قیامت کی پیشگوئیاں

   
۱۵ اپریل ۲۰۱۱ء

روزنامہ پاکستان میں ۲۹ مارچ ۲۰۱۱ء کو آن لائن کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے علاقے آکلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ پادری نے، جو اپنی عمر کے ۸۹ ویں سال میں ہیں، پیشگوئی کی ہے کہ ۲۱ مئی ۲۰۱۱ء دنیا کا آخری دن ہوگا اور اس دن قیامت آجائے گی جس کے بعد دو فیصد آبادی سیدھی جنت میں چلی جائے گی۔ ہارولڈ کیمبنگ نامی ان پادری صاحب کا کہنا ہے کہ دنیا آخری مراحل میں ہے اور انہوں نے ۷۰ سال تک بائبل اسٹڈی کرنے کے بعد یہ حساب لگایا ہے جس کے مطابق دنیا کے خاتمے کا دن ۲۱ مئی ۲۰۱۱ء بنتا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ پادری کیمبنگ نے کچھ عرصہ قبل ۶ دسمبر ۱۹۹۴ء کو قیامت آنے کی پیشگوئی کی تھی اور بعد میں یہ عذر پیش کیا تھا کہ ان کے حساب میں غلطی ہوگئی تھی۔

اس پیش گوئی پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے ایک اور پادری صاحب کی پیشگوئی کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ کی تھی اور اسی طرح بائبل سے حساب لگا کر ۱۹۹۴ء میں قیامت آ جانے کی پیشگوئی کی تھی۔ گوجرانوالہ کے ایک پادری ڈاکٹر ای چارلس نے ایس جی ایچ رام کے ساتھ مل کر ایک کتاب ’’آئینہ احوال‘‘ کے نام سے لکھی تھی جو ۱۹۴۰ء میں شائع ہوئی۔ اس میں بنی اسرائیل کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ بائبل کی ایسی ہی پیش گوئیوں کی وضاحت کی گئی ہے اور ۶۳۳ء قبل مسیح سے ۱۹۹۴ء تک کے اہم واقعات کا پورا چارٹ مرتب کر کے بائبل کے حوالوں سے حساب پیش کیا ہے اور ۱۹۹۴ء میں قیامت کے وقوع کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ہمارے پاس الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی لائبریری میں موجود ہے، قارئین کی دلچسپی کے لیے اس میں سے ۱۹۱۴ء سے ۱۹۹۴ء تک کے دورانیہ کے بارے میں پادری ڈاکٹر ای چارلس کے ارشادات درج کیے جا رہے ہیں:

  • ۱۹۱۴ء : جنگ عظیم کا آغاز جس کے اختتام پر ملک فلسطین اسلامی قبضے سے نکل گیا۔ اسی جنگ کے دوران ’’اعلانِ بالفور‘‘ کے مطابق ملک فلسطین کو اہلِ یہود کا وطن بنانے کا وعدہ کیا گیا۔
  • ۱۹۱۶ء : سلطنت عثمانیہ کے خلاف اہل عرب کی بغاوت جس کی وجہ سے جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کو شکست ہوئی۔
  • ۱۹۱۸ء : برطانوی سپاہ کا ملک فلسطین کو فتح کر کے اس کے اسلامی حکومت کے دور کو ختم کرنا۔
  • ۱۹۱۹ء : سلطنت عثمانیہ نے ملک فلسطین و عراق و عرب انگریزوں کے حوالے کر دیا اور ملک عرب کی آزادی کو تسلیم کر لیا۔
  • ۱۹۲۲ء : ۴ جولائی کو بین الاقوامی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ملک فلسطین کا پورا پورا اختیار سلطنت برطانیہ کو حاصل ہوا۔
  • ۱۹۲۴ء : ترکی کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے سلطان ترکی نے اسلامی خلیفہ کے عہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
  • ۱۹۲۵ء : سلطان ترکی کے اسلامی خلیفہ کے عہدے سے دستبردار ہونے کے دوسرے سال قریباً ۲۱ ہزار یہودی فلسطین میں داخل ہوئے۔
  • ۱۹۳۰ء : اہل یہود کو ملک فلسطین میں اراضیات خریدنے کا حق دیا گیا۔
  • ۱۹۶۹ء : ممکن ہے کہ اہل یہود ہیکل مقدس کی تقدیس کر کے ’’دائمی سو ختنی قربانی‘‘ کے عہد کو رائج کریں۔
  • ۱۹۷۰ء : ممکن ہے کہ کوئی دوسری طاقت قسطنطنیہ (استنبول) کو فتح کر لے اور اسلامی عقیدے کے مطابق اس وقت ظہورِ دجال ہو۔
  • ۱۹۸۹ء : ممکن ہے کہ فاتح قسطنطنیہ، جھوٹے نبی یعنی دجال کی امداد سے باوسیلہ فتوحات وغیرہ سے لوگوں کو بت پرستی کا غلام بنائے۔۔۔ (مکاشفہ ۱۲/۱۳)۔
  • ۱۹۹۱ء : ممکن ہے کہ دجال یا مخالف مسیح اپنے نہ ماننے والوں کو ہلاک کرے۔۔۔ (مکاشفہ ۱۳/۱۵)۔
  • ۱۹۹۳ء : ممکن ہے کہ مخالف مسیح، یعنی دجال کی افواج کا اجتماع ہر مگدون کے مقام پر ہو۔۔۔ (مکاشفہ ۱۴۔۶/ ۱۶)
  • ۱۹۹۴ء : ممکن ہے کہ نافرمانبرداروں اور مخالف مسیح، یعنی دجال کی افواج ’’خداوند کے روز عظیم‘‘ کے دن ہلاک کر دی جائیں اور دنیا کا خاتمہ ہو جائے۔

پادری ای چارلس اور پادری کیمبنگ کی پیشگوئیوں میں یہ فرق ہے کہ پادری چارلس نے ان سالوں میں یہ واقعات رونما ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے جبکہ کیمبنگ نے ۳۱ مئی ۲۰۱۱ء کو دنیا کا آخری دن قرار دے ڈالا ہے۔ اس قسم کی پیشگوئی مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں میں بھی ملتی ہے جس میں بڑے شدومد سے کہا گیا تھا کہ چودھویں صدی ہجری دنیا کی آخری صدی ہے اس کے بعد کوئی صدی نہیں ہے۔ مگر چودھویں صدی گزار کر ہم پندرہویں صدی ہجری کے تین عشرے بھی گزار چکے ہیں اور ۱۹۹۴ء کو کراس کر کے ہم اس وقت ۲۰۱۱ء میں بیٹھے ہیں اور ۲۱ مئی بھی اسی طرح گزر جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

قیامت کے صحیح وقت کا علم اللہ تعالیٰ نے ان امور میں شامل کر رکھا ہے جن کا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہیں ہے۔ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ ارشادِ خداوندی ہے ’’لا یجلیھا لوقتھا الا ھو‘‘ کہ قیامت کے وقت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ظاہر نہیں کر سکے گا اسی طرح یہ بھی ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’لا تاتیکم الا بغتہ‘‘ کہ قیامت تم پر اچانک ہی آجائے گی۔ جبکہ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت جبریلؑ نے آنحضرتؐ سے پوچھا کہ ’’متی الساعۃ؟‘‘ کہ قیامت کب آئے گی؟ تو نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ما المسئول عنھا باعلم من السائل‘‘ کہ جس سے پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔

اس لیے قیامت کے وقت، دن اور سال کی تلاش اور اس کا تعین تو منشائے خداوندی کے خلاف ہے، البتہ قرب قیامت کی بہت سی نشانیاں جناب رسول اکرمؐ نے بیان فرمائی ہیں جو محدثین کرامؒ نے بڑے ذوق اور اہتمام کے ساتھ مختلف کتابوں میں باقاعدہ ابواب کی صورت میں مرتب کی ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی ذات گرامی اور بعثت و ظہور کو قیامت کی سب سے پہلی نشانی بتایا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی اور نیا نبی نہیں آئے گا اور میرے بعد قیامت ہی آئے گی۔ ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا ’’انا والساعۃ کھاتین‘‘ ہاتھ کی درمیان والی انگلی اور اس کے ساتھ انگشت شہادت کو کھڑا کیا اور فرمایا کہ میں اور قیامت یوں ہیں، یعنی ہمارے درمیان کوئی اور فاصلہ نہیں ہے۔ اس حدیث کا مفہوم میں آج کے حالات کے تناظر میں اس طرح عرض کیا کرتا ہوں کہ مغرب اپنی تہذیب و ثقافت کو سولائزیشن کا آخری اسٹیج قرار دے کر اس تہذیب و ثقافت کے ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ ہونے کا دعویدار ہے، جبکہ جناب رسول اکرمؐ فرماتے ہیں کہ ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ میں ہوں۔ اس کے ساتھ ایک اور جملہ بھی شامل کر لیں تو میرے نزدیک مفہوم مکمل ہو جائے گا کہ اسلامی تہذیب اپنا ایک راؤنڈ تاریخ عالم میں پورا کر چکی ہے جبکہ اس کا دوسرا راؤنڈ باقی ہے اور اس کے لیے ہر سطح پر تیاریاں جاری ہیں۔ جب اسلامی تہذیب انسانی سوسائٹی میں اپنا دوسرا راؤنڈ مکمل کر لے گی تو قیامت آجائے گی۔

جناب رسول اللہؐ نے مختلف احادیث مبارکہ میں قیامت کی بہت سی نشانیاں بیان کی ہیں، ان میں سے چند ایک کا تذکرہ گفتگو کی مناسبت سے بہتر معلوم ہوتا ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا (۱) جب قومی خزانے کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جائے گا (۲) امانت کو غنیمت کا مال سمجھ لیا جائے گا (۳) زکوٰۃ کو تاوان اور بوجھ سمجھا جائے گا (۴) دین سے ہٹ کر تعلیم حاصل کی جائے گی (۵) خاوند بیوی کا تابعدار ہو جائے گا (۶) ماں کی نافرمانی کرے گا (۷) دوست کو قرب کرے گا اور باپ سے دور رہے گا (۸) مسجدوں میں شور و غل عام ہوگا (۹) فاسق لوگ قوم کے سردار ہوں گے (۱۰) قوم کا سربراہ رذیل ترین شخص ہوگا (۱۱) آدمی کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے گی (۱۲) گانے والیاں اور گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں گے (۱۳) شراب سرعام پی جائے گی (۱۴) امت کے بعد والے لوگ امت کے پہلے لوگوں پر لعن طعن کرنے لگیں گے۔ (۱۵) حضرت علیؓ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ ریشم پہنا جانے لگے گا۔ تو اس وقت انتظار کرو سرخ آندھیوں کا، زلزلوں کا، زمین میں دھنسے جانے کا، شکلیں مسخ ہونے کا، پتھر برسائے جانے کا اور ایسی نشانیوں کا جو اس طرح لگاتار ظاہر ہوں گی جیسے ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور موتی آگے پیچھے زمین پر گرنے لگیں۔

اس لیے ہمارا خیال ہے کہ قیامت کے دن اور وقت کے تعین کے تکلف میں پڑنے کی بجائے اس کے بعد کے لیے تیاری کی جائے کہ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی تو ہمارے دامن میں وہاں پیش کرنے کے لیے کیا ہوگا؟

   
2016ء سے
Flag Counter