تحریر کے پہلے حصے کے لیے یہاں کلک کریں
تازہ صورت حال یہ ہے وفاقی شرعی عدالت نے ایک بار حکومت سے کہا ہے کہ وہ سود کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے اور اس سلسلے میں درپیش رکاوٹیں دور کرے۔
سودی مالیاتی نظام سے متعلق وفاقی شرعی عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت نور محمد مسکانزئی نے حکومت کو غیر سودی نظام لانے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اسلامی بینکاری نظام کے لیے اقدامات کی مفصل رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک بلا سود لین دین کا نظام قائم کرنے میں سنجیدہ ہے، لیکن اسلامی بینکنگ سسٹم راتوں رات قائم نہیں ہو سکتا، یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت اور ادارے رکاوٹ نہ بنیں تو زیادہ مشکل نہیں ہے۔
جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے قانون بنا دیا ہے کہ قوانین اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالے جائیں گے۔ جب حکومت خود اسلامی بینکاری نظام کی طرف جا رہی ہے تو پھر رکاوٹ کیوں؟ اب تو آسٹریلیا جیسے غیر اسلامی ممالک میں سود کے بغیر بینکاری سسٹم قائم ہو رہا ہے۔
اس رپورٹ سے واضح ہے کہ سود کے خاتمے سے متعلق ہماری حکومتوں کے تاخیری حربے بدستور جاری ہیں۔ دینی حلقوں کو سود کے خاتمے کے لیے مؤثر جدوجہد کرنا ہو گی ۔ اس سلسلے میں ”ملی مجلس شرعی“ کی تحریک پر گزشتہ کئی برسوں سے ۔۔۔۔ جاری ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں زیر سماعت اپیل کے حوالے سے ”ملی مجلس شرعی پاکستان“ دیگر دینی جماعتوں کے تعاون سے علمی و فکری جدوجہد جاری رکھے گی، جبکہ ملک کے دینی حلقوں میں اس مقصد کے لیے باہمی ربط و تعاون کے فروغ اور عوام میں بیداری و آگہی پیدا کرنے کی غرض سے ایک مستقل فورم ”تحریک انسدادِ سود پاکستان“ کے نام سے قائم ہے۔ رابطہ کمیٹی میں ملک کے ممتاز علماء اور دینی رہنما موجود ہیں۔ ملک بھر میں تمام مکاتب فکر اور طبقات کے علماء کرام، ارباب دانش، راہ نماؤں اور کارکنوں سے گزارش ہے کہ اس کار خیر میں ہمارے ساتھ شریک ہو کر ملکی نظام معیشت کو سود کی لعنت سے نجات دلانے میں کردار ادا کریں۔