(مجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکزی دفتر لاہور میں ایک تربیتی نشست سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کے اس پہلو پر آج کی محفل میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے کافروں کے ساتھ معاشرتی زندگی میں کیا معاملہ کیا ہے اور ان کے ساتھ زندگی کیسے گزاری ہے؟ اس حوالہ سے جناب سرور کائناتؐ کی حیات مبارکہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
(۱) پہلا حصہ اس چالیس سالہ دور کا ہے جو نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں گزرا۔ نبی اکرمؐ چونکہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے اس لیے کفر و شرک، بت پرستی اور جاہلانہ رسوم سے آپ کی نفرت طبعی تھی۔ حضورؐ ان امور میں معاشرے کے ساتھ شریک نہیں تھے اور ایسی تمام باتوں سے الگ تھلگ رہتے تھے لیکن عمومی معاشرت میں باقی لوگوں کے ساتھ آپؐ بھی اسی معاشرے کا حصہ تھے۔ سوسائٹی کے معاملات میں شریک ہوتے تھے، رشتہ داریاں قائم تھیں اور لین دین کے معاملات بھی جاری رہتے تھے۔
(۲) جناب نبی اکرمؐ کی معاشرتی زندگی کا دوسرا حصہ نبوت ملنے کے بعد کا ہے۔ جب نبوت ملی اور آنحضرتؐ نے توحید کی دعوت کا آغاز کیا تو صورتحال مختلف ہو گئی۔ اس سے قبل اخلاق حسنہ اور خدمت خلق کے باعث آپؐ کو سوسائٹی کی پسندیدہ ترین شخصیت کی حیثیت حاصل تھی، صادق و امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا، اور مختلف امور میں آپ سے راہنمائی لی جاتی تھی۔ لیکن توحید کے اعلان اور عام محفلوں میں قرآن کریم کی تلاوت کو ناپسند کیا گیا اور مخالفت کا دور شروع ہو گیا جو تیرہ سال جاری رہا۔
یہ تیرہ سالہ دور مخالفت کا دور تھا، آزمائش و ابتلاء کا دور تھا اور اذیت و تکلیف کا دور تھا۔ اس دور میں جہاں نبی اکرمؐ نے دین کی دعوت کا سلسلہ جاری رکھا، اپنی جماعت کی توسیع کی محنت کرتے رہے، ساتھ دینے والے حضرات کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے، اور صبر و حوصلہ کے ساتھ اپنے مشن کو مسلسل آگے بڑھاتے رہے وہاں مکہ مکرمہ کی عمومی معاشرت کا حصہ رہے اور معاشرتی معاملات میں برابر شریک ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر قریش کے مختلف خاندانوں نے اجتماعی فیصلہ کر کے آنحضرتؐ اور ان کے ساتھیوں کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جو تین سال جاری رہا۔ اس دوران شعب ابی طالب میں انہیں محصور کر دیا گیا اور بائیکاٹ کی نگرانی کے لیے ناکہ بندی کا اہتمام بھی کیا گیا لیکن یہ بائیکاٹ یکطرفہ تھا۔
جناب رسول اللہؐ نے اس دور میں بھی دعوت و تبلیغ کے تقاضوں کی تکمیل کی اور بائیکاٹ کی پروا نہ کرتے ہوئے تعلقات اور دعوت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دور میں کافروں کا غلبہ تھا اور مسلمان اقلیت میں تھے بلکہ وہ اکثریت کے مظالم اور اذیتوں کا نشانہ تھے لیکن آنحضرتؐ نے مزاحمت کا راستہ اختیار نہیں کیا، نہ اجتماعی مزاحمت کی اور نہ ہی انفرادی طور پر کسی ساتھی کو اس کی اجازت دی، بلکہ حوصلہ اور صبر کے ساتھ مظالم برداشت کرتے ہوئے دعوت تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ قائم رکھا۔
البتہ اس دوران مکہ مکرمہ کی آبادی سے ہٹ کر مختلف اطراف سے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ کافر قبائل میں اپنی حمایت و حفاظت کے مواقع بھی تلاش کرتے رہے۔ طائف کا سفر جناب رسول اللہؐ نے اسی لیے کیا تھا کہ بنو ثقیف کے سرداروں کو قریش کے مظالم کے خلاف اپنی حمایت کے لیے آمادہ کر سکیں۔ حبشہ کی طرف صحابہ کرامؓ کی ہجرت کا بھی ایک اہم مقصد مسلمانوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ مہیا کرنا تھا جو حاصل ہو گئی۔ جبکہ حج کے لیے یثرب سے آنے والے قافلوں کے خیموں میں حضورؐ کا بار بار جانا اور انہیں دعوت دینا بھی اسی لیے تھا کہ وہ مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھی بنیں اور انہیں محفوظ ٹھکانہ مہیا کریں جیسا کہ عملاً ہو بھی گیا۔ یثرب سے آنے والے لوگوں کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بعد نبی اکرمؐ کی ہجرت کی راہ ہموار ہوئی اور اس ہجرت پر مکہ مکرمہ کے تیرہ سالہ مظلومانہ دور کا اختتام ہوا۔
(۳) اس کے بعد جناب رسول اللہؐ کی معاشرتی زندگی کا تیسرا دور شروع ہوا جو دس سال جاری رہا اور یہ سب سے زیادہ ہنگامہ خیز دور تھا۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق آنحضرتؐ کی ہجرت سے پہلے یثرب اور اردگرد کے قبائل ایک علاقائی حکومت کے قیام پر متفق ہو چکے تھے اور بادشاہ کے طور پر عبد اللہ بن أبی کے نام کا فیصلہ بھی ہو گیا تھا، صرف تاج پوشی کی رسم باقی تھی کہ حضورؐ کی تشریف آوری سے ساری صورت حال بدل گئی۔ وہ حکومت جو عبد اللہ بن أبی کی سربراہی میں قائم ہونا تھی وہ آپؐ کی قیادت میں تشکیل پا گئی۔
میری طالب علمانہ رائے میں اس ریاست و حکومت کے خدوخال طے کرنے کے لیے قبائل کے درمیان جو مذاکرات ہو چکے تھے وہی ’’میثاق مدینہ‘‘ کا ہوم ورک اور اساس بنے جس میں حضورؐ نے بنیادی تبدیلی یہ کی کہ اسے ایک نظریاتی ریاست کی شکل دے دی جو آگے چل کر خلافت راشدہ اور عالمی اسلامی خلافت کی صورت میں دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔ ابتدا میں اس حکومت و ریاست میں مسلمان بھی شامل تھے، یہودی قبائل بھی اس کا حصہ تھے اور اردگرد کے دیگر قبائل بھی اس میں شریک تھے، جبکہ اس نظم میں آنحضرتؐ کو حاکم اعلیٰ جبکہ ’’میثاق مدینہ‘‘ کو دستور کی حیثیت حاصل تھی۔ بعد میں یہودی قبائل میثاق معاہدہ کی خلاف ورزی کے باعث یکے بعد دیگرے مدینہ منورہ سے جلاوطن ہوتے گئے اور بنو قریظہ کی جلاوطنی کے بعد مدینہ منورہ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکالنے میں مسلمانوں نے پہل نہیں کی تھی بلکہ خود یہودیوں نے اپنی فطرت کے مطابق مسلسل بدعہدی کے ذریعہ یہ ماحول پیدا کر لیا تھا اور ان کی جلاوطنی کے فیصلے اس وقت کے عام عرف کے مطابق جرگوں اور ثالثوں کے ذریعہ ہوئے اور یہودیوں نے ان فیصلوں کو تسلیم کیا۔
مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرمؐ کو ایک اور طبقہ سے بھی سابقہ درپیش رہا جس کے بارے میں قرآن کریم نے کہا ہے کہ وہ ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر ’’وما ہم بمومنین‘‘ وہ مومن نہیں ہیں۔ یہ منافقین تھے جن کی قیادت عبد اللہ بن أبی کر رہا تھا، میری طالب علمانہ رائے میں عبد اللہ بن أبی کو حکومت کا چانس ختم ہو جانے پر جو غصہ تھا وہ باقی ساری زندگی اس کا بدلہ ہی لیتا رہا۔ اس نے مدینہ منورہ میں بڑے بڑے فتنے کھڑے کیے اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ احد کی جنگ میں وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر میدان سے نکل گیا۔ اس وقت جنگ کے لیے احد تک جانے والے لشکر کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں سے تین سو افراد عبد اللہ بن ابی کی قیادت میں میدان چھوڑ کر واپس آگئے تھے۔ اس سے ان کا تناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کم و بیش تیس فی صد تھے۔
غزوۂ احد کے بعد مسلمانوں میں ان منافقین کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے، بعض کی رائے تھی کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے جبکہ دوسرے حضرات کا خیال تھا کہ انہیں اسی طرح ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس کا ذکر قرآن کریم نے ’’فمالکم فی المنافقین فئتین…الخ‘‘ کی آیت کریمہ میں کیا ہے۔ ان منافقین نے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر جھوٹی تہمت کا بازار گرم کیا۔ انہوں نے مدینہ منورہ سے مہاجرین کو نکال دینے کی سازش بھی کی جس کا تذکرہ قرآن کریم کی سورۃ المنافقون میں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود حضورؐ نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ وہ معاشرتی زندگی حتیٰ کہ مذہبی معاملات میں بھی مسلمانوں کے ساتھ مسلسل شریک رہے۔ ان کے خلاف نہ کوئی احتجاجی کاروائی ہوئی اور نہ ہی انفرادی طور پر ان میں سے کسی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی کسی کو اجازت ملی۔ عبد اللہ بن أبی کو قتل کرنے کی اجازت حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے علاوہ حضرت سعد بن معاذؓ نے بھی مانگی تھی مگر آپؐ نے کسی کو اجازت نہیں دی اور یہ فرمایا کہ اس سے دنیا کے دوسرے لوگوں کو یہ تاثر ملے گا کہ حضرت محمدؐ تو اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔
یہ جناب نبی اکرمؐ کی کمال حکمت عملی تھی کہ ان منافقین کی الگ گروہی شناخت قائم نہ ہونے دی جائے اور انہیں مدینہ منورہ کے اندر کوئی داخلی محاذ بنانے کا موقع نہ دیا جائے۔ حتیٰ کہ جن چودہ منافقین نے نبی اکرمؐ کو راستے میں گھیر کر قتل کرنے کی ناکام کاروائی کی تھی۔ آپؐ نے ان کے نام تک حضرت حذیفہؓ کے علاوہ کسی کو نہیں بتائے اور انہیں بھی سختی کے ساتھ تاکید کی کہ ان میں سے کسی کا نام ظاہر نہ ہونے پائے۔ اور یہ بھی اسی حکمت عملی کا حصہ تھا کہ انہیں مسجد کے نام پر اپنا الگ مرکز بنانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ ان کی بنائی ہوئی مسجد کو ’’مسجد ضرار‘‘ قرار دے کر منہدم کرا دیا گیا۔
ان منافقین کے بارے میں جنہیں قرآن کریم نے ’’وما ہم بمؤمنین‘‘ کہہ کر کافر قرار دینے کا اعلان کر دیا تھا، آنحضرتؐ کی حکمت عملی یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انہیں معاشرتی طور پر الگ کر کے اپنا تشخص قائم کرنے کا موقع نہ دیا جائے اور داخلی طور پر اپنے لیے کوئی محاذ کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔ اس کامیاب حکمت عملی کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ وہ لوگ جو غزوہ احد کے وقت کم و بیش تیس فیصد دکھائی دے رہے تھے، حضرت حذیفہؓ والے واقعہ تک ان کی تعداد درجن بھر رہ گئی تھی، اور اس کے بعد تاریخ میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ وہ کدھر گئے؟ ظاہر بات ہے کہ سارے مرکھپ تو نہیں گئے تھے بلکہ آہستہ آہستہ توبہ تائب ہو کر مسلمانوں کے عمومی معاشرے میں تحلیل ہو کر رہ گئے تھے جو جناب رسول اللہؐ کی کمال حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
اس دس سالہ مدنی دور میں کفار کے ساتھ جناب نبی اکرمؐ کی معاشرتی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جہاں کافر قوموں کے ساتھ دو درجن سے زیادہ جنگیں موجود ہیں وہاں معاہدات بھی تاریخ کا حصہ ہیں، مل جل کر رہنے کی روایت بھی میثاقِ مدینہ کی صورت میں واضح دکھائی دیتی ہے، اور داخلی دشمنوں کو صف آرائی کا موقع نہ دیتے ہوئے آہستہ آہستہ انہیں بے اثر کر دینے کی کامیاب حکمتِ عملی کے ثمرات بھی نظر آتے ہیں۔