلدی جان چھڑا لی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
سوال: علامہ راشدی صاحب! یہ بات فرمائیے کہ نفع اور سود کے مابین بڑا فرق دین کیا بیان کر رہا ہے؟
جواب: سود یک طرفہ منافع کا نام ہے اور سود یک طرفہ دوسرے کی ضرورت اور مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا نام ہے، جبکہ قرآن پاک یہ کہتا ہے کہ سوسائٹی اجتماعیت کا نام ہے کہ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچایا جائے، اور یکطرفہ طور پر دوسرے کی ضرورت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ سود کی حرمت کی قرآن پاک نے یہ (وجہ) بیان فرمائی ہے اور میں عرض کرتا ہوں کہ آج دنیا ہزاروں سال کی ریسرچ کے بعد اسی نتیجے پر پہنچی ہے۔ آج دنیا میں جو معاشی عدم توازن ہے اقوام میں بھی، طبقات میں بھی اور افراد میں بھی، کہ امیر امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں، آج کے معاشی ماہرین بھی اس معاشی عدم تفاوت اور عدم توازن کی بنیاد سود کو قرار دیتے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی ارشاد احمد اعجاز صاحب فرما رہے تھے کہ سود کی نحوست معاشرے میں زیادہ تر وسیع ہے، میں عرض کرتا ہوں کیونکہ اس کا تعلق معاشی نظام سے ہے اور معاشی نظام پوری سوسائٹی کو کنٹرول کرتا ہے، بلکہ اب تو معاشی نظام پوری دنیا کے ماحول کو کنٹرول کرتا ہے، بیس ہی معاشی نظام پر ہوتی ہے، تو چونکہ سود کے ساتھ نفسیاتی کیفیات پیدا ہوتی ہیں، سود کے ساتھ مجبوریوں کے استحصال کا ماحول پھیلتا ہے اور پورے معاشرے کو سود کی نحوستیں اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہیں اور اپنے دائرے میں لے آتی ہیں……
دیکھیں دو چیزیں قرآن پاک نے بڑی سختی سے منع فرمائی ہیں۔ ایک فرمایا کہ زنا کے قریب مت جاؤ کہ اس کا سوسائٹی پر اثر پڑتا ہے، سوسائٹی کے اجتماعی ماحول پر اثر پڑتا ہے اور خاندانی نظام پر اثر پڑتا ہے۔ آج مغرب کا خاندانی نظام اسی وجہ سے تباہی کا شکار ہے۔ اسی طرح سود کا نقصان پوری سوسائٹی کو پہنچتا ہے، پورے سسٹم اور پورے ماحول کو پہنچتا ہے، اس لیے سود کی حرمت پر بھی اللہ رب العزت نے بہت سخت وعید فرمائی ہے۔ میں نے عرض کیا ہے کہ یہ بات جو قرآن پاک نے آج سے چودہ سو سال پہلے کہی تھی آج دنیا تحقیق کے بعد اسی نتیجے پر آ رہی ہے۔ میں نے ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر صاحب کا ایک انٹرویو پڑھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ دنیا میں جو معاشی توازن مسلسل بگڑتا جا رہا ہے اور عدم توازن بالکل آگے بڑھ رہا ہے اس کا حل کیا ہے؟ تو ان کا جواب یہ تھا کہ اس کا حل یہ ہے کہ سود کی شرح میں جتنی کمی کی جائے گی اتنا معاشی نظام میں تفاوت اور عدم توازن کم ہوگا۔ سوال کرنے والے نے پوچھا کہ جناب! اس کی کمی کی حد کیا ہے؟ ان کا جواب یہ تھا کہ اصل جگہ تو زیرو ہے۔ سود اور انٹرسٹ کی اصل جگہ تو زیرو ہے، یعنی اس کو بالکل ختم کیا جائے۔ آج دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سود ہمارے معاشی عدم توازن کا باعث ہے، سود انسانی سوسائٹی میں وسائل کی غلط تقسیم اور امیر ملکوں اور قوموں کے امیر تر ہوتے چلے جانے اور غریب ملکوں کی غربت میں اضافہ ہوتے جانے کا سبب ہے۔
سود کی سب سے بڑی نحوست ایک تو قرآن پاک نے بیان فرمائی ہے، لیکن ہم تو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں، اپنے تجربات میں اس کو دیکھ رہے ہیں اور مشاہدہ کر کے ہم اس کا اعتراف کر رہے ہیں کہ سود نے انسانی سوسائٹی کو نقصان پہنچایا ہے اور نقصان پہنچاتا چلا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہی دنیا کے تجربات اور مشاہدات اور تلخ نتائج ہیں جس کی وجہ سے پاپائے روم کے کمیٹی نے کہا تھا کہ قرآن پاک کے معاشی اصولوں کو اپنائیں گے تو توازن اور بیلنس قائم ہوگا۔
سوال: راشدی صاحب! بہت اہم بات آپ نے فرمائی، یقیناً سود کی لعنت کی وجہ سے معاشرے اور معیشت دونوں میں زوال آ جاتا ہے۔ مفتی صاحب کے سامنے جو میں نے علت کی بات رکھی تھی کہ یہ علت اگر ختم ہو جائے تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ یہ علت کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتی۔ راشدی صاحب! آپ کیا فرمائیں گے تجارتی سود کے حوالے سے اگر یہ علت ختم ہو جائے۔ ۔ اور کیا یہ علت ختم ہو سکتی ہے یعنی استحصال؟
جواب: انیق صاحب! گزارش یہ ہے کہ ہر چیز کی اپنی کوئی خاصیات ہوتی ہیں۔ تجارت جب تک چلے گی یہ علت چلتی ہی رہے گی، کیونکہ استحصال انسان کے مزاج کا حصہ ہے، انسان کی نفسیات کا حصہ ہے اور انسان کی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری ہے کہ جب بھی اس کے مواقع باقی رہیں گے تو استحصال بھی چلتا رہے گا۔ اس لیے اسلام نے جتنی بھی برائیوں کو ختم کرنے کی بات کی ہے وہاں یہ نہیں کہا کہ برائی کا اگر ظاہری سبب ختم ہو جائے تو وہ برائی واپس آ جائے گی۔ جب تک تجارت، اس کے ساتھ انسانی مزاج کا بخل، استحصال اور لوگوں کے مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا یہ جب تک انسانی نفسیات اور انسان کے مزاج میں باقی ہے تب تک استحصال چلتا رہے گا اور استحصال کے امکانات باقی رہیں گے اور بڑھتے رہیں گے۔ اس لیے اسلام نے مکمل اور دائمی پابندی لگائی ہے کہ یہ وقتی طور پر بھی ختم ہو اور آئندہ بھی اس کے امکانات باقی نہ رہیں۔ کیونکہ جب بھی انسان کو یہ مواقع ملیں گے تو انسان کی کمزوریاں ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ دنیا میں ہم نے بہت سارے نظام اور بہت سی صورتیں دیکھی ہیں کہ ایک برائی کو ختم کرنے کے لیے وقتی طور پر ایک طریقہ اختیار کیا گیا ہے، لیکن وہ طریقہ پھر اس نظام کا حصہ بن کر خرابی کا ذریعہ بن گیا ہے، اس لیے اسلام نے جتنے بھی اسباب پر پابندی لگائی ہے وہ کسی بھی برائی کے اسباب ہوں تو جس طرح برائی پر پابندی لگائی ہے اسباب پر بھی مکمل قطعی پابندی لگائی ہے، تاکہ کبھی اس کا امکان باقی نہ رہے کہ سوسائٹی میں غلط کار لوگ یا غلط مزاج کے لوگ اس سے دوبارہ فائدہ اٹھا سکیں۔
سوال: علامہ صاحب! پروگرام کا بالکل آخری وقت ہے، میں چاہتا ہوں کہ سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۷۵ کا جو پہلا حصہ ہم ڈسکس کر رہے تھے اسی طرف آ جاتے ہیں۔ آپ یہ فرمائیے کہ قرآن کریم ارشاد فرما رہا ہے کہ سود کھانے والے کی حیثیت اور مقام ایسا ہے کہ جیسے اسے کسی شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو تو اس کی یہ کیفیت کب ہو گی؟ جب قیامت کے روز قبر میں سے اٹھے گااس وقت وہ باؤلا، مخبوط الحواس اور مجنون کی حیثیت سے اٹھے گا یا زندگی کے معاملات میں اور معمولات میں اس سے اعتدال نکل جاتا ہے؟
جواب: گزارش یہ ہے کہ یہ قبر کے بعد بھی ہوگا، وہ تو ہوگا ہی، لیکن دنیا میں بھی ہمارے مشاہدے میں یہ بات ہے کہ جب سود ایک انسان کی زندگی میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور اسے سود سے جو نقصانات ہوتے ہیں تو سود خور انسان ان نقصانات کو برداشت نہیں کر پاتا۔ ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگ دیکھے ہیں جن کی زندگی اور جن کے معاشی نظام کو سود نے بالکل تباہ کر دیا اور وہ ایسے ہی دنیا میں زندگی گزارتے ہیں جیسے مخبوط الحواس ہوں کیونکہ وہ اتنا زیادہ نقصان برداشت نہیں کر سکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آخرت میں اس کی کیفیت اپنے مقام پر، لیکن دنیا میں بھی سود خور آدمی جب سود کے آخری نتیجے کو چھوتا ہے تو سوائے ذہنی پریشانی اور مخبوط الحواس ہونے کے اس کو کوئی نتیجہ سامنے نہیں آتا اور بہت سے مشاہدات دنیا میں ایسے ہوئے ہیں کہ جب سود نے نقصان پہنچایا ہے اور اپنی اصلیت دکھائی ہے تو بڑے بڑے لوگ بیٹھے ہیں، تباہ ہوئے ہیں اور ان کی نفسیاتی کیفیات بدلی ہیں۔
انیق احمد: علامہ صاحب! آپ کا بڑا ممنون، بڑا شکر گزار کہ آپ تشریف لائے اور ان شاء اللہ تعالیٰ کل بھی ہم آپ سے گزارش کریں گے کہ اسی آیت کو لے کر ہم آگے چل رہے ہیں تو ہم آپ سے اس تعلق سے مزید سوالات کریں گے۔