پی آئی اے کی سرد مہری

   
۱۲ اکتوبر ۲۰۰۷ء

پی آئی اے ہماری قومی ایئر لائن ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ بیرونی ممالک کے سفر کے لیے اسی کو ذریعہ بنایا جائے کہ قومی ایئر لائن ہونے کے ساتھ ساتھ دورانِ سفر ماحول بھی قومی سا میسر آ جاتا ہے، مگر ہر بار کوئی نہ کوئی بات ایسی ہو جاتی ہے کہ اس ترجیح پر نظر ثانی کی طرف ذہن متوجہ ہونے لگتا ہے۔ میں نے گزشتہ ربع صدی کے دوران پی آئی اے پر اندرون ملک اور بیرون ملک بیسیوں سفر کیے ہیں اور بعض حوالوں سے اسے بہت سی ایئر لائنوں سے بہتر پایا ہے، لیکن شکایات کا سلسلہ بہرحال چلتا رہا ہے اور ان کالموں میں ان کے تذکرے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کی اصلاح کی کوئی صورت نکل آئے۔

اس بار میں نے امریکہ کے سفر کے لیے سعودیہ ایئر لائنز کو ذریعہ بنایا، اس خواہش پر کہ جاتے ہوئے عمرے کی سہولت حاصل ہو جائے گی۔ وہ تو بحمد اللہ تعالیٰ حاصل ہوئی اور میں نے حرمین شریفین کی حاضری کے ساتھ ساتھ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور جدہ میں بہت سے احباب سے ملاقاتیں کیں، دینی تقریبات میں شریک ہوا اور بعض علماء کی خدمت میں حاضری دی۔ مگر امریکہ سے واپسی میں سعودیہ ایئر لائن نے میرا ساتھ چھوڑ دیا، جس کی وجہ سعودی ایئر لائن کی بجائے وہ ٹریول ایجنٹ بنا، جس کی وساطت سے میں نے ٹکٹ لیا تھا۔ ان ٹریول ایجنٹوں کا معاملہ بھی عجیب ہے، ان کی دنیا ہی الگ ہے اور چند فرموں کو چھوڑ کر اس دنیا کا ماحول کم و بیش ایک جیسا ہے۔

میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ جانے سے بہت پہلے سیٹوں کی کنفرمیشن اور دیگر معاملات طے ہو جائیں، تاکہ وقت پر کوئی الجھن نہ ہو۔ اس خیال سے روانگی سے تقریباً تین ماہ قبل لاہور کے ایک ٹریول ایجنٹ سے سیٹ کی بکنگ کے لیے کہا۔ اس نے بتایا کہ پی آئی اے کا لاہور سے نیویارک کا واپسی ٹکٹ اگر عین وقت پر خریدیں گے تو مہنگا پڑے گا، اگر ایک ماہ قبل خرید لیں گے تو پانچ چھ ہزار روپے بچ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، ایک ماہ قبل خرید لوں گا، چنانچہ سیٹ آنے جانے کی کنفرم ہو گئی۔ میں نے ان سے کہہ دیا کہ ایک ماہ قبل میں ٹکٹ کی رقم ادا کر دوں گا اور مطمئن ہو کر اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ مگر ابھی پورے دو ماہ باقی تھے کہ ٹریول ایجنسی سے فون آیا کہ کل تک آپ رقم ادا کر کے ٹکٹ خرید لیں، ورنہ سیٹ کینسل ہو جائے گی۔ میں نے کہا کہ آپ نے تو ایک ماہ قبل کا کہا تھا اور میں نے اس حساب سے رقم کی فراہمی کا انتظام کر رکھا تھا، اب آپ دو ماہ قبل ٹکٹ خریدنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا ”ایئر ٹائم“ ہوتا ہے، اس لیے آپ کل تک رقم دے دیں، ورنہ سیٹ کینسل ہو جائے گی۔ میرے پاس اس وقت رقم نہیں تھی اور نہ ہی فوری انتظام کی کوئی صورت تھی، اس لیے میں نے احتجاج کرتے ہوئے معذرت کر دی، جس پر میری وہ سیٹ کینسل ہو گئی۔

البتہ اس میں میرے لیے فائدے کا یہ پہلو نکل آیا کہ دوسرے ٹریول ایجنٹ سے بات کرنے پر سعودی ایئر لائن کے ذریعے سفر کی صورت بن گئی اور عمرے کی سعادت بھی بحمد اللہ تعالی میسر آ گئی، مگر یہ بات میں اب تک نہیں سمجھ پایا کہ یہ ”ایئر ٹائم“ کیا ہوتا ہے، یہ ایک ماہ سے دو ماہ میں کیسے تبدیل ہو جاتا ہے اور اگر فی الواقع ایسا ہوتا ہے تو مجھے اس کے بارے میں پہلے ہی مرحلے میں سیٹ بک کراتے وقت کیوں نہیں بتایا گیا؟ خیر میں نے اسے زیادہ سنجیدگی سے اس لیے نہیں لیا کہ متبادل صورت میں حرمین شریفین کی حاضری کا شرف ایک بار پھر حاصل ہو رہا تھا۔

سعودی ایئر لائن کا ٹکٹ لاہور سے جدہ، جدہ سے نیویارک اور اسی روٹ پر واپسی کا لیا اور جاتے ہوئے دس دن کے سعودیہ میں قیام کے ساتھ عمرے کا ویزا بھی انہی ٹریول ایجنٹ کی وساطت سے مل گیا، جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔ میں نے ان صاحب سے گزارش کی کہ میں سفر کے دوران تذبذب اور رسک سے ہر ممکن طور پر بچنے کی کوشش کرتا ہوں، اس لیے تمام سیٹیں جانے سے پہلے کنفرم ہونی چاہئیں۔ انہوں نے مجھے جو ٹکٹ دیا، اس میں ہر کوپن پر اوکے کا سٹکر لگا ہوا تھا اور زبانی بھی انہوں نے بتایا کہ تمام سیٹیں کنفرم ہیں، اس لیے اطمینان سے سفر کریں، البتہ ”ری کنفرم“ وقت پر کرا لیں۔

مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ میں نے اس پر اعتماد کر لیا اور جاتے ہی حرمین شریفین کے معمولات میں مصروف ہو گیا، لیکن جب جدہ سے نیویارک روانگی سے تین روز قبل مکہ مکرمہ میں سعودی ایئر لائن کے دفتر میں ”ری کنفرمیشن“ کے لیے حاضر ہوا تو وہاں سے مجھے یہ جواب ملا کہ اس ٹکٹ پر درج پی این آر کے مطابق تو آپ نے لاہور سے جدہ کا سفر ہی نہیں کیا، اس لیے اگر آگے کی کوئی سیٹ کنفرم تھی بھی تو وہ ”نو شو“ کی وجہ سے خودبخود کینسل ہو گئی ہے۔ اب آپ کو نیویارک کی سیٹ کے لیے کم و بیش ایک ماہ انتظار کرنا پڑے گا، اس سے قبل کوئی سیٹ نہیں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں تو آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں، آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ میں نے لاہور سے جدہ کا سفر نہیں کیا؟ وہ صاحب فرمانے لگے کہ جو بھی ہے، اس ٹکٹ پر درج پی این آر کے مطابق کمپیوٹر ریکارڈ بتاتا ہے کہ آپ نے لاہور سے جدہ کا سفر نہیں کیا، اس لیے آگے کے لیے آپ کی کوئی سیٹ نہیں ہے۔ یہ سن کر میری تو سٹی گم ہو گئی کہ جس تاریخ کو وہ جدہ سے نیویارک کی سیٹ مل سکنے کی بات بتا رہے تھے، وہ میرے شیڈول کے مطابق پاکستان واپس پہنچنے کی تاریخ تھی۔

مجھے مکہ مکرمہ میں ابھی ایک روز مزید رہنا تھا، مگر پریشانی کے عالم میں پروگرام مختصر کر کے جدہ واپس آ گیا، جہاں میرے ہم زلف قاری محمد اسلم شہزاد رہتے ہیں۔ انہوں نے بتا رکھا تھا کہ ان کے ایک مقتدی سعودیہ ایئر لائن میں افسر ہیں۔ قاری محمد اسلم شہزاد صاحب نے لاہور میں میرے ٹریول ایجنٹ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ٹکٹ پر جو پی این آر درج ہے، وہ سابقہ ہے اور سفر دوسری پی این آر پر ہوا ہے، جو انہوں نے اس وقت فون پر قاری صاحب کو لکھوائی۔ اس کا پتہ کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ لاہور سے جدہ کا سفر اسی پر ہوا ہے، مگر آگے کی صورت حال یہ ہے کہ نیویارک سے جدہ واپسی کی سیٹ کنفرم ہے، مگر جدہ سے نیویارک جانے کی سیٹ چانس پر ہے اور واپسی پر جدہ سے لاہور کی سیٹ بھی کنفرم نہیں ہے۔

یہ اطلاع جب ملی تو سفر میں صرف ڈیڑھ دن باقی رہ گیا تھا اور جدہ سے نیویارک کی فلائٹ چونکہ ہفتہ میں صرف ایک روز جمعرات کو ہوتی ہے، اس لیے اس چانس پر سیٹ نہ ملنے کی صورت میں کم از کم ایک ہفتہ مزید انتظار بہرحال کرنا ہو گا، چنانچہ باقی وقت اسی تگ و دو میں گزر گیا اور میں بعض اہم دوستوں سے بھی ملاقات نہ کر سکا۔ قاری محمد اسلم شہزاد صاحب کے وہ مقتدی کام آئے اور انہوں نے کوشش کر کے فلائیٹ کی روانگی سے کم و بیش چھ سات گھنٹے قبل فون پر بتایا کہ سیٹ کنفرم ہو گئی ہے، اس طرح جدہ سے نیویارک کا سفر میں اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق کر سکا۔

کہتے ہیں کہ ”دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے“ اس لیے میں نے نیویارک پہنچتے ہی سب سے پہلے وہاں کے ایک ٹریول ایجنٹ سے واپسی کی سیٹوں کے لیے بات کی، اس نے معلومات حاصل کر کے بتایا کہ واپسی پر آپ کی نیویارک سے جدہ کی سیٹ کنفرم ہے، مگر جدہ سے لاہور کی سیٹ کنفرم نہیں ہے۔ آپ کے ٹکٹ کی ویلیو کے مطابق آپ کے لیے جدہ سے لاہور، اسلام آباد یا کراچی کی کوئی سیٹ عید الفطر سے قبل میسر نہیں ہے، اس لیے اگر آگے کی سیٹ کنفرم نہ ہوئی تو نیویارک سے جدہ کی سیٹ بھی روانگی کی تاریخ سے تین روز قبل خودبخود کینسل ہو جائے گی۔

میرے بیٹے ناصر الدین خان عامر نے سعودیہ ایئر لائن کے آفس سے براہ راست رابطہ کیا تو اسے بھی یہی جواب ملا، البتہ یہ بتایا گیا کہ جن تاریخوں میں آپ کی واپسی ہے، ان دنوں آپ کو واشنگٹن سے ریاض اور ریاض سے کراچی کی سیٹ مل سکتی ہے۔ مگر اس ٹکٹ پر نہیں، اس کے لیے آپ کو نیا ٹکٹ خریدنا ہو گا اور زائد چارجز ادا کرنا پڑیں گے۔ میں نے ساری صورت حال کا ازسرنو جائزہ لیا اور مزید تذبذب، پریشانی اور رسک سے بچنے کے لیے سعودیہ ایئر لائن کا ٹکٹ واپسی کے سفر میں استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کر کے نیویارک سے لاہور کے لیے پی آئی اے کا نیا ٹکٹ خرید لیا اور اطمینان کے ساتھ امریکہ کے مختلف شہروں میں پروگرام کے مطابق مصروفیات میں مگن ہو گیا۔

امریکہ میں میرا تقریباً ایک ماہ قیام رہا، واپسی پر میں متعینہ تاریخ پر نیویارک کے جی ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر پہنچا تو سیٹ کے حصول یا دیگر معاملات میں تو کوئی دقت پیش نہیں آئی، البتہ ایک لطیفہ کی سی صورت حال ضرور پیدا ہو گئی۔ پی آئی اے کی اس فلائٹ کے لیے ”چیک اِن“ کے کاؤنٹر پر لاہور، اسلام آباد اور کراچی کے سائن باری باری آ رہے تھے، جس سے لائن میں کھڑے لوگوں کو الجھن پیش آ رہی تھی کہ فلائٹ کا نمبر ایک ہی ہے، مگر منزلیں تین مختلف ہیں، اس کا اصل روٹ کیا ہے؟ میں لائن میں کھڑا تھا اور مجھے لاہور جانا تھا، مجھ سے آگے ایک صاحب تھے جو اسلام آباد جا رہے تھے اور میرے پیچھے جو صاحب کھڑے تھے، وہ کراچی جانے والے تھے اور ہم ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ فلائیٹ کا اصل روٹ کیا ہے؟

ان میں سے ایک دوست نے روایتی سا لطیفہ بھی سنا دیا کہ لاہور سے ایک صاحب نے کراچی جانا تھا، مگر وہ جلدی میں غلطی سے پشاور جانے والی گاڑی میں بیٹھ گئے اور اوپر کا ایک برتھ خالی دیکھ کر اس پر سو گئے۔ گاڑی روانہ ہونے کے تھوڑی دیر بعد ان کی آنکھ کھلی تو نیچے کے برتھ پر لیٹے مسافر سے دریافت کیا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں تو پشاور جا رہا ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ! سائنس کا کمال دیکھو کہ اوپر والا برتھ کراچی جا رہا ہے اور نیچے والا برتھ پشاور جا رہا ہے۔

اس دوران عملے سے پوچھتے پاچھتے یہ تو پتہ چل گیا کہ فلائٹ براستہ لاہور کراچی جائے گی، اس لیے نصف الجھن دور ہو گئی، مگر یہ بات ہمیں خاصی دیر تک پریشان کرتی رہی کہ اسلام آباد والے مسافروں کا کیا بنے گا؟ ہم نے اپنے طور پر یہ سوچ کر خود کو مطمئن کر لیا کہ اسلام آباد کے مسافروں کو لاہور سے دوسری فلائٹ پر سوار کرا دیا جائے گا۔ چنانچہ فلائٹ روانہ ہوئی اور راستے میں مانچسٹر سٹاپ کرتی ہوئی لاہور کے لیے پرواز کر گئی۔

ہم سے اگلی سیٹوں پر بیٹھی ہوئی ایک فیملی نے، جو نیویارک سے اسلام آباد کے لیے سفر کر رہی تھی، ایئر ہوسٹس سے پوچھا کہ ہمیں لاہور سے اسلام آباد کے لیے کون سی فلائٹ ملے گی؟ اس نے کہا کہ میں پوچھ کر بتاتی ہوں، مجھے معلوم نہیں ہے۔ وہ گئی اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر اس نے بتایا کہ آپ کو اسلام آباد کے لیے لاہور سے نہیں، بلکہ کراچی سے فلائیٹ ملے گی۔ وہ لوگ پریشان ہو گئے اور احتجاج کرنے لگے کہ ہمیں لاہور سے فلائٹ کیوں نہیں ملے گی اور کراچی کیوں جانا پڑے گا؟ ایئر ہوسٹس نے کہا کہ آپ کا ٹکٹ اسی طرح بنا ہے، اس لیے آپ کو کراچی جانا پڑے گا اور وہاں سے آپ کو اسلام آباد کی فلائٹ مہیا کی جائے گی۔

میں یہ ساری بات سن رہا تھا، اس مرحلے پر میں نے بھی مداخلت کی اور کہا کہ بی بی! یہ کیا مذاق ہے کہ ان لوگوں کو جو اتنا لمبا سفر کر کے آ رہے ہیں، روزے کی حالت میں لاہور سے اسلام آباد جانے کے لیے کراچی کیوں جانا پڑے گا؟ اس نے کہا کہ میں تو کچھ نہیں کہہ سکتی، ان کے ٹریول ایجنٹ کی ایڈوائس کے مطابق شیڈول یہی ہے۔ میں نے کہا کہ بیٹی! ٹریول ایجنٹ نے اگر کوئی حماقت کر دی ہے تو پی آئی اے کے متعلقہ عملے کا دماغ تو کام کر رہا ہے، وہ انہیں اس پریشانی سے کیوں نہیں بچا سکتا؟ مگر اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔

میرا واپسی کا یہ سفر رمضان المبارک میں تھا۔ رات ساڑھے دس بجے پی آئی اے کی فلائٹ نیویارک سے مانچسٹر کے لیے روانہ ہوئی، تھوڑی دیر کے بعد سحری کا وقت ہو رہا تھا، میرا خیال تھا کہ پی آئی اے روزہ رکھنے والوں کو سحری کا کھانا مہیا کرے گی اور وقت کا اعلان بھی کرے گی۔ کھانا تو عام معمول کے مطابق سب مسافروں کو دے دیا گیا، مگر سحری کے وقت کا کوئی اعلان نہیں ہوا۔ جنہوں نے روزہ رکھنا تھا، انہوں نے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نظم بنا لیا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ روزہ رکھیں گے؟ تو میں نے کہا کہ اتنا چھوٹا روزہ کیوں نہیں رکھوں گا؟ سورج کی مخالف سمت کا سفر تھا اور میرے اندازے کے مطابق تقریباً سات گھنٹے کا روزہ بن رہا تھا۔ نیویارک سے مانچسٹر آتے ہوئے نصف سفر کے لگ بھگ ہم نے سحری کھائی اور مانچسٹر سے لاہور کی طرف پرواز کرتے ہوئے دو تین گھنٹے کے بعد روزہ افطار ہو گیا۔ مگر دوسری سمت کے سفر میں روزہ اتنا ہی طویل ہو جاتا ہے، میں نے ایک بار براستہ دوحہ لندن جاتے ہوئے روزے کی حالت میں سفر کیا تھا اور جب روزہ افطار کیا تو سحری کھائے تقریباً انیس گھنٹے گزر چکے تھے۔

افطاری میں بھی اسی طرح ہوا۔ فضائی میزبانوں نے فرداً فرداً پوچھ کر روزہ داروں کو افطاری کے ڈبے تقسیم کیے، پانی کی بوتلیں بھی دیں، لیکن افطاری کے وقت کا کوئی اعلان نہیں ہوا۔ میں کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھا تھا اور سائیڈ بھی مغرب والی تھی، جہاں سے سورج غروب ہونے کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اس لیے جب دیکھا کہ سورج نظروں سے غائب ہو گیا ہے اور اب صرف سرخی نظر آ رہی ہے تو میں نے پانی سے روزہ کھول لیا، جبکہ اس سے خاصی دیر کے بعد افطاری تقسیم ہوئی اور ایئر ہوسٹس نے کہا کہ باہر دیکھ کر وقت کا خود اندازہ کر لیں۔ میں نے بعض ایئر لائنوں میں رمضان المبارک کے دوران سحری اور افطاری کا اہتمام دیکھ رکھا ہے، اس لیے پی آئی اے کی یہ سرد مہری دیکھ کر بہرحال مایوسی ہوئی۔

   
2016ء سے
Flag Counter