صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ اس سال حج پر جا رہے ہیں جو صدر منتخب ہونے کے بعد ان کا پہلا بیرونی سفر اور پہلا حج ہو گا۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ صدر یا وزیر اعظم حج اور عمرہ کے لیے جاتے ہیں تو ایک اچھا خاصا وفد ان کے ہمراہ ہوتا ہے۔ اور اس فوج ظفر موج کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا ہوتے ہیں، جو قومی خزانے پر ناروا بوجھ ہونے کے ساتھ ساتھ شرعاً بھی محلِ نظر ہے، مگر صدر تارڑ نے اس روایت کو توڑ دیا ہے۔
روزنامہ خبریں لاہور ۱۵ مارچ ۱۹۹۸ء کے مطابق ایک اخبار نویس نے صدر سے ان کے حج کے سفر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ حج کا سفر ذاتی خرچے پر کر رہے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ سفر میں ان کے ساتھ کون کون ہو گا؟ تو انہوں نے بتایا کہ جو بھی چاہے ان کے ساتھ جا سکتا ہے مگر خرچہ سب کا اپنا اپنا ہو گا۔
صدر تارڑ نے اس سے قبل ایوانِ صدر کے اخراجات اور فالتو عملہ میں کمی کے لیے بھی بعض اقدامات کیے ہیں جنہیں ملک کے سنجیدہ حلقوں میں سراہا گیا ہے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے اور ملک کے معاشی مسائل کا حل بھی یہی ہے کہ اربابِ اختیار اپنے اخراجات پر نظرثانی کریں اور قومی خزانے سے ہونے والے مصارف کو بنیادی ضروریات پر قناعت کے دائرے میں لے آئیں۔ اس سے ملک کے دوسرے طبقات میں بھی قناعت اور سادگی کا شعور بیدار ہو گا اور ملک اپنی معاشی مشکلات پر آسانی سے قابو پا سکے گا۔